Professional Documents
Culture Documents
انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم (( ) ((
) الدخان 3,4 :
تحقیق ہم نے وہ کتاب بابرکت رات میں اتاری ہے ۔ بے شک ہم لوگوں ”
کو ڈرائیں گے ۔ اسی رات میں تمام باحکمت امور کی تفصیل کی جائے
“ گی ۔
:لیلۃ مبارکہ کی تشریح
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو قول ہیں ۔ بعض کے نزدیک لیلۃ
مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ) جو رمضان میں آتی ( ہے اور بعض کے
:نزدیک شب برات ہے
قیل سمیت لیلۃ البراۃ لن براتین براۃ الشقیاءمن الرحمن وبراۃ ((
) الولیاءمن الخذلن (( ) غنیۃ الطالبین 192/1 :
شب برات اس لئے نام رکھا گیا کہ اس میں دو نجاتیں ہیں ۔ ایک نجات
بدبختوں کی عذاب الٰہٰ
ی سے ،دوسری نجات اولیاءاللہ کی رسوائی و ذلت
سے ۔
قال قتادۃ وابن زید ھی لیلۃ القدر انزل اللہ القرآن فی لیلۃ القدر قیل ھی ((
) لیلۃ النصف من شعبان (( ) معالم خازن 143/5 :
) وعن بعض ھی لیلۃ النصف من شعبان (( ) جامع البیان (( 420 :
ھی لیلۃ القدر او لیلۃ النصف من شعبان نزل فیھا من ام الکتاب من ((
السماءالسابعۃ الی السماءالدنیا والجمھور علی الول کذا فی المدارک (( )
) جللین 410 :
مذکورہ عبارات میں بعض نے لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃ القدر بھی لیا ہے
اور بعض نے شب برات ) پندرہ شعبان ( مراد لیا ہے ۔ تفسیر صاوی میں
:ہے
ھی لیلۃ النصف من شعبان ھو قول عکرمۃ وطاتفۃ وجہ بامور منھا ان ((
لیلۃ النصف من شعبان لھا اربعۃ اسماءلیلۃ المبارکۃ ولیلۃ البراۃ ولیلۃ الرحمۃ
) ولیلۃ الصک ومن افضل العبادۃ فیھا (( ) حاشیہ جللین 410 :
امام شوکانی فتح القدیر میں رقمطراز ہیں کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ
القدر ہے اور اس کے چار نام ہیں ۔ لیلۃ مبارکہ ،لیلۃ البراۃ ،لیلۃ الصک ،
لیلۃ القدر ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ :جمہور کا مسلک بالکل صحیح
ہے ۔ کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ،شب براۃ نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ
تعال ٰی نے اس جگہ اجمال سے بیان فرمایا اور سورۃ القدر میں بیان فرمایا
کہ :انا انزلنہ فی لیلۃ القدر یعنی قرآن مجید رمضان المبارک میں لیلۃ القدر
کو نازل کیا گیا ،جس کو اس جگہ لیلۃ مبارکۃ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اس
وضاحت کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہا ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قرآن رمضان
میں لیلۃ القدر کو نازل کیا گیا اور اسی کا نام لیلۃ مبارکہ ہے ۔ تفسیر کبیر
:میں ہے
القائلون بان المراد من اللیلۃ المذکورۃ فی ھذہ الیۃ ھی لیلۃ النصف من ((
)) شعبان فما رایت لھم دلیل یقول علیہ
یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب برات ہے ۔ ان کے
پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔
یطلع اللہ الی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفرہ لجمیع خلقہ ال ((
لمشرک او مشاحن (( ) طبرانی ،ابن ماجہ ،صحیح ابن حبان فی سندہ عند
ابن ماجہ ابن لہیعۃ وھو ضعیف ( ” شب برات کو اللہتعال ٰی اپنی تمام
مخلوق کی طرف دیکھتے ہیں ،مشرک و کینہ پرور کے ماسوا ہر ایک
“ کو معاف فرماتے ہیں ۔ اس روایت میں ابن لہیعۃ راوی ضعیف ہے ۔
:حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ 3 :
یطلع اللہ عزوجل الی عامۃ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ ال اثنین ((
مشاحن وقاتل النفس ،قال المنذری رواہ احمد باسنادہ (( شب برات کو اللہ
تعال ٰی کینہ پرور اور قاتل کے سوا ہر ایک کو معاف فرماتے ہیں ۔ علمہ
امام منذری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف
سے روایت کیا ہے ۔
:حدیث کثیر بن مرۃ رضی اللہ عنہ 4
جب شب پندرہ شعبان ) شب برات ( ہوتی ہے تو رات کو قیام کرو اور دن
کو روزہ رکھو بے شک اللہتعال ٰی غروب شمس کے وقت آسمان دنیا پر
نزول فرماتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہے کوئی بخشش مانگنے وال ،اس کو
بخش دوں گا ،کوئی رزق لینے وال ہے اسے میں رزق دوں گا ،کوئی
مصیبت زدہ ہے اس کی مصیبت کو دور کروں گا ،کوئی فلں فلں
حاجت وال ہے ؟ طلوع صبح صادق تک اللہتعال ٰی یہی ندا دیتے رہتے
ہ یں ۔
احادیث مذکورہ بال میں چند اخلقی و اعتقادی گناہ ایسے بھی ہیں جن کا
ارتکاب کرنے والے اس رحمت بھری رات میں بخشش و مغفرت سے
محروم رہتے ہیں ۔ جیسے مشرک ،کینہ روی ،قتل نفس ،زنا و شراب
ص دل سے توبہنوشی ،قطع رحمی وغیرہ ۔ اگر کبائر کا مرتکب خلو ِ
کرے تو اللہتعال ٰی اس کو معاف کر دیتے ہیں ۔
تقطع الرجال من شعبان الی شعبان حتی ان الرجل ینکح ویولد لہ وقد ((
اخرج اسمہ فی الموتی فھو حدیث مرسل ،ومثلہ ل یعارض بہ النصوص ((
) ) تفسیر ابن کثیر 137/4 :
اس رات شعبان سے شعبان تک لوگوں کی عمریں لکھی جاتی ہیں ،
یہاں تک کہ ایک آدمی نکاح کرے گا اس کے ہاں بچہ پیدا ہو گا اور اس
کا نام مردوں میں لکھا جا چکا ہے ۔ ) یہ حدیث مرسل ہے اس کا نصوص
) سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا
:نماِز شب برات
2 علمہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ ” آثار مرفوعہ “ میں فرماتے
ہ یں ۔
ان تمام احادیث قولیہ و فعلیہ سے معلوم ہوا کہ اس رات عبادت زیادہ کرنا ”
مستحب ہے لیکن لوگوں کو نماز اور غیر نماز میں فرق رہے جو چاہیں
عبادت کریں لیکن اس رات عبادت مخصوصہ کیفیت مخصوصہ کے ساتھ
اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ مطلق نماز نفلی شب برات اور اس کے علوہ
راتوں میں جائز ہے ۔ اس میں کوئی اختلف نہیں ۔ شیخ ابراہیم جلی ”
منیۃالمصل ٰی “ کی شرح ” غنیۃ المستملی “ میں فرماتے ہیں ” :اس سے
معلوم ہوا کہ صلوٰۃٰ الرغائب جو رجب کے پہلے جمعہ کو پڑھی جاتی ہے
اور پندرہویں شعبان کی رات اور رمضان کی ستائیسویں رات ) لیلۃ
القدر ( کی جو نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے ۔ ان راتوں میں نماز
باجماعت پڑھنا بدعت اور مکروہ ہے ۔ ) یہ وعید نماز تراویح کے علوہ
نفلی نماز باجماعت کے لئے ہے ( یعنی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ
ضعیف روایت کو فضائل اعمال میں قبول کرنے پر تمام کا اتفاق ہے ۔ اس
:کے متعلق علمہ عبدالحئی فرماتے ہیں
فضائل اعمال میں بھی قبول نہیں کی جائیگی ۔ یعنی فضائل اعمال ”
میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے متعلق اتفاق کادعو ٰی باطل ہے ۔
ہاں جمہور کا مذہب ہے بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف نہ ہو ،زیادہ ضعیف نہ
) ہو ۔ ) آثار مرفوعہ 73 :
ان دلئل سے واضح ہوا کہ شب برات کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ
ش نظر زیادہ سے زیادہ یہاحادیث صحیحہ میں ہے ۔ ان تمام روایات کے پی ِ
کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر و
عبادت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی تطہیر اور اخلقی رفعت
کا باعث بنے ،صحیح نہیں ہے ۔ ستم یہ ہے کہ ہم سربسجود ہونے کی
بجائے حلوہ ،بارود ،آتشبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ خالق کائنات اہل
زمین پر فضل و کرم کی بارش فرماتے ہیں اور ہم آتش بازی سے اس کا
استقبال کرتے ہیں ۔
ببین تفاوت راہ از کجا بہ کجا
ملت اسلمیہ کا ایک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں میں جس اسراف
و تبذیر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و
مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً یہ افعال مذموم و قبیح
ہ یں ۔
محدث شیخ عبدالحق رحمہ اللہ دہلوی ” ما ثبت فی السنۃ “ میں فرماتے ہیں
کہ ہندوستان کیا اکثر شہروں میں جو اس وقت بل ضرورت کثرت سے
چراغاں کرتے ہیں اور آتش بازی اور دیگر لہو و لعب میں مشغول ہوتے
ہیں ۔ یہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں میں نہیں ہے ۔ اصل میں
یہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے ۔ اسلم لنے کے بعد یہ
لوگ اپنی رسوم جاہلیت پر قائم رہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے
مسلمان بھی اس بلئے عظیم میں مبتل ہوگئے ۔
شب برات کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا
مظاہرہ دین حق کے ساتھ مذاق ہے ۔ اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دین
کو کھیل تماشا بنایا تو اللہتعال ٰی کے عذاب میں مبتل ہوئیں ۔ ان سے ہمیں
عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ۔
بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آیت تنزل الملئکۃ والروح سے دیتے
ہیں ۔ اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہیں ہے بلکہ اس
روح سے مراد جبرائیل علیہ السلم ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی جبرئیل
علیہ السلم روح سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
مندرجہ بال آیات میں بھی روح سے مراد جبرائیل علیہ السلم ہیں ۔
مردوں کی روح مراد نہیں ہے ۔ اس سے مردوں کی روح مراد لینا ۔
تحریف فی القرآن ہے ۔
:فقہاءکافتو ٰی
من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر ) مرقاۃ شرح مشکوٰۃٰ ،فتاو ٰی
) قاضی خاں
جو کہے کہ اولیاءو بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر ہیں ۔ وہ کافر ہو
جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شب برات آئی
،صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا ۔ تابعین و ائمہ
اربعہ کا زمانہ بھی گزر گیا ،لیکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ ،
آتش بازی ،مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو
بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے
جو راہ نجات ہے اللہتعال ٰی بدعات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین