You are on page 1of 67

‫َ‬

‫اکھیاں بیچ الؤ‬

‫غزلیں‬

‫ماجد صدیقی‬
‫َ‬
‫اکھیاں بیچ الؤ‬
‫غزلیں‬

‫ماجد صدیقی‬
‫ف ہرست‬

‫سوجھتا‪ ،‬آزار کہاں ہے‪7....................................‬‬


‫آنکھوں کو نہیں ُ‬
‫اب کی بہار بھی چلتے دیکھا زور چمن پہ وہ ژالوں کا‪8..................‬‬
‫اب کے چلن ہوا کا غضب اور ڈھائے گا‪9....................................‬‬
‫اب کے یہ کیا حشر اٹھا ہے شہروں میں‪9..................................‬‬
‫بے سمت سب علج مسیحا کہاں ملے‪11..................................‬‬
‫ب آشکار کے دن‪11................................‬‬
‫پڑے ہیں دیکھنے کیا کر ِ‬
‫تھے جتنے ذائقے وہ اپنا لطف کھونے لگے‪12...............................‬‬
‫ک ستم گار نہیں تھے ‪13............................‬‬
‫مل ِ‬
‫ٹھہرے جو بھسم ‪ِ ،‬‬
‫جس انداز کا تھا اس سے منسوب سلوک ایسا ہی کیا‪14.............‬‬
‫جو حق میں تمہارے بند رہیں وہ لب گنجینۂ زر کر دو‪15................‬‬
‫جو آنکھیں دیکھتی ہوں د ُھند کے ُاس پار‪ ،‬کم کم ہیں ‪16..............‬‬
‫جب سے اندر سے ِبکے اخبار میرے شہر کے‪17...........................‬‬
‫چمن پہ ہے تو بس ِاتنا سا اختیار ہمیں ‪18.................................‬‬
‫چہرۂ سرو قداں پر داِغ ندامت ٹھہرے‪18...................................‬‬
‫حرص و نخوت کے اندھے نگر میں باپ ہیں جو جواں بیٹیوں کے ‪20.‬‬
‫حق طلبی سے اب کے دھیان ہٹانے لگے ہیں‪20...........................‬‬
‫خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا‪22..................‬‬
‫ن مظلوماں سے ہیں شاداب ہونے لگ پڑیں‪22.......................‬‬
‫خو ِ‬
‫ق جور بن جانے لگا‪24..........................‬‬
‫ت شفقت کیوں بہ ح ِ‬
‫دس ِ‬
‫دم ِ زوال ‪ ،‬رعونت زباں پہ لئے بہت‪25.....................................‬‬
‫دوسروں کے واسطے جیا تھا مر گیا‪26....................................‬‬
‫دھڑکتی گونجتی ِاک خامشی سی شہر میں ہے‪26......................‬‬
‫ذّروں سے پہچان ہےضو کی‪ ،‬ما ِہ مبیں کوئی اور‪28.....................‬‬
‫ر ِہ سفر میں ہوئیں ہم پہ سختیاں کیا کیا ‪28.............................‬‬
‫ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو‪30.............................‬‬
‫رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار‪31...............................‬‬
‫زچ ہوئے پر جو ذرا سا تھا بدل جانے لگا‪32...............................‬‬
‫سانس روکے کھڑے ہیں شجر دیکھنا ‪32...................................‬‬
‫سجل حویلیوں کی ‪ ،‬بام و در کی بات اور ہے ‪34.......................‬‬
‫سر اداسی کے بکھیریں سانس کی شہنائیاں‪35.........................‬‬
‫ُ‬
‫شاخ پہ پھول ک ِھل دیکھا ہے‪36................................................‬‬
‫شاخیں یہی کہتی ہیں‪ ،‬نہ بے دم ہمیں دیکھا‪36............................‬‬
‫شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلب‪38.................‬‬
‫عہد یہی اب ِانسانوں نے ٹھہرانا ہے‪39......................................‬‬
‫فرق نہ سمجھیں کچھ د ُھتکارے جانے میں‪40..............................‬‬
‫دوں کرنا پڑا ‪40...........................‬‬
‫کیا کہیں کیا کچھ ہمیں دنیائے ُ‬
‫کیا کہیں ذی مرتبت کتنے تھے اور کیا ہو گئے ‪42.........................‬‬
‫کیا کیا خم اور ہوں ابھی بازو کمان کے ‪43...............................‬‬
‫کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے‪44..........................................‬‬
‫کافی ہے یہی‪ ،‬دل کو سزا اور نہ دینا‪44....................................‬‬
‫کر کے غاصب کو زیر و زبر چھین لے‪46...................................‬‬
‫کم نہیں وجدان پر ُاتری ہوئی آیات سے‪47................................‬‬
‫گیاہ و برگ کو دیں بے زبانیاں کیا کیا‪48...................................‬‬
‫گرا ہوں شجر سے ُاڑا چاہتا ہوں ‪49........................................‬‬
‫ِ‬
‫لمحے بوجھل قدموں‪ ،‬ٹھٹھرے سالوں جیسے ‪50.........................‬‬
‫مجھ سے کشیدہ رو ہیں کیونکر میرے ہنر کے لوگ ‪52...................‬‬
‫ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گل مجھے ‪54..............................‬‬
‫ب انسانی سے نیچے اترے کون‪56....................................‬‬
‫منص ِ‬
‫نہیں کہ تجھ سے وفا کا ہمیں خیال نہ تھا‪57................................‬‬
‫سرخوشی َاوج پر دیکھنا‪58............................................‬‬
‫نشۂ َ‬
‫نشۂ بے حسی تھی کہ نا آگہی لوگ سوئے ملے‪59.........................‬‬
‫ت ِتیرہ شبی ‪ ،‬تنہا روی ہے اور ہم ‪60................................‬‬
‫وسع ِ‬
‫وراثت میں ِانہیں ملنے لگیں عّیاریاں کیا کیا‪60...........................‬‬
‫وہ کہ لمس میں تھا حریر‪ ،‬رنگ میں نار سا‪62...........................‬‬
‫وقت کی شاخ پر پات پیل پڑا اور میں کھو گیا ‪63......................‬‬
‫سیدھا کریں ‪64..................‬‬
‫وہ کمانڈو بھی تو ہوں ایسوں کو جو ِ‬
‫ہوتا ہے ایسے ربط سے جی کا زیاں الگ‪64...............................‬‬
‫ہم پہ کرم فرمانے آئے‪65......................................................‬‬
‫بی ُہوا ماں باپ کے آزار میں ‪66................................‬‬
‫یہ اضافہ ھ‬
‫یوں لوگ اب کے جادۂ گرگاں سے ہٹ گئے ‪68............................‬‬
‫سوجھتا‪ ،‬آزار کہاں ہے‬
‫آنکھوں کو نہیں ُ‬
‫احساس کے تلوے میں چھپا خار کہاں ہے‬
‫جو جھاگ سا ُاٹھا تھا کبھی اپنے سروں سے‬
‫اب دیکھیے وہ طرۂ پندار کہاں ہے‬
‫ہلچل سی مچا دیتا تھا جو کاسۂ خوں میں‬
‫ن جاں تھا وہ مرا یار کہاں ہے‬
‫جو دشم ِ‬
‫شعلہ تو کہاں کا کہ د ُھواں تک نہیں دیکھا‬
‫س لب ہے جو وہ نار کہاں ہے‬
‫موجود پ ِ‬
‫تہہ دار ہے‪ُ ،‬الجھاؤ نہیں ُاس کے سخن میں‬
‫ماجد کا لکھا ایسا ُپر اسرار کہاں ہے‬

‫٭٭٭‬
‫اب کی بہار بھی چلتے دیکھا زور چمن پہ وہ ژالوں کا‬
‫دھجی دھجی برگ و شجر ہیں‪ ،‬حال ُبرا ہے نہالوں کا‬
‫جبر کے ہاتھوں جسم تلک وہ سادہ منش کٹوا بیٹھے‬
‫تیغ زنی سے بھی کچھ بڑھ کر زعم جنہیں تھا ڈھالوں کا‬
‫دشت و دمن میں ایسا تو دہلتی چپ کا راج نہ تھا‬
‫لفظ و معانی تک پہ گماں ہے ٹھٹھکے ہوئے غزالوں کا‬
‫ِاتنے چلے پر بھی نہیں پہنچے جس کی خنک فضاؤں میں‬
‫ُاس بگیا تک اور سفر ہے جانے کتنے سالوں کا‬
‫ماجد اب د ُّروں کی جگہ وہ ہاتھ میں پرچم رکھتے ہیں‬
‫دھندا راس جنہیں آیا جسموں سے اتری کھالوں کا‬

‫٭٭٭‬
‫اب کے چلن ہوا کا غضب اور ڈھائے گا‬
‫موسم جو آئے گا وہ قیامت کا آئے گا‬
‫جو لٹ چکے ہیں اشک سمیٹے گا ُان کے اور‬
‫رہبر ُانہی سے دیکھنا! گوہر بنائے گا‬
‫ظ ذات میں‬
‫وہ ناخدا کہ طاق ہے جو حف ِ‬
‫ڈولی ذرا جو ناؤ تو خود ُ‬
‫کود جائے گا‬
‫جو لفظ ُاس کے عجز کے باعث سبک ہوئے‬

‫مختار کیا بھل ُانہیں ُ‬


‫حرمت دلئے گا‬
‫بینا ہیں جو ُانہیں بھی‪ ،‬مسیحائے نابکار‬
‫لگتا ہے یوں‪ ،‬سفید چھڑی دے کے جائے گا‬
‫ماجد شکارِ خبث ہے جو‪ُ ،‬تو بھل ُاسے‬
‫سدھائے گا‬
‫ف زبان و لب سے کہاں تک ِ‬
‫لط ِ‬
‫٭٭٭‬

‫اب کے یہ کیا حشر اٹھا ہے شہروں میں‬


‫سورج نیزوں پر ُاترا ہے شہروں میں‬
‫سو فکرِ معاش میں ِاک ب ِھّناہٹ سی‬
‫ہر ُ‬
‫جز ِاس کے کیا اور دھرا ہے شہروں میں‬
‫ُ‬
‫جانے کب جسموں میں دانت ُاتر جائیں‬
‫جنگل ہی سا‪ ،‬اب کھٹکا ہے شہروں میں‬
‫کھو کر گاؤں میں اخلص نگینوں سا‬
‫تو کیا ماجد ڈھونڈ رہا ہے شہروں میں‬
‫٭٭٭‬
‫بے سمت سب علج مسیحا کہاں ملے‬
‫چھا کہاں ملے‬
‫ن راہ میں کوئی ا ّ‬
‫خضرا ِ‬
‫گدھ کی نظر سے جب ہوں معالج بھی دیکھتے‬
‫ِ‬
‫چور تن کو مداوا کہاں ملے‬
‫زخموں سے ُ‬
‫ُاجڑے شجر پہ فاختہ پوچھے کہ امن کا‬
‫گوشہ کہاں ملے‪ُ ،‬اسے سایہ کہاں ملے‬
‫زیرِ قدم ہے جو بھی وہ ہے بخت کی لکیر‬
‫سیدھا ہو مانگ سا جو وہ رستا کہاں ملے‬
‫ملتا تو ہے سکوں بھی مگر ناپ تول سے‬
‫جو چاہتا ہے ِدل ُاسے ُاتنا کہاں ملے‬
‫ہر آنکھ میں جہاں ہو رعونت پئے مریض‬
‫ہونٹوں کے درمیاں ُاسے ُپرسا کہاں ملے‬
‫ماجدؔ غضب بھی جس میں تّلطف بھی جس میں ہو‬
‫تجھ کو عطا ہے جو سخن ایسا کہاں ملے‬
‫٭٭٭‬

‫ب آشکار کے دن‬
‫پڑے ہیں دیکھنے کیا کر ِ‬
‫ل عمر کے دن‪ُ ،‬ٹوٹتے خمار کے دن‬
‫زوا ِ‬
‫ف لمحۂ گزراں‬
‫بنام ِ کم نظراں‪ ،‬لط ِ‬
‫ہمارے نام نئی ُرت کے انتظار کے دن‬
‫بدن سے گرد ِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھی‬
‫لپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دن‬
‫طویل ہوں بھی تو آخر کو مختصر ٹھہریں‬
‫چمن پہ رنگ پہ‪ ،‬خوشبو پہ اختیار کے دن‬
‫نئے دنوں میں وہ پہل سا رس نہیں شاید‬
‫کہ یاد آنے لگے ہیں گئی بہار کے دن‬
‫فلک کی اوس سے ہوں گے نم آشنا کیسے‬
‫زمین پر جو دھوئیں کے ہیں اور غبار کے دن‬
‫یہ وقت بٹنے لگا ناپ تول میں کیونکر‬
‫یہ کس طرح کے ہیں ماجدؔ گ َِنت ُ‬
‫شمار کے دن‬

‫٭٭٭‬

‫تھے جتنے ذائقے وہ اپنا لطف کھونے لگے‬


‫شجر پہ پات تھے جتنے ‪ ،‬وہ زرد ہونے لگے‬
‫وہی جو کھینچ کے لئے تھے کشتیوں سے ہمیں‬
‫بھنور کے بیچ وہ ناؤ ہیں اب ڈبونے لگے‬
‫کٹے ہیں جن کے بھی رشتے‪ ،‬کہ تھے جو جزوِ بدن‬
‫سکوں کی نیند بھل‪ ،‬وہ کہاں ہیں سونے لگے‬
‫ہیں جتنے دل بھی غرض کی تپش سے بنجر ہیں‬
‫یہ ہم کہاں ہیں محبت کے بیج بونے لگے‬
‫س دم سے ہو آزاد‬
‫یہ واقعہ ہے کہ وہ حب ِ‬
‫ل کرب کوئی‪ ،‬جب بھی ک ُھل کے رونے لگے‬
‫بحا ِ‬
‫ق خلق سے وُہ‬
‫ل رز ِ‬
‫ملے جو شاہ بھی ‪ ،‬تقلی ِ‬
‫رگوں میں جبر کے نشتر نئے چبھونے لگے‬
‫ترے یہ حرف کہ جگنو ہیں ‪ ،‬ا شک ہیں ماجد‬
‫ہیں سانس سانس میں‪ ،‬کیا کیا گہر پرونے لگے‬
‫٭٭٭‬

‫ک ستم گار نہیں تھے‬


‫مل ِ‬
‫ٹھہرے جو بھسم ‪ِ ،‬‬
‫ِانساں تھے ‪ ،‬سرِ کوہ کے اشجار نہیں تھے‬
‫اب کے بھی پرندے وُہی ‪ ،‬ژالوں میں سڑے ہیں‬
‫جو ابر کی خصلت سے خبردار نہیں تھے‬
‫الزام محافظ پہ بھی تھا کچھ تو ‪ ،‬نقب کا‬
‫افراد اگر شہر کے بیدار نہیں تھے‬
‫رکھتے تھے مہک پاس جو ماجد کے ہنر کی‬
‫جھونکے تھے ‪ ،‬کچھ ُاس کے وہ طرفدار نہیں تھے‬

‫٭٭٭‬
‫جس انداز کا تھا اس سے منسوب سلوک ایسا ہی کیا‬
‫وقت نے ماجد چوس کے رس‪ِ ،‬اک سمت ہمیں بھی‪ ،‬پھینک دیا‬
‫سقراطوں سا سچ کہنے اور ُاس پر قائم رہنے پر‬
‫اے دوراں! پہچان ہمیں‪ ،‬ہم وہ ہیں‪ ،‬جنہوں نے زہر پیا‬
‫اے دل! اب یہ تلخ حقیقت‪ ،‬جان بھی لے اور مان بھی لے‬

‫جس بھی کسی نے وار کیا‪ ،‬کب ُاس نے‪ ،‬دہا ِ‬


‫ن زخم سیا‬
‫ان میں یار اغیار تھے کون‪ ،‬اور رہنما و مسیحا کون‬
‫کیا بتلئیں‪ِ ،‬اس دل سے‪ ،‬کس کس نے‪ ،‬کیا کیا چھین لیا‬
‫ب درد نہیں‪ ،‬جو جان بہ لب ہیں یہاں‬
‫میں‪ ،‬وہ صاح ِ‬
‫ایک ہ ِ‬
‫جیا‬
‫جیا ِاس قریۂ نا پرساں میں‪ ،‬بڑی مشکل سے ِ‬
‫جو بھی ِ‬

‫٭٭٭‬
‫جو حق میں تمہارے بند رہیں وہ لب گنجینۂ زر کر دو‬
‫اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو‬
‫جو سادہ منش ہیں ان سب کو تم دین کے نام پہ دھوکا دو‬
‫جو کھولے ڈھول کا پول ُاسے اسلم آباد بدر کر دو‬
‫جو رات وطن پر چھائی ہے تم سب کے بھاگ جگانے کو‬

‫کچھ جگنو چھوڑ کے وعدوں کے ُاس میں اعل ِ‬


‫ن سحر کر دو‬
‫جو کھیت ترستے ہیں نم کو ُان کھیتوں کے ِاک کونے کو‬
‫ف تشیہرِ ُہنر کر دو‬
‫فت کے عرق سے تر کر کے وق ِ‬
‫خ ّ‬
‫ِ‬
‫جو ہاتھ ُاٹھیں وہ کٹ جائیں جو آنکھ اٹھے وہ پھوٹ بہے‬
‫ہر چلتی سانس کچلنے کو پیمانۂ فتح و ظفر کر دو‬
‫ہاں پیڑ پہ بیٹھی چڑیوں پر‪ ،‬کاہے کو کرو تم وار بھل‬
‫ہاں ان کا شور دبانے کو شاہو! تو بِیخ شجر کر دو‬
‫٭٭٭‬
‫جو آنکھیں دیکھتی ہوں د ُھند کے ُاس پار‪ ،‬کم کم ہیں‬
‫ل نظر تو ہیں بہت‪ ،‬بیدار کم کم ہیں‬
‫یہاں اہ ِ‬
‫بھسم کرنے کو آہن‪ ،‬کام میں لیا گیا کیا کیا‬
‫فلحت اور زراعت کے مگر اوزار کم کم ہیں‬
‫ص خوش خصالں ہم‬
‫ل حر ِ‬
‫سمجھ بیٹھے ہیں جب سے اص ِ‬
‫ت حالت سے بے زار کم کم ہیں‬
‫کسی بھی صور ِ‬
‫شکم جب سے بھرا رہنے لگا ہے چ ِھینا جھپٹی سے‬
‫وہ کہتے ہیں یہی ‪ ،‬نگری میں اب نادار کم کم ہیں‬
‫جد فراواں ہے‬
‫فروِغ تیرگی بھی دم بہ دم ما ِ‬
‫نگر میں جگنوؤں کے پاس بھی انوار کم کم ہیں‬

‫٭٭٭‬
‫جب سے اندر سے ِبکے اخبار میرے شہر کے‬
‫ل دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے‬
‫َانٹیوں کے مول ِبکتے ہیں کئی یوسف یہاں‬
‫مصر کے بازار ہیں بازار‪ ،‬میرے شہر کے‬
‫ُلوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی ُپونحیاں‬
‫مل لئے انوار‪ ،‬میرے شہر کے‬
‫چہرہ چہرہ َ‬
‫جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں‬
‫دیکھیے تو فرد ہیں تہوار‪ ،‬میرے شہر کے‬
‫فن چار سو‬ ‫کو بہ ُ‬
‫کو پسماندگی کا ہے تع ّ‬ ‫ُ‬

‫اور بہت ذی شان ہیں دربار‪ ،‬میرے شہر کے‬


‫چوس لینے پر نم ِ زر‪ ،‬جس کسی کے پاس ہے‬
‫کر چکے ایکا سبھی زر دار‪ ،‬میرے شہر کے‬
‫مکر کیا کیا لوریاں ماجد ُانہیں دینے لگا‬
‫ملے بیدار‪ ،‬میرے شہر کے‬
‫لوگ جتنے بھی ِ‬
‫٭٭٭‬
‫چمن پہ ہے تو بس ِاتنا سا اختیار ہمیں‬
‫کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں‬
‫مچلتی ُلو کا فلک سے برستے ژالوں کا‬
‫نہ جانے کون سا موسم ہو ساز گار ہمیں‬
‫ہر ِاک قدم پہ وہی تجربہ سکندر سا‬
‫کسی بھی خضر پہ کیا آئے اعتبار ہمیں‬
‫ذرا سا سر جو اٹھا بھی تو سیل آلے گا‬
‫سنائے جو‪ِ ،‬انکسار ہمیں‬
‫یہی خبر ہے ُ‬
‫مہک تلک نہ ہماری کسی پہ ک ُھلنے دے‬
‫ت درباں نے یوں شکار ہمیں‬
‫کیا سیاس ِ‬
‫ِ‬
‫جو نقش چھوڑ چلے ہم ُانہی کے ناطے سے‬
‫عزیز‪ ،‬جان سے جانیں گے تاجدار ہمیں‬
‫بپا جو ہو بھی تو ہو بعد ِ زندگی ماجد‬
‫یہ حشر کیا ہے جلئے جو‪ ،‬بار بار ہمیں‬

‫٭٭٭‬

‫چہرۂ سرو قداں پر داِغ ندامت ٹھہرے‬

‫ب قامت ٹھہرے‬
‫َبونے بانس لگا کر صاح ِ‬
‫ُاس کے لیے جو خود شامت ہے بستی بھر کی‬
‫ت شامت ٹھہرے‬
‫جانے کونسی ساعت‪ ،‬ساع ِ‬
‫جس کے طلوع پہ خود سورج بھی شرمندہ ہے‬
‫اور وہ کون سا دن ہو گا جو قیامت ٹھہرے‬
‫ل نشیمن کو آندھی سے طلب ہے بس اتنی‬
‫اہ ِ‬
‫پیڑ اکھڑ جائے پر شاخ سلمت ٹھہرے‬
‫کون یزید کی بیعت سے منہ پھیر دکھائے‬
‫کون حسین ہو‪ ،‬دائم جس کی امامت ٹھہرے‬
‫خائف ہیں فرعون عصائے قلم سے تیرے‬
‫اور بھل ماجد کیا تیری کرامت ٹھہرے‬
‫٭٭٭‬
‫حرص و نخوت کے اندھے نگر میں باپ ہیں جو جواں بیٹیوں کے‬
‫کس زباں سے کسی سے کہیں وہ ہیں مسافر وہ کن دلدلوں کے‬
‫س زمیں نے‬
‫شاخچوں کا جو اندوختہ تھا رس وہ چوسا ہے حب ِ‬
‫دھوپ ابکے چھتوں پر وہ ُاتری پھول کمل گئے آنگنوں کے‬
‫خون میں خوف کی آہٹیں ہیں جسم در جسم کھولہٹیں ہیں‬
‫ایک ہلچل سی اعصاب میں ہے ذہن مرکز ہیں یوں زلزلوں کے‬
‫شہرِ خفتہ کی گدلی فضا میں جانے کیا کیا دکھائی دیے ہیں‬
‫چشم ِ بیدار میں چبھنے والے ُتند کنکر نئے رتجگوں کے‬
‫ت تاریک میں ہے جیسے بھٹکا ہوا شاہزادہ‬
‫زندگی دش ِ‬
‫جس کے ہر ُ‬
‫کنج میں ایستادہ دیو ہیں نو بہ نو الجھنوں کے‬
‫وہ خودی ہو کہ خود انحصاری محض خوش فہمیاں ہیں کہ ہم نے‬
‫ہاتھ مصروف دیکھے ہیں جو بھی ُان میں پائے تھے بیساکھیوں کے‬
‫ن فردوس پر بھی جیسے دوزخ کے در ک ُھل چلے ہوں‬
‫ِان مکینا ِ‬
‫چے پھلوں کے‬
‫ِدن ُبرے آنے والے ہیں ماجد باغ میں سارے ک ّ‬
‫٭٭٭‬

‫حق طلبی سے اب کے دھیان ہٹانے لگے ہیں‬


‫لوگ تماشا بننے سے کترانے لگے ہیں‬
‫نرم ہوا کانٹوں سے الجھنا سیکھ رہی ہے‬
‫اور بگولے پھولوں کو سہلنے لگے ہیں‬
‫ت شر کو دیکھ کے جو ابلیس نے پائی‬
‫مہل ِ‬
‫صے ہیں افسانے لگے ہیں‬
‫خیر کے جتنے ق ّ‬
‫ی فرق کی خاطر‬
‫ب قامت‪ ،‬اور بلند ِ‬
‫صاح ِ‬
‫سب کوتاہ قدوں کو پاس بلنے لگے ہیں‬
‫ی رنگ پہ شور مچانے والے پت ّے‬
‫زرد ِ‬
‫ابر کے ہاتھوں ماجد خوب ٹھکانے لگے ہیں‬

‫٭٭٭‬
‫خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا‬
‫پر ش ِہ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا‬
‫رزق نے جس کے مجھے پال ہے جس کا رزق ہوں‬
‫گ جاں کہہ دیا‬
‫کہہ دیا اس خاک کو میں نے ر ِ‬
‫ِاس تمّنا پر کہ ہاتھ آ جائے نخلستاں کوئی‬
‫خود غرض نے دیکھ صحرا کو گلستاں کہہ دیا‬
‫ن شاہ وہ بھی تھے جنہوں نے آز میں‬
‫ہمزبا ِ‬
‫ف پریشاں کہہ دیا‬
‫رات تک کو‪ ،‬یار کی زل ِ‬
‫خو جس نے دو ٹانگوں پہ چلتا دیکھ کر‬
‫میں وہ خوش ُ‬
‫شہر کے بن مانسوں تک کو بھی انساں کہہ دیا‬
‫کیا کہوں کیوں میں نے سادہ لوح چڑیوں کی طرح‬
‫ح درخشاں کہہ دیا‬
‫وقفۂ شب کو بھی تھا صب ِ‬
‫عجلت میں ہوئی‬
‫اس کے ناطے‪ ،‬درگزر جو محض ُ‬
‫گرگ کو بھی بھیڑ نے ماجدؔ پشیماں کہہ دیا‬
‫٭٭٭‬

‫ن مظلوماں سے ہیں شاداب ہونے لگ پڑیں‬


‫خو ِ‬
‫ابکے ُیوں بھی کھیتیاں سیراب ہونے لگ پڑیں‬
‫ن تخت کی خود ساختہ آفات سے‬
‫غاصبا ِ‬
‫جانے کیا کیا ہستیاں‪ ،‬غرقاب ہونے لگ پڑیں‬
‫حق طلب ہیں جس قدر خاموش رکھنے کو ُانہیں‬
‫اجتماع گاہیں تلک برقاب ہونے لگ پڑیں‬
‫دبر کی ت ِہ شیریں لئے‬
‫حرص زادوں کےت ّ‬
‫ل آداب ہونے لگ پڑیں‬
‫گالیاں بھی شام ِ‬
‫جب سے ماجدؔ مکر کا غلبہمناصب پر ُہوا‬
‫دیکھ کیا کیا حرمتیں بے آب ہونے لگ پڑیں‬

‫٭٭٭‬
‫ق جور بن جانے لگا‬
‫ت شفقت کیوں بہ ح ِ‬
‫دس ِ‬
‫آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا‬
‫کھیت جلنے پر بڑھا کر عمر‪ ،‬اپنے سود کی‬
‫کس طرح بنیا‪ ،‬کسانوں کو ہے بہلنے لگا‬
‫جانے کیا طغیانیاں کرنے لگیں گھیرے درست‬
‫گھونسلوں تک میں بھی جن کا خوف دہلنے لگا‬
‫خون کس نے خاک پر چھڑکا تھا جس کی یاد میں‬
‫ِاک پھریرا سا فضاؤں میں ہے لہرانے لگا‬
‫گ گل کو ڈال کر‬
‫مہد میں مٹی کے جھونکا بر ِ‬
‫کس صفائی سے ُاسے رہ رہ کے سہلنے لگا‬

‫٭٭٭‬
‫دم ِ زوال ‪ ،‬رعونت زباں پہ لئے بہت‬
‫چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت‬
‫سورج کا ِاک کرشمہ ہے‬
‫یی تو ُڈوبتے ُ‬
‫ہ‬
‫ت کوتاہ تک کے‪ ،‬سائے بہت‬
‫بڑھائے قام ِ‬
‫قلم کے چاک سے پھوٹے وہ‪ ،‬مثل بیلوں کے‬
‫جو لفظ ہم نے زباں کے تلے دبائے بہت‬
‫ستم ستم ہے کوئی جان دار ہو ُاس کو‬
‫نگل کے آب بھی ِاک بار تھرتھرائے بہت‬
‫ہمارے گھر ہی ُاترتی نہ کیوں سحر ماجد‬
‫میں تھے جو کلبلئے بہت‬
‫تمام رات ہ ِ‬

‫٭٭٭‬
‫دوسروں کے واسطے جیا تھا مر گیا‬
‫وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا‬
‫جگنوؤں تلک کی روشنی لگے فریب‬
‫رہبروں سے ُہوں کچھ ِاس طرح کا ڈر گیا‬
‫ناز تھا کہ ہم سفیرِ انقلب ہیں‬
‫پر یہ زعم بھی نشہ سا تھا ُاتر گیا‬
‫خانۂ خدا سے ُبت جہاں جہاں گئے‬
‫بار بار میں نجانے کیوں ُادھر گیا‬
‫پاؤں کے تلے کی خاک نے نگل لیا‬
‫میں تو تھا کنارِ آب باخبر گیا‬
‫لعل تھا اٹا تھا گرد سے‪ ،‬پہ جب د ُھل‬
‫ماجد ِ حزیں کچھ اور بھی نکھر گیا‬

‫٭٭٭‬

‫دھڑکتی گونجتی ِاک خامشی سی شہر میں ہے‬


‫س خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے‬
‫پ ِ‬
‫لب و زباں پہ نہیں ہے‪ ،‬نظر نظر میں تو ہے‬
‫کوئی تو بات ہے جو َان کہی سی شہر میں ہے‬
‫چھپا سکے نہ جسے کوئی بھی ا َپ َھل جوڑا‬
‫کچھ ِاس طرح کی حزیں بیدلی سی شہر میں ہے‬
‫ن رم خوردہ‬
‫جھٹک رہے ہوں جسے آہوا ِ‬
‫وفورِ خوف میں وہ کھلبلی سی شہر میں ہے‬
‫ُہوا جو ُاس کی خبر بھی ہے اور خبر بھی نہیں‬
‫سو یہی ناآگہی سی شہر میں ہے‬
‫چہار ُ‬
‫دہک رہے ہیں گلبوں سے بام و در ماجد‬
‫جو آنچ میں ہو وہی تازگی سی شہر میں ہے‬
‫٭٭٭‬
‫ذّروں سے پہچان ہےضو کی‪ ،‬ما ِہ مبیں کوئی اور‬
‫ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور‬
‫بال یہ ُپوچھے منکرِ یزداں ہیں جو ہیں اور کثیر‬
‫س بریں کوئی اور‬ ‫ُ‬
‫انکے نصیبوں میں بھی ہے کیا فردو ِ‬
‫آتی جاتی سانسوں کا بھی رکھ نہ سکیں جو حساب‬
‫میں اپنے ہیں ‪،‬نہیں کوئی اور‬
‫دشمن ہیں تو ایک ہ ِ‬
‫چاند کو بس گھٹتا ہی دیکھیں اور رہیں رنجور‬
‫ِاس دنیا میں شاید ہی ہو ہم سا حزیں کوئی اور‬
‫دل جس کو دینا تھا دیا اور اب ہے کہاں یہ تاب‬
‫دل کی لگن میں دیکھ لیا ہے جیسے حسیں کوئی اور‬
‫ن محض‬ ‫ؔ‬
‫ماجد تھا گما ِ‬ ‫ہم ذی جوہر ہیں‪ ،‬یہ گماں‬
‫اوج کی انگوٹھی میں سجا ہے دیکھ! نگیں کوئی اور‬
‫٭٭٭‬

‫ر ِہ سفر میں ہوئیں ہم پہ سختیاں کیا کیا‬


‫کیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا‬
‫ِ‬
‫نہ احتساب ہی بس میں‪ ،‬نہ احتجاج ُان کے‬
‫عوام اپنے یہاں کے ہیں بے زباں کیا کیا‬
‫ل مشرق کو‬
‫فساد و فتنہ و شر کے ہم اہ ِ‬
‫ِدکھا رہا ہے نئے رنگ آسماں کیا کیا‬
‫وہ جسکے ہاتھ میں کرتب ہیں ُاس کی چالوں سے‬
‫لٹیں گے اور بھی ہم ایسے خوش گماں کیا کیا‬
‫ہم ایسے اڑتے پرندوں کو کیا خبر ماج ؔد‬
‫دکھائے اور ہنر حرص کی کماں کیا کیا‬
‫٭٭٭‬
‫ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو‬
‫رگوں سے شہر کی‪ ،‬فاسد لہو نکلنے دو‬
‫جو ُان کے جسم پہ سج بھی سکے مہک بھی سکے‬
‫ُرتوں کو ایسا لبادہ کوئی بدلنے دو‬
‫کسی بھی بام پہ اب َلو کسی دئیے کی نہیں‬
‫چراِغ چشم بچا ہے اسے تو جلنے دو‬
‫بچے گا خیر سے شہ رگ کٹے پہ بسمل کیا‬
‫ذرا سی ڈھیل ِاسے دو‪ِ ،‬اسے ُاچھلنے دو‬
‫چلن حیات کا ماجدؔ بدل بھی لو اپنا‬
‫جو سر سے ٹلنے لگی ہے بل وہ ٹلنے دو‬
‫٭٭٭‬
‫رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار‬
‫ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار‬
‫کوئی منزل ہو ٹھہرتی ہے وہ کیوں مل کر سراب‬
‫ہر مسافر کو ہے کیوں تازہ سفر کا انتظار‬
‫رزق تک بھی روٹھنے کو جیسے ہم ایسوں سے ہے‬
‫جو بھی ہے کھلیان ُاس کو ہے شرر کا انتظار‬
‫ش اظہارِ حق سے کب بہم ہو گا ِانہیں‬
‫کاو ِ‬
‫اہِلفن کو جانے کیوں ہے سیم و زر کا انتظار‬
‫تشنہ لب خوشوں کی آنکھیں بوندیوں پر ہیں لگی‬
‫وج ہے قمر کا انتظار‬
‫بحر کو بہرِ تم ّ‬
‫سورج اپنے پہلو میں لیے‬
‫اک سے اک بے جان ُ‬
‫ہر سحر سونپے ہمیں‪ ،‬اگلی سحر کا انتظار‬
‫کرب کے آنسو طرب کے آنسوؤں میں کب ڈھلیں‬
‫آنکھ کو ماجدؔ ہے کیوں پھر بھی گہر کا انتظار‬
‫٭٭٭‬
‫زچ ہوئے پر جو ذرا سا تھا بدل جانے لگا‬
‫وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا‬
‫سحر سے‬
‫بچ کے پچھلے دشت میں نکلے تھے جس کے ِ‬
‫پھر نگاہوں میں وہی اژدر ہے لہرانے لگا‬
‫ط سرد مہری منجمد‬
‫کر کے بوندوں کو بہ فر ِ‬
‫دیکھ لو نیل گگن پھر زہر برسانے لگا‬
‫جود جتلنے کو اپنی شاہ ہنگام ِ سخا‬
‫ُ‬
‫عیب کیا کیا کچھ نہ ناداروں کے ِدکھلنے لگا‬
‫سرخُرو اس نے بھی زورآور کو ہی ٹھہرا دیا‬
‫ُ‬
‫ظ منصب کو ستم عادل بھی یہ ڈھانے لگا‬
‫حف ِ‬
‫دل میں تھا ماجدؔ جو سارے دیوتاؤں کے خلف‬
‫ف احتجاج آنے لگا‬
‫اب زباں پر بھی وہ حر ِ‬
‫٭٭٭‬

‫سانس روکے کھڑے ہیں شجر دیکھنا‬


‫حبس پہنچا ہے کس َاوج پر دیکھنا‬
‫خرمنوں میں ہوئیں جن کی بیجائیاں‬
‫پھولنے کو ہیں اب وہ شرر دیکھنا‬
‫ت بارود سے‬
‫لیس کر کے ہمیں رخ ِ‬
‫بھیجتا ہے کدھر؟ رہبر دیکھنا‬
‫کھور ہی دے بدن کو نہ آنکھوں کی نم‬
‫دیکھنا ماجد ِ بے خبر دیکھنا‬
‫٭٭٭‬
‫سجل حویلیوں کی ‪ ،‬بام و در کی بات اور ہے‬
‫جہاں کے ہم مکیں ہیں‪ُ ،‬اس نگر کی بات اور ہے‬
‫محال ہو گیا ہے‪ ،‬د ُھند سے جسے نکالنا‬
‫چمن میں آرزو کے ُاس شجر کی‪ ،‬بات اور ہے‬
‫صدف سے چشم ِ تر کے‪ ،‬دفعتا ً ٹپک پڑا ہے جو‬
‫گراں بہا نہیں ‪ ،‬پہ ُاس گہر کی بات اور ہے‬
‫ُہوئی ہے روشنی سی‪ ،‬جگنوؤں کے اجتماع سے‬
‫لگی نہیں جو ہاتھ‪ُ ،‬اس سحر کی بات اور ہے‬
‫کوئی کوئی ہے شہر بھر میں‪ ،‬تجھ سا ماجد ِ حزیں‬
‫ُہوا جو تجھ پہ ختم ‪ُ ،‬اس ہنر کی بات اور ہے‬

‫٭٭٭‬
‫سر اداسی کے بکھیریں سانس کی شہنائیاں‬
‫ُ‬
‫جبر نے بخشی ہمیں کیا گونجتی تنہائیاں‬
‫منتظر رہ رہ کے آنکھیں ِاس قدر دھندل گئیں‬
‫ق روز و شب تلک جانیں نہ اب بینائیاں‬
‫فر ِ‬
‫رنگ پھیکے پڑ گئے کیا کیا ُرتوں کے پھیر سے‬
‫گردشوں سے صورتیں کیا کیا نہیں گہنائیاں‬
‫جاگنے پر‪ ،‬تخت سے جیسے چمٹ کر رہ گئے‬
‫ہاتھ جن کے‪ ،‬سو کے ُاٹھنے پر لگیں دارائیاں‬
‫لے کے پیمانے گلوں کی مسکراہٹ کے ُرتیں‬
‫ناپنے کو آ گئیں پھر درد کی گہرائیاں‬
‫ُاس سے ہم بچھڑے ہیں ماجد ابکے ِاس انداز سے‬
‫پت جھڑوں میں جیسے پتوں کو ملیں ُرسوائیاں‬

‫٭٭٭‬
‫شاخ پہ پھول ک ِھل دیکھا ہے‬
‫آگے انت ُاس کا دیکھا ہے‬
‫زور رہا جب تک سینے میں‬
‫تھا نہ روا جو‪ ،‬روا دیکھا ہے‬
‫فریادی ہی رہا وہ ہمیشہ‬
‫جو بھی ہاتھ ُاٹھا دیکھا ہے‬
‫ہم نے کہ شاکی‪ ،‬خلق سے تھے جو‬
‫ک خدا دیکھا ہے‬
‫اب کے سلو ِ‬
‫سنگدلوں نے کمزوروں سے‬
‫کیا ‪ ،‬دیکھا ہے‬
‫جو بھی کہا ‪ ،‬وُہ ِ‬
‫جس سے کہو‪ ،‬کہتا ہے وُہی یہ‬
‫کر کے ب َھل بھی ‪ُ ،‬برا دیکھا ہے‬
‫اور نجانے کیا کیا دیکھے‬
‫ماجد نے ‪ ،‬کیا کیا دیکھا ہے‬
‫٭٭٭‬

‫شاخیں یہی کہتی ہیں‪ ،‬نہ بے دم ہمیں دیکھا‬


‫سورج نے ک ُھلی آنکھ سے ہے کم ہمیں دیکھا‬
‫ژالوں سے بچے ہیں تو ہوا نوچنے آئی‬
‫ِاس خاک نے ہر حال میں برہم ہمیں دیکھا‬
‫ہر دیکھنے والے نے دھند لکوں میں حسد کے‬
‫ب سرِ صبح سا‪ ،‬مد ّھم ہمیں دیکھا‬
‫مہتا ِ‬
‫ب جو کی‬
‫ماجد ہوئے ہم اوس ‪ ،‬گیا ِہ ل ِ‬
‫ہر شخص نے ندیا ہی میں مدغم ہمیں دیکھا‬

‫٭٭٭‬
‫شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلب‬
‫چڑا رہے ہیں مرا منہ‪ ،‬مرے سخن کے گلب‬
‫ِ‬
‫ت شہر کی پژمردگی وہ کیا جانے‬
‫بنا ِ‬
‫بہم ہر آن جسے ہوں‪ ،‬بدن بدن کے گلب‬
‫ملے نہ جس کا کہیں بھی ضمیر سے رشتہ‬
‫گراں بہا ہیں ُاسی فکرِ پر فتن کے گلب‬
‫سخن میں جس کے بھی ُامڈی ریا کی صّناعی‬
‫ہر ایک سمت سے برسے ُاسی پہ د َھن کے گلب‬
‫یہاں جو قصر نشیں ہے‪ ،‬یہ جان لے کہ ُاسے‬
‫نظر نہ آئیں گے ماجد‪ ،‬تجھ ایسے بن کے گلب‬

‫٭٭٭‬
‫عہد یہی اب ِانسانوں نے ٹھہرانا ہے‬
‫کس نے کس کو کتنا نیچا ِدکھلنا ہے‬
‫چڑیوں نے ہے اپنی جان چھپائے پھرنا‬
‫شہبازوں نے اپنی دھونس پہ ِاترانا ہے‬
‫دھوپ کے ہاتھوں ِان سے اوس کی نم چھننے پر‬
‫گرد نے پھولوں کو سہلنے آ جانا ہے‬
‫ج ضیا ہے‬
‫سورج کے ہوتے‪ ،‬جب تک محتا ِ‬
‫چاند نے گھٹنا بڑھنا ہے اور گہنانا ہے‬
‫ب تشنہ لباں پھر بڑھنے لگا مشکیزہ‬
‫جان ِ‬
‫جس پر تیر نیا پھر برسانا ہے‬
‫جبر نے ِ‬
‫عاجز ہم اور قادر اور کوئی ہے ماجد‬
‫جیون بھر بس درس یہی ِاک دہرانا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫فرق نہ سمجھیں کچھ د ُھتکارے جانے میں‬
‫جتے دیکھے‪ ،‬پس خوردہ کھانے میں‬
‫زاغ ُ‬
‫ل ضعف بھی ہے مسرور لگا‬
‫پیڑ بحا ِ‬
‫خشک زبانوں کے پرچم لہرانے میں‬
‫پر ُٹوٹے اور ساتھ ہوا نے چھوڑ دیا‬
‫سطر بڑھا دو یہ بھی اب افسانے میں‬
‫لو اس کو بھی تکڑی تول جو رکھتا تھا‬
‫وقت نے دیر نہ کی عادل ٹھہرانے میں‬
‫اپنی جگہ امید سے پیروکار سبھی‬
‫رہبر محو ہے ماجد‪ ،‬مال بنانے میں‬

‫٭٭٭‬

‫دوں کرنا پڑا‬


‫کیا کہیں کیا کچھ ہمیں دنیائے ُ‬
‫جا بجا تیرے لئے یہ سر‪ ،‬نگوں کرنا پڑا‬
‫ل صفا یہ راز کس پر کھولتے‬
‫ہم کہ تھے اہ ِ‬
‫قافلے کا ساتھ آخر‪ ،‬ترک کیوں‪ ،‬کرنا پڑا‬
‫سر ہم ایسوں سے کہاں ہونا تھا قلعہ جبر کا‬
‫ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا‬
‫خم نہ ہو پایا تو سر ہم نے قلم کروا لیا‬
‫ُووں نہ کچھ ہم سے ُہوا ماجد تو ُیوں کرنا پڑا‬

‫٭٭٭‬
‫کیا کہیں ذی مرتبت کتنے تھے اور کیا ہو گئے‬
‫فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی ُرسوا ہو گئے‬
‫کونپلیں کیا کیا نہیں جھلسی ہیں باد ِ مکر سے‬
‫گلستاں امید کے‪ ،‬کیا کیا نہ صحرا ہو گئے‬
‫جن دنوں کی چاہ میں بے تاب تھی خلقت بہت‬
‫شو مئی قسمت سے وہ دن اور عنقا ہو گئے‬
‫خبث کیا کیا ک ُھل گیا ُان کا بھی جو تھے ذی شرف‬
‫ُ‬
‫نّیتوں کے جانے کیا کیا راز افشا ہو گئے‬
‫دم بخود ٹھہرے ہیں ُان کی پاک دامانی پہ ہم‬
‫قتل کرنے پر بھی جو ماجد مسیحا ہو گئے‬

‫٭٭٭‬
‫کیا کیا خم اور ہوں ابھی بازو کمان کے‬
‫تیور بدل چلے ہیں بہت ‪ ،‬آسمان کے‬
‫جیسے کوئی ُاڑائے کبوتر ‪ ،‬بہ روزِ جشن‬
‫ُپرزے ہوا کے ہاتھ تھے یوں بادبان کے‬
‫بہروپ ہی بھرے گا ‪ ،‬کرم بھی وہ گر کرے‬
‫نکل جو گھر سے ‪ ،‬راہزنی ہی کی ٹھان کے‬
‫ماجد ہمیں بھی ‪ ،‬دیکھیے جھانسہ دیا ہے کیا‬
‫آنچل سا آسمان پہ ‪،‬بدلی نے تان کے‬

‫٭٭٭‬
‫کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے‬
‫دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے‬
‫کس نے کس کی پھر دیوار پھلنگی ہے‬
‫کس کا چین لٹا ہے ِاتنی دیر گئے‬
‫کس کی آنکھ سے آس کا تارا ٹوٹا ہے‬
‫کس پر کون ک ُھل ہے ِاتنی دیر گئے‬
‫دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں‬
‫ہلچل سی یہ کیا ہے ِاتنی دیر گئے‬
‫کن آنکھوں کی نم میں گھلنے آیا ہے‬
‫بادل کیوں برسا ہے ِاتنی دیر گئے‬
‫چے بھی اور جگنو بھی‬
‫سو گئے سارے ب ّ‬
‫پھر کیوں شور بپا ہے ِاتنی دیر گئے‬
‫دیکھ کے ماجدؔ چندا نے بیدار کسے‬
‫آنگن میں جھانکا ہے ِاتنی دیر گئے‬
‫٭٭٭‬

‫کافی ہے یہی‪ ،‬دل کو سزا اور نہ دینا‬


‫ی خواہش کو‪ ،‬ہوا اور نہ دینا‬
‫رسوائ ِ‬
‫پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں‬
‫ج صبا! اور نہ دینا‬
‫گھاؤ کوئی‪ ،‬اے مو ِ‬
‫سحر میں ہم ہیں‬
‫کیا درد بٹاؤ گے کہ جس ِ‬
‫پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا‬
‫صّناع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر‬
‫جل اور نہ دینا‬
‫ِاس چاند سے چہرے کو ِ‬
‫حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی‬
‫ُاس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا‬
‫ہے ِاس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم‬
‫ماجد کو بزرگی کی ِردا اور نہ دینا‬
‫٭٭٭‬
‫کر کے غاصب کو زیر و زبر چھین لے‬
‫تجھ سے چھینے گئے جو گہر‪ ،‬چھین لے‬
‫ناز ہو نن ّھی چڑیوں کے خوں پر جنہیں‬
‫ُان عقابوں سے ُتو بال و پر چھین لے‬
‫جس کی بنیاد تیرے عرق سے اٹھی‬
‫ُاس سپھل پیڑ سے برگ و بر چھین لے‬
‫خو ہو‪ ،‬مگر‬
‫خوئی تلک نرم ُ‬
‫نرم ُ‬
‫ت جارح سے تیغ و تبر چھین لے‬
‫دس ِ‬
‫ت وحشت میں کیا‬
‫حق ملے گا تجھے دش ِ‬
‫چھین لے‪ ،‬چھین سکتا ہے گر‪ ،‬چھین لے‬
‫جس کا حقدار ہے تو وہ تکریم ِ فن‬
‫تو بھی اے ماجد ِ با ہنر! چھین لے‬
‫٭٭٭‬
‫کم نہیں وجدان پر ُاتری ہوئی آیات سے‬
‫شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے‬
‫ہر تمّنا ہے ِاسی کی دھند میں لپٹی ہوئی‬
‫دتوں سے ہے یہی رشتہ اندھیری رات سے‬
‫م ّ‬
‫کر لئے بے ذائقہ وہ دن بھی جو آئے نہیں‬
‫درس کیا لیتے بھل ہم اور جھڑتے پات سے‬
‫بن گئیں پیڑوں کی شاخیں بھی قفس کی تیلیاں‬
‫سامنا ہے باغ میں ایسے ہی کچھ حالت سے‬
‫ن آدم اب کے پھر فرعون ٹھہرا ہے جسے‬
‫اب ِ‬
‫مل گیا زعم ِ خدائی آہنی آلت سے‬
‫٭٭٭‬
‫گیاہ و برگ کو دیں بے زبانیاں کیا کیا‬
‫ملیں َہوا کو ُادھر حکمرانیاں کیا کیا‬
‫بکھر گئی ہیں کسی مور کے پروں کی طرح‬
‫ف گل تھیں نشانیاں کیا کیا‬
‫ن مصح ِ‬
‫درو ِ‬
‫گھرا ہے جا کے جہاں بھی ہجوم ِ طفلں میں‬
‫ق جنوں چھیڑ خانیاں کیا کیا‬
‫ہوئیں بہ ح ِ‬
‫ف فتنہ و شر جب بھی مستعد ٹھہریں‬
‫خل ِ‬
‫الٹ گئی ہیں یہاں راجدھانیاں کیا کیا‬
‫ک خضر ہیں ماجد‬
‫گماں تھا جن پہ کہ وہ رش ِ‬
‫ہمیں ُانہی سے ہوئیں بدگمانیاں کیا کیا‬

‫٭٭٭‬
‫گرا ہوں شجر سے ُاڑا چاہتا ہوں‬
‫ِ‬
‫ف ہوا چاہتا ہوں‬‫پئے رقص‪ ،‬لط ِ‬
‫وہی جو منگیتر سا ہے مجھ سے‪ ،‬مخفی‬
‫وہ منظر‪ ،‬نظر پر ک ُھل چاہتا ہوں‬
‫سبھی ناؤ والے ہیں‪ِ ،‬اک میں نہیں ہوں‬
‫کہ تنکے کا جو‪ ،‬آسرا چاہتا ہوں‬
‫گریزاں ہوں ابنائے قابیل سے میں‬
‫کہ شانوں پہ یہ سر‪ ،‬سجا چاہتا ہوں‬
‫وہی شہ رگوں میں جو پنہاں ہے‪ُ ،‬اس کا‬
‫سرِ ُ‬
‫طور کیوں سامنا چاہتا ہوں‬
‫)ق(‬
‫گوارا ہو بے ناپ خلعت مجھے کیوں‬
‫جو زیبا مجھے ہو قبا چاہتا ہوں‬
‫نہیں چاہتا تاج میں پاپیادہ‬
‫ب انا چاہتا ہوں‬
‫میں توقیر‪ ،‬حس ِ‬
‫لگے جیسے پہرے ہوں ہر اور میری‬
‫ؔ‬
‫ماجد‪ ،‬میں کیا چاہتا ہوں‬ ‫کہوں کس سے‬
‫٭٭٭‬
‫ت دل میں‬
‫گ ِھر گیا ہے سیاس ِ‬
‫ماں! ترا لڈل ہے مشکل میں‬
‫عمر گزری تلش کرتے ہوئے‬
‫روشنی آنسوؤں کی جھلمل میں‬
‫س نصیب دیکھ لیا‬
‫اپنا عک ِ‬
‫چمپئی گال پر سجے ِتل میں‬
‫ظ جاں کو‬
‫ف ِ‬
‫ڈنک مارا تح ّ‬
‫سانپ بزدل تھا گ ُھس گیا ِبل میں‬
‫ہم نے ظالم سے یوں کہی دل کی‬
‫سل میں‬
‫چھید جیسے کرے کوئی ِ‬
‫جانے ماجد کن آنسوؤں سے لگا‬
‫گل میں‬
‫اک کٹاؤ سا جسم کی ِ‬

‫٭٭٭‬

‫لمحے بوجھل قدموں‪ ،‬ٹھٹھرے سالوں جیسے‬


‫کام مرے‪ ،‬کانٹوں میں ُالجھے بالوں جیسے‬
‫مچھلیوں جیسی سادہ منش امیدیں اپنی‬
‫عّیاروں کے ہتھکنڈے ہیں جالوں جیسے‬
‫د ُھند سے کیونکر نکلے پار مسافت ُان کی‬
‫رہبر جنہیں مّیسر ہوں نقالوں جیسے‬
‫اپنے یہاں کے حبس کی بپتا بس اتنی ہے‬
‫آنکھوں آنکھوں اشک ہیں ماجد چھالوں جیسے‬

‫٭٭٭‬
‫مجھ سے کشیدہ رو ہیں کیونکر میرے ہنر کے لوگ‬
‫ل نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ‬
‫اہ ِ‬
‫جیسے کم سن چوزے ہوں مرغی کے پروں میں بند‬
‫جبر کی چیلوں سے دبکے ہیں یوں ہر گھر کے لوگ‬
‫ہر فریاد پہ لب بستہ ہیں مانند ِ اصنام‬
‫عدل پہ بھی مامور ہوئے کیا کیا پت ّھر کے لوگ‬
‫صبح و مسا ان کے چہروں پر اک جیسا اندوہ‬
‫منظر منظر ہیں جیسے اک ہی منظر کے لوگ‬
‫کچھ بھی نہیں مرغوب ِانہیں‪ ،‬کولہو کے سفر کے سوا‬
‫میرے نگر کے لوگ ہیں ماجد اور ڈگر کے لوگ‬

‫٭٭٭‬
‫مری ہر آس کے خیمے کی زینب بے ِردا کر دی‬
‫یزید ِ وقت نے جور و ستم کی ِانتہا کر دی‬
‫اگر سر زد ہوا حق مانگنے کا جرم تو اس پر سزا کیسی‬
‫ت طلب نے کونسی ایسی خطا کر دی‬
‫مرے دس ِ‬
‫کچھ افیونی حقائق ہی ک ُھلے ورنہ ِان ہونٹوں پر‬
‫ق شہر تک جس نے خفا کر دی‬ ‫سخن کیا تھا کہ خل ِ‬
‫زمیں یا آسماں کا جو خدا تھا سامنے ُاس کے‬
‫جھکایا سر اٹھائے ہاتھ اور رو کر دعا کر دی‬
‫وطن کی بد دعا پر ریزہ ریزہ ہو گیا کوئی‬
‫کسی نے دیس پر جاں تک ہتھیلی پر سجا کر دی‬
‫چائیاں جذبات میں ماجد‬
‫حیا آنکھوں میں اور س ّ‬
‫مجھے ماں باپ نے جو دی یہی پونجی کما کر دی‬
‫٭٭٭‬
‫ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گل مجھے‬
‫سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا مل مجھے‬
‫چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ‪ ،‬کنارِ دوش‬
‫عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے‬
‫اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا‬
‫کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے‬
‫ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم‬
‫کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے‬
‫کوز پشت کی‬‫کج ہو چلی زبان بھی مجھ ُ‬
‫کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے‬
‫اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے‬
‫کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا‪ ،‬مجھے‬
‫کیا‬
‫بچپن میں تھا جو ہمدم ِ خلوت‪ ،‬مل ِ‬
‫مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے‬
‫میں تھک گیا ہوں شام ِ مسافت ہوا سے پوچھ‬
‫منزل کا آ کے دے گی بھل کب پتا مجھے‬
‫محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا‬
‫لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے‬
‫اترا تھا ماہتاب سا کوڑے کے ڈھیر پر‬
‫ی یک روز‪ ،‬ہر سحر‬ ‫لتی ہے فکرِ روز ِ‬
‫آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے‬
‫بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی‬
‫ہر روز ہر قدم پہ ج ُھکاتا رہا مجھے‬
‫اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں‬
‫ب معاش میں بھی ملی ہے خل مجھے‬
‫کس ِ‬
‫حکم ِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور‬
‫سوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے‬
‫ُ‬
‫میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام‬
‫س افتخار دلتا ہے کیا مجھے‬
‫ِاحسا ِ‬
‫میری بھی ایک فصل ہے ُاٹھ کر جو شب بہ شب‬
‫دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے‬
‫کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں‬
‫ص رزق ! کبھی مل ذرا مجھے‬
‫آ اے حری ِ‬
‫عّلت سے بے زری کی کفش دوزیاں ملیں‬
‫ک پا مجھے‬
‫اکسیر ہر کسی کی ہوئی خا ِ‬
‫٭٭٭‬
‫ب انسانی سے نیچے اترے کون‬
‫منص ِ‬
‫ُ‬
‫کتا بھونکے تو آگے سے بھونکے کون‬
‫ت بد کے بطن سے پھوٹی ہو‬
‫وہ کہ جو نی ّ ِ‬
‫تاب کسے ہے ُاس دلدل میں الجھے کون‬
‫جز پت جھڑ کے ِاس فن کا ادراک کسے‬
‫رنگ کسی کا جیسا بھی ہو بدلے کون‬
‫جسم پہ جس کے لباس ہو جھاڑ میں کانٹوں کے‬
‫ظ گلب و سمن کی د ُھن میں کودے کون‬
‫حف ِ‬
‫خرم ہو لہو میں نہا کر بھی‬
‫کون ہو جو ّ‬
‫پیغمبر کے سوا طائف میں ٹھہرے کون‬
‫کام نہیں بس میں یہ دئیے کے ناخن کے‬
‫چہرۂ شب سے ماجد ؔ ظلمت ک ُھرچے کون‬
‫٭٭٭‬
‫نہیں کہ تجھ سے وفا کا ہمیں خیال نہ تھا‬
‫نظر میں تھا‪ ،‬پہ ترا ہی وہ اک جمال نہ تھا‬
‫لبوں میں جان تھی پھر بھی ہماری آنکھوں میں‬
‫ستمگروں سے بقا کا کوئی سوال نہ تھا‬
‫ٹھہر سکا نہ بہت تیِغ موج کے آگے‬
‫ہزار سخت سہی‪ ،‬جسم تھا یہ ڈھال نہ تھا‬
‫کوئی نہیں تھا شکایت نہ تھی جسے ہم سے‬
‫ہمیں تھے ایک‪ ،‬کسی سے جنہیں ملل نہ تھا‬
‫غضب تو یہ ہے کہ تازہ شکار کرنے تک‬
‫نظر میں گرگ کی‪ ،‬چنداں کوئی جلل نہ تھا‬
‫ج عجز فقط گن ہی گن تھے پاس اپنے‬ ‫بہ ُ‬
‫کن ِ‬
‫یہاں کے اوج نشینوں سا کوئی مال نہ تھا‬
‫ہمیں ہی راس نہ ماجدؔ تھی مصلحت ورنہ‬
‫یہی وہ جنس تھی‪ ،‬جس کا نگر میں کال نہ تھا‬
‫٭٭٭‬
‫سرخوشی َاوج پر دیکھنا‬
‫نشۂ َ‬
‫رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا‬
‫مٹھیوں میں شگوفوں کی زر سر بہ سر‬
‫سیپیوں میں گلوں کی گہر دیکھنا‬
‫لطف جو چشم ِ تشنہ کو درکار ہے‬
‫شاخ در شاخ محوِ سفر دیکھنا‬
‫دل بہ دل آرزوؤں کے جگنو اڑے‬
‫ص شرر دیکھنا‬
‫صحن در صحن رق ِ‬
‫جل اٹھے‬
‫جل سے کہیں َ‬
‫جی نہ ساون کے َ‬

‫تم بھی ماجدؔ ہو اہ ِ‬


‫ل خبر دیکھنا‬

‫٭٭٭‬
‫نشۂ بے حسی تھی کہ نا آگہی لوگ سوئے ملے‬
‫پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی‪ ،‬لوگ سوئے ملے‬
‫روشنی کے سفیروں نے کیا کیا نہ ُ‬
‫گر آزمائے مگر‬
‫سینہ سینہ بسائے ہوئے گمرہی لوگ سوئے ملے‬
‫زمزمے چہچہے کوئی تریاق ان کے نہ کام آ سکا‬
‫سم کچھ ایسی تھی سانسوں میں ِان کے گھلی لوگ سوئے ملے‬
‫صبح‪ ،‬پرچم لپیٹے ہوا ہو گئی اپنے سندیس کا‬
‫پھول نے جو کہی رہ گئی ان کہی لوگ سوئے ملے‬
‫بادباں کھول کر کشتیوں کے‪ ،‬ہوا کو انہیں سونپ کر‬
‫ش دریا میں بھی لوگ سوئے ملے‬
‫اور تو اور آغو ِ‬
‫جانے حلقۂ بگوشی میں تھا کیا شرف‪ ،‬جو انہیں بھا گیا‬
‫جاگتا تھا فقط جذبۂ بندگی لوگ سوئے ملے‬
‫کتنے تھوڑے صلے سے بہلنے لگیں ان کی نادانیاں‬
‫ؔ‬
‫ماجد یہ کیا اکتفا کی چلی لوگ سوئے ملے‬ ‫رسم‬
‫٭٭٭‬
‫ت ِتیرہ شبی ‪ ،‬تنہا روی ہے اور ہم‬
‫وسع ِ‬
‫جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم‬
‫کیمیا گر تو ہمیں کندن بنا ڈالے مگر‬
‫آنچ بھر کی ایسا ہونے میں کمی ہے اور ہم‬
‫بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما‬
‫خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم‬
‫کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر‬
‫گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم‬
‫ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں‬
‫زخم ِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم‬
‫ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو‬
‫جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم‬
‫ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے ُ‬
‫کودتے‬
‫دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم‬
‫٭٭٭‬

‫وراثت میں ِانہیں ملنے لگیں عّیاریاں کیا کیا‬


‫نئی نسلوں کو لحق ہو چلیں بیماریاں کیا کیا‬
‫کوئی فتنہ کوئی لشہ ِانہیں مل جائے شورش کو‬
‫برائے تخت‪ ،‬نا اہلوں کی ہیں تّیاریاں کیا کیا‬
‫ارادت کے تسلسل کی‪ ،‬غلمانہ اطاعت کی‬
‫ہماری گردنوں کے گرد بھی ہیں دھاریاں کیا کیا‬
‫فظ بھی کریں ہر پیڑ کا لیکن‬
‫نمو بھی دیں‪ ،‬تح ّ‬
‫جھڑیں تو نام پتوں کے‪ ،‬رقم ہوں خواریاں کیا کیا‬
‫جنہیں درکار ہیں قالین چلنے کو نجانے وہ‬
‫کرائیں گے لہو سے خاک پر‪ُ ،‬‬
‫گلکاریاں کیا کیا‬
‫حقائق سے ڈرانے کو‪ ،‬طلسم ِ شر دکھانے کو‬
‫سرِ اخبار ماجدؔ نقش ہیں‪ ،‬چنگاریاں کیا کیا‬

‫٭٭٭‬
‫وہ کہ لمس میں تھا حریر‪ ،‬رنگ میں نار سا‬
‫مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا‬
‫کبھی بارشوں میں بھی پھر دکھائی نہ دے سکا‬
‫ُاسے دیکھنے سے فضا میں تھا جو نکھار سا‬
‫مری چاہ کو ُاسے چاندنی کی قبائیں دیں‬
‫ب تار سا‬
‫مرا بخت کس نے بنا دیا ش ِ‬
‫کوئی آنکھ جیسے ک ُھلی ہو ِان پہ بھی مدھ بھری‬
‫ہے دل و نظر پہ عجب طرح کا خمار سا‬
‫ب یار گھڑی گھڑی‬
‫لگے پیش خیمۂ قر ِ‬
‫مری دھڑکنوں میں جو آ چل ہے‪ ،‬قرار سا‬

‫٭٭٭‬
‫وقت کی شاخ پر پات پیل پڑا اور میں کھو گیا‬
‫َپو پھٹے چاند سے ُاس کا جوبن ُلٹا اور میں کھو گیا‬
‫پھر نجانے معطل رہے کب تلک میرے اعصاب تک‬
‫ہاتھ جابر کا شہ رگ کی جانب بڑھا اور میں کھو گیا‬
‫دور ہنستی رہی‬
‫س قزح ُ‬
‫آسماں پر کماں بن کے قو ِ‬
‫بی ُہوا پاس ہی سے ُہوا اور میں کھو گیا‬
‫وار جو ھ‬
‫عمر کیا کیا نہیں لڑکیوں کی ڈھلی پاس ماں باپ کے‬
‫خوں کے آنسو بنے ُان کا رنگ حنا اور میں کھو گیا‬
‫ل مکر و ریا کیوں نہیں‬
‫ل ہنر‪ ،‬اہ ِ‬
‫میں کہ ماجد ہوں اہ ِ‬
‫بس یہ نکتہ مجھے بے زباں کر گیا اور میں کھو گیا‬

‫٭٭٭‬
‫سیدھا کریں‬
‫وہ کمانڈو بھی تو ہوں ایسوں کو جو ِ‬
‫نن ّھی نن ّھی خواہشیں خلقت کی‪ ،‬جو اغوا کریں‬
‫ہر نگارِ شام ُان کے واسطے ہو مہ بکف‬
‫ل عید بعد از سال ہی دیکھا کریں‬
‫ہم ہل ِ‬
‫ُان کے جتنے تیر ہیں موزوں ہوں وہ اہداف پر‬
‫اور ہمیں تلقین یہ ‪،‬ایسا کریں ویسا کریں ‪،‬‬
‫خود ہی جب اقبال سا لکھنا پڑے اس کا جواب‬
‫اے خدا تجھ سے بھی ہم شکوہ کریں تو کیا کریں‬
‫وہ ادا کرتے ہیں جانے موسموں کو کیا خراج‬
‫بدلیاں جن کے سروں پر بڑھ کے خود سایا کریں‬
‫)‪ ۲۲‬فروری ‪ ۹۴‬کو اسلم آباد میں افغانی اغوا کنندوں کے چنگل‬
‫سے پاکستانی کمانڈوز نے سکول کے ننھے منے سٹوڈنٹس کو آزاد‬
‫کرایا ۔ یہ غزل ُاسی واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی گئی(‬

‫٭٭٭‬

‫ہوتا ہے ایسے ربط سے جی کا زیاں الگ‬


‫ملیں‪ ،‬گالیاں الگ‬
‫اور نا خلف کے منہ سے ِ‬
‫ض خاص‬
‫ہونے کو ہو تو جائے ادا ایک فر ِ‬
‫ماں باپ بھی ہوں خاک بہ سر‪ ،‬بیٹیاں الگ‬
‫جاتی ہے اپنی کم نظری سے ِادھر جو آن‬
‫ُاڑتی ہیں جسم و جاں کی ُادھر دھجیاں الگ‬
‫ڈالی جو خاک سر پہ ہمارے‪ ،‬زمین نے‬
‫برسا کیا ہے ہم پہ ُادھر آسماں الگ‬
‫توقیر بھی بدلتی ہے‪ ،‬تحقیر میں کبھی‬
‫حالت جس طرح کا بھی دے دیں نشاں الگ‬
‫لیکھوں میں شخص شخص کے لک ّھی ملے یہاں‬
‫ناطے سے ِبنت ِبنت کے ِاک داستاں الگ‬
‫ہم ُ‬
‫گل بہ کف تھے‪ ،‬سنگ بہ کف مل گئے ہمیں‬
‫ُاترا ہے اب کے آنکھ میں ماجد سماں الگ‬

‫٭٭٭‬

‫ہم پہ کرم فرمانے آئے‬


‫جھونکے آگ بجھانے آئے‬
‫ہمیں پرانا ٹھہرانے کو‬
‫کیا کیا نئے زمانے آئے‬
‫چہ ہے‬
‫خلق‪ ،‬وہ کارآمد ب ّ‬
‫شاہ جسے بہلنے آئے‬
‫قیس کو جو ازبر تھا‪،‬ہم بھی‬
‫درس وہی دہرانے آئے‬
‫جنیں ب ُھلتے‪ ،‬خود کو ب ُھولے‬
‫ہ‬
‫لب پہ ُانہی کے‪ ،‬فسانے آئے‬
‫اپنی جگہ تھے جو بھی سہانے‬
‫دن پھر وہ نہ سہانے آئے‬
‫جن کو دیکھ کے تاپ چڑھے وہ‬
‫ماجد ہمیں منانے آئے‬
‫٭٭٭‬

‫بی ُہوا ماں باپ کے آزار میں‬


‫یہ اضافہ ھ‬
‫س دختراں اخبار میں‬
‫مشتہر کرتے ہیں جن ِ‬
‫آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام‬
‫پیر چپکے رہ گئے ہیں جادۂ پر خار میں‬
‫تن بدن سے کھال تک جیسے ادھڑ جانے لگے‬
‫جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں‬

‫سخت مشکل ہے کوئی تریاق ُاس کا ِ‬


‫مل سکے‬
‫زہر جو شامل ملے‪ ،‬ذی جاہ کے انکار میں‬
‫خلق ناداری کے ہاتھوں جان دینے پر مصر‬
‫اور زر کی بانٹ کے جھگڑے ادھر دربار میں‬
‫کیا کہیں ہر آن ماجد مضطرب‪ ،‬پڑنے کو ہیں‬
‫سنگ ریزے کیا سے کیا ہر دیدۂ بیدار میں‬
‫٭٭٭‬
‫یوں لوگ اب کے جادۂ گرگاں سے ہٹ گئے‬
‫چوزے ہوں جیسے ماں کے پروں میں سمٹ گئے‬
‫ُ‬
‫پنچھی شکار ہو کے نشیمن میں آ گرا‬
‫اور خواب‪ ،‬عافیت کے بدن سے چمٹ گئے‬
‫کھانے لگا فضا میں لہو ان کا بازیاں‬
‫ب ِّلی کے سامنے تھے کبوتر جو ڈٹ گئے‬
‫ل تیغ‬
‫مجروح کب ہوئے ہیں نہّتوں سے اہ ِ‬
‫کب یوں ہوا کہ دانت زبانوں سے کٹ گئے‬
‫جھاڑا نہیں کسی نے ِانہیں حادثہ یہ ہے‬
‫دل آئنے تھے گرد ِ زمانہ سے اٹ گئے‬
‫ماجد ہر آن جیسے ا ّ‬
‫ذیت پہ ہوں ُتلے‬
‫کانٹے لباس سے ہیں کچھ ایسے چمٹ گئے‬
‫٭٭٭‬

‫مصنف کی اجازت سے‪ ،‬تشکر مصنف جن سے کتاب کی کمپوزنگ‬


‫فائل کا حصول ہوا‬
‫ان پیج سے تبدیلی‪ ،‬پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل‪ :‬اعجاز عبید‬
‫اردو لئبریری ڈاٹ آرگ‪ ،‬کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور‬
‫کتب ڈاٹ ‪ 250‬فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش‬
‫‪http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com,‬‬
‫‪http://kutub.250free.com‬‬

You might also like