Professional Documents
Culture Documents
غزلیں
ماجد صدیقی
َ
اکھیاں بیچ الؤ
غزلیں
ماجد صدیقی
ف ہرست
٭٭٭
اب کی بہار بھی چلتے دیکھا زور چمن پہ وہ ژالوں کا
دھجی دھجی برگ و شجر ہیں ،حال ُبرا ہے نہالوں کا
جبر کے ہاتھوں جسم تلک وہ سادہ منش کٹوا بیٹھے
تیغ زنی سے بھی کچھ بڑھ کر زعم جنہیں تھا ڈھالوں کا
دشت و دمن میں ایسا تو دہلتی چپ کا راج نہ تھا
لفظ و معانی تک پہ گماں ہے ٹھٹھکے ہوئے غزالوں کا
ِاتنے چلے پر بھی نہیں پہنچے جس کی خنک فضاؤں میں
ُاس بگیا تک اور سفر ہے جانے کتنے سالوں کا
ماجد اب د ُّروں کی جگہ وہ ہاتھ میں پرچم رکھتے ہیں
دھندا راس جنہیں آیا جسموں سے اتری کھالوں کا
٭٭٭
اب کے چلن ہوا کا غضب اور ڈھائے گا
موسم جو آئے گا وہ قیامت کا آئے گا
جو لٹ چکے ہیں اشک سمیٹے گا ُان کے اور
رہبر ُانہی سے دیکھنا! گوہر بنائے گا
ظ ذات میں
وہ ناخدا کہ طاق ہے جو حف ِ
ڈولی ذرا جو ناؤ تو خود ُ
کود جائے گا
جو لفظ ُاس کے عجز کے باعث سبک ہوئے
ب آشکار کے دن
پڑے ہیں دیکھنے کیا کر ِ
ل عمر کے دنُ ،ٹوٹتے خمار کے دن
زوا ِ
ف لمحۂ گزراں
بنام ِ کم نظراں ،لط ِ
ہمارے نام نئی ُرت کے انتظار کے دن
بدن سے گرد ِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھی
لپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دن
طویل ہوں بھی تو آخر کو مختصر ٹھہریں
چمن پہ رنگ پہ ،خوشبو پہ اختیار کے دن
نئے دنوں میں وہ پہل سا رس نہیں شاید
کہ یاد آنے لگے ہیں گئی بہار کے دن
فلک کی اوس سے ہوں گے نم آشنا کیسے
زمین پر جو دھوئیں کے ہیں اور غبار کے دن
یہ وقت بٹنے لگا ناپ تول میں کیونکر
یہ کس طرح کے ہیں ماجدؔ گ َِنت ُ
شمار کے دن
٭٭٭
٭٭٭
جس انداز کا تھا اس سے منسوب سلوک ایسا ہی کیا
وقت نے ماجد چوس کے رسِ ،اک سمت ہمیں بھی ،پھینک دیا
سقراطوں سا سچ کہنے اور ُاس پر قائم رہنے پر
اے دوراں! پہچان ہمیں ،ہم وہ ہیں ،جنہوں نے زہر پیا
اے دل! اب یہ تلخ حقیقت ،جان بھی لے اور مان بھی لے
٭٭٭
جو حق میں تمہارے بند رہیں وہ لب گنجینۂ زر کر دو
اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو
جو سادہ منش ہیں ان سب کو تم دین کے نام پہ دھوکا دو
جو کھولے ڈھول کا پول ُاسے اسلم آباد بدر کر دو
جو رات وطن پر چھائی ہے تم سب کے بھاگ جگانے کو
٭٭٭
جب سے اندر سے ِبکے اخبار میرے شہر کے
ل دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
َانٹیوں کے مول ِبکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار ،میرے شہر کے
ُلوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی ُپونحیاں
مل لئے انوار ،میرے شہر کے
چہرہ چہرہ َ
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار ،میرے شہر کے
فن چار سو کو بہ ُ
کو پسماندگی کا ہے تع ّ ُ
٭٭٭
ب قامت ٹھہرے
َبونے بانس لگا کر صاح ِ
ُاس کے لیے جو خود شامت ہے بستی بھر کی
ت شامت ٹھہرے
جانے کونسی ساعت ،ساع ِ
جس کے طلوع پہ خود سورج بھی شرمندہ ہے
اور وہ کون سا دن ہو گا جو قیامت ٹھہرے
ل نشیمن کو آندھی سے طلب ہے بس اتنی
اہ ِ
پیڑ اکھڑ جائے پر شاخ سلمت ٹھہرے
کون یزید کی بیعت سے منہ پھیر دکھائے
کون حسین ہو ،دائم جس کی امامت ٹھہرے
خائف ہیں فرعون عصائے قلم سے تیرے
اور بھل ماجد کیا تیری کرامت ٹھہرے
٭٭٭
حرص و نخوت کے اندھے نگر میں باپ ہیں جو جواں بیٹیوں کے
کس زباں سے کسی سے کہیں وہ ہیں مسافر وہ کن دلدلوں کے
س زمیں نے
شاخچوں کا جو اندوختہ تھا رس وہ چوسا ہے حب ِ
دھوپ ابکے چھتوں پر وہ ُاتری پھول کمل گئے آنگنوں کے
خون میں خوف کی آہٹیں ہیں جسم در جسم کھولہٹیں ہیں
ایک ہلچل سی اعصاب میں ہے ذہن مرکز ہیں یوں زلزلوں کے
شہرِ خفتہ کی گدلی فضا میں جانے کیا کیا دکھائی دیے ہیں
چشم ِ بیدار میں چبھنے والے ُتند کنکر نئے رتجگوں کے
ت تاریک میں ہے جیسے بھٹکا ہوا شاہزادہ
زندگی دش ِ
جس کے ہر ُ
کنج میں ایستادہ دیو ہیں نو بہ نو الجھنوں کے
وہ خودی ہو کہ خود انحصاری محض خوش فہمیاں ہیں کہ ہم نے
ہاتھ مصروف دیکھے ہیں جو بھی ُان میں پائے تھے بیساکھیوں کے
ن فردوس پر بھی جیسے دوزخ کے در ک ُھل چلے ہوں
ِان مکینا ِ
چے پھلوں کے
ِدن ُبرے آنے والے ہیں ماجد باغ میں سارے ک ّ
٭٭٭
٭٭٭
خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا
پر ش ِہ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا
رزق نے جس کے مجھے پال ہے جس کا رزق ہوں
گ جاں کہہ دیا
کہہ دیا اس خاک کو میں نے ر ِ
ِاس تمّنا پر کہ ہاتھ آ جائے نخلستاں کوئی
خود غرض نے دیکھ صحرا کو گلستاں کہہ دیا
ن شاہ وہ بھی تھے جنہوں نے آز میں
ہمزبا ِ
ف پریشاں کہہ دیا
رات تک کو ،یار کی زل ِ
خو جس نے دو ٹانگوں پہ چلتا دیکھ کر
میں وہ خوش ُ
شہر کے بن مانسوں تک کو بھی انساں کہہ دیا
کیا کہوں کیوں میں نے سادہ لوح چڑیوں کی طرح
ح درخشاں کہہ دیا
وقفۂ شب کو بھی تھا صب ِ
عجلت میں ہوئی
اس کے ناطے ،درگزر جو محض ُ
گرگ کو بھی بھیڑ نے ماجدؔ پشیماں کہہ دیا
٭٭٭
٭٭٭
ق جور بن جانے لگا
ت شفقت کیوں بہ ح ِ
دس ِ
آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا
کھیت جلنے پر بڑھا کر عمر ،اپنے سود کی
کس طرح بنیا ،کسانوں کو ہے بہلنے لگا
جانے کیا طغیانیاں کرنے لگیں گھیرے درست
گھونسلوں تک میں بھی جن کا خوف دہلنے لگا
خون کس نے خاک پر چھڑکا تھا جس کی یاد میں
ِاک پھریرا سا فضاؤں میں ہے لہرانے لگا
گ گل کو ڈال کر
مہد میں مٹی کے جھونکا بر ِ
کس صفائی سے ُاسے رہ رہ کے سہلنے لگا
٭٭٭
دم ِ زوال ،رعونت زباں پہ لئے بہت
چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت
سورج کا ِاک کرشمہ ہے
یی تو ُڈوبتے ُ
ہ
ت کوتاہ تک کے ،سائے بہت
بڑھائے قام ِ
قلم کے چاک سے پھوٹے وہ ،مثل بیلوں کے
جو لفظ ہم نے زباں کے تلے دبائے بہت
ستم ستم ہے کوئی جان دار ہو ُاس کو
نگل کے آب بھی ِاک بار تھرتھرائے بہت
ہمارے گھر ہی ُاترتی نہ کیوں سحر ماجد
میں تھے جو کلبلئے بہت
تمام رات ہ ِ
٭٭٭
دوسروں کے واسطے جیا تھا مر گیا
وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا
جگنوؤں تلک کی روشنی لگے فریب
رہبروں سے ُہوں کچھ ِاس طرح کا ڈر گیا
ناز تھا کہ ہم سفیرِ انقلب ہیں
پر یہ زعم بھی نشہ سا تھا ُاتر گیا
خانۂ خدا سے ُبت جہاں جہاں گئے
بار بار میں نجانے کیوں ُادھر گیا
پاؤں کے تلے کی خاک نے نگل لیا
میں تو تھا کنارِ آب باخبر گیا
لعل تھا اٹا تھا گرد سے ،پہ جب د ُھل
ماجد ِ حزیں کچھ اور بھی نکھر گیا
٭٭٭
٭٭٭
سر اداسی کے بکھیریں سانس کی شہنائیاں
ُ
جبر نے بخشی ہمیں کیا گونجتی تنہائیاں
منتظر رہ رہ کے آنکھیں ِاس قدر دھندل گئیں
ق روز و شب تلک جانیں نہ اب بینائیاں
فر ِ
رنگ پھیکے پڑ گئے کیا کیا ُرتوں کے پھیر سے
گردشوں سے صورتیں کیا کیا نہیں گہنائیاں
جاگنے پر ،تخت سے جیسے چمٹ کر رہ گئے
ہاتھ جن کے ،سو کے ُاٹھنے پر لگیں دارائیاں
لے کے پیمانے گلوں کی مسکراہٹ کے ُرتیں
ناپنے کو آ گئیں پھر درد کی گہرائیاں
ُاس سے ہم بچھڑے ہیں ماجد ابکے ِاس انداز سے
پت جھڑوں میں جیسے پتوں کو ملیں ُرسوائیاں
٭٭٭
شاخ پہ پھول ک ِھل دیکھا ہے
آگے انت ُاس کا دیکھا ہے
زور رہا جب تک سینے میں
تھا نہ روا جو ،روا دیکھا ہے
فریادی ہی رہا وہ ہمیشہ
جو بھی ہاتھ ُاٹھا دیکھا ہے
ہم نے کہ شاکی ،خلق سے تھے جو
ک خدا دیکھا ہے
اب کے سلو ِ
سنگدلوں نے کمزوروں سے
کیا ،دیکھا ہے
جو بھی کہا ،وُہ ِ
جس سے کہو ،کہتا ہے وُہی یہ
کر کے ب َھل بھی ُ ،برا دیکھا ہے
اور نجانے کیا کیا دیکھے
ماجد نے ،کیا کیا دیکھا ہے
٭٭٭
٭٭٭
شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلب
چڑا رہے ہیں مرا منہ ،مرے سخن کے گلب
ِ
ت شہر کی پژمردگی وہ کیا جانے
بنا ِ
بہم ہر آن جسے ہوں ،بدن بدن کے گلب
ملے نہ جس کا کہیں بھی ضمیر سے رشتہ
گراں بہا ہیں ُاسی فکرِ پر فتن کے گلب
سخن میں جس کے بھی ُامڈی ریا کی صّناعی
ہر ایک سمت سے برسے ُاسی پہ د َھن کے گلب
یہاں جو قصر نشیں ہے ،یہ جان لے کہ ُاسے
نظر نہ آئیں گے ماجد ،تجھ ایسے بن کے گلب
٭٭٭
عہد یہی اب ِانسانوں نے ٹھہرانا ہے
کس نے کس کو کتنا نیچا ِدکھلنا ہے
چڑیوں نے ہے اپنی جان چھپائے پھرنا
شہبازوں نے اپنی دھونس پہ ِاترانا ہے
دھوپ کے ہاتھوں ِان سے اوس کی نم چھننے پر
گرد نے پھولوں کو سہلنے آ جانا ہے
ج ضیا ہے
سورج کے ہوتے ،جب تک محتا ِ
چاند نے گھٹنا بڑھنا ہے اور گہنانا ہے
ب تشنہ لباں پھر بڑھنے لگا مشکیزہ
جان ِ
جس پر تیر نیا پھر برسانا ہے
جبر نے ِ
عاجز ہم اور قادر اور کوئی ہے ماجد
جیون بھر بس درس یہی ِاک دہرانا ہے
٭٭٭
فرق نہ سمجھیں کچھ د ُھتکارے جانے میں
جتے دیکھے ،پس خوردہ کھانے میں
زاغ ُ
ل ضعف بھی ہے مسرور لگا
پیڑ بحا ِ
خشک زبانوں کے پرچم لہرانے میں
پر ُٹوٹے اور ساتھ ہوا نے چھوڑ دیا
سطر بڑھا دو یہ بھی اب افسانے میں
لو اس کو بھی تکڑی تول جو رکھتا تھا
وقت نے دیر نہ کی عادل ٹھہرانے میں
اپنی جگہ امید سے پیروکار سبھی
رہبر محو ہے ماجد ،مال بنانے میں
٭٭٭
٭٭٭
کیا کہیں ذی مرتبت کتنے تھے اور کیا ہو گئے
فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی ُرسوا ہو گئے
کونپلیں کیا کیا نہیں جھلسی ہیں باد ِ مکر سے
گلستاں امید کے ،کیا کیا نہ صحرا ہو گئے
جن دنوں کی چاہ میں بے تاب تھی خلقت بہت
شو مئی قسمت سے وہ دن اور عنقا ہو گئے
خبث کیا کیا ک ُھل گیا ُان کا بھی جو تھے ذی شرف
ُ
نّیتوں کے جانے کیا کیا راز افشا ہو گئے
دم بخود ٹھہرے ہیں ُان کی پاک دامانی پہ ہم
قتل کرنے پر بھی جو ماجد مسیحا ہو گئے
٭٭٭
کیا کیا خم اور ہوں ابھی بازو کمان کے
تیور بدل چلے ہیں بہت ،آسمان کے
جیسے کوئی ُاڑائے کبوتر ،بہ روزِ جشن
ُپرزے ہوا کے ہاتھ تھے یوں بادبان کے
بہروپ ہی بھرے گا ،کرم بھی وہ گر کرے
نکل جو گھر سے ،راہزنی ہی کی ٹھان کے
ماجد ہمیں بھی ،دیکھیے جھانسہ دیا ہے کیا
آنچل سا آسمان پہ ،بدلی نے تان کے
٭٭٭
کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے
دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلنگی ہے
کس کا چین لٹا ہے ِاتنی دیر گئے
کس کی آنکھ سے آس کا تارا ٹوٹا ہے
کس پر کون ک ُھل ہے ِاتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے ِاتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں گھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے ِاتنی دیر گئے
چے بھی اور جگنو بھی
سو گئے سارے ب ّ
پھر کیوں شور بپا ہے ِاتنی دیر گئے
دیکھ کے ماجدؔ چندا نے بیدار کسے
آنگن میں جھانکا ہے ِاتنی دیر گئے
٭٭٭
٭٭٭
گرا ہوں شجر سے ُاڑا چاہتا ہوں
ِ
ف ہوا چاہتا ہوںپئے رقص ،لط ِ
وہی جو منگیتر سا ہے مجھ سے ،مخفی
وہ منظر ،نظر پر ک ُھل چاہتا ہوں
سبھی ناؤ والے ہیںِ ،اک میں نہیں ہوں
کہ تنکے کا جو ،آسرا چاہتا ہوں
گریزاں ہوں ابنائے قابیل سے میں
کہ شانوں پہ یہ سر ،سجا چاہتا ہوں
وہی شہ رگوں میں جو پنہاں ہےُ ،اس کا
سرِ ُ
طور کیوں سامنا چاہتا ہوں
)ق(
گوارا ہو بے ناپ خلعت مجھے کیوں
جو زیبا مجھے ہو قبا چاہتا ہوں
نہیں چاہتا تاج میں پاپیادہ
ب انا چاہتا ہوں
میں توقیر ،حس ِ
لگے جیسے پہرے ہوں ہر اور میری
ؔ
ماجد ،میں کیا چاہتا ہوں کہوں کس سے
٭٭٭
ت دل میں
گ ِھر گیا ہے سیاس ِ
ماں! ترا لڈل ہے مشکل میں
عمر گزری تلش کرتے ہوئے
روشنی آنسوؤں کی جھلمل میں
س نصیب دیکھ لیا
اپنا عک ِ
چمپئی گال پر سجے ِتل میں
ظ جاں کو
ف ِ
ڈنک مارا تح ّ
سانپ بزدل تھا گ ُھس گیا ِبل میں
ہم نے ظالم سے یوں کہی دل کی
سل میں
چھید جیسے کرے کوئی ِ
جانے ماجد کن آنسوؤں سے لگا
گل میں
اک کٹاؤ سا جسم کی ِ
٭٭٭
٭٭٭
مجھ سے کشیدہ رو ہیں کیونکر میرے ہنر کے لوگ
ل نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ
اہ ِ
جیسے کم سن چوزے ہوں مرغی کے پروں میں بند
جبر کی چیلوں سے دبکے ہیں یوں ہر گھر کے لوگ
ہر فریاد پہ لب بستہ ہیں مانند ِ اصنام
عدل پہ بھی مامور ہوئے کیا کیا پت ّھر کے لوگ
صبح و مسا ان کے چہروں پر اک جیسا اندوہ
منظر منظر ہیں جیسے اک ہی منظر کے لوگ
کچھ بھی نہیں مرغوب ِانہیں ،کولہو کے سفر کے سوا
میرے نگر کے لوگ ہیں ماجد اور ڈگر کے لوگ
٭٭٭
مری ہر آس کے خیمے کی زینب بے ِردا کر دی
یزید ِ وقت نے جور و ستم کی ِانتہا کر دی
اگر سر زد ہوا حق مانگنے کا جرم تو اس پر سزا کیسی
ت طلب نے کونسی ایسی خطا کر دی
مرے دس ِ
کچھ افیونی حقائق ہی ک ُھلے ورنہ ِان ہونٹوں پر
ق شہر تک جس نے خفا کر دی سخن کیا تھا کہ خل ِ
زمیں یا آسماں کا جو خدا تھا سامنے ُاس کے
جھکایا سر اٹھائے ہاتھ اور رو کر دعا کر دی
وطن کی بد دعا پر ریزہ ریزہ ہو گیا کوئی
کسی نے دیس پر جاں تک ہتھیلی پر سجا کر دی
چائیاں جذبات میں ماجد
حیا آنکھوں میں اور س ّ
مجھے ماں باپ نے جو دی یہی پونجی کما کر دی
٭٭٭
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گل مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا مل مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ ،کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کوز پشت کیکج ہو چلی زبان بھی مجھ ُ
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا ،مجھے
کیا
بچپن میں تھا جو ہمدم ِ خلوت ،مل ِ
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شام ِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھل کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
اترا تھا ماہتاب سا کوڑے کے ڈھیر پر
ی یک روز ،ہر سحر لتی ہے فکرِ روز ِ
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ ج ُھکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
ب معاش میں بھی ملی ہے خل مجھے
کس ِ
حکم ِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
ُ
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
س افتخار دلتا ہے کیا مجھے
ِاحسا ِ
میری بھی ایک فصل ہے ُاٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
ص رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
آ اے حری ِ
عّلت سے بے زری کی کفش دوزیاں ملیں
ک پا مجھے
اکسیر ہر کسی کی ہوئی خا ِ
٭٭٭
ب انسانی سے نیچے اترے کون
منص ِ
ُ
کتا بھونکے تو آگے سے بھونکے کون
ت بد کے بطن سے پھوٹی ہو
وہ کہ جو نی ّ ِ
تاب کسے ہے ُاس دلدل میں الجھے کون
جز پت جھڑ کے ِاس فن کا ادراک کسے
رنگ کسی کا جیسا بھی ہو بدلے کون
جسم پہ جس کے لباس ہو جھاڑ میں کانٹوں کے
ظ گلب و سمن کی د ُھن میں کودے کون
حف ِ
خرم ہو لہو میں نہا کر بھی
کون ہو جو ّ
پیغمبر کے سوا طائف میں ٹھہرے کون
کام نہیں بس میں یہ دئیے کے ناخن کے
چہرۂ شب سے ماجد ؔ ظلمت ک ُھرچے کون
٭٭٭
نہیں کہ تجھ سے وفا کا ہمیں خیال نہ تھا
نظر میں تھا ،پہ ترا ہی وہ اک جمال نہ تھا
لبوں میں جان تھی پھر بھی ہماری آنکھوں میں
ستمگروں سے بقا کا کوئی سوال نہ تھا
ٹھہر سکا نہ بہت تیِغ موج کے آگے
ہزار سخت سہی ،جسم تھا یہ ڈھال نہ تھا
کوئی نہیں تھا شکایت نہ تھی جسے ہم سے
ہمیں تھے ایک ،کسی سے جنہیں ملل نہ تھا
غضب تو یہ ہے کہ تازہ شکار کرنے تک
نظر میں گرگ کی ،چنداں کوئی جلل نہ تھا
ج عجز فقط گن ہی گن تھے پاس اپنے بہ ُ
کن ِ
یہاں کے اوج نشینوں سا کوئی مال نہ تھا
ہمیں ہی راس نہ ماجدؔ تھی مصلحت ورنہ
یہی وہ جنس تھی ،جس کا نگر میں کال نہ تھا
٭٭٭
سرخوشی َاوج پر دیکھنا
نشۂ َ
رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا
مٹھیوں میں شگوفوں کی زر سر بہ سر
سیپیوں میں گلوں کی گہر دیکھنا
لطف جو چشم ِ تشنہ کو درکار ہے
شاخ در شاخ محوِ سفر دیکھنا
دل بہ دل آرزوؤں کے جگنو اڑے
ص شرر دیکھنا
صحن در صحن رق ِ
جل اٹھے
جل سے کہیں َ
جی نہ ساون کے َ
٭٭٭
نشۂ بے حسی تھی کہ نا آگہی لوگ سوئے ملے
پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی ،لوگ سوئے ملے
روشنی کے سفیروں نے کیا کیا نہ ُ
گر آزمائے مگر
سینہ سینہ بسائے ہوئے گمرہی لوگ سوئے ملے
زمزمے چہچہے کوئی تریاق ان کے نہ کام آ سکا
سم کچھ ایسی تھی سانسوں میں ِان کے گھلی لوگ سوئے ملے
صبح ،پرچم لپیٹے ہوا ہو گئی اپنے سندیس کا
پھول نے جو کہی رہ گئی ان کہی لوگ سوئے ملے
بادباں کھول کر کشتیوں کے ،ہوا کو انہیں سونپ کر
ش دریا میں بھی لوگ سوئے ملے
اور تو اور آغو ِ
جانے حلقۂ بگوشی میں تھا کیا شرف ،جو انہیں بھا گیا
جاگتا تھا فقط جذبۂ بندگی لوگ سوئے ملے
کتنے تھوڑے صلے سے بہلنے لگیں ان کی نادانیاں
ؔ
ماجد یہ کیا اکتفا کی چلی لوگ سوئے ملے رسم
٭٭٭
ت ِتیرہ شبی ،تنہا روی ہے اور ہم
وسع ِ
جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم
کیمیا گر تو ہمیں کندن بنا ڈالے مگر
آنچ بھر کی ایسا ہونے میں کمی ہے اور ہم
بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما
خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم
کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر
گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم
ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں
زخم ِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم
ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو
جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم
ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے ُ
کودتے
دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم
٭٭٭
٭٭٭
وہ کہ لمس میں تھا حریر ،رنگ میں نار سا
مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا
کبھی بارشوں میں بھی پھر دکھائی نہ دے سکا
ُاسے دیکھنے سے فضا میں تھا جو نکھار سا
مری چاہ کو ُاسے چاندنی کی قبائیں دیں
ب تار سا
مرا بخت کس نے بنا دیا ش ِ
کوئی آنکھ جیسے ک ُھلی ہو ِان پہ بھی مدھ بھری
ہے دل و نظر پہ عجب طرح کا خمار سا
ب یار گھڑی گھڑی
لگے پیش خیمۂ قر ِ
مری دھڑکنوں میں جو آ چل ہے ،قرار سا
٭٭٭
وقت کی شاخ پر پات پیل پڑا اور میں کھو گیا
َپو پھٹے چاند سے ُاس کا جوبن ُلٹا اور میں کھو گیا
پھر نجانے معطل رہے کب تلک میرے اعصاب تک
ہاتھ جابر کا شہ رگ کی جانب بڑھا اور میں کھو گیا
دور ہنستی رہی
س قزح ُ
آسماں پر کماں بن کے قو ِ
بی ُہوا پاس ہی سے ُہوا اور میں کھو گیا
وار جو ھ
عمر کیا کیا نہیں لڑکیوں کی ڈھلی پاس ماں باپ کے
خوں کے آنسو بنے ُان کا رنگ حنا اور میں کھو گیا
ل مکر و ریا کیوں نہیں
ل ہنر ،اہ ِ
میں کہ ماجد ہوں اہ ِ
بس یہ نکتہ مجھے بے زباں کر گیا اور میں کھو گیا
٭٭٭
سیدھا کریں
وہ کمانڈو بھی تو ہوں ایسوں کو جو ِ
نن ّھی نن ّھی خواہشیں خلقت کی ،جو اغوا کریں
ہر نگارِ شام ُان کے واسطے ہو مہ بکف
ل عید بعد از سال ہی دیکھا کریں
ہم ہل ِ
ُان کے جتنے تیر ہیں موزوں ہوں وہ اہداف پر
اور ہمیں تلقین یہ ،ایسا کریں ویسا کریں ،
خود ہی جب اقبال سا لکھنا پڑے اس کا جواب
اے خدا تجھ سے بھی ہم شکوہ کریں تو کیا کریں
وہ ادا کرتے ہیں جانے موسموں کو کیا خراج
بدلیاں جن کے سروں پر بڑھ کے خود سایا کریں
) ۲۲فروری ۹۴کو اسلم آباد میں افغانی اغوا کنندوں کے چنگل
سے پاکستانی کمانڈوز نے سکول کے ننھے منے سٹوڈنٹس کو آزاد
کرایا ۔ یہ غزل ُاسی واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی گئی(
٭٭٭
٭٭٭