Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

UZARSIF
UZARSIF
UZARSIF
Ebook251 pages2 hours

UZARSIF

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

Two - years - old alien boy, UZARSIF, remained on earth while on his first world trip. Later on what he becomes to the country? Is he a saviour or destroyer? And what happened to two - years - old human's child taken to water-world, the home-land of Uzarsif?

LanguageUrdu
PublisherArman Yousaf
Release dateApr 11, 2018
ISBN9781370605323
UZARSIF

Related to UZARSIF

Related ebooks

Reviews for UZARSIF

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    UZARSIF - Arman Yousaf

    یُوزارسِف

    ارمان یوسف

    اعترافِ خدمات

    یہ ای کتاب مصنف کے تعاون سے شائع کی گئی ہے. ای کتاب کسی بھی تجارتی مقصد کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی.

    عنوان: یُوزارسِف

    نوع: 

    اشاعت: 2018

    انتساب اول

     عوام الناس کی خاموشی کے نام!

    انتساب دوم

    ہر اُس صدا کے نام جو اِس خاموشی کوآواز دیتے دیتے شہرِ خموشاں میں جا بسی

    باب اول

    سمندر کی لہریں ہوا کے اشاروں پہ ناچتی گاتی اپنی منزل کو گامزن تھیں۔آبِ رواں میں تیرتی مچھلیاں بار بار پانی سے اچھل کر باہرکی دنیا کو ایک نظر دیکھتیں۔ ابھی تک کسی شکاری کے جال سے بچ جانے کی خوشی میں غوطہ لگاتیں،گہرائی میں موجود پھولوں،پودوں اور اپنی دیگر ہم جنسوں سے تیرتے ہوئے پھسلتے بدن کے ساتھ گلے ملتیں اور اگلے لمحے دوبارہ سطح آب پہ نمودار ہوتیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ شوقِ نظارگی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتیں اور نیلی فضا میں قلابازیاںکھاتے پنچھیوں کی لمبی لمبی چونچوں کی زد میں آکر ان کی خوارک بن جاتیں ۔ زندگی کی سانسیں جب تک مہلت دیتیں، ارد گرد کے مسحور کن نظاروں سے اپنے آپ کومحظوظ کرتی رہتیں۔فضا میں اڑتے پرندے دھوپ کی سنہری کرنوں میں آزادی کے گیت گاتے غول کے غول ایک سمت سے دوسری سمت کو اڑتے چلے جاتے۔ کچھ بھوک مٹانے کی خاطر کیڑے مکوڑوں کی تلاش میں رہتے توکچھ کی غذا کا ذمہ مہربان سمندر نے اٹھا رکھا تھا۔انہی میں سے دو بگلے اڑتے اڑتے سطح سمندر کے بالکل قریب آگئے ،جنہوں نے اپنے شکار پہ خلا ہی سے نظر رکھی ہوئی تھی۔دونوں بھوکے پرندے شکار پر جھپٹنے ہی والے تھے کہ ایک نے ارادہ بدل دیا اور دوبارہ ہوا کی ہتھیلی پہ پھسلتا ہوابلند تر ہوتا چلا گیا۔چار و نا چار دوسرا بھی اس کے پیچھے ہو لیا اور اسے فضا میں جا لیا :

    ’’جب ہم شکار کے اتنے قریب تھے تو تم نے حاصل کئے بغیر واپسی کی کیوں ٹھان لی؟ـ‘‘

    دوسرے پرندے نے بادلوں کو چھوتے ہوئے کہا:’’ اتنی ساری مچھلیاں زیرِ آب ہیں، جی چاہتا ہے سب کی سب ایک بار ہی میں لے اڑوں ، ہر روز ایک ایک سے میرا من نہیں بھرتا‘‘

    ’’آج تم پھر اُسی ضد پہ اڑ گئے‘‘ ساتھی پرندے نے قدرے غصیلے انداز میں کہاـ’’ اور پھر اتنی ساری مچھلیوں کا تم کروگے کیا؟ کھانے کو تو ایک ہی بہت ہے، ہمیشہ کل کی فکر میں کیوںغلطاںرہتے ہو؟یاد رکھو اُس پار کے سارے پرندے بھی یہاں آجائیں تو بھی یہی ایک ساحلی پٹی ان سب کو عمر بھر کے لئے کافی ہو گی‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم،اور تم بھی اپنی چونچ بند رکھو،آج جب تک میں دو مچھلیاں بیک وقت پکڑ نہیں لیتا، ہمت نہیں ہاروں گا‘‘ پہلے پرندے نے اسی انداز میں جواب دیا اور دونوں ایک بار پھرسمندر کے قریب آئے۔ ایک نے غوطہ لگایا،شکار کو اچکا اور یہ جا وہ جا۔مگر دوسرا پرندا دیر تک سطح سمندر کے بہت قریب پرواز کرتا رہا۔ آج اس نے ٹھان لی تھی کہ ایک سے زیادہ شکار کر کے رہے گا، ایک مچھلی کو وہ ایک پائوں میں دبوچے گا، ایک کو دوسرے پائوں میں ؛تیسری مچھلی کو وہ اپنی چونچ میں دبا کے فخر سے جب مہکتی فضا کو چیرتا ہوا دور تک اڑتا چلا جائے گا تو دیکھنے والے دنگ رہ جائیں گے۔یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں،ایک مچھلی کو ایک پائوں میں دبوچے وہ دوسری پہ جھپٹنے کے لئے فضا میں چکر کاٹنے لگا، ایک اورقلابازی لگائی،زیرِ آب ان گنت مچھلیوں کو دیکھتے ہی بھوکی نظروں سے جھپٹا ،منہ میںایک اور مچھلی دبا کے اڑنے ہی والا تھا مگر خود کو قابو میں نہ رکھ سکااور توازن برقرار رکھنے کے لئے دیر تک پانی کی سطح کے اوپر پھسلتا چلا گیا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ساتھی پرندے کو خدشہ تھا۔ بگلا کسی بھوکے جانور کے منہ میںجا چکا تھا۔زندہ رہ جانے والے بگلے نے اپنے ساتھی کے بچے کچھے پر فضا میں اڑتے اور پھر سمندر کی گہرائی میں ڈوبتے دیکھے تو غم و غصے کی ملی جلی کیفیت میںیہ کہتے ہوئے فضا میںبلند ہوتا چلا گیا: ’’لگتا ہے پچھلے جنم میں تم بھی انسان تھے‘‘

    ساحل پہ آج خاص گہما گہمی تھی۔ خوشگوار موسم لوگوں کو یہاں کھینچ لایا تھا جو بچوں، بڑوں اور بزرگوں سے بھر چکا تھا۔ ایک دو سالہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ ساحل کی نرم نرم ریت پہ کھیل میں مصروف تھا۔ ریت کے گھروندے بنا بنا کے مٹا رہا تھا، وہ تیزی سے اسی شغلِ بے کاری میں مصروف تھا جبکہ اس کی ما ں کچھ ہی فاصلے پہ ریت پہ بیٹھی دھوپ کی تپش ،پرندوں کی اڑان اور گنگناتی لہروں سے لطف اندوز ہو نے کے ساتھ ساتھ بچے کی کاریگری پہ بھی نظر رکھے ہوئے سوچ رہی تھی کہ قدرت کتنی مہربان ہے! ہر روز باقاعدی سے مشرق سے سورج نکلتا ہے، زمین پہ موجود ہر ذی روح میں زندگی کی لہر پھونکتا ہے اور پھر اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔ چاند راتوں کو نکلتا ہے اور براہِ راست سمندر کی لہروں سے کلام کرتا ہے۔لہریں اچھل اچھل کے چاند کے چمکتے گالوں کو چھونے کی آرزو میں فضا میں بلند ہوتی ہیں مگر بے بسی اور کم ہمتی کے باعث دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ مگر چاندبرابر پکارتا رہتا ہے اور لہریں بھی اس وقت تک اپنی جدو جہد جاری رکھتی ہیں جب تک کہ چاند خود ہی منہ نہیںچھپا لیتا۔یہ چاند ہی ہے جو سورج کی روشنی میں خود ہی گم ہو جا تا ہے ۔اگر یہ صدیوں تک لہروں کی جانب اپنا رخ کئے رکھے تو لہریں اسے چھونے کی خواہش میں حوصلہ ہارے بغیریونہی مسلسل سر پٹختی رہیں گی۔ذرا بادلوں کو دیکھو ،مہربان ماں کی طرح برسے جا رہے ہیں۔پتھر پہ بھی برابر اور ریت پہ بھی، قطۂ سرسبز پہ بھی اور ویران جگہ پہ بھی۔ بغیر کچھ مطالبہ کئے۔بغیر کچھ چاہے۔ جیسے جنگل میں مور ناچتا ہے صلہ و ستائش کی تمنا کئے بغیر۔ اب یہ تو دیکھنے والوں پہ منحصر ہے کہ وہ کس قدر قدرت کی نیرنگیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چاہے ایک بھی شخص توجہ نہ کرے یا چاہے پورا شہر اسی ساحل پہ امڈ آئے ،پانی اپنی سرگم میں بہتا چلا جائے گا، پرندے کھلی فضا میںمحبتوں کے گیت گاتے رہیں گے،چاند جھیل کے آئینے میں اپنے حسنِ جاوداں کو حیرتوں سے تکتا رہے گا، سورج ہر ذی روح میں زندگی کی رمق پھونکتا رہے گا۔

    لمحوں میںساحل پہ اچانک پر اسرار خاموشی چھا گئی۔جیسے لہروں کی پائل چھلنی چھلنی ہو کے سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو چکی ہو۔پرندے فضا کی بلندیوں میں کہیں روپوش ہو گئے،مچھلیوں نے سطح آب پہ آنا بند کر دیاتھا۔ماں نے فضا سے نظریں ہٹا کے ایک بار پھر ننھے بدر کی کاریگری کوسراہنے کی غرض سے دیکھا ہی تھا کہ دور سے کچھ شور سنائی دیا، اس کا شوہر کسی ساربان سے الجھ رہا تھا۔ غالباًساحل پہ موجود ایک خاندان جو ابھی ابھی اونٹ کی سواری سے لطف اندوز ہو کے آیا تھا، ساربان کے ساتھ حد سے زیادہ معاوضے کی وجہ سے الجھ رہا تھا اور اس کا خاوند بھی متاثرہ خاندان کا ساتھ دے رہا تھا۔ اس نے ایک نظر بدر پہ ڈالی ،اسے اپنی مستی میں مگن پایا تو معاملے کو سلجھانے کی غرض سے شوہر کی جانب لپکی ۔

    بدر نے ایک سرسری نظر سے ماں کو جاتے دیکھا اور مسکراتے ہوئے پھر ریت میں انگلیاں ڈبو دی۔اب کے اس کے ہاتھ میں ریت نہیں بلکہ ایک مچھلی تھی۔ریت ہی کی طرح انگلیوں کی پوروں میں پھسلتی ہوئی ایک سنہری مچھلی ۔وہ حیرانی سے مچھلی سے کھیلنے لگا، کھیل میں اِس قدر محو ہو گیا کہ ماں کو یہ حیران کن بات بتانے کی فرصت بھی نہ ملی۔مچھلی ایک بار پھر اس کے ہاتھوں سے پھسلی اور لمحہ بھر کو نظروں سے اوجھل ہو گئی۔وہ کچھ اداس ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے کیا دیکھتا ہے کہ ایک خرگوش اس کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہا ہے۔ اس نے گھبراتے ہوئے خرگوش کو ہتھیلوں میں بھرنے کی کو شش کی مگر خرگوش اس کے ہاتھوں سے پھسلتا ہوا پرندہ بن کے فضا میں ڈوب گیا۔بدر یک دم کھڑا ہو گیا اور ساحل کی جانب اڑتے پرندے کا تعاقب کرنے لگا۔لیکن وہان تو کئی اور پرندے بھی موجود تھے۔تھک ہار کے اس نے ساحل کی ریت پہ نظر ڈالی،کیا دیکھتا ہے کہ اس کا ہم شکل ایک دو سالہ بچہ ،اسی کے جیسے لباس اور انداز میںکچھ ہی فاصلے پہ ساحل کی جانب کھڑا مسکرا رہا ہے۔اپنے ہم شکل کو دیکھ کر اس کی سانس رک گئی، لمحوںمیں ایک جھماکا سا ہوا ،ایک وہیل مچھلی فضا میں اچھلی ، بدر پہ جھپٹی،اسے نگلتے ہی واپس سمندر میںجانے کی بجائے فضا میں بلند ہوئی،بجلی کوندی اور مچھلی غائب ہو گئی۔اس کے یوں غائب ہوتے ہی فضا ایک بار کالے بادلوں سے ڈھک گئی مگر یہ کالی آندھی بھی لمحہ بھر میں غائب ہو گئی۔ بدر کا ہم شکل بچہ اکیلا رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کرتا، بدر کی ماں نے اس کو بازو سے تھاما اور گھبرائی ہوئی گھر کو واپس جانے لگی۔

    لوگوں کے ذہن میں ایک نادیدہ خوف گھر کر گیا۔بجلی کڑکی ،بادل گرجے ،کہیں طوفان کی آمد تو نہیں ۔بظاہر تو ایسا کچھ بھی نہ تھا، ایک زور دار کڑک کے سوا باقی سب معمول کے مطابق تھا، مگر حالات کے ڈسے اور گھبرائے ہوئے لوگ طرح طرح کے خدشات دل میں بسائے گھروں کو چل دیے۔ پل بھر میں ساحل خالی ہو گیا۔

    سڑکوں پہ ٹریفک رواں دواں تھی۔سجاد کراچی کی بھول بھلیوں سے گاڑی دوڑاتا ہواگھر کو روانہ تھا۔سرخ اشارے پہ وہ رکا اور مسکراتے ہوئے ایک نظر بدر کے چہرے پہ ڈالی ،ایک لمحے کو اسے لگا جیسے یہ بچہ اس کا بچہ نہیں ، یہ کسی دوسری دنیا کا چہرہ ہے۔ اس کی آنکھوں کی حیرانی ،اس قدر بشاشت،اجلی اور شگفتہ جلد۔۔۔۔

    ’’کیا یہ ہمارا بدر ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔

    اتنے میں اشارہ سبز ہوا اور اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔مگر دل میںوہی خدشہ۔کوئی وجہ نہیں کہ محض چہرے کی اجلی رنگت کی وجہ سے کوئی وہم دل میں پالا جائے۔وہی قد کاٹھ ، وہی رنگ روپ، اورکپڑے بھی تو وہی ہیں جو صبح پہنائے تھے، میں خود ہی تو لایا تھا بازار سے۔

    ’’کیسا رہا آج کا دن،خوب مزے کئے؟‘‘

    اپنا وہم دور کرنے کے لئے اس نے بدر سے سوال کیا،پہیوں کے ساتھ ہی گھومتی سڑک سے لمحہ بھر کو نظریں ہٹائیں اور بدر کے چہرے پہ جمادیں، جو جواباً محض مسکرا دیا۔سجاد مطمئن ہو گیا۔

    رات کے کھانے کی میز پرمختصر سا خاندان جمع تھا۔ والدین تو کھانا کھا رہے تھے مگر بدر سوائے پانی پینے کے اور کسی بھی چیز کو چھو تک نہیں رہا تھا۔

    ’’یہ کھچڑی لو نا، تمہیں تو بہت پسند ہے‘‘

    ماں نے ایک بار پھر اصرار کیا۔بدر محض سر ہلا کے رہ گیا۔

    ’’میاں برخواردار ! کچھ بولو گے بھی یا محض سر ہلاتے رہو گے؟ـــ‘‘

    بدر نے جواباً مسکراتے ہو ئے پھر سر ہلایا۔

    باپ نے گہری تشویش کو اسی انداز میں مسکرا کے ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:

    ’’ کہا بھی تھا پڑھ لکھ لو، بولنا سیکھ لو زندگی میں کام آئے گا، پر تم بدھو کے بدھو ہی رہے ساری عمر‘‘

    ’’صبح سے وہ کچھ کھا نہیں رہا،بولتا بھی نہیں اور آپ کو مذاق سوجھا ہے‘‘

    بدر کی ماں نے قدرے تلخ ،اداس اور تشویش بھرے لہجے میں کہا۔

    ’’گھبرائو نہیں جانِ تمنا !‘‘ سجاد نے اپنی بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا:

    ’’اس نے آج پہلی بار سمندر دیکھا ہے،ان ننھی منی سی آنکھوں سے،افق تک پھیلے پانی کو نظروں میں اتارا ہے، اب سمندر بھر پانی پی لینے کے بعد ہی کچھ کھائے گا‘‘

    مگر ان کی پریشانی ہر نئے دن کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی۔ جب بدر نے سوائے پانی پینے کے کسی اور چیز کی طرف دیکھا ہی نہیں اورنہ منہ سے ایک لفظ تک ادا کیا۔

    بدر نے دفتر میں کئی دوستوں سے مشورہ کیا اور کئی ڈاکٹروں کو بھی دکھایا ،مگر اس کی حالت جوں کی توں تھی۔ کچھ نہ کھانے کے باوجود بھی وہ تروتازہ رہتا،سستی ،کاہلی یا کمزوری کا نشاں تک نہیںتھا ۔البتہ ایک عجیب تبدیلی اس میں یہ بھی آئی کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پانی سے بھرے ٹب میں ڈبکیاںلگانے لگتا۔انھیں لگا شاید وہ کسی پُر اَسرار بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے اور طرح طرح کی دوائیں بھی آزمانے لگے۔ بدرتو کبھی کسی دوا کو ہاتھ تک نہ لگاتا ،بلکہ دوا ملا پانی بھی نہ پیتا۔البتہ سادہ پانی خوب مزے لے لے کے پیتا رہتا۔

    باب دوم

    خلا کی وسعتوں میں پھیلی اربوںکہکشائوں میں سے ایک ہماری کہکشاں شاہراہِ شیر،جسے ملکی وے بھی کہا جاتا ہے، ہمارے اپنے سورج جیسے اربوں ستارے لئے محو ِگردش تھی۔ اسی کہکشاں کے مرکز سے جنوب مشرق کی جانب ایک پانی سے بھرا سیارہ ’’آبی دنیا ‘‘ بھی اپنے میزبان ستارے کے گردمدار میں گھومتے ہوئے وقت کے دھارے میں بہے جا رہا تھا ۔ اس سیارے کی مخلوقات اپنے روز مرہ کے معمولات چھوڑ کے ایک اجنبی مخلوق کو اپنے ہاں پا کر جہاں مسرور و شادماں تھے وہاں اپنے ہی ایک فرد کے کھو جانے پہ متفکر بھی۔ سیارے کے مرکز میں اس قبیلے کا سردار طاطائی نئے مہمان کے متعلق تفصیلات

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1