You are on page 1of 15

‫‪ :‬شب برات کی حقیقتشب برات کی حقیقت‬

‫انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم (( ) ((‬
‫) الدخان ‪3,4 :‬‬
‫تحقیق ہم نے وہ کتاب بابرکت رات میں اتاری ہے ۔ بے شک ہم لوگوں ”‬
‫کو ڈرائیں گے ۔ اسی رات میں تمام باحکمت امور کی تفصیل کی جائے‬
‫“ گی ۔‬
‫‪ :‬لیلۃ مبارکہ کی تشریح‬

‫اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو قول ہیں ۔ بعض کے نزدیک لیلۃ‬
‫مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ) جو رمضان میں آتی ( ہے اور بعض کے‬
‫‪ :‬نزدیک شب برات ہے‬
‫قیل سمیت لیلۃ البراۃ لن براتین براۃ الشقیاءمن الرحمن وبراۃ ((‬
‫) الولیاءمن الخذلن (( ) غنیۃ الطالبین ‪192/1 :‬‬

‫شب برات اس لئے نام رکھا گیا کہ اس میں دو نجاتیں ہیں ۔ ایک نجات‬
‫بدبختوں کی عذاب الٰہٰ‬
‫ی سے ‪ ،‬دوسری نجات اولیاءاللہ کی رسوائی و ذلت‬
‫سے ۔‬
‫قال قتادۃ وابن زید ھی لیلۃ القدر انزل اللہ القرآن فی لیلۃ القدر قیل ھی ((‬
‫) لیلۃ النصف من شعبان (( ) معالم خازن ‪143/5 :‬‬
‫) وعن بعض ھی لیلۃ النصف من شعبان (( ) جامع البیان ‪(( 420 :‬‬

‫ھی لیلۃ القدر او لیلۃ النصف من شعبان نزل فیھا من ام الکتاب من ((‬
‫السماءالسابعۃ الی السماءالدنیا والجمھور علی الول کذا فی المدارک (( )‬
‫) جللین ‪410 :‬‬

‫مذکورہ عبارات میں بعض نے لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃ القدر بھی لیا ہے‬
‫اور بعض نے شب برات ) پندرہ شعبان ( مراد لیا ہے ۔ تفسیر صاوی میں‬
‫‪ :‬ہے‬
‫ھی لیلۃ النصف من شعبان ھو قول عکرمۃ وطاتفۃ وجہ بامور منھا ان ((‬
‫لیلۃ النصف من شعبان لھا اربعۃ اسماءلیلۃ المبارکۃ ولیلۃ البراۃ ولیلۃ الرحمۃ‬
‫) ولیلۃ الصک ومن افضل العبادۃ فیھا (( ) حاشیہ جللین ‪410 :‬‬

‫تفسیر صاوی میں ہے کہ لیلۃ سے مراد شب برات ہے ۔ یہ مسلک عکرمہ‬


‫اور ایک دوسرے گروہ کا ہے ۔ اس کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ لیلۃ‬
‫‪ :‬مبارکۃ کے چار نام ہیں‬

‫‪1‬‬ ‫لیلۃ مبارکہ ۔‬

‫‪2‬‬ ‫لیلۃ الرحمۃ ۔‬


‫‪3‬‬ ‫لیلۃ البراۃ ۔‬

‫‪4‬‬ ‫لیلۃ الصک ۔‬

‫اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ۔‬

‫امام شوکانی فتح القدیر میں رقمطراز ہیں کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ‬
‫القدر ہے اور اس کے چار نام ہیں ۔ لیلۃ مبارکہ ‪ ،‬لیلۃ البراۃ ‪ ،‬لیلۃ الصک ‪،‬‬
‫لیلۃ القدر ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ‪ :‬جمہور کا مسلک بالکل صحیح‬
‫ہے ۔ کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ‪ ،‬شب براۃ نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ‬
‫تعال ٰی نے اس جگہ اجمال سے بیان فرمایا اور سورۃ القدر میں بیان فرمایا‬
‫کہ ‪ :‬انا انزلنہ فی لیلۃ القدر یعنی قرآن مجید رمضان المبارک میں لیلۃ القدر‬
‫کو نازل کیا گیا ‪ ،‬جس کو اس جگہ لیلۃ مبارکۃ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اس‬
‫وضاحت کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہا ۔‬

‫فتح القدیر میں ہے کہ‬


‫حضرت عطیہ ابن اسود رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ ” ‪:‬‬
‫عنہ سے سوال کیا کہ میرے دل میں ان تین آیتوں کے بارے میں شک ہے‬
‫کہ اس سے کیا مراد ہے ؟‬

‫‪1‬‬ ‫رمضان کا وہ مہینہ جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ۔‬


‫‪2‬‬ ‫بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے ۔‬

‫‪3‬‬ ‫بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا ہے ۔‬

‫حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قرآن رمضان‬
‫میں لیلۃ القدر کو نازل کیا گیا اور اسی کا نام لیلۃ مبارکہ ہے ۔ تفسیر کبیر‬
‫‪ :‬میں ہے‬
‫القائلون بان المراد من اللیلۃ المذکورۃ فی ھذہ الیۃ ھی لیلۃ النصف من ((‬
‫)) شعبان فما رایت لھم دلیل یقول علیہ‬
‫یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب برات ہے ۔ ان کے‬
‫پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔‬

‫‪ :‬تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ‬


‫من قال انھا لیلۃ النصف من شعبان فقد ابعد النجحۃ فان نص القرآن انھا ((‬
‫)) فی رمضان‬
‫جس نے کہا کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد شب برات ہے اس نے دور کی بات‬
‫ص قرآن سے ثابت ہے کہ وہ رمضان میں ہے ۔ ) تفسیر ابن‬
‫کہی ۔ کیونکہ ن ِ‬
‫) کثیر ‪137/2‬‬

‫‪ :‬تحفۃ الحوذی میں ہے کہ تو جان لے بے شک آیت‬


‫)) انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ ((‬
‫لیلۃ مبارکہ سے مراد جمہور کے نزدیک لیلۃ القدر ہے ۔ بعض اسے شب‬
‫برات سمجھتے ہیں ۔ جمہور کا مسلک صحیح ہے ۔‬

‫بعض اسلف کا خیال ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد شب برات ہے ۔ لیکن یہ‬


‫قول نصوص قرآن کے مخالف ہے ۔ کیونکہ قرآن کا نزول رمضان میں لیلۃ‬
‫القدر میں ہے ۔ لہٰذا لیلۃ مبارکہ سے مراد بھی لیلۃ القدر ہے ۔ اس طرح آیات‬
‫میں کوئی اختلف نہیں ہے ۔‬
‫‪:‬ش ِ‬
‫ب برات کی احادیث اور ان کی حیثیت‬
‫‪ :‬حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا ‪1‬‬

‫) جامع ترمذی میں ہے ۔ ) ترجمہ‬


‫بے شک اللہتعال ٰی شب برات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنی‬
‫کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گناہ گاروں کو معاف فرماتے ہیں ۔‬
‫امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد بن‬
‫اسماعیل بخاری رحمہ اللہ سے سنا وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں‬
‫۔ کیونکہ حجاج سےیحی ٰی اوریحی ٰی سے عروہ کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ لہٰذا‬
‫حدیث منقطع ہے ۔‬
‫‪ :‬حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ‪2‬‬

‫یطلع اللہ الی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفرہ لجمیع خلقہ ال ((‬
‫لمشرک او مشاحن (( ) طبرانی ‪ ،‬ابن ماجہ ‪ ،‬صحیح ابن حبان فی سندہ عند‬
‫ابن ماجہ ابن لہیعۃ وھو ضعیف ( ” شب برات کو اللہتعال ٰی اپنی تمام‬
‫مخلوق کی طرف دیکھتے ہیں ‪ ،‬مشرک و کینہ پرور کے ماسوا ہر ایک‬
‫“ کو معاف فرماتے ہیں ۔ اس روایت میں ابن لہیعۃ راوی ضعیف ہے ۔‬
‫‪ :‬حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‪3 :‬‬

‫یطلع اللہ عزوجل الی عامۃ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ ال اثنین ((‬
‫مشاحن وقاتل النفس ‪ ،‬قال المنذری رواہ احمد باسنادہ (( شب برات کو اللہ‬
‫تعال ٰی کینہ پرور اور قاتل کے سوا ہر ایک کو معاف فرماتے ہیں ۔ علمہ‬
‫امام منذری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف‬
‫سے روایت کیا ہے ۔‬
‫‪ :‬حدیث کثیر بن مرۃ رضی اللہ عنہ ‪4‬‬

‫فی لیلۃ النصف من شعبان یغفراللہ عزوجل لھل الرض ال مشرک او ”‬


‫مشاحن قال المنذری رواہ البیھقی وقال ھذا مرسل جید “ امام منذری رحمہ‬
‫اللہ نے کہا ہے کہ امام بیہقی نے روایت کر کے فرمایا کہ یہ روایت بہت‬
‫مرسل ہے ۔‬
‫حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ ‪ :‬ابن ماجہ ‪5‬‬

‫جب شب پندرہ شعبان ) شب برات ( ہوتی ہے تو رات کو قیام کرو اور دن‬
‫کو روزہ رکھو بے شک اللہتعال ٰی غروب شمس کے وقت آسمان دنیا پر‬
‫نزول فرماتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہے کوئی بخشش مانگنے وال ‪ ،‬اس کو‬
‫بخش دوں گا ‪ ،‬کوئی رزق لینے وال ہے اسے میں رزق دوں گا ‪ ،‬کوئی‬
‫مصیبت زدہ ہے اس کی مصیبت کو دور کروں گا ‪ ،‬کوئی فلں فلں‬
‫حاجت وال ہے ؟ طلوع صبح صادق تک اللہتعال ٰی یہی ندا دیتے رہتے‬
‫ہ یں ۔‬

‫‪ :‬تحفۃ الحوذی ‪ 53/2 :‬میں ہے کہ‬


‫حدیث علی رضی اللہ عنہ کی سند میں ابوبکر بن عبداللہ راوی ہے جس پر‬
‫وضع روایت کا الزام ہے ۔ امام بکاری رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف قرار‬
‫دیا ہے اور امام نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے ۔ مولنا عبدالرحمن‬
‫ب برات کے بارہ میں کوئی‬ ‫مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ ش ِ‬
‫حدیث صحیح مرفوع میں نے نہیں پائی ۔ باقی حدیث حضرت علی رضی‬
‫اللہ عنہ جس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے وہ بہت ضعیف ہے ۔ امام‬
‫جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے‬
‫ایک روایت نقل کی ہے جو کہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھے گا اس کے‬
‫ساٹھ سال گذشتہ اور ساٹھ سال آئندہ کے گناہ معاف کئے جائیں گے ۔‬
‫فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اس کی سند تاریک و سیاہ ہے ۔‬

‫احادیث مذکورہ بال میں چند اخلقی و اعتقادی گناہ ایسے بھی ہیں جن کا‬
‫ارتکاب کرنے والے اس رحمت بھری رات میں بخشش و مغفرت سے‬
‫محروم رہتے ہیں ۔ جیسے مشرک ‪ ،‬کینہ روی ‪ ،‬قتل نفس ‪ ،‬زنا و شراب‬
‫ص دل سے توبہ‬‫نوشی ‪ ،‬قطع رحمی وغیرہ ۔ اگر کبائر کا مرتکب خلو ِ‬
‫کرے تو اللہتعال ٰی اس کو معاف کر دیتے ہیں ۔‬

‫‪ :‬قرآن میں ہے‬


‫) یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم ل تقنطوا من رحمۃ اللہ ) الزمر ‪52 :‬‬
‫فرمایا اے میرے بندے گناہ کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے میری رحمت‬
‫سے ناامید نہ ہو جاؤ ۔‬

‫‪ :‬حدیث میں ہے‬


‫“ التائب من الذنب کمن ل ذنب لہ ”‬
‫جو صد دل سے توبہ کرتا ہے ‪ ،‬گناہ سے پاک ہو جاتا ہے ۔‬

‫‪ :‬حدیث مغیرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ ‪6‬‬

‫تقطع الرجال من شعبان الی شعبان حتی ان الرجل ینکح ویولد لہ وقد ((‬
‫اخرج اسمہ فی الموتی فھو حدیث مرسل ‪ ،‬ومثلہ ل یعارض بہ النصوص ((‬
‫) ) تفسیر ابن کثیر ‪137/4 :‬‬
‫اس رات شعبان سے شعبان تک لوگوں کی عمریں لکھی جاتی ہیں ‪،‬‬
‫یہاں تک کہ ایک آدمی نکاح کرے گا اس کے ہاں بچہ پیدا ہو گا اور اس‬
‫کا نام مردوں میں لکھا جا چکا ہے ۔ ) یہ حدیث مرسل ہے اس کا نصوص‬
‫) سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا‬
‫‪ :‬نماِز شب برات‬

‫‪1‬‬ ‫قال القاری فی المرقاۃ ان مائۃ رکعۃ فی نصف شعبان او الصلوٰۃٰ‬


‫) الف رکعۃ الم یات بھا خبر ول اثر ‪ ....‬الخ ) تحفۃ الحوذی ‪53/2 :‬‬
‫حضرت مل علی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ مشکوٰۃٰ میں بیان کیا ہے کہ‬
‫شب برات میں سو رکعت نماز اور ہزار رکعت نماز باجماعت یا انفرادی‬
‫‪ ،‬اس کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث میں نہی ہے ۔ جو امام دیلمی اور‬
‫صاحب احیاءوغیرہ نے نقل کیا ہے یہ ضعیف وموضوع ہے ۔‬

‫‪2‬‬ ‫علمہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ ” آثار مرفوعہ “ میں فرماتے‬
‫ہ یں ۔‬

‫ان تمام احادیث قولیہ و فعلیہ سے معلوم ہوا کہ اس رات عبادت زیادہ کرنا ”‬
‫مستحب ہے لیکن لوگوں کو نماز اور غیر نماز میں فرق رہے جو چاہیں‬
‫عبادت کریں لیکن اس رات عبادت مخصوصہ کیفیت مخصوصہ کے ساتھ‬
‫اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ مطلق نماز نفلی شب برات اور اس کے علوہ‬
‫راتوں میں جائز ہے ۔ اس میں کوئی اختلف نہیں ۔ شیخ ابراہیم جلی ”‬
‫منیۃالمصل ٰی “ کی شرح ” غنیۃ المستملی “ میں فرماتے ہیں ‪ ” :‬اس سے‬
‫معلوم ہوا کہ صلوٰۃٰ الرغائب جو رجب کے پہلے جمعہ کو پڑھی جاتی ہے‬
‫اور پندرہویں شعبان کی رات اور رمضان کی ستائیسویں رات ) لیلۃ‬
‫القدر ( کی جو نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے ۔ ان راتوں میں نماز‬
‫باجماعت پڑھنا بدعت اور مکروہ ہے ۔ ) یہ وعید نماز تراویح کے علوہ‬
‫نفلی نماز باجماعت کے لئے ہے ( یعنی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ‬
‫ضعیف روایت کو فضائل اعمال میں قبول کرنے پر تمام کا اتفاق ہے ۔ اس‬
‫‪ :‬کے متعلق علمہ عبدالحئی فرماتے ہیں‬

‫فضائل اعمال میں بھی قبول نہیں کی جائیگی ۔ یعنی فضائل اعمال ”‬
‫میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے متعلق اتفاق کادعو ٰی باطل ہے ۔‬
‫ہاں جمہور کا مذہب ہے بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف نہ ہو ‪ ،‬زیادہ ضعیف نہ‬
‫) ہو ۔ ) آثار مرفوعہ ‪73 :‬‬

‫ان دلئل سے واضح ہوا کہ شب برات کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ‬
‫ش نظر زیادہ سے زیادہ یہ‬‫احادیث صحیحہ میں ہے ۔ ان تمام روایات کے پی ِ‬
‫کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر و‬
‫عبادت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی تطہیر اور اخلقی رفعت‬
‫کا باعث بنے ‪ ،‬صحیح نہیں ہے ۔ ستم یہ ہے کہ ہم سربسجود ہونے کی‬
‫بجائے حلوہ ‪ ،‬بارود ‪ ،‬آتشبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ خالق کائنات اہل‬
‫زمین پر فضل و کرم کی بارش فرماتے ہیں اور ہم آتش بازی سے اس کا‬
‫استقبال کرتے ہیں ۔‬
‫ببین تفاوت راہ از کجا بہ کجا‬

‫‪ :‬علمہ اقبال مرحوم نے خوب فرمایا‬


‫ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں‬
‫راہ دکھلئیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں‬
‫‪ :‬شب برات پر فضول رسمیں‬
‫‪ :‬شب برات پر تین کام بڑی دھوم دھام سے کئے جاتے ہیں‬

‫‪1‬‬ ‫حلوہ پکانا ۔‬

‫‪2‬‬ ‫آتش بازی ۔‬


‫‪3‬‬ ‫مردوں کی روحوں کا حاضر ہونا ۔‬

‫بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس رات حلوہ پکانا سنت ہے ۔ اس سے متعلق‬


‫شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کتاب ما ثبت فی السنۃ ‪ ” 214 :‬بیان‬
‫فضائل شعبان “ کے ضمن میں رقطمراز ہیں ‪ ” :‬عوام میں مشہور ہے کہ‬
‫اس رات سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے ۔ اور اسی‬
‫رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے ۔‬
‫تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب حلوہ تناول فرمایا تھا ۔ بالکل لغو‬
‫اور بے اصل ہے ۔ کیونکہ غزوہ احد تو بالتفاق مؤرخین شوال ‪ 2‬ہجری کو‬
‫واقع ہوا تھا ۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ آج حلوہ ہی واجب اور ضروری ہے ۔‬
‫بدعت ہے ۔ البتہ یہ سمجھ کر حلوہ اور مطلقًا میٹھی چیز نبی کریم صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھی حلوہ پکا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔‬

‫“ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحب الحلوۃ والعسل ”‬


‫نبی صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ اسی طرح بعض‬
‫لوگ مسور کی دال ‪ ،‬چنے کی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ بھی‬
‫حلوہ کی طرح بدعت ہوگی ۔ بس صحیح بات یہ ہے کہ حسب معمول کھانا‬
‫پکانا چاہئیے ۔ شب برات کو تہوار نہیں بنانا چاہئے ۔ کیونکہ اسلمی تہوار‬
‫دو ہیں ‪ :‬عیدالفطر ‪ ،‬عیدالضحی ‪ ،‬علمہ عبدالحئی حنفی لکھنوی نے آثار‬
‫مرفوعہ ‪ 109 ,108 :‬میں ستائیس رجب المرجب اور پندرہ شعبان ) شب‬
‫برات ( کو بدعات میں شامل کیا ہے ۔ کیونکہ یہ اسلمی تہوار نہیں ہیں ۔‬
‫ومنھا صلوٰۃٰ لیلۃ السابع والعشرین من رجب ومنھا صلوٰۃٰ لیلۃ النصف من‬
‫شعبان‬
‫شب برات کے حلوہ سے متعلق مولنا عبدالحئی حنفی کافتو ٰی ہے کہ اس‬
‫بارہ میں کوئی نص اثبات یا نفی کی صورت میں وارد نہیں ۔ حکم‬
‫شرعی یہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لزمی‬
‫) ہوگی ۔ ورنہ کوئی حرج نہیں ۔ )فتاو ٰی عبدالحئی مترجم ‪110 :‬‬
‫‪ :‬آتشبازی‬

‫ملت اسلمیہ کا ایک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں میں جس اسراف‬
‫و تبذیر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و‬
‫مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً یہ افعال مذموم و قبیح‬
‫ہ یں ۔‬

‫محدث شیخ عبدالحق رحمہ اللہ دہلوی ” ما ثبت فی السنۃ “ میں فرماتے ہیں‬
‫کہ ہندوستان کیا اکثر شہروں میں جو اس وقت بل ضرورت کثرت سے‬
‫چراغاں کرتے ہیں اور آتش بازی اور دیگر لہو و لعب میں مشغول ہوتے‬
‫ہیں ۔ یہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں میں نہیں ہے ۔ اصل میں‬
‫یہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے ۔ اسلم لنے کے بعد یہ‬
‫لوگ اپنی رسوم جاہلیت پر قائم رہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے‬
‫مسلمان بھی اس بلئے عظیم میں مبتل ہوگئے ۔‬

‫تحفۃ الحوذی میں ہے سب سے پہلے چراغاں و آتشبازی کا مظاہرہ کرنے‬


‫والے برامکہ آتش پرست تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع‬
‫سازی کر کے ان رسوم کو اسلم میں داخل کردیا ۔ لوگوں کے ساتھ‬
‫رکوع و سجود کرتے لیکن مقصود آگ کی پوجا تھا ۔ شریعت میں‬
‫ضرورت سے زیادہ کسی جگہ کو بھی روشن کرنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن‬
‫) مجید میں ہے ‪ ) :‬بنی اسرائیل ‪27 :‬‬

‫اور بے جا خرچ نہ کرو ۔ تحقیق بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے ”‬


‫بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے ۔ “ اس آیت میں لفظ ”‬
‫تبذیر “ استعمال فرمایا ہے ۔ تبذیر اور اسراف میں فرق ہے ۔ حلل مقام پر‬
‫حد اعتدال سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ناجائز و حرام مقام پر‬
‫خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے ۔ اس جگہ پر ایک پیسہ بھی خرچ کرے تو‬
‫حرام ہو گا اور شیطان کا بھائی ٹھہرے گا ۔‬

‫شب برات کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا‬
‫مظاہرہ دین حق کے ساتھ مذاق ہے ۔ اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دین‬
‫کو کھیل تماشا بنایا تو اللہتعال ٰی کے عذاب میں مبتل ہوئیں ۔ ان سے ہمیں‬
‫عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ۔‬

‫‪ :‬ارشاد خداوندی ہے‬


‫وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا وغرتھم الحیوۃ الدنیا (( ) النعام ‪(( :‬‬
‫) ‪70‬‬
‫اور چھوڑ دو ) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( ان لوگوں کو جنہوں نے‬
‫اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ‬
‫میں ڈال رکھا ہے ۔‬
‫‪ :‬مردوں کی روحوں کا آنا‬
‫بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کی روح چالیس دن تک گھر آتی ہیں ۔‬
‫مومنین کی روحیں جمعرات اور شب برات کو آتی ہے ۔ حالنکہ مردے‬
‫برزخی زندگی سے وابستہ ہیں ۔ عالم برزخ کا عالِم دنیا سے کوئی تعلق‬
‫نہیں ہے ۔‬

‫‪ :‬ارشاد خداوندی ہے‬


‫) ومن وراءھم برزخ الی یوم یبعثون ) مومنون ‪100 :‬‬
‫ان ) مردوں ( کے ورے ایک پردہ ہے جو قیامت تک رہے گا ۔‬

‫بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آیت تنزل الملئکۃ والروح سے دیتے‬
‫ہیں ۔ اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہیں ہے بلکہ اس‬
‫روح سے مراد جبرائیل علیہ السلم ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی جبرئیل‬
‫علیہ السلم روح سے تعبیر کیا گیا ہے ۔‬

‫‪1‬‬ ‫) اذ ایدتک بروح القدس ) المائدہ ‪110 :‬‬

‫‪2‬‬ ‫) قل نزلہ روح القدس من ربک ) النحل ‪102 :‬‬

‫‪3‬‬ ‫) نزل بہ الروح المین ) الشعراء‪193 :‬‬

‫‪4‬‬ ‫) تعرج الملئکۃ والروح ) المعارج ‪4 :‬‬


‫‪5‬‬ ‫) یقوم الروح والملئکۃ صفا ) النباء‪38 :‬‬

‫مندرجہ بال آیات میں بھی روح سے مراد جبرائیل علیہ السلم ہیں ۔‬
‫مردوں کی روح مراد نہیں ہے ۔ اس سے مردوں کی روح مراد لینا ۔‬
‫تحریف فی القرآن ہے ۔‬
‫‪ :‬فقہاءکافتو ٰی‬

‫من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر ) مرقاۃ شرح مشکوٰۃٰ ‪،‬فتاو ٰی‬
‫) قاضی خاں‬
‫جو کہے کہ اولیاءو بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر ہیں ۔ وہ کافر ہو‬
‫جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شب برات آئی‬
‫‪ ،‬صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا ۔ تابعین و ائمہ‬
‫اربعہ کا زمانہ بھی گزر گیا ‪ ،‬لیکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ ‪،‬‬
‫آتش بازی ‪ ،‬مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو‬
‫بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے‬
‫جو راہ نجات ہے اللہتعال ٰی بدعات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین‬

You might also like