You are on page 1of 196

‫عذاب رت کے‬

‫صحیفے‬

‫کلیم احسان بٹ‬

‫کلیم احسان بٹ کے دو مجموعوں پر‬


‫مشتمل ایک کتاب‬
‫فہرست‬
‫عذاب رت کے صحیفے‪1...........................‬‬
‫انتساب ‪14.......................................‬‬
‫اپنی تلش کا سفر‪15...........................‬‬
‫نعتیں‪21............................................‬‬
‫لکھ لفظوں پہ مجھ کو قدرت ہے‪21..........‬‬
‫لفظ بے کار ہیں نعت کیسے کہیں‪22........‬‬
‫ہم نے کھینچے لکھ نقشے نعت کے‪23........‬‬
‫امی لقب سے نسبت بانٹی مجھ کو یاد‬
‫رکھا‪24.............................................‬‬
‫حرف کچھ بھی نہ تھے نعت کے واسطے ‪26.‬‬
‫منقبت‪28..........................................‬‬
‫خیال آج مرے روبرو حسین کا ہے‪28........‬‬
‫غزلیں‪30...........................................‬‬
‫چلو جگنو پکڑتے ہیں‪30...........................‬‬
‫ی فن حق شناس سے‪.‬‬ ‫ل سخن کی شوخ ِ‬ ‫اہ ِ‬
‫‪31‬‬
‫چشم ِ ُپر نم نے کہا سارا فسانہ میرا‪31......‬‬
‫جو درد مری روح میں پھیل نہیں ملتا ‪33. . .‬‬
‫ہر نفس موجۂ بے تاب کی اک صورت ہے‪...‬‬
‫‪34‬‬
‫جب تک ترا خیال مرا ہم سفر نہ تھا‪35.....‬‬
‫پرندے ہجرتیں کرنے لگے ہیں‪36..............‬‬
‫رنگ اپنے خون سے ان میں دوبارہ بھر دیے ‪.‬‬
‫‪37‬‬
‫ہر صف الٹی ‪ ،‬لشکر زخمی ‪ ،‬تیر نشانے‬
‫دیکھے‪38...........................................‬‬
‫پتھر مرے و جو د پہ برسے تمام عمر‪39....‬‬
‫میرے لیے صورت ہے یہ خوش کن بھی‬
‫عجب بھی‪40.....................................‬‬
‫اک زور سے پھر درد کا طوفان اٹھا ہے‪41..‬‬
‫اک تعلق کا سرا تھا دوسرا کوئی نہ تھا ‪42.‬‬
‫صحن گلزار میں یوں پھولوں کے زیور‬
‫چمکے‪43...........................................‬‬
‫ہر بات اس کی قول کسی کا کہا ہوا ‪43...‬‬
‫پانی اتر گیا ہے نجانے وہ کیا ہوئے ‪44........‬‬
‫ن نکتہ سنج کو روکنا اچھا لگا‪45. . .‬‬ ‫اس زبا ِ‬
‫عذاب رت میں جو اترے وہ کیا صحیفے تھے‬
‫‪46‬‬
‫ایک دیکھی ہو ئی خوشبو مہکے‪46............‬‬
‫موسم گل حیران کھڑا ہے‪48.................‬‬
‫زمانہ اور زمانے کے بعد کیا ہو گا‪48.........‬‬
‫غموں کے بوجھ کو اس طرح ہلکا کیا کروں‬
‫یا رب‪50...........................................‬‬
‫کھویا کھویا رہتا ہوں ‪50.......................‬‬
‫دوست بھی یاں رقیب ہوتے ہیں ‪52.........‬‬
‫کبھی ہنستا کبھی روتا رہا ہوں‪52.............‬‬
‫کس نے کس کا سمجھا دکھ‪54...............‬‬
‫لمحہ لمحہ حادثہ در حادثہ پھیل ہوا ‪54........‬‬
‫حرف کو معتبر ہی رہنے دو‪56................‬‬
‫حسرت یک نظر میں بیٹھے ہیں‪56...........‬‬
‫جبر یا اختیار میں رہنا ‪57.....................‬‬
‫اشکوں سے بھر گیا ہے جو دامن بہار میں‪. .‬‬
‫‪58‬‬
‫اب نصیبوں میں فقط اک روسیاہی رہ گئی‬
‫‪58‬‬
‫زمیں کو گھومتا رکھا گیا ہے ‪59..............‬‬
‫آئے ہمارے ذہن میں آ کر بکھر گئے‪60.......‬‬
‫جب شکستہ مرے دل سے بھی گریباں نکل ‪.‬‬
‫‪60‬‬
‫وہ مہرباں بھی ہوا تھا نہ مہر باں ایسا‪61. . .‬‬
‫اب کیسے کریں شکوے گلے چھوڑ د یا ہے‪. .‬‬
‫‪62‬‬
‫یوں تو پاگل بنتا ہو گا‪63.......................‬‬
‫اک بت کو محبت میں خد ا کرتا رہا ہوں‪...‬‬
‫‪63‬‬
‫یار جانے گمان کیا کرتا ‪65....................‬‬
‫جسے حرف غم نہ سنا سکا ترا غم گسار‬
‫ہے بھول جا‪65....................................‬‬
‫حسرت تو دیکھئے کہ ہمیں غم بھی کیا ملے‬
‫‪67‬‬
‫تری گلیوں کا تھا گدا میں بھی‪67...........‬‬
‫ف دعا راز رہے‪69......‬‬ ‫یہ دعا ہے کہ مرا حر ِ‬
‫تیری آنکھوں سے اب غمزے اشا رے کیوں‬
‫نہیں ملتے‪69.......................................‬‬
‫قتل بھی کرتا نہیں جانے و ہ قاتل کیا تھا ‪71‬‬
‫ضد سے کہتا ہے ہاں نہیں ہوتا‪71..............‬‬
‫ک محبت کر رہا ہوں‪72............‬‬ ‫لے اب تر ِ‬
‫سبھی اصول سبھی تجزیے بدل جائیں‪73. .‬‬
‫بے حقیت اپنا ہونا یا نہ ہونا رہ گیا ‪73........‬‬
‫کبھی کٹتے ہوئے سر بولتے ہیں‪74............‬‬
‫سوچوں کے سنسان سفر پر ‪75............‬‬
‫اچھے لوگوں سے گفتگو رکھنا ‪75...........‬‬
‫آدھا دھڑ انسانوں جیسا آدھا دھڑ تھا پتھر‬
‫کا ‪77...............................................‬‬
‫اک خون کا در یا ہے کہ تا حد نظر ہے‪77....‬‬
‫جیسے ہر آن کوئی مرتا ہے ‪79...............‬‬
‫ل تمنا کی شورشیں لے کر‪. .‬‬ ‫دلوں میں سی ِ‬
‫‪79‬‬
‫ط تارِ نظر میں جو شکل یار نہ تھی ‪80‬‬ ‫بسا ِ‬
‫تیرے دروازے پہ آیا تھا صدا کی میں نے‪81..‬‬
‫دلیل دیتا ہے نہ خود قبول کر تا ہے‪82........‬‬
‫آتا ہے دعاؤں سے ‪ ،‬دعاؤں کو بھل کے‪82...‬‬
‫ورق پہ نام جو ‪ ،‬پڑ ھتا تھا خواب چہرے سے‬
‫‪83‬‬
‫حق نے کبھی بھی اس کو مجدد نہیں کیا ‪. .‬‬
‫‪83‬‬
‫رقص کا روپ دھار کر دیکھو‪84.............‬‬
‫آرام سے اک بات بھی سنتا ہی نہیں ہے ‪85.‬‬
‫ایک کے بعد دوسرا دے گی ‪86...............‬‬
‫کبھی ایسا بھی آسماں دیکھیں‪87...........‬‬
‫ہم سخن فہم کہاں اس سے بھی کچھ کم‬
‫تر تھے‪89..........................................‬‬
‫ت تعجیل ہو نہیں سکتا ‪89....‬‬ ‫ا سے ہے عاد ِ‬
‫کسے کہیں کہ ہمیں در د دل ستاتا ہے‪90....‬‬
‫پانی پر بنیاد رکھی ہے‪91......................‬‬
‫دو شعر‪91.......................................‬‬
‫دل جو ٹوٹا تو دیر تک روئے‪92................‬‬
‫ہم نے کن مشکلوں سے ٹال ہے‪93...........‬‬
‫ف تمنا لکھ رکھا تھا ‪93.............‬‬ ‫جہاں حر ِ‬
‫وہ بچپن کا سا تھی تھا‪94.....................‬‬
‫اپنے ہاتھوں میں کدالوں کے سوا کچھ بھی‬
‫نہ تھا‪96............................................‬‬
‫موسم ِ گل حیران کھڑا ہے‪98....................‬‬
‫ترا اپنا طریقہ تھا مرا اپنا طریقہ تھا‪100. . .‬‬
‫میرے آنگن میں وہ خوشبو کی طرح مہکا‬
‫رہا‪101.............................................‬‬
‫چاند پر سوت کاتنے والی‪102................‬‬
‫ہوا دیوار و در سے جھانکتی ہے‪103.........‬‬
‫اسے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے‪103...............‬‬
‫اک شہر غریباں میں فقیروں کی طرح‬
‫تھے‪104............................................‬‬
‫شاہز ا دے کو کسی حربے سے کال کر دیا‪..‬‬
‫‪105‬‬
‫یہر ا ئیگا نئر نج سفر یہی کچھ تھا‪106......‬‬
‫قاتل لمحہ تاریکی میں مٹ بھی گیا ہے ‪106‬‬
‫متا ع درد و غم ہے اور میں ہوں‪107.........‬‬
‫شعر حسن و کمال سے اترا ‪107...........‬‬
‫خواب بہہ گئے سارے ریت کے گھروندے میں‬
‫‪109................................................‬‬
‫د و دو در وا ز ے تھے تین دریچے تھے‪111...‬‬
‫کبھی فا قہ کبھی لقمہ مل ہے‪111............‬‬
‫ترا ملنا بھی کوئی کھیل نہیں لگتا ہے‪112..‬‬
‫سبز جنگل میں کسی مور کا پر کھلتا ہے‪. .‬‬
‫‪113‬‬
‫ہل رہے ہیں چند پتے شاخ پر‪113.............‬‬
‫پورے جو بن پر سورج تھا اور وہ رستہ‬
‫ڈھونڈ رہا تھا ‪114.................................‬‬
‫ٹھہر کے دیکھتے ہیں قافلے سفر والے‪116...‬‬
‫ہم ترے کوچے میں آئیں ا تنے سودائی نہیں ‪.‬‬
‫‪116‬‬
‫وہ چاند کا ملبوس وہ تاروں سے سجے‬
‫خواب‪118.........................................‬‬
‫اک اک کر کے پنچھی ا ڑ تےر ہتے ہیں ‪118.‬‬
‫ہر کوئی بے ا مان بیٹھا ہے‪120...............‬‬
‫اڑتی تھی خاک شہر میں اتنا تو یاد تھا ‪121.‬‬
‫ہم سے پھر شمس و قمر چھین لیا‪121....‬‬
‫کتاب زندگی کے باب کتنے‪123...............‬‬
‫حال ہی دل کا مرے ایسا تھا پچھلی شام‬
‫کو‪124.............................................‬‬
‫اس قدر با ندھنا بھی مشکل ہے‪125........‬‬
‫ہزار صدق و صفا ہے سرشت میں اس کی ‪.‬‬
‫‪126‬‬
‫اپنے بوجھ کو ڈھوتے آدمی تھک جاتا ہے ‪127.‬‬
‫ہوا کے ہاتھ میں حیرت تھی اور کچھ بھی نہ‬
‫تھا ‪129............................................‬‬
‫اک عجب سی کیفیت طار ی رہی‪129......‬‬
‫کوئی عل ج یہاں چارہ گر نہیں ممکن‪131...‬‬
‫عین ممکن ہے کبھی کم نظری سے گزریں‬
‫‪131‬‬
‫مرے لشکر کے کماندار مرے قاتل تھے ‪133.‬‬
‫وہ ڈھونڈ کے لئے گا کہیں سے بھی سند کو‪..‬‬
‫‪133‬‬
‫مشقت کر کے لوٹا ہے کوئی دکھ نہ اسے‬
‫کہنا ‪135...........................................‬‬
‫دل کو دھڑکا ہز ار رہتا ہے‪135...............‬‬
‫ا س کے لہجے میں ایک خو ش بو ہے‪137..‬‬
‫ہمارے ہا تھ ہو تی ہی نہیں ہے‪137............‬‬
‫مری حا لت پہ سوگوار نہ ہو ‪139............‬‬
‫ہر آن کوئی قہر مرے سامنے پھر تھا‪139...‬‬
‫کتنے رشتوں میں باندھے ہوئے لوگ ہیں‪.....‬‬
‫‪140‬‬
‫تھا مرے سامنے دشمن میرا‪141.............‬‬
‫ہم کسی شخص کو آزار نہیں دے سکتے ‪...‬‬
‫‪141‬‬
‫جب درد کے مضموں نہیں ہوتے مرے مرشد‬
‫‪142................................................‬‬
‫وہ بھی ا یسے سنورتا آتا ہے‪143.............‬‬
‫یہ ایک ایک اذیت سے آشنا دل ہے‪143.......‬‬
‫چلو باغوں کو چلتے ہیں‪145..................‬‬
‫چر مراتے خشک پتے اک ہوائے تیز میں‪.....‬‬
‫‪146‬‬
‫بے فصیل شہروں میں بے امان بستی میں‬
‫‪146‬‬
‫جب تقدیریں بن جاتی ہیں ‪147.............‬‬
‫گھر کے اندر گھر بنا کے اور بے گھر ہو گیا‪..‬‬
‫‪148‬‬
‫جب بھی گفتار لے کے آیا ہے‪148.............‬‬
‫چل مدح شا ہ میں ہم بھی کریں خون دل‬
‫کشید ‪149........................................‬‬
‫پہلے سے بھی کڑی ہے وہی نامراد رات‪150.‬‬
‫ہر قدم منادی ہے زندگی کے رستے میں‪.....‬‬
‫‪152‬‬
‫شہزادہ جب چوتھی سمت کو جاتا ہے ‪152.‬‬
‫ہر نقش اس کے چہرے کا سادہ رکھا گیا‪....‬‬
‫‪153‬‬
‫حسن شعلہ مثال کے پرچم‪153..............‬‬
‫میر ے بت کو کر کے زندہ لے جائے گا‪155. .‬‬
‫کھڑکی ہے نہ رستہ ہے کوئی پاس گھٹن کا‪. .‬‬
‫‪155‬‬
‫روگ دل کا لگا کے بیٹھ گیا ‪157..............‬‬
‫در و دیوار کو تاروں سے حسیں کیسے‬
‫کریں‪157..........................................‬‬
‫ہم نے تمھارے شہر میں دو سانس تو لیے‪...‬‬
‫‪159‬‬
‫مجھ کو آتا نہیں ظالم کی اطاعت کرنا ‪.....‬‬
‫‪161‬‬
‫پھر میر کی زمین کوئی ڈھونڈنے لگے‪161...‬‬
‫جس کی خواہش پر وطن سے دور جا نا‬
‫پڑ گیا‪162.........................................‬‬
‫وہ خوا ب تھا جو مری چشم تر کی قید‬
‫میں تھا‪162.......................................‬‬
‫تمھاری زلف سنورنے میں د یر لگتی ہے‪....‬‬
‫‪164‬‬
‫شاخوں میں اڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‪....‬‬
‫‪164‬‬
‫ہر دل سے نکل جانے کا امکان کھل رکھ‪....‬‬
‫‪165‬‬
‫دل سے صبر و سکوں روانہ ہوا‪165.........‬‬
‫درد ٹھہرے تو بات کرتے ہیں‪167.............‬‬
‫تیرے کو چے کہاں گزرتی ہے‪167..............‬‬
‫آیا کرو ‪ ،‬بیٹھا کر و اور حال دل پوچھا کرو‬
‫‪168‬‬
‫کتنا شیریں بیان لگتا ہے‪168..................‬‬
‫آئینہ روبرو بھی دیکھا کر‪170.................‬‬
‫تمھار ا سانس بھی دشوار کر دیا جا ئے‪.....‬‬
‫‪170‬‬
‫دن کڑے اور رات بھا ری ہو گئی‪170........‬‬
‫اک ملقات ترے ساتھ جو کل اور ہوئی ‪171‬‬
‫اس سے تعلقات کی حسرت بھی کچھ‬
‫نہیں‪171...........................................‬‬
‫سو رنج و الم کھینچے ہیں سو درد سہے‬
‫ہیں ‪171...........................................‬‬
‫حیلوں کے ساتھ تھی وہ مثالوں کے ساتھ‬
‫تھی‪173...........................................‬‬
‫اس کا چہر ہ یاد نہیں ہے‪173..................‬‬
‫کہیں آنکھوں میں خوابوں کا نگر تعمیر‬
‫کرتے ہیں‪175.....................................‬‬
‫دل کی باتیں لکھ کر میں نے غیر مکمل‬
‫چھوڑ رکھی ہیں‪175............................‬‬
‫ہمارے لفظ بے تاثیر نکلے‪177.................‬‬
‫ہم پہ آیا ایسا وقت محبت میں‪177..........‬‬
‫شرح غم کیسے کریں لطف بیاں کیسے ہو ‪.‬‬
‫‪179‬‬
‫گھر چھوڑ کر مکین گھروں کے چلے گئے‪. . .‬‬
‫‪179‬‬
‫مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے‪181...................‬‬
‫کچھ سبب ہے یا یونہی وہ بے سبب‬
‫مصروف ہے‪181.................................‬‬
‫لزم تھی احتیا ط کی حد سے گزر گئے ‪183‬‬
‫ہم سے پھر وعد ہ خل فی ہو گئی‪183......‬‬
‫یار ہے یا عدو ہمی سا ہے‪185................‬‬
‫ہر آن کوئی قہر مرے سامنے پھر تھا‪185....‬‬
‫اس قدر بات بگڑ جائے گی معلوم نہ تھا‪....‬‬
‫‪187‬‬
‫جلوۂ چہرہ شب تاب نہ آنکھوں میں رہا ‪187‬‬
‫دیکھتا اک نظر تو کیا ہوتا‪187................‬‬
‫میں مسافر مزاج رکھتا ہوں ‪189...........‬‬
‫درد اظہار تک نہیں آیا‪189.....................‬‬
‫دل لگی سی دل لگانے سے رہی‪191.......‬‬
‫وہ لگ گیا ہے جان کو آزار دوستا‪191........‬‬
‫نہ پر ی کی تھی نہ وہ جادو کی ‪193........‬‬
‫دل کے ٹوٹ جانے کا سانحہ نکل آیا ‪194. . .‬‬
‫یہ جانتے تھے کہ ملنا اداس کر دے گا‪194. . .‬‬
‫انتساب‬

‫پیارے بھانجے‬
‫منیب زیب‬
‫کے نام‬
‫اپنی تلش کا سفر‬

‫میں آپ اپنی تلش میں ہوں۔میں نے اپنی‬


‫تلش کے سفر میں رہبر بھی اپنے آپ کو چنا۔‬
‫میں منزل منزل بھٹکتا رہا۔ میری چاروں‬
‫جانب صرف راستے ہی راستے تھے۔ میں ہر‬
‫راستے پر اتنی دیر تک چلتا رہا جب تک‬
‫معلوم نہ ہو گیا کہ میری منزل اس راستے پر‬
‫نہیں ہے۔ میں لوٹ کر پھر اپنے مرکز کی‬
‫طرف آ جاتا ہوں۔ اور از سر نو راستے کا‬
‫تعین کرتا ہوں۔ روح عصر اور تاریخی شعور‬
‫میرے کسی کام کے نہیں۔ کسی دوسرے کے‬
‫تجربات سے میں کسی دوسرے کی منزل پر‬
‫پہنچ سکوں گا۔ لہذا میں آگ میں جل کر‬
‫یقین کر لینا چاہتا ہوں کہ شعلے پھول بن‬
‫سکتے ہیں۔ میں آگ میں جل جانا چاہتا ہوں۔‬
‫اس لیے نہیں کہ میں ابراہیم کے تجربے کی‬
‫نفی چاہتا ہوں بلکہ اس لیے بھی کہ میں‬
‫ابراہیم نہیں ہوں۔ اور میں اپنا اثبات چاہتا‬
‫ہوں۔‬
‫دنیا نے روٹی کو خدا کر کے دیکھ لیا ہے۔‬
‫روٹی روٹی سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہو‬
‫سکی۔اگر روٹی ہی انسان کا سب کچھ ہے تو‬
‫موتی توندوں والے پریشان کیوں ہیں۔ کتا‬
‫روٹی کھا کر نہیں بھونکتا مگر ہم انسان ہیں۔‬
‫ہمیں روٹی ڈال کر بھونکنے سے منع نہیں کیا‬
‫جا سکتا۔ہماری منزل کوئی اور ہے۔ چلو‬
‫واپس چلتے ہیں۔میں آپ اپنی تلش میں‬
‫ہوں۔ اور میں نے اپنی تلش کے سفر میں‬
‫رہبر بھی اپنے آپ کو چنا۔ میرے چاروں جانب‬
‫راستے ہی راستے تھے۔ میں منزل منزل بھٹکتا‬
‫رہا‬
‫اور ایک وہ ہے جو کہتا ہے کہ آدم کا پہل ہمارا‬
‫آخری گناہ ہو گا اور دنیا صرف گناہگار‬
‫جسموں کی افزائش کرتی رہے گی۔ خواہ‬
‫اس کے لیے وہ سماج سے اجازت نامہ لے لے‬
‫یا صرف دو دلوں کی گواہی کافی سمجھے۔‬
‫بہر حال ہم ایسے درخت کی مانند ہیں جو‬
‫جس بیج سے اگتا ہے اس جیسے بہت سے بیج‬
‫چھوڑ کر مر جاتا ہے۔میں آدم کی اولد سہی‬
‫مگر میں جو گناہ دہرا رہا ہوں میرا اپنا ہے۔اور‬
‫میں نے اسے نیکی کا روپ دے لیا ہے۔ میں‬
‫اسے محبت کہہ لیتا ہوں مگر میری محبت‬
‫کی آخری حدیں بھی مجھے احساس گناہ سے‬
‫نجات نہیں دے سکیں اور میں اب بھی بے‬
‫خواب راتوں میں برہنہ جسموں کے خوش‬
‫پیکر ہیولوں سے اپنی نیند کا خام مال تیار‬
‫کرتا ہوں۔ اور جب کبھی رات پچھلے پہر ایک‬
‫خوش کن سی تھکاوٹ کا احساس میرے‬
‫پیکر سے نکل پڑتا ہے۔تو میں پھر لوٹ کر‬
‫اپنی طرف آ جاتا ہوں۔اور از سر نو رستے کا‬
‫تعین کرتا ہوں۔‬
‫میں آپ اپنی تلش میں ہوں۔ میں نے اپنی‬
‫تلش کے سفر میں رہبر بھی اپنے آ پ کو‬
‫چنا۔میں منزل منزل بھٹکتا رہا۔ میرے چاروں‬
‫جانب راستے ہی راستے تھے۔‬
‫اور وہ جو دھوئیں کی طرح ہو ا میں کہیں‬
‫اوپر جا کر جانے کس شے میں تحلیل ہو ا‬
‫جاتا ہے۔ اپنا ان دیکھا مگر سوچا خدا۔ میرے‬
‫ہاتھوں کی لکیروں سے مٹا جاتا ہے۔ ہر اک‬
‫قوم ‪ ،‬ہر اک شخص خدا رکھتا ہے اور کسی‬
‫کا بھی خدا کسی دوسرے کے خدا سے نہیں‬
‫ملتا۔میں نے بھی اک اپنا خدا بنا رکھا ہے۔بعض‬
‫اوقات وہ یوں مجھ میں اتر جاتا ہے کہ وہ پانی‬
‫جو میرے اندر تو کناروں سے کہیں نیچے ہے‬
‫اس کے حجم سے دب کر اتنی اوپر بھی چل‬
‫آتا ہے کہ میری آنکھوں سے خون بن کر بھی‬
‫ٹپک جاتا ہے۔بعض اوقات میں بھی کسی‬
‫روزن سے اس کے سینے میں اتر جاتا ہوں‬
‫اور اک داغ سا بن جاتا ہے۔ اس اندھیرے غار‬
‫میں داغ کا رنگ پھر مجھ کو ڈرا دیتا ہے۔ چیخ‬
‫اٹھتا ہو ں۔ صدا حلق تک نہیں آتی۔بھاگتے‬
‫بھاگتے پھر وہیں آ جاتا ہوں میں جہاں سے‬
‫سفر پہ نکل تھا۔‬
‫میں آپ اپنی تلش میں ہوں۔ میں نے اپنی‬
‫تلش کے سفر میں رہبر اپنے آپ کو چنا۔‬
‫اور تاریخ نے انسان کو ترقی دے کر کتنا‬
‫احسان کیا ہے اس پر۔اب تو بندر سے آگے چل‬
‫آیا ہے گو ابھی اس کے نشان باقی ہیں۔یا ہم‬
‫آج اسے بندر سمجھ رہے ہیں جس کو کل‬
‫انسان ہی ہو جانا ہے اور بندروں کے کھیل‬
‫بھی عجب ہیں۔چاند پر جا کے کمند ڈالی ہے‬
‫اور لٹکتا ‪ ،‬پھدکتا سیاروں کو چھلنگ رہا ہے۔‬
‫کہیں مٹی نہیں ملتی کہیں پانی نہیں ملتا۔ اگر‬
‫سب کچھ مل بھی جائے تو اسے ایسا کوئی‬
‫بندر نہیں ملتا جس نے انسان تک ترقی‬
‫حاصل کر لی ہو یا جس کو کل انسان ہی ہو‬
‫جانا ہے۔بہتر ہے واپس زمین پر چلے آئیں۔بندر‬
‫بن کر نہیں انسان بن کر یا تم بندر رہو‬
‫مجھے انسان رہنے دو۔کیونکہ میں تمھاری‬
‫نفی نہیں چاہتا مگر اپنا اثبات ضرور چاہتا‬
‫ہوں۔کوئی بات نہیں میں تھک ہار کے لوٹ آیا‬
‫ہوں۔چاند اور مریخ سے واپس اپنی زمین پر۔‬
‫پھر اسی نقطے پریا نکتے پر جہاں سے میں‬
‫نے سفر کا آغاز کیاتھا‬
‫میں آپ اپنی تلش میں ہوں۔ میں نے اپنی‬
‫تلش کے سفر میں رہبر بھی اپنے آپ کو‬
‫چنا۔ میں منزل منزل بھٹکتا رہا۔میرے چاروں‬
‫جانب راستے ہی راستے تھے۔‬
‫میں تھک ہار کے ٹوٹ چکا تھا۔کرچی کرچی‬
‫بکھر چکا تھا۔ مجھ میں ہمت نہ تھی سفر‬
‫آغاز کروں۔میں نے بڑی مشکل سے ریزہ ریزہ‬
‫جمع کیا اور یوں اپنے مرکز کے اوپر اور اس‬
‫کے ذرا ارد گرد سفر کرتا رہا۔ جب میں جڑ‬
‫گیا تو منزل مجھے مل چکی تھی۔ یہ وہی‬
‫مقام تھا جہاں سے میں سفر آغاز کرتا تھا۔ہر‬
‫شے کو اپنے آغاز کی طرف لوٹ جانا ہے۔میں‬
‫تھک ہار کے اپنے آغاز کی طرف لوٹا تھا۔میں‬
‫نے منزل تو پا لی ہے مگر اس کا اعلن ابھی‬
‫باقی ہے۔میں ڈھول کی تھاپ پر پہل رقص‬
‫کرنے وال ہوں مگر ہمت نہیں پڑتی۔نعرہ انا‬
‫الحق اتنا آسان بھی نہیں۔منصور سولی پر‬
‫چڑھ جاتا ہے۔میں سولی سے تو نہیں ڈرتا مگر‬
‫روح عصر اور تاریخی شعور میرے کسی کام‬
‫کے نہیں۔کسی دوسرے کے تجربات سے میں‬
‫کسی دوسرے کی منزل تک پہنچ سکوں گا۔‬
‫میں سولی پہ چڑھ جا نا چاہتا ہوں اور یقین‬
‫کر لینا چاہتا ہوں کہ میں خدا نہیں ہو ں۔اس‬
‫لیے نہیں کہ میں منصور کی نفی چاہتا ہوں‬
‫بلکہ اس لیے بھی کہ میں اپنا اثبات چاہتا ہوں۔‬
‫مگر جانے کیوں اس کے باوجود یہ میری‬
‫خواہش ہے۔میرے چاروں طرف ڈھول بج رہے‬
‫ہوں میرے آنکھوں سے خون بہہ رہا ہو اور میں‬
‫مستانہ وار رقص کرتا جاؤں میں آنکھوں میں‬
‫ایک قطرہ خون بھی باقی نہ رہے میرے اور‬
‫میرے خدا کے حجم میں کوئی فرق باقی نہ‬
‫رہے۔میرے اندر روشنی ہی روشنی ہو جائے۔‬
‫میں خدا نہ ہوں اور خدا ہو جاؤں۔میں باقی‬
‫بھی رہوں اور فنا ہو جاؤں۔‬
‫میں آپ اپنی تلش میں ہوں۔میں نے اپنی‬
‫تلش کے سفر میں رہبر بھی اپنے آپ کو‬
‫چنا۔‬

‫کلیم احسان بٹ‬


‫نعتیں‬

‫لکھ لفظوں پہ مجھ کو قدرت ہے‬


‫نعت کہنا خدا کی نعمت ہے‬
‫مجھ گناہگار پر ہے تیرا کرم‬
‫دل میان حصار رحمت ہے‬
‫ہجر تیرا مجھے نصیب رہے‬
‫درد سہنا بھی ایک لذت ہے‬
‫حشر میں ایک آ سر ا تیر ا‬
‫چھوٹ جائے تو پھر قیامت ہے‬
‫علم کی بے بسی یہ کہتی ہے‬
‫دین اب وقت کی ضرورت ہے‬
‫ایک تسکین ہے درود و سلم‬
‫زندگی سو طرح مصیبت ہے‬
‫نعت کہنے کا گر سلیقہ ہو‬
‫شعر کہنا بھی اک عبادت ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫لفظ بے کار ہیں نعت کیسے کہیں‬
‫حرف دیوار ہیں نعت کیسے کہیں‬
‫ہم کہ ادن ٰی سے ادن ٰی سے ادن ٰی غلم‬
‫آپ سرکار ہیں نعت کیسے کہیں‬
‫ہم کہ کہتے رہے ہیں ہمیشہ غزل‬
‫ہم گنہ گار ہیں نعت کیسے کہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہم نے کھینچے لکھ نقشے نعت کے‬
‫ہو سکے ہیں چند مصرعے نعت کے‬
‫چل رہا تھا نور کا اک سلسلہ‬
‫بن رہا تھا تانے بانے نعت کے‬
‫پھر درودوں سے بھری آئی ہوا‬
‫پھر کہیں مہکے ہیں غنچے نعت کے‬
‫میرے ہاتھوں پر محمد مرتسم‬
‫میری قسمت میں ستارے نعت کے‬
‫میں نے محشر سے خریدی بخششیں‬
‫میری جیبوں میں تھے سکے نعت کے‬
‫امی لقب سے نسبت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫انسانوں میں الفت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫من اور سلو ٰی سے بھی بڑھ کر رزق دیا ہے‬
‫تو نے‬
‫کام و دہن میں لذت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫ق مسافت بخشا‬ ‫تو نے پائے ہمت کو خود ذو ِ‬
‫دشت و جبل میں وسعت بانٹی مجھ کو یاد‬
‫رکھا‬
‫تو نے میرے قدموں میں کوہسار دیے ہیں‬
‫مول‬
‫شان و شوکت ‪ ،‬نصرت بانٹی مجھ کو یاد‬
‫رکھا‬
‫ف‬
‫میں نظروں میں تھا جب تو نے حر ِ‬
‫قناعت لکھا‬
‫صبر اور شکر کی دولت بانٹی مجھ کو یا د‬
‫رکھا‬
‫تیر ی سخاوت سے پا یا ہے عجز فرشتوں‬
‫جیسا‬
‫ا نسانوں میں عظمت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫تو نے دیا ہے چپ کو میری درویشی کا درجہ‬
‫تو نے نطق کی قدرت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫تو نے ادن ٰی لفظوں کو تاثیر عنایت کی‬
‫شعر و سخن میں حکمت بانٹی مجھ کو یاد‬
‫رکھا‬
‫جب بہنوں کو عصمت بخشی مجھ پر کرم‬
‫کیے‬
‫جب بھائیوں میں غیرت بانٹی مجھ کو یا د‬
‫رکھا‬
‫تو نے عمر کا ساتھی مجھ کو من چا ہا دے‬
‫ڈال‬
‫دنیا میں جب جنت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫مجھ کمزور کو تو نے اپنی حفظ امان نوازی‬
‫اہل ستم میں طاقت بانٹی مجھ کو یاد رکھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫حرف کچھ بھی نہ تھے نعت کے واسطے‬
‫میں نے موتی چنے نعت کے واسطے‬
‫کوہ و صحرا میں ذکرِ نبی ﷺ عام ہے‬
‫موِج در یا چلے نعت کے واسطے‬
‫پڑھ رہی تھیں ہوائیں درو د و سلم‬
‫جب پرندے اڑے نعت کے واسطے‬
‫دل پھلوں کے محبت سے لب ریز ہیں‬
‫رس ٹپکنے لگے نعت کے واسطے‬
‫جو بھی پیدا کیا جن ‪ ،‬ملئک ‪ ،‬بشر‬
‫اس نے پید ا کیے نعت کے واسطے‬
‫ا تنا روشن رہا میرا دل د و ستو‬
‫جتنے مضموں ملے نعت کے واسطے‬
‫کون ہے اس جہاں میں جو عاجز رہے‬
‫خود خدا جب کہے نعت کے واسطے‬
‫یا خدا میری کرنا خطائیں معاف‬
‫شعر کم ہو سکے نعت کے واسطے‬
‫آسماں کی ردائے سیہ پر محیط‬
‫اس نے تارے لکھے نعت کے واسطے‬
‫گ گل مسکرا کے محمد کہے‬ ‫بر ِ‬
‫اس پہ شبنم گرے نعت کے واسطے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫منقبت‬

‫خیال آج مرے روبرو حسین کا ہے‬


‫جو دوڑتا ہے رگوں میں لہو حسین کا ہے‬
‫ہمارے ہاتھ بنے ہیں کمک یزیدوں کی‬
‫نہیں حسین کا میں بھی نہ تو حسین کا ہے‬
‫س سجو د اٹھا ئی ہے ل ش کتنوں کی‬ ‫پ ِ‬
‫سو خون آل پیمبر وضو حسین کا ہے‬
‫یہ کہہ کے آج بھی نہر فرات روتی ہے‬
‫ب آب جو حسین کا ہے‬ ‫کہ پسر پیاسا ل ِ‬
‫زمانے بھر میں کوئی ایک ہو نہیں سکتا‬
‫جو حق پسند ہے لیکن عدو حسین کا ہے‬
‫شرف لہو سے نہیں ہے کسی کو نسبت کا‬
‫ستم سے ہوتا ہے جو دو بدو حسین کا ہے‬
‫صداقتوں کا یہ پرچم سد ا بلند رہے‬
‫ک نیزہ پہ گویا گلو حسین کا ہے‬ ‫یہ نو ِ‬
‫ح خیبر کی یاد آئی خلش‬ ‫مجھے تو فات ِ‬
‫علی کا چہر ہ ہے جو ہو بہو حسین کا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫غزلیں‬

‫چلو جگنو پکڑتے ہیں‬


‫ی فن حق شناس سے‬ ‫ل سخن کی شوخ ِ‬ ‫اہ ِ‬
‫آنے لگی ہے بوئے چمن آس پاس سے‬
‫جنت میں جو سنے تھے وہ چشمے یہیں پہ ہیں‬
‫کوثر کے گھونٹ پیتا ہوں راوی بیاس سے‬
‫اترے ہوئے ہیں چاند سے سرسوں کے کھیت‬
‫میں‬
‫چمکے ہوئے ہیں کیسے ستارے کپاس سے‬
‫ل چمن پہ جانے کیا افتاد آ پڑی‬
‫اہ ِ‬
‫سہمے ہوئے ہیں سرو و سمن تک ہراس سے‬
‫میں نے سنا تھا شام چمن خوش گوار ہے‬
‫مجھ کو تو سارے پھول ملے ہیں اداس سے‬
‫جی چاہتا ہے خاک کی حرمت پہ مر مٹوں‬
‫جینا مرا ہو ایسے ہی مرنے کی آس سے‬
‫چہرے پہ یا الہی شہادت کے پھول ہوں‬
‫لپٹا ہوا ہو چاند ستارا لباس سے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫چشم ِ ُپر نم نے کہا سارا فسانہ میرا‬


‫ضبط کرتا تو کبھی حال نہ کھلتا میرا‬
‫وہ تو پھر غیر ہے غیروں سے شکایت کیسی؟‬
‫دھوپ کے ساتھ بدل جاتا ہے سایہ میرا‬
‫ت بریدہ کا مجھے‬ ‫فائدہ اتنا ہوا دس ِ‬
‫کسی مشکل میں کبھی ہاتھ نہ پھیل میرا‬
‫جس پری وش کے لیے دکھ کے سفر کو کاٹا‬
‫اس نے دیکھا ہی نہیں روح کا چھال میرا‬
‫داِغ دامن نہیں پیمانۂ کردار خلش‬
‫میرے ملبوس سے تھا جسم تو اجل میرا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جو درد مری روح میں پھیل نہیں ملتا‬
‫اب دائرہ در دائرہ دریا نہیں ملتا‬

‫تدبیر کا مرہم بھل کیا کام کرے گا‬


‫تقدیر کے زخموں کا مدا و ا نہیں ملتا‬

‫اس شہر کی گلیوں میں کسے ڈھونڈ رہے ہو‬


‫ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا‬

‫اغراض نے اخلص کی صورت ہی بدل دی‬


‫اب کوئی کسی سے کبھی بے جا نہیں ملتا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہر نفس موجۂ بے تاب کی اک صورت ہے‬
‫زندگی ذات میں گرداب کی اک صورت ہے‬

‫اشک بھی رکھتا ہے اک اپنی زباں سمجھو تو‬


‫حرف بھی قطرۂ خونناب کی اک صورت ہے‬

‫لوٹ کر آتے ہیں گزرے ہوئے دن کب لیکن‬


‫یاد بھی صحبت احباب کی اک صورت ہے‬

‫خواب بھی خواب ہوئے اب تو یہاں پر یارو‬


‫زخم بھی دیدۂ بے خواب کی اک صورت ہے‬

‫ن افلک کا اک غنچہ ہے‬‫چاند بھی گلش ِ‬


‫ت مہتاب کی اک صورت ہے‬ ‫پھول بھی صور ِ‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جب تک ترا خیال مرا ہم سفر نہ تھا‬
‫ت دردِ جگر نہ تھا‬
‫میں آشنائے لذ ِ‬

‫توڑ ا گیا ہے کیوں میرے بت کو تراش کر‬


‫ل ہنر نہ تھا‬
‫یہ تو کبھی بھی شیوۂ اہ ِ‬

‫تو باس تھی کسی کی تو سانسوں میں‬


‫بس گئی‬
‫میں پھول تھا مجھے بھی تو آخر بکھر نا تھا‬

‫کہنے کو کہہ گیا ہے ہر اک اشک داستاں‬


‫لیکن حدیث دل کا بیاں مختصر نہ تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫پرندے ہجرتیں کرنے لگے ہیں‬
‫شجر یوں کٹ کٹا کر گر رہے ہیں‬
‫ہرے چولے دعائیں مانگتے ہیں‬
‫مزاروں سے کبوتر اڑ چکے ہیں‬
‫صدائیں اب فضا میں مر رہی ہیں‬
‫ہو ا میں دائرے سے پھیلتے ہیں‬
‫کبھی دل میں اتر کر دیکھنا تم‬
‫تمھارے واسطے جو دکھ سہے ہیں‬
‫چر ا غوں کو ا بھی بجھنے نہ دینا‬
‫تھکے ہارے مسا فر لوٹتے ہیں‬
‫کبھی پوچھو تمھیں ہم بھی بتائیں‬
‫ہمیں بھی کس قدر تم سے گلے ہیں‬
‫تمھیں اتنی خبر بھی تو نہیں ہے‬
‫جیے کیسے بھل کیسے مرے ہیں ؟‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنگ اپنے خون سے ان میں دوبارہ بھر دیے‬
‫موسموں کے زہر نے جو پھول پیلے کر دیے‬
‫رفتہ رفتہ یوں مکمل گھر کا نقشہ ہو گیا‬
‫تم نے دیواریں بنائیں ہم نے ان کو در دیے‬
‫اشک آنکھوں سے رواں تھے اور انا خاموش‬
‫تھی‬
‫جب ضرورت نے خود اپنے ہاتھ آگے کر دیے‬
‫یا الہی ! زندگی کے خواب کی تعبیر کیا ؟‬
‫حوصلہ پرواز کا اور پھر شکستہ پر دیے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہر صف الٹی ‪ ،‬لشکر زخمی ‪ ،‬تیر نشانے‬
‫دیکھے‬
‫جب دشمن کی صف میں سارے یار پرانے‬
‫دیکھے‬
‫اک آجر کا بیٹا ان کی قیمت دینے آیا‬
‫اک مزدور کی بیٹی نے جو خواب سہانے‬
‫دیکھے‬
‫اس کی تیری باتوں سے تسکین بھل کیا‬
‫ہوتی‬
‫جس نے تیری یادوں کے رنگین زمانے دیکھے‬
‫ماں نے اپنے بچے کو پردیس کمانے بھیجا‬
‫اک دن اپنی تربت پر پھر پھول نہ ماں نے‬
‫دیکھے‬
‫ترک الفت مشکل ہو گا کون کرے گا ایسا‬
‫جس کی تجھ سے نسبت ہو وہ لکھ بہانے‬
‫دیکھے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫پتھر مرے و جو د پہ برسے تمام عمر‬
‫اے دوست لطف زیست کو ترسے تمام عمر‬
‫میرے پروں میں ہمت پرواز ہی نہیں‬
‫اڑنے نہ پائے ا یک ہی ڈر سے تمام عمر‬
‫رستوں کی خاک چھاننا لزم ہے دوستو‬
‫منزل کبھی ملی نہیں گھر سے تمام عمر‬
‫میرے بدن سے خون کی بوندیں نچوڑ لیں‬
‫اترا نہ بوجھ پھو لوں کا سر سے تمام عمر‬
‫جب بھی جلئی بجھ گئی شمع حیات شوق‬
‫دیکھا جہاں کو دیدۂ تر سے تمام عمر‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫میرے لیے صورت ہے یہ خوش کن بھی عجب‬
‫بھی‬
‫اس درجہ عنا یا ت کا کچھ ہو گا سبب بھی‬
‫گھر سے کہیں بہتر ہے بیا با ن کا عالم‬
‫گو کم نہیں گھر میرا بیابان سے اب بھی‬
‫ہم نے شب فرقت کی طرح اس کو گزارا‬
‫سب وصل جسے کہتے ہیں آئی تھی وہ شب‬
‫بھی‬
‫اخلص کے دھاگوں سے جو چند خواب بنے‬
‫تھے‬
‫تو بھول گیا کب کا مجھے یاد ہیں اب بھی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اک زور سے پھر درد کا طوفان اٹھا ہے‬
‫بھولے ہوئے لمحات کو کیا یاد کیا ہے‬
‫لب درد کی ٹیسوں میں تر ا نام نہ لے لیں‬
‫اب سوچ کے زخموں سے لہو رسنے لگا ہے‬
‫جو دور محبت میں کبھی ا س نے دیا تھا‬
‫وہ پھول کتابوں میں کہیں سوکھ چکا ہے‬
‫گو وقت کی رفتار میں اب بھول گیا ہوں‬
‫وہ چہر ہ مجھے دیر تلک یا د رہا ہے‬
‫پھر آج کئی شعر ہوئے جاتے ہیں مجھ سے‬
‫پھر آج تر ی یاد کا غم تا زہ ہوا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اک تعلق کا سرا تھا دوسرا کوئی نہ تھا‬
‫اس سے بڑھ کر میرا اس سے واسطہ کوئی نہ‬
‫تھ ا‬
‫شہر سے نکل تو میرے ساتھ تھا عالم تمام‬
‫دشت میں پہنچا تو واں میرے سوا کوئی نہ‬
‫تھ ا‬
‫اس طرح جیتا رہا ہوں دوستوں کے شہر میں‬
‫لکھ غم تھے اور غم سے آشنا کوئی نہ تھا‬
‫جب ہوئے رخصت ہمیشہ اس طرح رخصت‬
‫ہوئے‬
‫دیکھتے جا تے تھے منہ کو موڑتا کوئی نہ تھا‬
‫کیا تماشہ ہے کہ خود اپنی عدالت میں خلش‬
‫ہم ہی ٹھہرے بے وفا یا بے وفا کوئی نہ تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫صحن گلزار میں یوں پھولوں کے زیور چمکے‬
‫شاخیں مدہوش ہوئیں پتوں پہ ساغر چمکے‬
‫پھر مری پلکوں پہ موتی سے لرز آئے ہیں‬
‫پھر مری آنکھ میں اس روپ کے منظر‬
‫چمکے‬
‫اس سے پہلے کہ میں انصاف طلب کر سکتا‬
‫خون کے قطر ے سرِ تیغ ستم گر چمکے‬
‫اپنا دل چیر کے میں کس کو دکھاؤں یا رب‬
‫بند سیپوں میں مری ذات کے جوہر چمکے‬
‫پاؤں کی زد میں یہ رہتے تھے زمیں پر اکثر‬
‫اوج پر پہنچے تو کم مایہ سے پتھر چمکے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہر بات اس کی قول کسی کا کہا ہوا‬


‫چھوٹی سی عمر میں ہے و ہ کتنا بڑا ہوا‬
‫جس نے بھی اپنی ذات کی چوکھٹ پہ سر‬
‫رکھا‬
‫اس کا تو ایک عمر میں سجدہ ادا ہوا‬
‫تیرے بغیر جینا پڑا تو بھی جی لیے‬
‫اتنا ہی تجھ سے عشق ہوا تھا بھل ہوا‬
‫تم نے نجانے کیسے زمانے کو پا لیا‬
‫ہم سے تو اپنی ذات کا عقدہ نہ وا ہوا‬
‫بارِ کرم سے اٹھ نہ سکی نگہ باریاب‬
‫سو بار و ہ تو بام پر جلوہ نما ہوا‬
‫چیں بر جبین ایسی کہ تلوار تیز دھار‬
‫باتیں کہ جیسے زہر میں نشتر بجھا ہوا‬
‫ہم اس سے مل کے اور بھی شرمندہ ہو گئے‬
‫اک میکدے کے در پہ تھا ناصح کھڑا ہوا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫پانی اتر گیا ہے نجانے وہ کیا ہوئے‬


‫ہم نے یہیں کہیں جو گھروندے بنائے تھے‬
‫آنچل کسی خیال کا لہرا کے رہ گیا‬
‫بچوں نے تیز آندھی میں کاغذ اڑائے تھے‬
‫کوشش کے با وجود مجھے بھولتے نہیں‬
‫کچھ ایسے زندگی میں مری لوگ آئے تھے‬
‫ہنس کر مل کو ئی تو ہمیں یاد آ گئے‬
‫ہم نے ترے خلوص سے جو زخم کھائے تھے‬
‫ان راستوں کی دیکھئے منزل ملی تو کیا‬
‫جن راستوں کی دھوپ پر اپنے بھی سائے‬
‫تھے‬
‫اہل ستم کی شوخیاں تو دیکھنا ذرا‬
‫دامن میں بھر کے خار وہ اب پھول لئے تھے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ن نکتہ سنج کو روکنا اچھا لگا‬


‫اس زبا ِ‬
‫اس قدر اس کم سخن کا بولنا اچھا لگا‬
‫اپنی مٹی سے رہا رشتہ مرا مضبوط تر‬
‫گو زمین آسماں تک پھیلنا اچھا لگا‬
‫یوں سفر کو کچھ نہ کچھ تو طول ملتا جائے‬
‫گا‬
‫تھک کر اس کا راہگزر میں بیٹھنا اچھا لگا‬
‫کم نگاہی بھی قیامت تھی مگر اے جان من‬
‫آج تیرا آنکھ بھر کر دیکھنا اچھا لگا‬
‫یوں محبت تھی سرایت بچپنے سے جسم‬
‫میں‬
‫خ گل کو چومنا اچھا لگا‬ ‫تتلیوں کا شا ِ‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫عذاب رت میں جو اترے وہ کیا صحیفے تھے‬
‫گلب شہر کے حا کم ببول زادے تھے‬
‫جو آج سر سے اٹھا میر ے باپ کا سایہ‬
‫نظر پڑا ہے کہ کتنے یتیم بچے تھے‬
‫وہ جس کی لش کو کاندھا دیا ہے غیروں نے‬
‫پرائے دیس میں اس کے بھی چار بیٹے تھے‬
‫اب ایک خوف بسا ہے تمام کمروں میں‬
‫وہ دن گئے کہ چھتوں پر بھی لوگ سوتے تھے‬
‫تمھارے بعد یہ احسا س ہو رہا تھا مجھے‬
‫تمھارے ساتھ ہی پھولوں کے شہر ہوتے تھے‬
‫ہوا ہوئے ہیں زمانے کی تلخیوں میں مگر‬
‫ہمارے ذہن میں کتنے خیال پارے تھے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ایک دیکھی ہو ئی خوشبو مہکے‬


‫ترا پیکر مرے ہر سو مہکے‬
‫ان کو پہلو میں لیے بیٹھا ہوں‬
‫مری دنیا ‪ ،‬مرا پہلو مہکے‬
‫رات کی رات مرے شانوں پر‬
‫ترے بھیگے ہوئے گیسو مہکے‬
‫جب تری یاد کا در باز ہوا‬
‫پھول چمکے کبھی جگنو مہکے‬
‫وہ بد ن تختۂ گل کی مانند‬
‫وہ مہک ‪ ،‬نافۂ آہو مہکے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫موسم گل حیران کھڑا ہے‬
‫گھر کا گھر ویران پڑا ہے‬
‫دل کی بات بتائیں کیسے ؟‬
‫یارو وہ نادان بڑا ہے‬
‫ہم اور اس کو سجدہ کرتے‬
‫کافر نے بہتا ن گھڑا ہے‬
‫جیون بھی فٹ پاتھ ہے جیسے‬
‫سڑکوں پر سا ما ن پڑا ہے‬
‫موتی جیسے لفظ تھے جن کو‬
‫شعروں میں آسان جڑا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫زمانہ اور زمانے کے بعد کیا ہو گا‬


‫یہ نقش اپنا مٹانے کے بعد کیا ہو گا‬
‫پھر ایک تلخ حقیقت کا سا منا ہو گا‬
‫پھر ایک خواب سہانے کے بعد کیا ہو گا‬
‫میں سوچتا ہوں ذرا تو بھی سوچ اے ہمدم‬
‫کہ تیرے میرے فسانے کے بعد کیا ہو گا‬
‫کبھی یہ سوچا ہے پھر کیسے روشنی ہو گی‬
‫ہمارا دل بھی جلنے کے بعد کیا ہو گا‬
‫تمھیں بھی حال غم دل سنائے دیتے ہیں‬
‫تمھیں بھی حال سنانے کے بعد کیا ہو گا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫غموں کے بوجھ کو اس طرح ہلکا کیا کروں‬
‫یا رب‬
‫میں چشم یار کے کاجل کو گیل کیا کروں یا‬
‫رب‬
‫مجھے تو سوکھے پتوں کا بھی دکھ دشوار ہے‬
‫سہنا‬
‫میں اپنے گھر کے جلنے کا تماشا کیا کروں یا‬
‫رب‬
‫کوئی عنوان دے داِغ قبا گر اک فسانہ ہے‬
‫ل تمنا کیا کروں یا رب‬ ‫گنا ِہ عشق یا قت ِ‬
‫یہ دنیا اک تماشا گاہ ہے رنج و مسرت کی‬
‫میں تیرا کیا کروں یا رب میں اپنا کیا کروں‬
‫یا رب‬
‫سرابوں ہی سرابوں کا تعاقب زندگی نکلی‬
‫حقیقت کے فسانوں کا میں پیچھا کیا کروں‬
‫یا رب‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کھویا کھویا رہتا ہوں‬


‫بکھرے لمحے چنتا ہوں‬
‫چاروں جانب سائے ہیں‬
‫دل ہی دل میں ڈرتا ہوں‬
‫تیری باتیں کر نے سے‬
‫میں ہلکا ہو جا تا ہوں‬
‫اب کے تھوڑی فرصت ہے‬
‫اب کے کچھ دن ٹھہرا ہوں‬
‫اشکوں کا اک دریا تھا‬
‫قطرہ قطرہ بہتا ہوں‬
‫جب بھی تنہا ہو تا ہوں‬
‫کتنا تنہا ہو تا ہوں‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫دوست بھی یاں رقیب ہوتے ہیں‬
‫ا پنے ا پنے نصیب ہوتے ہیں‬
‫جان من ٹوٹتے ہوئے تارے‬
‫زندگی کے نقیب ہوتے ہیں‬
‫اس میں کیا اختیار اپنا ہے‬
‫دل کے رشتے عجیب ہوتے ہیں‬
‫وہ بھی دیکھو بدلتے رہتے ہیں‬
‫سائے کتنے قریب ہوتے ہیں‬
‫اس خلش کو دوام رہنا ہے‬
‫آپ مانا طبیب ہوتے ہیں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کبھی ہنستا کبھی روتا رہا ہوں‬


‫تماشا رات بھر کرتا رہا ہوں‬
‫مرے چاروں طرف اک روشنی تھی‬
‫تمھاری یاد میں جلتا رہا ہوں‬
‫پرانی یا د کے ملبے پہ بیٹھا‬
‫بڑی ہی دیر تک روتا رہا ہو ں‬
‫مسافر جان کر سب پوچھتے تھے‬
‫گلی میں دیر تک ٹھہرا رہا ہوں‬
‫کسی کے درد کا قصہ سنا تھا‬
‫میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کس نے کس کا سمجھا دکھ‬
‫سب کا اپنا اپنا دکھ‬
‫دیپک سنتا رہتا ہے وہ‬
‫جس کے من میں سلگا دکھ‬
‫روتے روتے پوچھ لیا تھا‬
‫ہنستے ہنستے بو ل دکھ‬
‫مشکل یوں بھی سہنا ہو گا‬
‫لیکن تنہا سہنا دکھ‬
‫تیرے غم کو پال ہم نے‬
‫ہم نے اپنا ٹال دکھ‬
‫یاد سنہرا سپنا کوئی‬
‫کالی خوشیاں اجل دکھ‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫لمحہ لمحہ حادثہ در حادثہ پھیل ہوا‬


‫دور تک ہے آرزو کا سلسلہ پھیل ہوا‬
‫میں تمھاری چاہ میں گھر تک تمھارے آ گیا‬
‫کچھ تو تم بھی اب سمیٹو فاصلہ پھیل ہوا‬
‫ش حالت تو مجھ کو رل سکتی نہیں‬ ‫گرد ِ‬
‫آنکھ تک کیا آ گیا ہے آبلہ پھیل ہوا‬
‫منزلوں کی دور تک ہم نے جھلک دیکھی نہیں‬
‫دور تک ہے راستہ ہی راستہ پھیل ہوا‬
‫اپنا منظر اپنی آنکھوں سے کبھی دیکھو‬
‫خلش‬
‫ہر طرف ہے انجمن میں آئینہ پھیل ہوا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫حرف کو معتبر ہی رہنے دو‬
‫بات کو مختصر ہی رہنے دو‬
‫کبھی ملنا پڑے تو مل بھی لیں‬
‫فاصلے اس قدر ہی رہنے دو‬
‫مری آنکھوں کو بھیگتا رکھو‬
‫مرے دامن کو تر ہی رہنے دو‬
‫میں اسی کو ہنر سمجھتا ہو ں‬
‫تم مجھے بے ہنر ہی رہنے دو‬
‫مری تعریف اس قدر نہ کرو‬
‫مجھے بندہ بشر ہی رہنے دو‬
‫با ت کرنا بہت ضروری ہے‬
‫ہاں مجھے چپ مگر ہی رہنے دو‬
‫منزلیں اس طرح نہیں ملتیں‬
‫دھوپ دیکھو سفر ہی رہنے دو‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫حسرت یک نظر میں بیٹھے ہیں‬


‫ہم تری راہ گزر میں بیٹھے ہیں‬
‫ایک بستی بسانے آئے تھے‬
‫ایک ا جڑے نگر میں بیٹھے ہیں‬
‫آ پ کے ہا تھ میں بھی پتھر ہیں‬
‫آ پ شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں‬
‫دھوپ کا سائبا ن اوڑھے ہوئے‬
‫سایۂ بے شجر میں بیٹھے ہیں‬
‫لو گ منزل تلش کر لئے‬
‫ہم ابھی گر مگر میں بیٹھے ہیں‬
‫اپنے ہی بازوؤں سے اڑنا ہے‬
‫اپنے ہی بال و پر میں بیٹھے ہیں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫جبر یا اختیار میں رہنا‬


‫اپنے اپنے غبار میں رہنا‬
‫تری ہستی فریب ہستی ہے‬
‫مت کسی اعتبار میں رہنا‬
‫مری آنکھوں کو ایک عادت ہے‬
‫بس ترے انتظار میں رہنا‬
‫ایک عمر خزاں کا حاصل ہے‬
‫چار دن کی بہار میں رہنا‬
‫مرے دشمن کو زیب کیا دیتا‬
‫صورت غمگسار میں رہنا‬
‫کتنے پتھر نصیب کرتا ہے‬
‫دامن تار تار میں رہنا‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫اشکوں سے بھر گیا ہے جو دامن بہار میں‬
‫برسا ہے آج خوب ہی ساون بہار میں‬
‫قسمت پہ اس غریب کی کیسے نہ روئیے‬
‫و ہ پیڑ بن گیا ہے جو ایندھن بہار میں‬
‫پھولوں کے ہیں نصیب میں یہ خوشبوئیں‬
‫کہاں‬
‫مہکا خیال یار سے آنگن بہار میں‬
‫پوچھو تو ہم سے کیسے کٹا مو سم خزاں‬
‫ٹھہرو ہمارے پا س بھی کچھ دن بہار میں‬
‫میں ہوں خزاں نصیب مری خواہشیں نہ‬
‫پوچھ‬
‫میں شاخ گل بناؤں گا مسکن بہار میں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اب نصیبوں میں فقط اک روسیاہی رہ گئی‬


‫باپ کے مرنے سے بیٹی بن بیاہی رہ گئی‬
‫دل ربائی ‪ ،‬جاں ستائی ‪ ،‬خوش نگاہی اٹھ‬
‫گئی‬
‫کج ادائی ‪ ،‬بے نیازی ‪ ،‬کم نگاہی رہ گئی‬
‫اور تو سب کچھ گیا ہے شہر پر افتاد میں‬
‫بس امیر شہر کی اک کج کلہی رہ گئی‬
‫مل ہی جاتی ہے کسی صورت تو قاتل کو‬
‫پناہ‬
‫کوئی منصف بک گیا یا پھر گواہی رہ گئی‬
‫اک محبت درمیاں تھی دوستوں کے ‪ ،‬نہ رہی‬
‫سو عدو میدان میں اور بے پناہی رہ گئی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫زمیں کو گھومتا رکھا گیا ہے‬


‫یہیں اک سلسلہ رکھا گیا ہے‬
‫مقدر سے مفر ممکن نہیں ہے‬
‫جو دکھ جس نام کا رکھا گیا ہے‬
‫تری آنکھیں ہی تکتا جا رہا ہوں‬
‫مری آنکھوں میں کیا رکھا گیا ہے‬
‫مرے اندر صدائیں مر رہی ہیں‬
‫یہ گنبد بے صدا رکھا گیا ہے‬
‫انہیں ہی مبتل ہو نا تھا آخر‬
‫دلوں میں حوصلہ رکھا گیا ہے‬
‫مرے مسلک کی یہ صورت گری ہے‬
‫خدا بھی خود نما رکھا گیا ہے‬
‫وہیں پر ہوائیں تیز تر تھیں‬
‫جہاں جلتا دیا رکھا گیا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آئے ہمارے ذہن میں آ کر بکھر گئے‬
‫مصروفیت میں کتنے خیالت مر گئے‬
‫یارو اندھیری رات کے عادی تھے اس لیے‬
‫ہم روشنی میں اپنے ہی سائے سے ڈر گئے‬
‫تیری طرح کی کوئی بھی صورت نہ مل‬
‫سکی‬
‫لے کر ترے خیال کو ہم در بدر گئے‬
‫عرصہ سمٹ کر ایک ہی قطرے میں آ گیا‬
‫لمحے تمھاری یاد کے کیا کام کر گئے‬
‫رکھ کر مرے وجود کو نشتر کی نوک پر‬
‫چارہ نہ ہو سکا تو مرے چار ہ گر گئے‬
‫گرد سفر نے چہرے کو اوڑھا ہوا تھا یوں‬
‫ہم اجنبیتوں کے سمندر اتر گئے‬
‫ماں بھی نہ سو سکی تھی خلش انتظار میں‬
‫ہم ساری رات بعد بھی گر اپنے گھر گئے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫جب شکستہ مرے دل سے بھی گریباں نکل‬


‫میں غم عشق تھا سمجھا غم دوراں نکل‬
‫لوگ تو لوگ تھے توقیر مری کیا کرتے‬
‫میرا سایہ بھی یہاں مجھ سے گریزاں نکل‬
‫میں نے جس شخص کو ہر حال میں خوش‬
‫دیکھا تھا‬
‫وہ تمنا کے سرابوں کا بیاباں نکل‬
‫پھر ترے سچ میں بھی اخلص بھل کیا ہو گا‬
‫تری ہر بات میں جب جھوٹ مری جاں نکل‬
‫آپ اپنی حقیقت پہ ندامت ہے مجھے‬
‫خود غرض اتنا مرے دور کا ا نساں نکل‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫وہ مہرباں بھی ہوا تھا نہ مہر باں ایسا‬


‫خیال یار ہوا ہے عذاب جاں ایسا‬
‫اسے مٹاؤں تو اپنی ہی ذات مٹ جائے‬
‫جو فاصلہ بھی رہا ہے تو درمیاں ایسا‬
‫کبھی جو یاد بھی آیا تو رو دیے ہنس کر‬
‫قفس میں چھوڑ کے آئے ہیں آشیاں ایسا‬
‫جنوں میں دو ہی قدم چل کے میں تو لوٹ‬
‫آیا‬
‫سواد شہر میں دیکھا ہے کچھ سماں ایسا‬
‫ہجوم شہر میں ملتی ہے ایک تنہائی‬
‫میں اپنی ذات میں تنہا ہوں دوستاں ایسا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اب کیسے کریں شکوے گلے چھوڑ د یا ہے‬
‫اس نے بھی مصیبت کے سمے چھوڑ دیا ہے‬
‫دن بھر تو کڑی دھوپ میں وہ ساتھ رہا تھا‬
‫کیوں سائے نے اب شام ڈھلے چھوڑ دیا ہے‬
‫خود اپنی محبت میں گرفتار رہا ہوں‬
‫ہر چاہنے والے نے مجھے چھوڑ دیا ہے‬
‫خود مجھ کو بھی اس بات کا شاید نہ یقیں‬
‫ہو‬
‫کہنے کو تو کہہ لوں گا اسے چھوڑ دیا ہے‬
‫مانا کہ چل جائے گا و ہ چھوڑ کے لیکن‬
‫سوچے گا کسی وقت کسے چھوڑ دیا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫یوں تو پاگل بنتا ہو گا‬
‫تیر ا نا م نہ لیتا ہو گا‬
‫سارے رستے منزل ہوں گے‬
‫ہر منزل کا رستہ ہو گا‬
‫بچھڑا تھا تو میرا تھا‬
‫اب وہ جانے کس کا ہو گا‬
‫چاہے نہ چاہے اس کی مرضی‬
‫اس نے مجھ کو سوچا ہو گا‬
‫ن محفل‬ ‫کون تھا میرا جا ِ‬
‫کس نے مجھ کو پوچھا ہو گا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اک بت کو محبت میں خد ا کرتا رہا ہوں‬


‫مجرم ہوں بہر حال وفا کرتا رہا ہوں‬
‫ہر گام پہ تیرے ہی مجھے دھوکے ہوئے ہیں‬
‫ہر در پہ میں رک رک کے صدا کرتا رہا ہوں‬
‫فنکار ہوں توہین انا سہہ نہیں سکتا‬
‫مجبور تھا توہین انا کرتا رہا ہوں‬
‫جو لطف تری یاد میں ہے تجھ میں نہیں ہے‬
‫میں تجھ سے بچھڑنے کی دعا کر تا رہا ہوں‬
‫میں وقت کے بدلے ہوئے تیور نہیں سمجھا‬
‫میں سوچ کے زخموں کو ہرا کرتا رہا ہوں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫یار جانے گمان کیا کرتا‬
‫درد دل کا بیان کیا کرتا‬
‫بعد مد ت کے گر گیا آخر‬
‫اور اجڑا مکان کیا کرتا‬
‫آج محفل میں آنکھ برسی ہے‬
‫اب بھل راز دان کیا کرتا‬
‫جانتا تھا تری وفاؤں کو‬
‫میں ترا امتحان کیا کرتا‬
‫آج عزت کو بیچ آیا ہے‬
‫اور بھوکا کسان کیا کرتا‬
‫٭٭٭٭٭٭‬

‫جسے حرف غم نہ سنا سکا ترا غم گسار ہے‬


‫بھول جا‬
‫کوئی منتظر ترے واسطے سرِ راہ گزار ہے‬
‫بھول جا‬
‫مرا نامہ بر بھی عجیب ہے وہ جو کہہ گیا ہے‬
‫سنو ذرا‬
‫جو گزر گیا ہے وہ سانحہ بڑا دل فگار ہے‬
‫بھول جا‬
‫وہی اضطراب دوام ہے وہی روز وعدۂشام‬
‫ہے‬
‫یہ نیا نہیں کوئی سلسلہ ہمیں اعتبار ہے بھول‬
‫جا‬
‫وہی آسماں وہی لوگ ہیں وہیں نشتریں وہی‬
‫روگ ہیں‬
‫وہی دکھ نصیب کے یاد رکھ کوئی راز دار ہے‬
‫بھول جا‬
‫گ ساز خیال ہے نہ ہوائیں نغمہ سرا‬
‫کوئی بر ِ‬
‫ہیں اب‬
‫کوئی آشیاں جو بکھر گیا سرِ شاخسار ہے‬
‫بھول جا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫حسرت تو دیکھئے کہ ہمیں غم بھی کیا ملے‬
‫نا لے ملے نصیب میں تو نا رسا ملے‬
‫کچھ ہم حصارِ ذات سے نکلے نہ عمر بھر‬
‫کچھ دوست زندگی میں ہمیں بے وفا ملے‬
‫آنکھوں کو کر گیا ہے کوئی جلتے ہوئے چراغ‬
‫کب تک انہیں بھی دیکھئے لیکن ہوا ملے‬
‫گہری مسا فتوں کے شریک سفر کہاں‬
‫ساحل کے ساتھ ساتھ بڑے نا خدا ملے‬
‫میں دوستوں سے بات چھپاؤں تو کس لیے‬
‫لیکن بتاؤں بات بھی گر دل ربا ملے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫تری گلیوں کا تھا گدا میں بھی‬


‫یونہی د یتار ہا صدا میں بھی‬
‫خود پہ ڈ ھا تا رہا ستم برسوں‬
‫اپنا ہمدر د ہو چل میں بھی‬
‫اتنے آ ل م مجھ پہ آئے ہیں‬
‫اب تو پتھر سا ہو گیا میں بھی‬
‫تیری گلیوں میں آن نکل ہوں‬
‫خود کو اب ڈھونڈتا ہوا میں بھی‬
‫تو مجھے بھول کے ملول نہ ہو‬
‫خوش تجھے بھول کر رہا میں بھی‬
‫دن تو ہنستے ہنساتے بیت گیا‬
‫رات تنہا تھا رو پڑا میں بھی‬
‫تو نے کیسی نظر سے دیکھا ہے‬
‫اب تو شاعر سا ہو گیا میں بھی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ف دعا راز رہے‬ ‫یہ دعا ہے کہ مرا حر ِ‬
‫تیری الفت میرے سینے میں صدا راز رہے‬
‫ایک مدت سے مل قا ت نہیں ہے کوئی‬
‫ل زبوں نامہ برار از رہے‬
‫اب مرا حا ِ‬
‫میں نے گبھرا کے غم ِ دل تو کہا ہے لیکن‬
‫اب یہ ڈر ڈر کے میں کہتا ہوں ذرا راز رہے‬
‫میں سمجھتا ہوں اندھیروں سے الجھنا ہے‬
‫حیات‬
‫تم یہ کہتے ہو کہ سورج کی ضیا راز رہے‬
‫واشد گل نے کہی شب کی کہانی ساری‬
‫ورنہ ممکن تھا کہ گلشن میں صبا راز رہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫تیری آنکھوں سے اب غمزے اشا رے کیوں‬


‫نہیں ملتے‬
‫بتا کچھ تو ہمیں اب حق ہمارے کیوں نہیں‬
‫ملتے‬
‫زمانے کی بہاریں جا کے پھر بھی لوٹ آتی‬
‫ہیں‬
‫ہمیں بیتے ہوئے اب دن ہمارے کیوں نہیں ملتے‬
‫طلب کرتی ہے ہر خواہش مشقت دو ستو‬
‫دیکھو‬
‫اگر کوشش کریں تو چاند تارے کیوں نہیں‬
‫ملتے‬
‫سجا کے رنگ آنکھوں میں کسی کے پیار کا‬
‫دیکھو‬
‫یہ دنیا خوب صورت ہے نظارے کیوں نہیں‬
‫ملتے‬
‫زمیں برگد کی شاخوں کو سدا مضبوط‬
‫کرتی ہے‬
‫جہاں میں بے سہاروں کو سہارے کیوں نہیں‬
‫ملتے‬
‫مجھے ٹکرا کے ان سے پھر مگر واپس ہی آنا‬
‫ہے‬
‫مری بے تاب موجوں کو کنارے کیوں نہیں‬
‫ملتے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫قتل بھی کرتا نہیں جانے و ہ قاتل کیا تھا‬
‫جز ندامت کے مرے عشق کا حاصل کیا تھا‬
‫ق مسافت نے مجھے‬ ‫دور منزل سے رکھا ذو ِ‬
‫بر سر راہ تو میں تھا سرِ منزل کیا تھا‬
‫مجھ سے ملنے میں تمھیں لکھ سہی‬
‫دشواری‬
‫خلقت شہر میں کھو جانا بھی مشکل کیا تھا‬
‫مجھ جواں مرگ پہ رونے کو تو عالم رویا‬
‫رونے والوں میں مرا شوخ بھی شامل کیا‬
‫تھ ا‬
‫چھوڑ ہنگامۂ محشر تو مجھے سونے دے‬
‫مت دل یا د مجھے گرمئ دل ‪ ،‬دل کیا تھا‬
‫دیکھ کر مجھ کو ہوئے دوست خلش چپ‬
‫کیونکر‬
‫ذکر تو میرا تھا لیکن سرِ محفل کیا تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ضد سے کہتا ہے ہاں نہیں ہوتا‬


‫ہم پہ کیوں مہرباں نہیں ہوتا‬
‫غیر سے بھی ہے بد گماں لیکن‬
‫اس قدر بد گماں نہیں ہوتا‬
‫داستاں میرے غم کی ہے یارو‬
‫غم مگر د ا ستاں نہیں ہوتا‬
‫تم نے پوچھا ہے عشق کا حاصل‬
‫اس میں سود و زیاں نہیں ہوتا‬
‫اس سے ملنے تو روز جاتے ہیں‬
‫دل کا عالم بیاں نہیں ہوتا‬
‫کسی پتھر سے پوچھ کر دیکھو‬
‫دل سے بہتر مکاں نہیں ہوتا‬
‫وہ گھڑی بھی ہے امتحاں شاید‬
‫جس گھڑی امتحاں نہیں ہوتا‬
‫اپنے ہی دل سے پوچھ لو یارو‬
‫کوئی بھی راز داں نہیں ہوتا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ک محبت کر رہا ہوں‬‫لے اب تر ِ‬


‫تری دنیا سے ہجرت کر رہا ہوں‬
‫جبیں سجدوں سے عاجز آ چکی ہے‬
‫خداؤں سے بغاوت کر رہا ہوں‬
‫مرے آنگن میں بہنیں کھیلتی ہیں‬
‫میں عزت کی حفاظت کر رہا ہوں‬
‫کبھی تفصیل سے ملنا بھی ہو گا‬
‫ابھی صاحب سل مت کر رہا ہوں‬
‫برائی روز سر زد ہو رہی ہے‬
‫مگر نیکی کی نیت کر رہا ہوں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫سبھی اصول سبھی تجزیے بدل جائیں‬


‫تمھارے واسطے سب ضابطے بدل جائیں‬
‫جو لوگ آج مرے ہم سفر ہیں ہمدم ہیں‬
‫کسے خبر کہ کہاں راستے بدل جائیں‬
‫کسی کے نام سے نسبت بڑا رلتی ہے‬
‫کتاب زیست کے جب حاشیے بدل جائیں‬
‫ترے سلوک سے گبھرا کے بارہا سوچا‬
‫ہمار ا دل پہ اگر بس چلے بدل جائیں‬
‫عدو کے سامنے جب تذکرہ ہے یاروں کا‬
‫صداقتیں نہ رکھیں ‪ ،‬واقعے بدل جائیں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫بے حقیت اپنا ہونا یا نہ ہونا رہ گیا‬


‫زندگی کے ہاتھ میں بن کر کھلونا رہ گیا‬
‫ہم نے اپنے آپ کو ا نمول سمجھا تھا مگر‬
‫دام جب گرنے لگا تو اونا پونا رہ گیا‬
‫کل تلک تو اس کے قد میں دیو کے آثار تھے‬
‫آج دیکھا تو مری نظروں میں بونا رہ گیا‬
‫سوچتا ہے اب امیرِ شہر ‪ ،‬لوٹوں کس طرح‬
‫شہر میں بکھرا ہو ا سورج کا سونار ہ گیا‬
‫ہم جہاں سوئے وہاں ہاتھوں کو تکیہ کر لیا‬
‫کیا خبر کس گام پر اپنا بچھونا رہ گیا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کبھی کٹتے ہوئے سر بولتے ہیں‬


‫کبھی ٹوٹے ہوئے پر بولتے ہیں‬
‫مرے باہر خموشی چھا گئی ہے‬
‫مرے اندر کبو تر بولتے ہیں‬
‫شجر کوئی ثمر ور تھا یہاں پر‬
‫ترے آنگن کے پتھر بولتے ہیں‬
‫یہ لب خاموش بھی جادو اثر ہیں‬
‫یہ جب بولیں تو منتر بولتے ہیں‬
‫ابھی ہم کو ذرا ز نجیر رکھو‬
‫ابھی ہم بندہ پرور بولتے ہیں‬
‫ہم ایسے سادہ دل لوگوں سے اکثر‬
‫نجانے کیوں بگڑ کر بولتے ہیں‬
‫مسافت کا ٹنا آساں نہیں تھا‬
‫یہ د نیا بھر کے چکر بولتے ہیں‬
‫ہمارے حال پر ہے مہرباں کیوں‬
‫جسے سارے ستم گر بولتے ہیں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫سوچوں کے سنسان سفر پر‬
‫ہے کیسے انسان سفر پر‬
‫راہ میں ناصر پڑھتے جانا‬
‫لے جانادیوان سفر پر‬
‫ہر رستے پر پہرے دکھ کے‬
‫مت نکلو نادان سفر پر‬
‫ایک ملن کی آس سنہری‬
‫کافی ہے سامان سفر پر‬
‫منزل بھی مل ہی جاتی ہے‬
‫لیکن میری جان سفر پر‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اچھے لوگوں سے گفتگو رکھنا‬


‫اپنے لفظوں کی آبرو رکھنا‬
‫شرط دیدار کی کڑی تو نہیں‬
‫صرف آنکھوں کو با وضو رکھنا‬
‫مجھ کو جو چاہے تم سزا دے دو‬
‫مر ا محضر نہ رو بر و رکھنا‬
‫خاک تو کر دیا زمانے نے‬
‫اب مری خاک میں نمو رکھنا‬
‫اور تو تجھ سے کچھ نہیں کہنا‬
‫مرے دل کا خیال تو رکھنا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آدھا دھڑ انسانوں جیسا آدھا دھڑ تھا پتھر کا‬
‫کانے دیو نے نگری نگری منتر پھونکا پتھر کا‬
‫پتھر کے پانی سے سا رے پتھر کے تالب‬
‫بھرے‬
‫پہلے پتھر آندھی آئی مینہ پھر برسا پتھر کا‬
‫میں نے جس کے دامن کو خوشبو خوشبو‬
‫رکھا تھا‬
‫اس نے میرے صحن کے اندر پھول اگایا پتھر‬
‫کا‬
‫پتھر کے پھل پھول تھے سارے پتھر جیسے‬
‫موسم تھے‬
‫پتھر کے اس جنگل میں تھا پتا پتا پتھر کا‬
‫اس بت سے ملنے کی خاطر پتھر کا دل کر‬
‫ڈالو‬
‫دیکھو آگ لگاتا ہے پتھر سے ملنا پتھر کا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اک خون کا در یا ہے کہ تا حد نظر ہے‬


‫اور کوئے ستم گر بھی نہیں اپنا ہی گھر ہے‬
‫مانا کہ مرے واسطے تدبیر کرو گے‬
‫تقدیر کے زخموں سے مگر کس کو مفر ہے‬
‫ل ہنر سے‬‫یوں چھینی ہے حاکم نے زباں اہ ِ‬
‫لگتا ہے مرا شہر کوئی چپ کا نگر ہے‬
‫اک شکوۂ بے جا ہے کہ منزل نہیں ملتی‬
‫بے نام مسافت ہے تو بے سمت سفر ہے‬
‫اس شخص سے اس شہر کے حالت نہ‬
‫پوچھو‬
‫جو چاک قبا ‪ ،‬خار بپا ‪ ،‬خاک بسر ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جیسے ہر آن کوئی مرتا ہے‬
‫ہم نے یوں زندگی کو برتا ہے‬
‫ہم سے سادہ مزاج لوگوں سے‬
‫خم ِ کاکل بھی کب سنورتا ہے‬
‫اب بھی تیرے حسین چہرے کا‬
‫نقش کچھ دیر کو ا بھر تا ہے‬
‫رات گلشن میں کو ئی روتا ہے‬
‫رنگ پھولوں کا تب نکھرتا ہے‬
‫آدمی آدمی کا دشمن ہے‬
‫آدمی آدمی سے ڈرتا ہے‬
‫کوئی تازہ غزل نہیں ہوتی‬
‫زخم اک روح میں اترتا ہے‬
‫دل کی باتیں نہ مانیے زاہد‬
‫دل مگر آرزو تو کرتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭‬

‫ل تمنا کی شورشیں لے کر‬ ‫دلوں میں سی ِ‬


‫چمن میں آئے ہیں کچھ پھول رونقیں لے کر‬
‫یہ دیکھنا ہے کہ اب ریت کتنی پیاسی ہے‬
‫دعائیں آئی ہیں صحرا میں بارشیں لے کر‬
‫کسی کے نام سے نسبت تلش کیا کرنا‬
‫چلیں گے کاندھوں پہ اپنی ہی گردنیں لے کر‬
‫مجھے یقین ہے روشن جہان کر دیں گی‬
‫ہوا کی زد میں جو نکل ہوں مشعلیں لے کر‬
‫وہ برف ہوں کہ مرے پاس دھوپ جم جائے‬
‫اتر پڑ ا ہوں جو دریا میں گرمیاں لے کر‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ط تارِ نظر میں جو شکل یار نہ تھی‬ ‫بسا ِ‬


‫ہزار پھول کھلے تھے مگر بہار نہ تھی‬
‫یہ اور بات کہ ایسا غبار نہ تھا کبھی‬
‫فضائے شہر تو پہلے بھی ساز گار نہ تھی‬
‫جنوں میں اب کے کوئی اور غم بھی شامل‬
‫ہے‬
‫قبا دریدہ سہی یوں بھی تار تار نہ تھی‬
‫وہ عمر بھر کی تھکن ساتھ لے کے سو ہی‬
‫گیا‬
‫ب انتظار نہ تھی‬‫وہ ایک پل بھی جسے تا ِ‬
‫کہاں سے آئے گی سوچو تو موسموں میں‬
‫نمی‬
‫کسی کی آنکھ بھی ساون میں اشک بار نہ‬
‫تھی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫تیرے دروازے پہ آیا تھا صدا کی میں نے‬
‫توڑا پندار کو تو ہین ا نا کی میں نے‬
‫میرے دامن میں ترے غم کے سوا کچھ بھی‬
‫نہیں‬
‫اس پہ دعو ٰی ہے تمھیں یہ کہ وفا کی میں نے‬
‫تم ہی منصف ہو سزا وار سزا تو رکھو‬
‫میں ہی مجرم ہوں چلو مانا خطا کی میں‬
‫نے‬
‫ک ز باں اتری ہے‬
‫دل میں خنجر کی طرح نو ِ‬
‫ک تعلق کی دعا کی میں نے‬ ‫کس سے یہ تر ِ‬
‫ساتھ ہر بار گیا پارۂ دل بھی ہائے‬
‫دل سے سو بار تری یاد جدا کی میں نے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دلیل دیتا ہے نہ خود قبول کر تا ہے‬
‫وہ بات بات پہ بحثیں فضول کرتا ہے‬
‫وہ اشک بن کے مری آنکھ سے برستا ہے‬
‫جو خون دل سے ترا غم وصول کرتا ہے‬
‫تمھارے شہر میں آ کر ہی ہم نے دیکھا ہے‬
‫کہ خوشبوؤں کی تجارت بھی پھول کرتا ہے‬
‫اسے خبر ہی نہیں ہم اداس لوگوں کی‬
‫وہ عاد تا ً ہی جو د نیا ملول کر تا ہے‬
‫مرے گناہوں کو بھی وہ معاف کر دے گا‬
‫سنا ہے میں نے وہ توبہ قبول کرتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫آتا ہے دعاؤں سے ‪ ،‬دعاؤں کو بھل کے‬


‫اک آن میں جاتا ہے وہ سو در د جگا کے‬
‫حیرت ہے کہ ہم دونوں میں اخلص نہیں ہے‬
‫گو دونوں طلب گار ہیں دنیا میں وفا کے‬
‫پتھر کو بھی انمول بنا لیتے ہیں زر گر‬
‫لہجوں سے بدل جاتے ہیں مفہوم نوا کے‬
‫تم اہل سخا ا پنی عنا یا ت کو گن لو‬
‫ف دعا باقی ہے کاسے میں گدا کے‬ ‫اک حر ِ‬
‫ن چمن کو‬ ‫دیکھا ہے کبھی تو نے اسیرا ِ‬
‫کیا ان پہ گزرتی ہے پر و بال گنوا کے‬
‫سجدہ جسے کرتے ہیں ازل ہی سے فرشتے‬
‫انسان بھی ڈھل جاتا ہے سانچے میں خدا کے‬
‫ہر بات ہے بہنوں کی ‪ ،‬حفاظت کا وظیفہ‬
‫اور بول ہیں ماؤں کے سبھی ردِ بل کے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ورق پہ نام جو ‪ ،‬پڑ ھتا تھا خواب چہرے سے‬


‫وہ سو چکا تھا جو سرکی کتاب چہرے سے‬
‫ابھی تو اس نے فقط ایک روپ بدل ہے‬
‫ابھی تو کتنے اٹھیں گے نقاب چہرے سے‬
‫ہمار ا ہنسنا ہنسانا تو ٹھیک ہے لیکن‬
‫کسی کے دل کا نہ کرنا حساب چہرے سے‬
‫میں لے کے جاتا ہوں کتنے سوال آنکھوں‬
‫میں‬
‫وہ دے کے جاتا ہے سارے جواب چہرے سے‬
‫ہر ایک پھول ہے جیسے خلش کوئی مصحف‬
‫جو بانٹتا ہے چمن میں ثواب چہرے سے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫حق نے کبھی بھی اس کو مجدد نہیں کیا‬


‫جس نے سخن میں میر کو مرشد نہیں کیا‬
‫اشکوں کے آبشار کا تم تو سبب نہیں‬
‫ہم نے تمھیں تو یاد بھی شاید نہیں کیا‬
‫آنکھوں میں بس رہے ہیں وہی خواب اب‬
‫تلک‬
‫دل نے کسی لکیر کو سرحد نہیں کیا‬
‫پگڑی اچھالنا تو رذیلوں کا کام ہے‬
‫پھر کیا جو ہم کو صاحب مسند نہیں کیا‬
‫اک نیم خامشی جو صدا زیر لب رہی‬
‫ف بے صدا جسے گنبد نہیں کیا‬ ‫اک حر ِ‬
‫کل بھی تھے بے چراغ گھروں کے مکین ہم‬
‫روشن کسی نے آج بھی مرقد نہیں کیا‬
‫دربار میں وہ محترم ہو بھی تو کیوں بھل‬
‫ف خوشا مد نہیں کیا‬ ‫لفظوں کو جس نے صر ِ‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫رقص کا روپ دھار کر دیکھو‬


‫سر پہ مستی سوار کر دیکھو‬
‫ہجر کیسا عذ ا ب ہوتا ہے‬
‫چندلمحے گزار کر دیکھو‬
‫آ رزوۓ بہار کا کیا ہے‬
‫آر ز وۓ بہار کر دیکھو‬
‫ایک لمحہ ہے اور کچھ بھی نہیں‬
‫گزرے لمحے شمار کر دیکھو‬
‫سبز خاموشیوں کے جنگل میں‬
‫حرفروشن شکار کر دیکھو‬
‫ہجر بھی تو وصال ہو تا ہے‬
‫اسے دل سے پکار کر دیکھو‬
‫اپنے چاروں طرف اجال ہے‬
‫خوف کا سانپ مار کر دیکھو‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫آرام سے اک بات بھی سنتا ہی نہیں ہے‬


‫کڑوا بھی ہے وہ پھل ابھی کچا ہی نہیں ہے‬
‫خود اس کا بدلتا ہوا ہر روپ بتائے‬
‫وہ ویسا بھی ہو سکتا ہے ایسا ہی نہیں ہے‬
‫وہ شخص مرے ساتھ کئی سال رہا ہے‬
‫اب پاس سے گزرا ہے تو پوچھا ہی نہیں ہے‬
‫دریا ہے جو آنکھوں سے گزر کر نہیں آتا‬
‫آ نسو تو کبھی آنکھ میں ٹھہر ا ہی نہیں ہے‬
‫جو گاؤں میں پھیلے ہوئے جھگڑوں کو مٹا دے‬
‫اب گاؤں میں ایسا کوئی دانا ہی نہیں ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ایک کے بعد دوسرا دے گی‬
‫زندگی روز غم نیا دے گی‬
‫ہم تو شبنم نصیب لوگ ہیں دوست‬
‫ہم کو با دِ سحر رل دے گی‬
‫زندگی بھر کی ظلمتوں کا صلہ‬
‫چاندنی رات بھر میں کیا دے گی‬
‫وہ بڑی خوش نصیب عورت ہے‬
‫وہ مجھے بادشاہ بنا دے گی‬
‫سو چتا ہوں ہو ا چر اغوں کو‬
‫چل پڑی جو ذر ا ‪ ،‬بجھا دے گی‬
‫کیا خبر تھی کہ ڈو ب جانے پر‬
‫ریت بھی لش کو دبا دے گی‬
‫یوں لپٹتا ہوں ماں کی چھاتی سے‬
‫جیسے وہ بچپنا دل دے گی‬
‫پچھلی برسات میں بھی خطرہ تھا‬
‫اب کے برسات چھت گرا دے گی‬
‫یاد اک بے چراغ سی دیوار‬
‫شام کو صحن میں بچھا دے گی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کبھی ایسا بھی آسماں دیکھیں‬
‫سب ستاروں کو مہرباں دیکھیں‬
‫حبس ماحول میں اتر آئی‬
‫بند ہیں ساری کھڑ کیاں دیکھیں‬
‫تیری آنکھوں کو دیکھنے والے‬
‫اپنی حیر ا نیاں کہاں د یکھیں‬
‫گیلی شاخیں جل کے چھوڑ گیا‬
‫سارا گلشن دھواں دھواں دیکھیں‬
‫زندگی سو گئی ہے جانے کہاں‬
‫آؤ کچھ دیر لڑکیاں دیکھیں‬
‫آج مجھ کو ذرا سی جلدی ہے‬
‫پھر کبھی با قی دا ستاں دیکھیں‬
‫گ گل کو بھی کاٹ کھاتا ہے‬ ‫بر ِ‬
‫اس کے لہجے کی تلخیاں دیکھیں‬
‫وہ چلیں سرخ آندھیاں سر پر‬
‫وہ گئے سارے با دباں دیکھیں‬
‫یہیر سمکلیم ہے تو ضرور‬
‫رکھ کے انگار بر زباں دیکھیں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہم سخن فہم کہاں اس سے بھی کچھ کم تر‬
‫تھے‬
‫وہ سخن ور تھا اسے سارے سخن ا ز بر تھے‬
‫میں تو جھکتا ہی رہا شاخثمر ور ہو کر‬
‫تم سے بے برگ ہی اے نا ز بتاں خود سر تھے‬
‫تیرے ملنے سے سوا ہاں تھا مزا فرقت میں‬
‫تیری صورت سے مرے خو ا ب بہت سندر‬
‫تھے‬
‫اب کہاں اہل مروت کی وہ اجلی سنگت‬
‫اب کہاں لو گ جو اخلص کا اک پیکر تھے‬
‫اس کی بس اتنی فضیلت تھی کہ بس اپنا‬
‫تھ ا‬
‫ورنہ اس گھر میں تو اس جیسے کئی نوکر‬
‫تھے‬
‫اب مری قوتپر واز سے جل جاتے ہیں‬
‫یہ مرے دوست کہ کل تک جو مرے شہپر تھے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ت تعجیل ہو نہیں سکتا‬
‫ا سے ہے عاد ِ‬
‫سنے وہ درد کی تفصیل ہو نہیں سکتا‬
‫وہ لکھ اپنے زمانے کا صادقین سہی‬
‫یہ حسن وہ ہے جو تمثیل ہو نہیں سکتا‬
‫وہ جس نے دن کو جلئے ہیں سورجوں کے‬
‫چراغ‬
‫بجھائے چاند کی قندیل ہو نہیں سکتا‬
‫مرے ہی نام سے اس کا وقار باقی ہے‬
‫وہ میرے نام کی تذلیل ہو نہیں سکتا‬
‫ہمارا خون تو تبدیل ہو بھی جاتا ہے‬
‫ہمارا باپ تو تبدیل ہو نہیں سکتا‬
‫امیرِ شہر سے کہہ د و کہ یہ فقیر کبھی‬
‫کرے یوں حکم کی تعمیل ہو نہیں سکتا‬
‫مجھے عزیز ہے بھائی کسی بھی صورت میں‬
‫کسی بھی طور میں قابیل ہو نہیں سکتا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کسے کہیں کہ ہمیں در د دل ستاتا ہے‬


‫ہمارے حال پہ جب تو بھی مسکراتا ہے‬
‫وہ جس کی یا د مری زندگی کا حاصل تھی‬
‫اب اس کا نام بھی بھولے سے یاد آتا ہے‬
‫وہ شہر بھر میں مجھے اب کہیں نہیں ملتا‬
‫وہ جس کے نام سے مہتا ب شر م کھاتا ہے‬
‫بر ا نہیں ہے مگر اس کی ایک عادت ہے‬
‫وہ جو بھی وعدہ کرے جلد بھول جاتا ہے‬
‫وہ جس نے میرے مقدر میں شاعری لکھ دی‬
‫سنا ہی میری غزل اب وہ گنگناتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫پانی پر بنیاد رکھی ہے‬


‫دیواروں میں ریت بھر ی ہے‬
‫سیدھی ٹیڑھی آڑھی ترچھی‬
‫ہاتھوں پر تقدیر لکھی ہے‬
‫ایک مصیبت آ ج ٹلی تھی‬
‫ایک مصیبت آن کھڑی ہے‬
‫سر سے گم ہیں سائے سارے‬
‫دیواروں پہ دھوپ تنی ہے‬
‫میں حیرت سے دیکھ رہا ہوں‬
‫اک تصویر پہ آنکھ پڑی ہے‬
‫غیر کے پکوانوں سے ہم کو‬
‫اپنے گھر کی دال بھلی ہے‬
‫جس کو یا د کیا کرتا ہوں‬
‫وہ تو کب کی بھول چکی ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دو شعر‬

‫غم سے ہوئے نڈھال تو برسات چھڑ گئی‬


‫آ یا ترا خیال تو برسات چھڑ گئی‬
‫کب سے تھے اس امید پر آنسو رکے ہوئے‬
‫پوچھا جو تم نے حال تو برسات چھڑ گئی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دل جو ٹوٹا تو دیر تک روئے‬


‫اس کو سوچا تو دیر تک روئے‬
‫تیری یا د وں کا بند در و ا زہ‬
‫ہم نے کھول تو د یر تک روئے‬
‫اس نے چا ہا تو ہنس دیے ہم بھی‬
‫اس نے چاہا تو دیر تک روئے‬
‫ایسے کا ٹا تھا ا نتظار کہ وہ‬
‫مل کے بچھڑا تو د یر تک روئے‬
‫ل دل اور کس طرح کہتے‬ ‫حا ِ‬
‫تم نے پوچھا تو دیر تک روئے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہم نے کن مشکلوں سے ٹال ہے‬
‫وقت جو چال چلنے وال ہے‬
‫سارے خوابوں کو کھا گئی دیمک‬
‫نیند ا لمار یوں پہ تال ہے‬
‫مائیں بیٹے نہ پا لتی ہوں گی‬
‫ہم نے جیسے غموں کو پال ہے‬
‫جس کو ہاتھوں سے دودھ دیتا تھا‬
‫آج وہ سانپ مار ڈال ہے‬
‫اس کی دہشت ہے دیکھنے والی‬
‫اس کا کچھ بے بسوں سے پال ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ف تمنا لکھ رکھا تھا‬


‫جہاں حر ِ‬
‫وہ کاغذ خون میں بھیگا ہوا تھا‬
‫وہ بالکل برف جیسا آدمی ہے‬
‫تمھیں پہلے بھی میں نے تو کہا تھا‬
‫سناتے ہیں و فائیں آپ جس کی‬
‫ہمارے ساتھ بھی کچھ دن رہا تھا‬
‫بڑی مشکل سے فرصت مل سکی ہے‬
‫تمھارا خط تو کب کا مل چکا تھا‬
‫شہر بھر میں کو ئی کھڑکی نہیں تھی‬
‫تبھی تو سانس مشکل ہو رہا تھا‬
‫اندھیرے میں ا ک ایسی روشنی تھی‬
‫کہ سورج چھت سے جیسے آ لگا تھا‬
‫اسے میں خط مسلسل لکھ رہا ہوں‬
‫وہ جس سے فون تک نہ ہو سکا تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫وہ بچپن کا سا تھی تھا‬


‫ا س کا غصہ و قتی تھا‬
‫اس کے بال مل ئم تھے‬
‫اس کا چہر ہ چا ند ی تھا‬
‫ایسا پت جھڑ مو سم تھا‬
‫پتا پتاہلد ی تھا‬
‫اس گھر میں اک چڑیا تھی‬
‫جس کار ستہ کھڑکی تھا‬
‫اس کے ہاتھ میں گرمی تھی‬
‫اس کا ملنا اصلی تھا‬
‫گھر میں سب کچھ اس کا تھا‬
‫میں بس گھر کی تختی تھا‬
‫جس میں یادیں بستی تھیں‬
‫اب وہ کمر ہ خا لی تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫اپنے ہاتھوں میں کدالوں کے سوا کچھ بھی نہ‬
‫تھ ا‬
‫ت محنت میں کما لوں کے سوا کچھ بھی‬ ‫دس ِ‬
‫نہ تھ ا‬
‫مجھ کو دیمک کے سوا اور کسی سے کیا ڈر‬
‫مرے کمرے میں رسالوں کے سوا کچھ بھی‬
‫نہ تھ ا‬
‫تم نے تقسیم کیا اس کو مہ و سال میں یوں‬
‫وقت تو خواب خیالوں کے سوا کچھ بھی نہ‬
‫تھ ا‬
‫لوگ کہتے ہیں کہ وہ آج سند رکھتا ہے‬
‫جو کبھی میرے حوالوں کے سوا کچھ بھی نہ‬
‫تھ ا‬
‫آؤ اے تیرہ شبو اس کو منا لیں جا کر‬
‫جس کے دامن میں اجالوں کے سوا کچھ‬
‫بھی نہ تھا‬
‫میں بھی ہر بات پہ قصد ا ً ہی جوابا ً چپ تھا‬
‫اس کا مقصد بھی سوالوں کے سوا کچھ‬
‫بھی نہ تھا‬
‫ایک تصویر کے کچھ نقش تھے دھندلے دھندلے‬
‫اور دیوار پہ جا لوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫موسِم گل حیران کھڑا‬
‫ہے‬
‫ترا اپنا طریقہ تھا مرا اپنا طریقہ تھا‬
‫محبت ہی ہمار ی ذات کا پہل حوالہ تھا‬
‫تمھارے روپ کا جادو جسے تصویر کر تا ہے‬
‫ہماری آنکھ میں ٹھہرا ہوا حیر ت کا لمحہ تھا‬
‫تمھارے غم نے اس کو آج تنکا کر دیا کیسے‬
‫یہ آدم زاد تو ہم نے سنا ہے اک ہمالہ تھا‬
‫جو خوشبو کے سفر میں ساتھ مجھ کو لے‬
‫کے نکلی تھی‬
‫وہ لڑکی ایک تتلی تھی میں اک چھوٹا سا‬
‫بچہ تھا‬
‫کسی کے ہاتھ میں جوکر سے لے کر بادشاہ‬
‫تک تھے‬
‫کسی کے ہاتھ میں ہارا ہوا بے کار یکہ تھا‬
‫سنا ہے اس حویلی میں بڑے آسیب رہتے ہیں‬
‫جہاں چھت ہے وہاں پہلے کسی مندر کا گھنٹا‬
‫تھ ا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫عمر بھر بھیگنے کی خواہش تھی‬


‫اس کی قدرت میں ایک بارش تھی‬
‫یونہی سڑکوں پہ گھومنا میر ا‬
‫بس اسے بھولنے کی کوشش تھی‬
‫اس کے لہجے میں ایک نرمی تھی‬
‫اس کی باتوں میں ایک دانش تھی‬
‫ہم جسے اب بھی پیار کہتے ہیں‬
‫ناصحا ! سچ بتا وہ لغزش تھی‬
‫میری آنکھوں میں آج آنسو ہیں‬
‫میرے ہاتھوں میں آج بخشش تھی‬
‫میرے دشمن شکست کیا دیتے‬
‫اس میں کچھ دوستوں کی سازش تھی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫میرے آنگن میں وہ خوشبو کی طرح مہکا رہا‬


‫میری قسمت کا ستارہ رات بھر چمکا رہا‬
‫ہل رہے تھے ہاتھ اس کے الوداع کہتے ہوئے‬
‫میرے کانوں میں وہ کنگن دیر تک بجتا رہا‬
‫گھر گئی ہے مشکلوں میں زندگی کچھ اس‬
‫طرح‬
‫اب تمھارے ساتھ نہ ہونے کا غم جاتا رہا‬
‫اک ترے دکھ میں انہیں ہنس کر گوار ا کر لیا‬
‫جن غموں سے زندگی بھر واسطہ پڑتا رہا‬
‫ہوتے ہوتے ہو گئی اک اور یوں تازہ غزل‬
‫اپنے کمرے میں اکیل بیٹھ کر روتا رہا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چاند پر سوت کاتنے والی‬
‫میرے بچپن میں ا یک بڑھیا تھی‬
‫خوف اور خواب میں تصادم ہے‬
‫سانپ بھی کھیل میں ہے سیڑھی بھی‬
‫جس کے دیکھے تھے خواب آنکھوں نے‬
‫اس نے آنکھوں سے نیند بھی لے لی‬
‫ہر طرفر ا ت ہو گئی جیسے‬
‫ایک سور ج کی آنکھ لگتے ہی‬
‫سب کتابوں میں مور کے پر تھے‬
‫پتیاں پھول کی یا پھر تتلی‬
‫اس کو چھوتے ہی میرے پوروں سے‬
‫دھوپ سار ے بدن میں پھیلے گی‬
‫چھت میں اک گھونسل تھا چڑیا کا‬
‫گھر میں رونق تھی چہچہا نے کی‬
‫عمر بھر سوچ میں رہا آخر‬
‫اس نے آنے میں دیر کیوں کر دی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہوا دیوار و در سے جھانکتی ہے‬
‫حیا سے اس نے چادر اوڑھ لی ہے‬
‫ضروری ہے کہ ہم ہی مان جائیں‬
‫وہ پاگل ضد ہی جب کرنے لگی ہے‬
‫تمھارا کھیل تھا نادان بچو !‬
‫مگر چڑیا کو دیکھو مر رہی ہے‬
‫ہمیشہ ہجرتوں کی زد میں رہنا‬
‫ہماری خاک کی قسمت یہی ہے‬
‫ہماری ماں نے سمجھایا تھا ہم کو‬
‫غموں میں مسکر ا نا زندگی ہے‬
‫ابھی قاتل ہمار ا بے نشاں ہے‬
‫ابھی تک وہ معزز آدمی ہے‬
‫ہوا نے ننگی شاخوں کے بدن پر‬
‫ہمارے نام کی تختی لکھی ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اسے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے‬
‫مری مٹھی سے لمحہ گر چکا ہے‬
‫امیر شہر کے قاتل کا کل سے‬
‫فصیل شہر پر پہر ہ لگا ہے‬
‫ہمارا غم سے رشتہ مستقل ہے‬
‫ہمارے ہاتھ میں رونا لکھا ہے‬
‫چلو اس بار ہم ہی ہار جائیں‬
‫ہمیں وہ جیتنے آیا ہوا ہے‬
‫وہ جس سے میں نے پہل دکھ کہا تھا‬
‫اب اس کا غم بھی مجھ پر آ پڑا ہے‬
‫چلو جلدی سے واپس شہر اپنے‬
‫وہ مجھ کو یاد کر کے رو رہا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اک شہر غریباں میں فقیروں کی طرح تھے‬


‫وہ لوگ جو توقیر میں شاہوں کی طرح تھے‬
‫جن لوگوں کو ہم دشمن جاں کہتے رہے ہیں‬
‫وہ لوگ بھی اپنے ہی عزیزوں کی طرح تھے‬
‫وہ یادیں جو مجھ کو مری ہستی کا نشاں‬
‫تھیں‬
‫وہ خواب جو مجھ کو مری آنکھوں کی طرح‬
‫تھے‬
‫کہنے کو تو یہ سال بھی اب بیت گیا ہے‬
‫اس سال میں دن رات مہینوں کی طرح‬
‫تھے‬
‫ا س لہجے کی خوشبو سے بسا رہتا تھا آنگن‬
‫وہ بولے تو پھر لفظ بھی پھولوں کی طرح‬
‫تھے‬
‫اس رات ستاروں کی بھی آنکھوں میں نمی‬
‫تھی‬
‫اس رات تو آنسو بھی چراغوں کی طرح‬
‫تھے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫شاہز ا دے کو کسی حربے سے کال کر دیا‬


‫اس نے کانے دیو کو پریوں کا راجا کر دیا‬
‫شہر کی بنیاد میں پانی بھرا جس کے سبب‬
‫آپ نے اس کے حوالے شہر سارا کر دیا‬
‫پہلے اس نے تیر پھینکا اور پھر خنجر بکف‬
‫فاختاؤں پر بڑی تیزی سے حملہ کر دیا‬
‫شیشہ گر کے ہاتھ کاٹے اور پھر ایسا کیا‬
‫اس نے سارے شہر کے شیشوں کو اندھا کر‬
‫دیا‬
‫اب تمھاری یاد بھی اکثر رل پاتی نہیں‬
‫وقت نے یہ زخم بھی پہلے سے اچھا کر دیا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫یہر ا ئیگا نئر نج سفر یہی کچھ تھا‬
‫سفر سے آئے جو ہم لوٹ کر یہی کچھ تھا‬
‫جو دل پہ گزری وہ کاغذ پہ منتقل کر دی‬
‫ہمارے پاس تھا جو کچھ ہنر یہی کچھ تھا‬
‫یہ بزدلی ہے یا پھر احتجاج جو کچھ ہے‬
‫ہمارے بس میں مگر چشم تر یہی کچھ تھا‬
‫میں کتنے خواب ترے پاس لے کے آیا تھا‬
‫اے آ سما ن تری خاک پر یہی کچھ تھا‬
‫یہ سنگ و طعن و ملمت ‪ ،‬ریا و رسوائی‬
‫تمھارے شہر میں اب کیا خبر یہی کچھ تھا‬
‫تو کھا کے گا لیاں ا ب جی بر ا نہ کر اپنا‬
‫ہمارے خط میں بھی اے نامہ بر یہی کچھ تھا‬
‫تو اب علج دل ناتواں کرے نہ کرے‬
‫ہماری جیب میں اے چارہ گر یہی کچھ تھا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫قاتل لمحہ تاریکی میں مٹ بھی گیا ہے‬


‫تازہ خون زمیں پر اب بھی رینگ رہا ہے‬
‫رنگ برنگے شعلے جل کر بجھ جاتے ہیں‬
‫خالی کمرہ آوازوں سے گونج رہا ہے‬
‫پچھلے سال بھی گشتی ٹیمیں آئی تھیں‬
‫بستی میں اس سال بھی ہیضہ پھوٹ پڑا ہے‬
‫جس لڑکی کی خاطر گھر میں لڑتا تھا‬
‫اس کی صورت ناک اور نقشہ بھول چکا ہے‬
‫جانے کیسے لوگ محبت کر لیتے ہیں‬
‫میں نے تو یہ کام ادھورا چھوڑ دیا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫متا ع درد و غم ہے اور میں ہوں‬


‫یہ ساز زیر و بم ہے اور میں ہوں‬
‫کہاں وہ سر کشیدہ شعر گو تھا‬
‫کہاں گردن میں خم ہے اور میں ہوں‬
‫کسی تر تیب سے خالی ہے کمرہ‬
‫اجال کم سے کم ہے اور میں ہو ں‬
‫مرے قاتل کے بازو تھک چکے ہیں‬
‫ابھی سینے میں دم ہے اور میں ہوں‬
‫کہاں صحراؤں کو سیراب کرنا‬
‫کہاں یہ قحط نم ہے اور میں ہوں‬
‫یہی کچھ لفظ ہیں میرا اثاثہ‬
‫یہی کا غذ قلم ہے اور میں ہوں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫شعر حسن و کمال سے اترا‬


‫جب وہ بام خیال سے اترا‬
‫ہم نے دیکھا ہے چاند کا چہرہ‬
‫تیرے رنگ جمال سے اترا‬
‫میرے چہرے پہ وقت کا نقشہ‬
‫زینہ ماہ و سال سے اترا‬
‫ایک سایہ ہمارے آنگن میں‬
‫رات سونے کے تھال سے اترا‬
‫حسن کو کون جانتا تھا یہاں‬
‫نقش تیر ی مثال سے اترا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫خواب بہہ گئے سارے ریت کے گھروندے میں‬
‫کون جان دیتا ہے اب وفا کے رستے میں‬
‫گو کہ ایک مدت سے اب انہیں نہیں دیکھا‬
‫اس کی ساری تصویریں آج بھی ہیں تالے‬
‫میں‬
‫دوستوں کے پہرے میں رات میں تو سویا تھا‬
‫جانے کس طرح آیا دشمنوں کے نر غے میں‬
‫آؤ ان دنوں کی یاد ڈھونڈنے چلیں مل کر‬
‫جن دنوں میں جاتے تھے مل کے عید میلے‬
‫میں‬
‫رات دن کی محنت سے بھوک ہے رعایا کو‬
‫بے شمار دولت ہے شاہ کے خزانے میں‬
‫پھول سے برستے تھے اس کی ساری باتوں‬
‫سے‬
‫خوشبوؤں کا ڈیرا تھا اس کے نرم لہجے میں‬
‫ہاتھ کی لکیروں میں خشک کھیت لکھے ہیں‬
‫کون بانٹ سکتا ہے بارشوں کو ورثے میں‬
‫کھا گئی ہیں پھر سارے گھر کی جاگتی‬
‫آنکھیں‬
‫کتنے خواب رکھے تھے میں نے آج بٹوے میں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫د و دو در وا ز ے تھے تین دریچے تھے‬
‫چھوٹا سا اک گھر تھا گھر میں رشتے تھے‬
‫کو ن بنا تا بگڑی ہوئی تقدیر وں کو‬
‫کو ن مٹا تا ہاتھوں پر جو نقشے تھے‬
‫اک گٹھڑی میں یادیں روشن چہروں کی‬
‫اک گٹھڑی میں سورج ‪ ،‬چاند ‪ ،‬ستارے تھے‬
‫یوں بستی کے ا و پر گدھ منڈلتے تھے‬
‫جیسے مر دہ لو گ یہاں پر بستے تھے‬
‫اس کی آنکھ میں آنسو تیرتے رہتے ہیں‬
‫اس کو جانے مجھ سے کیا کیا شکوے تھے‬
‫گھر آنگن کے پیڑ پہ پنچھی ہو تے تھے‬
‫دن بھر اڑتے شام کو واپس آ جاتے تھے‬
‫اب تو نیند کی گولی کھا کے سوتا ہوں‬
‫ان آنکھوں میں خواب مچلتے رہتے تھے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کبھی فا قہ کبھی لقمہ مل ہے‬
‫مجھے یہ باپ سے ورثہ مل ہے‬
‫تمھارے شہر میں رہنے کی خاطر‬
‫بڑی مشکل سے اک کمرہ مل ہے‬
‫اگرچہ طعن سے بھر پور ہو گا‬
‫مگر خوش ہوں ترا نامہ مل ہے‬
‫وہ کتنی دور ہم سے جا رہی ہے‬
‫اسے پردیس میں رشتہ مل ہے‬
‫لب و لہجے میں کتنی سادگی ہے‬
‫مگر ہر با ت میں نکتہ مل ہے‬
‫تمھارا ہم سفر جب ہو گیا ہوں‬
‫مجھے ہر راہ میں خطرہ مل ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ترا ملنا بھی کوئی کھیل نہیں لگتا ہے‬


‫تو کسی چاند کی نگری کا مکیں لگتا ہے‬
‫خوف سے شہر کے چہرے پہ دھواں اڑتا ہے‬
‫پھر بھڑکتی ہے کوئی آگ کہیں لگتا ہے‬
‫تری خواہش ہے د ساور میں کمانے جاؤں‬
‫مر ا دل ہے کہ ترے پا س یہیں لگتا ہے‬
‫اس کے ہاتھوں میں سبھی چاند ستارے‬
‫سورج‬
‫مرے ہاتھوں میں یہاں کچھ بھی نہیں لگتا ہے‬
‫اس کو پچھتانا پڑے گا یہ ہوا سے کہہ دو‬
‫پیڑ تو پتوں پرندوں سے حسیں لگتا ہے‬
‫پھول لگتا ہے حسیں شاخ پہ جتنا اتنا‬
‫کسی جوڑے کسی کالر میں نہیں لگتا ہے‬
‫وہ جو ہر بار نیا جھوٹ سنا جاتا ہے‬
‫مجھ کو آ جائے گا اک روز یقیں لگتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫سبز جنگل میں کسی مور کا پر کھلتا ہے‬
‫آنکھ لگتی ہے تو پھر خواب کا در کھلتا ہے‬
‫میں جو جنگل سے نکل آیا تو صحرا ہو گا‬
‫مجھ پہ ہر و قت نیا ایک سفر کھلتا ہے‬
‫بس ذرا دیر ہے خورشید کے ڈھل جانے میں‬
‫بس ذر ا دیر میں اب دام نظر کھلتا ہے‬
‫ایک زنبیل مسائل کی ا د ھر کھلتی ہے‬
‫ایک با ز ار تمناؤں کا گر کھلتا ہے‬
‫آج بول ہوں جو اس بزم میں ہنس کر بولے‬
‫اس طرح دیکھئے سب عیب و ہنر کھلتا ہے‬
‫کچھ نہ تھا جیب معانی میں بجز حرف غلط‬
‫یعنی تو فیق سے یہ باب ہنر کھلتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہل رہے ہیں چند پتے شاخ پر‬


‫اڑ گئے بیٹھے پرندے شاخ پر‬
‫ان میں اب آسیب بستے ہیں بڑے‬
‫گھونسلے جو رہ گئے تھے شاخ پر‬
‫بچپنے کے دن ہمارے کھو گئے‬
‫اب بھی ہیں لیکن وہ جھولے شاخ پر‬
‫ایک چڑیا بے خطر خطرات سے‬
‫سانپ اک لپٹا ہے آگے شاخ پر‬
‫اڑ گئیں سپنوں کی پریاں پیڑ سے‬
‫رہ گئے یادوں کے جالے شاخ پر‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫پورے جو بن پر سورج تھا اور وہ رستہ ڈھونڈ‬


‫ر ہا ت ھ ا‬
‫ایک نڈھال کے سر سورج تھا اور وہ رستہ‬
‫ڈھونڈ رہا تھا‬
‫وہ کرنوں کی سیڑھی چڑھتا اور پھر واپس آ‬
‫جاتا ہے‬
‫اس کا شاید گھر سورج تھا اور وہ رستہ‬
‫ڈھونڈ رہا تھا‬
‫یوں لگتا ہے جیسے اس کو اب یہ جنگل کھا‬
‫جائے گا‬
‫بس اب لمحہ بھر سورج تھا اور وہ رستہ‬
‫ڈھونڈ رہا تھا‬
‫جانے کتنا اندھا رستہ اس کے گھر کو جاتا ہو‬
‫گا‬
‫آ پ ہتھیلی پر سورج تھا اور وہ رستہ ڈھونڈرہا‬
‫تھ ا‬
‫آج غروب سے پہلے ایسی سرخی تھی ڈر‬
‫لگتا تھا‬
‫خون میں جیسے تر سورج تھا اور وہ رستہ‬
‫ڈھونڈرہا تھا‬
‫میرے تو باہر ظلمت تھی اور میں رستہ کھوج‬
‫رہا تھ ا‬
‫اس کے تو اندر سورج تھا اور وہ رستہ ڈھونڈ‬
‫رہا تھ ا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ٹھہر کے دیکھتے ہیں قافلے سفر والے‬
‫تمھارے روپ سے رشتے ہیں بام و در والے‬
‫ہمارے شہر سے طوفاں گزرنے وال ہے‬
‫کہ پر سمیٹ کے بیٹھے ہوئے ہیں پر والے‬
‫زبان دانوں نے پا ئی ہیں خلعتیں لیکن‬
‫تمھارے شہر میں رسوا ہوئے ہیں سر والے‬
‫وہ دوستوں سے تعلق بھی اتنا رکھتا ہے‬
‫اسے ہو کام کبھی جس قدر وہ کر وا لے‬
‫مجھے حرام سے بچنے کی کر کے تلقینیں‬
‫مری کمائی سے اب خوش نہیں ہیں گھر‬
‫والے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہم ترے کوچے میں آئیں ا تنے سودائی نہیں‬


‫اس طرح تو ہی بتا کیا تیری رسوائی نہیں‬
‫اس طرف اک لشکر اعدا ہے مصروف قتال‬
‫اس طرف برہم صفوں میں ایک بھی بھائی‬
‫نہیں‬
‫اب تمھاری یاد میں رونے کی فرصت بھی‬
‫کہاں‬
‫اب میسر ہی ہمیں و ہ شام تنہائی نہیں‬
‫دیکھنا تم بھی کلف اس طرہ دستار کی‬
‫اس کے ہاتھوں کی لکیروں ہی میں پسپائی‬
‫نہیں‬
‫یہ بھی اک دربار داری کی تمنا ہے کلیم‬
‫شہر یار وقت سے لڑنا تو دانائی نہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫وہ چاند کا ملبوس وہ تاروں سے سجے خواب‬
‫دن بھر کی تھکن رات کو دیتی ہے نئے خواب‬
‫اے نرمی رفتار ذرا اور سنبھل کے‬
‫رکھے ہیں جو رستے میں ترے پاؤں تلے‬
‫خواب‬
‫اک وقت وہ گزرا ہے کہ خوابوں پہ یقیں تھا‬
‫اک وقت یہ آیا ہے کہ وہ دن بھی ہوئے خواب‬
‫اس طور حقیقت سے گریزاں نہ رہا کر‬
‫کیا ہو گا کسی وقت ا گر ٹوٹ گئے خواب‬
‫صد شکر تمنائیں ابھی با قی ہیں دل میں‬
‫صد شکر کہ آنکھوں میں کئی زند ہ رہے‬
‫خواب‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اک اک کر کے پنچھی ا ڑ تےر ہتے ہیں‬


‫سرد ہوا میں پتے جلتے رہتے ہیں‬
‫بس د یوار پہ کوا بیٹھنا بھول گیا‬
‫لوگ تو اب بھی گھر میں آتے رہتے ہیں‬
‫اپنی شر کت ان میں ا یسی خا ص نہیں‬
‫یہ د نیا کے دھند ے چلتے رہتے ہیں‬
‫ان کو بھی کچھ کام نہیں تھا سارا دن‬
‫ہم بھی دن بھر فا رغ سوتے رہتے ہیں‬
‫وہ بھی غزلیں نا صر ہی کی پڑ ھتا تھا‬
‫ہم بھی میر کو پڑھ کے رو تے رہتے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہر کوئی بے ا مان بیٹھا ہے‬
‫دل میں وہم و گمان بیٹھا ہے‬
‫سانپ خوابوں میں آ کے رینگتے ہیں‬
‫خوف کمرے میں آن بیٹھا ہے‬
‫خا ک اڑتی ہے آسمانوں پر‬
‫خا ک پر آسمان بیٹھا ہے‬
‫ایک بالکل اجاڑ بستی میں‬
‫بس غم رفتگان بیٹھا ہے‬
‫آج ہم بھی کو ئی غزل چھیڑیں‬
‫آج وہدرمیان بیٹھا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫بیکار گیا میں نے جو ہتھیار خریدا‬


‫دشمن نے مری فوج کا سالر خریدا‬
‫جتنے تھے فصیلوں پہ کما ندار ملئے‬
‫شاہ در کا محافظ پس دیوار خریدا‬
‫بازار سے ہر رنگ کی دستار خریدی‬
‫ہر شہر سے اک اپنا نمک خوار خریدا‬
‫ہر جنس محنث کو کیا اس نے علم دار‬
‫ہر صاحب شمشیر سے زنگار خریدا‬
‫مسجد کے لیے ڈ ھونڈ کے لیا ہے عمامہ‬
‫مندر کے لیے قشقہ و زنار خر یدا‬
‫خوشبو کی تجارت میں منا فع بھی بہت تھا‬
‫گل چیں نے بہاروں سے چمن زار خریدا‬
‫آنکھوں کو رکھا رہن تو دیدار کمایا‬
‫دل دے کے خریدا ہے تو دیدار خریدا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اڑتی تھی خاک شہر میں اتنا تو یاد تھا‬


‫مشت غبار تھی کہ کوئی گرد باد تھا‬
‫باندھا ہوا ہے ماں کی محبت نے گھر مجھے‬
‫ورنہ میں اک مسافت بے جا میں شاد تھا‬
‫چوتھی طرف سے روک رہا ہے خضر مجھے‬
‫لیکن وہیں تو کوچہ مینو سواد تھا‬
‫آفت سے کیا خبر تری صورت مراد تھی‬
‫بستی سے کون جانے مرا دل مراد تھا‬
‫وہ رات مجھ سے نیند کے عالم میں کھو گیا‬
‫میں ڈھونڈتا پھر ا جو مرا خواب زاد تھا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہم سے پھر شمس و قمر چھین لیا‬


‫ایک دربان نے در چھین لیا‬
‫اس نے بیگار میں چلنا لکھا‬
‫اس نے تاوان میں سر چھین لیا‬
‫بات کرنے کی سزا یہ دی ہے‬
‫بات کرنے کا ہنر چھین لیا‬
‫حوصلہ گھر سے نکل جا نے کا‬
‫دل نے پھر وقت سفر چھین لیا‬
‫کتنے معصو م پرندوں کا کلیم‬
‫ایک طوفان نے گھر چھین لیا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫تا دیر پر یشا نی کے عالم میں رہو گے‬
‫یہ شہر خرابی ہے یہاں کس سے ملو گے‬
‫اب ساتھ نبھانے کی کوئی شرط نہیں ہے‬
‫اے دوست ذرا دیر مرے ساتھ چلو گے‬
‫ہر راہ میں جب تم کو ہوس کار ملیں گے‬
‫ہم جیسے وفا داروں کو پھر یاد کرو گے‬
‫کچھ مال نہ منصب نہ کوئی نام و نسب ہے‬
‫اب میرے تعارف میں کیا اس سے کہو گے‬
‫یہ کہہ کے مجھے اس نے وہاں روک دیا تھا‬
‫اپنی ہی کہے جاؤ گے یا میری سنو گے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کتاب زندگی کے باب کتنے‬


‫وہ لمحے ہو گئے نا یاب کتنے‬
‫میں ان میں ڈوبتا ہی جار ہا ہوں‬
‫تری باتوں میں ہیں گرداب کتنے‬
‫لہو رونے سے فرصت ہی نہیں ہے‬
‫یہ آنکھیں دیکھتی تھیں خواب کتنے‬
‫محبت بوجھ بنتی جار ہی ہے‬
‫مر ے تھکنے لگے اعصاب کتنے‬
‫وہ جب سے دیو قامت ہو گیا ہے‬
‫سمندر ہو گئے پا یا ب کتنے‬
‫ادھر اس نے جبیں پر ہاتھ رکھا‬
‫ادھر بجنے لگے مضر ا ب کتنے‬
‫مری جیبیں ستاروں سے بھری ہیں‬
‫تری قدرت میں ہیں مہتاب کتنے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫حال ہی دل کا مرے ایسا تھا پچھلی شام کو‬


‫میں اکیلے میں بہت رویا تھا پچھلی شام کو‬
‫ساری بستی میں اندھیروں کے سبب چمکا‬
‫رہا‬
‫اک دیا جو طاق پر رکھا تھا پچھلی شام کو‬
‫اک خبر تھی پھر ابابیلوں کا لشکر آئے گا‬
‫سب فصیلوں پر کڑا پہرا تھا پچھلی شام کو‬
‫جس جگہ پر ریت کے ٹیلے کھڑے ہیں جا بجا‬
‫اس جگہ بہتا ہوا دریا تھا پچھلی شام کو‬
‫تم مجھے پاگل کہو عاشق کہو شا عر کہو‬
‫ایک سایہ چاند سے نکل تھا پچھلی شام کو‬
‫وہ گیا تھا یا کوئی شعلہ بجھا تھا جسم میں‬
‫درد سا دل میں مرے اٹھتا تھا پچھلی شام کو‬
‫اس سے بچھڑے دو برس اب ہو گئے مجھ کو‬
‫کلیم‬
‫میرے گھر میں ہجر کا میلہ تھا پچھلی شام کو‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اس قدر با ندھنا بھی مشکل ہے‬


‫دل کو اب دھڑکنا بھی مشکل ہے‬
‫ہجر میں آ نکھ بھی نہیں لگتی‬
‫د یر تک جاگنا بھی مشکل ہے‬
‫کام کوئی نہیں ہے کرنے کو‬
‫گھر میں یوں بیٹھنا بھی مشکل ہے‬
‫اس قدر ہے قریب و ہ میرے‬
‫اب اسے دیکھنا بھی مشکل ہے‬
‫ایسے جنگل میں پائلوں کی چھنک‬
‫خوف سے بھاگنا بھی مشکل ہے‬
‫اتنا روشن ہے خوا ب کا سورج‬
‫آنکھ تک کھو لنا بھی مشکل ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہزار صدق و صفا ہے سرشت میں اس کی‬
‫کہ دوستوں سے وفا ہے سرشت میں اس‬
‫کی‬
‫میں آگ ہوں وہ مری شعلگی کا باعث ہے‬
‫کہ ا یک تیز ہوا ہے سرشت میں اس کی‬
‫وہ تخت و تاج کا کتنا حریص لگتا ہے‬
‫سنا تھا فقر و غنا ہے سرشت میں اس کی‬
‫کسی بھی حال میں وہ بد دعا نہیں دیتا‬
‫کہ ایک حر ف دعا ہے سر شت میں اس کی‬
‫میں اس کے ساتھ سفر پر نکل تو آیا ہوں‬
‫میں جانتا ہوں دغا ہے سرشت میں اس کی‬
‫اسے قرینہ نہیں ہے بشر سے ملنے کا‬
‫نہ جانے کیسا خدا ہے سرشت میں اس کی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اپنے بوجھ کو ڈھوتے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫دن بھر فا رغ بیٹھے آ دمی تھک جاتا ہے‬
‫ہم سفروں سے باتیں کرتے وقت گزرتا رہتا‬
‫ہے‬
‫تنہاچلتےچلتے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫اب تک تیر ے ناز اٹھائے جاتے ہیں‬
‫آ خر رنج ا ٹھا تے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫جیون لمبی دوڑ ہے اتنا تیز نہ چل‬
‫کہتے ہیں کہ ا یسے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫اک دن شاید ہم بھی ہجرت کر جائیں‬
‫طا قتور سے لڑ تے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫بجھ جا نے سے پہلے شمع دیکھ ذرا‬
‫رک جا نے سے پہلے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫آ خر شعر میں سچی با تیں آ جا تی ہیں‬
‫آ خر جھو ٹ سنا تے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫چھوٹی چھوٹی باتیں سادہ لفظوں میں‬
‫اتنا زیادہ سو چے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫تیرا میرا جیون سب اک سایا ہے‬
‫اس کے پیچھے بھا گے آدمی تھک جاتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہوا کے ہاتھ میں حیرت تھی اور کچھ بھی نہ‬
‫تھ ا‬
‫مجھے تو تم سے محبت تھی اور کچھ بھی نہ‬
‫تھ ا‬
‫بہار صحن چمن میں ہے سو گوار کھڑی‬
‫کہ پیڑ پیڑ پہ ہجرت تھی اور کچھ بھی نہ تھا‬
‫اب اس سے اتنا ملیں ہم کہ جی ہی بھر‬
‫جائے‬
‫یہی گریز کی صورت تھی اور کچھ بھی نہ تھا‬
‫وہ مسکرا کے جو ملتا تھا پچھلی رت میں‬
‫ہمیں‬
‫یہ اس کی اپنی ضرورت تھی اور کچھ بھی نہ‬
‫تھ ا‬
‫تمھا را شکوہ ‪ ،‬زمانے سے یا شکایت کیا‬
‫مل ہے جو بھی وہ قسمت تھی اور کچھ بھی‬
‫نہ تھ ا‬
‫وہی وصال کی راتوں کا انتظار کلیم‬
‫وہی فراق کی حالت تھی اور کچھ بھی نہ تھا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اک عجب سی کیفیت طار ی رہی‬


‫رات بھر ٹھنڈی ہوا چلتی رہی‬
‫اک پرندہ چہچہا کے اڑ گیا‬
‫خامشی دیوار پر بیٹھی رہی‬
‫ہم تمھاری یاد میں پھر کھو گئے‬
‫چار جانب رو شنی پھیلی رہی‬
‫وہ مل بھی اور بچھڑ کر جا چکا‬
‫بس اسے ہر کام میں جلدی رہی‬
‫کون بھرتا خواب آنکھوں میں کلیم‬
‫دیر تک خالی جگہ خالی رہی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کوئی عل ج یہاں چارہ گر نہیں ممکن‬
‫ر فوۓ چاک جگر جز نظر نہیں ممکن‬
‫وہ ایک تیز ہوا ہے میں خاک کی مانند‬
‫اب اس کے ساتھ تو لمبا سفر نہیں ممکن‬
‫خیال بھاگتے پھرتے ہیں بادلوں کی طرح‬
‫کوئی بھی بند ابھی چشم تر نہیں ممکن‬
‫تمام عمر یونہی در بدر پھروں شاید‬
‫مگر میں لوٹ کے جاؤں گا گھر نہیں ممکن‬
‫کسی طرح سے یہ فرقت کی رات کٹ جائے‬
‫چلو وصال کا لمحہ ا گر نہیں ممکن‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫عین ممکن ہے کبھی کم نظری سے گزریں‬


‫جتنے دانا ہیں وہ شوریدہ سری سے گزریں‬
‫بار احسان نظر کو ن اٹھائے یا رب‬
‫چاک دامان و جگر بخیہ گری سے گزریں‬
‫اس نے وہ جی کو جلیا ہے کہ جی جانتا ہے‬
‫شوق ہم سائیگی و ہم سفر ی سے گزریں‬
‫در و د یوار بل لیتے ہیں اپنی جانب‬
‫ہم ترے شہر سے جب بے خبری سے گزریں‬
‫اب یہ ممکن ہی نہیں گھر کی طرف لوٹ‬
‫چلیں‬
‫اب یہ ممکن ہی نہیں در بدری سے گزریں‬
‫اب بھی مل جاتی ہیں اس درد کی نیلم‬
‫یادیں‬
‫کبھی سرما میں جو کو ہسار مری سے‬
‫گزریں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مرے لشکر کے کماندار مرے قاتل تھے‬
‫مرے دشمن تو نہیں یار مرے قاتل تھے‬
‫میں نے خود خون دیا تیغ عدو کو و رنہ‬
‫بھری دنیا میں بڑے خوار مرے قاتل تھے‬
‫کتنا آساں تھا مرے قتل کا لمحہ ان پر‬
‫کیسی مشکل سے یہ دو چار مرے قاتل تھے‬
‫وہ مر ے نام کی دستار پہننے و الے‬
‫وہ مرے حاشیہ بردار مرے قاتل تھے‬
‫کتنے مینار مرے قد کے مقا بل لئے‬
‫مری عظمت سے خبردار مرے قاتل تھے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫وہ ڈھونڈ کے لئے گا کہیں سے بھی سند کو‬


‫لزم وہ سمجھتا ہے مری بات کے رد کو‬
‫بستی سے نکل جانا بھی آسان نہیں ہے‬
‫دریا بھی چڑ ھا آتا ہے طوفان کی حد کو‬
‫مصروف ہیں اغیار ابھی مشق ستم میں‬
‫پہنچا نہیں لشکر ا بھی یاروں کا مدد کو‬
‫روشن ہے مرے نام سے اسلف کی عزت‬
‫اب جانتے ہیں لوگ مرے نام سے جد کو‬
‫تم گھر کی منڈیروں کو ذرا اور بڑھا لو‬
‫روکو گے بھل کیسے کسی بہن کے قد کو‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مشقت کر کے لوٹا ہے کوئی دکھ نہ اسے کہنا‬
‫ابھی گھر آ کے بیٹھا ہے کوئی دکھ نہ اسے کہنا‬
‫جسے تم دیکھ کر ہنستا ہوا سمجھے ہو وہ‬
‫خوش ہے‬
‫اسے بھی غم نے گھیرا ہے کو ئی دکھ نہ اسے‬
‫کہنا‬
‫تمھارے ایک آنسو پر وہ دریا ہی بہا دے گا‬
‫یہاں جو تم پہ گزرا ہے کوئی د کھ نہ اسے کہنا‬
‫جہاں سب لو گ خوش ہوں دکھ بڑے‬
‫محسوس ہو تے ہیں‬
‫یہاں پر آج میل ہے کوئی دکھ نہ اسے کہنا‬
‫تری ماں تیری خوشیاں دیکھ کر جیتی ہے‬
‫دنیا میں‬
‫اگر تو اس کا بیٹا ہے کوئی دکھ نہ اسے کہنا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دل کو دھڑکا ہز ار رہتا ہے‬


‫وہ سمندر کے پار رہتا ہے‬
‫زندگی میں د عائیں شامل ہوں‬
‫حوصلہ بر قرار رہتا ہے‬
‫مجھے مشکل میں چھوڑنے وال‬
‫اب بڑا شرمسار رہتا ہے‬
‫وہ مرے سامنے ہی بیٹھا ہے‬
‫کس کا پھر انتظار رہتا ہے‬
‫آپ وعدہ وفا نہیں کرتے‬
‫آپ کا اعتبار رہتا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ا س کے لہجے میں ایک خو ش بو ہے‬
‫اس کی باتوں کا نام جا دو ہے‬
‫ایک مدت سے میں نہیںر ویا‬
‫اس قدر آ نسوؤں پہ قابو ہے‬
‫وہ مجھے کا میا ب رکھتا ہے‬
‫مری نا کامیوں کا د ار و ہے‬
‫چشم و ابرو کو کیا سمجھتے ہو‬
‫ایک جنبش ہزار پہلو ہے‬
‫وہ مجھے راستہ د کھاتا ہے‬
‫مری مٹھی میں ایک جگنو ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہمارے ہا تھ ہو تی ہی نہیں ہے‬


‫اسے تو ما ت ہو تی ہی نہیں ہے‬
‫یہاں پر جاگنا ہی جاگنا ہے‬
‫یہاں پر رات ہوتی ہی نہیں ہے‬
‫وہ جس سےر وز ملنا طے ہوا تھا‬
‫اب اس سے بات ہوتی ہی نہیں ہے‬
‫کبھی سیلب کے خطر ے میں بستی‬
‫کبھی برسات ہوتی ہی نہیں ہے‬
‫ہماری جیب کو کیا ہو گیا ہے‬
‫گزر اوقات ہو تی ہی نہیں ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مری حا لت پہ سوگوار نہ ہو‬
‫جب مقدر ہی ساز گار نہ ہو‬
‫ایک دریا نظر کی حد تک تھا‬
‫ایک کشتی نظر کے پار نہ ہو‬
‫اس سے ہر گفتگو ہے ل حاصل‬
‫جس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو‬
‫جب ہمار ا بھی وقت کٹ جائے‬
‫جب تمھار ا بھی انتظار نہ ہو‬
‫لفظ و معنی کی سا د گی بہتر‬
‫سر و سا ما ن مستعار نہ ہو‬

‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہر آن کوئی قہر مرے سامنے پھر تھا‬


‫اک دھوپ بھرا شہر مرے سامنے پھر تھا‬
‫اک چہر ہ جسے بھولے ہوئے لحظہ ہوا تھا‬
‫اے دوست ذر ا ٹھہر مرے سامنے پھر تھا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کتنے رشتوں میں باندھے ہوئے لوگ ہیں‬
‫ہم مروت کے ما رے ہوئے لوگ ہیں‬
‫تم نے پو چھا ہے ہم کون ہیں دوستو‬
‫وہ جو نا پید ہوتے ہوئے لوگ ہیں‬
‫چھت پہ بے نام سے خوف کی چاپ ہے‬
‫بند کمروں میں سہمے ہوئے لوگ ہیں‬
‫آ شیا نوں کو جا تے پر ند و سنو‬
‫ہم ٹھکانوں سے اکھڑے ہوئے لوگ ہیں‬
‫سر بریدہ ‪ ،‬شکستہ ‪ ،‬برہنہ بدن‬
‫چیختے ‪ ،‬بین کرتے ہوئے لوگ ہیں‬
‫کوئی منزل نہ رہبر نہ رہزن کا ڈر‬
‫یونہی رستوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں‬
‫اک لہو سا ہے آنکھوں میں ٹپکا ہوا‬
‫جیسے صدیوں سے جاگے ہوئے لوگ ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫تھا مرے سامنے دشمن میرا‬
‫تیر پھر کس کی کماں سے نکل‬
‫میں تو ہر حال میں خوش تھا پھر بھی‬
‫غم کا سرطا ن لہو میں پھیل‬
‫اس نے اک رات ہمیشہ رکھی‬
‫میں نے اک خوا ب ہمیشہ دیکھا‬
‫ایک چڑیوں کی پریشانی ہے‬
‫تم نے چوپال سے برگد کاٹا‬
‫خون رویا ہے مری آنکھوں نے‬
‫میں نے جب حرف تمنا لکھا‬
‫وہ مرے نام کو زندہ رکھتا‬
‫شعر بھی چاند سا بیٹا ہوتا‬
‫اب یہی سوچتا رہتا ہوں کلیم‬
‫میں اسے پیار اگر نہ کرتا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہم کسی شخص کو آزار نہیں دے سکتے‬


‫آپ کے ہاتھ میں تلوار نہیں دے سکتے‬
‫وہ اگر سات سمندر کا سفر دیتے ہیں‬
‫وہ تو پھر سایہ دیوار نہیں دے سکتے‬
‫ہم سے اس طرح کی دنیا نہیں دیکھی جاتی‬
‫ہم تمھیں د یدہ بیدار نہیں دے سکتے‬
‫ہم نے وہ شور بسا رکھا ہے چاروں جانب‬
‫اب کو ئی صورت اظہار نہیں دے سکتے‬
‫غیر کا ذکر ضروری ہے فسانے میں مگر‬
‫غیر کو مرکزی کردار نہیں دے سکتے‬
‫مرے شانوں پہ مرا اپنا ہی سر رہنے دو‬
‫تم اگر خلعت و دستار نہیں دے سکتے‬
‫کبھی شبنم ‪ ،‬کبھی تتلی ‪ ،‬کبھی جگنو چاہے‬
‫دل کو جو کچھ بھی ہو درکار نہیں دے سکتے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫جب درد کے مضموں نہیں ہوتے مرے مرشد‬


‫پھر شعر بھی موزوں نہیں ہوتے مرے مرشد‬
‫اس چشم کو بیمار کہوں یا نہ کہوں میں‬
‫اس چشم سے افسوں نہیں ہوتے مرے‬
‫مرشد‬
‫کیا حسن و جنوں شاخ ثمر دار نہیں ہیں‬
‫اب لیلی و مجنوں نہیں ہوتے مرے مرشد‬
‫ہر گھر سے نکل آتے ہیں یوسف کے برادر‬
‫اب مو سی و ہاروں نہیں ہوتے مرے مرشد‬
‫تو فیق سے ہوتا ہے مگر کار ہنر بھی‬
‫دو بول بھی برسوں نہیں ہوتے مرے مرشد‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫وہ بھی ا یسے سنورتا آتا ہے‬


‫جیسے مو سم نکھر تا آتا ہے‬
‫ایک بار ش برستی جا تی ہے‬
‫ایک بادل گر جتا آتا ہے‬
‫سانس رکنے لگا ہے سینے میں‬
‫خو ف ز ینے اترتا آتا ہے‬
‫اس کے کتنے ہزار چہرے ہیں‬
‫کتنے چہر ے بد لتا آتا ہے‬
‫ایک امید کی کرن ہے کلیم‬
‫ایک جگنو چمکتا آتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫یہ ایک ایک اذیت سے آشنا دل ہے‬


‫ہمارا درد محبت سے آشنا دل ہے‬
‫ہماری آنکھ بھی برسے گی آج بارش میں‬
‫ہمار ا اپنی طبیعت سے آشنا دل ہے‬
‫یہ اور بات کہ اب فرصت خرید نہیں‬
‫وگرنہ تیری بھی قیمت سے آشنا دل ہے‬
‫نہ اس کی شکل نہ کچھ نام نہ نشاں اس کا‬
‫وہ جس کا عمر کی مدت سے آشنا دل ہے‬
‫چمک رہی ہے ابھی تک ترے جمال کی دھوپ‬
‫تمھارے قرب کی حدت سے آشنا دل ہے‬
‫وصال یار کی راتیں ہوں یا کہ ہجر کے دن‬
‫یہ ہر طرح کی مصیبت سے آشنا دل ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چلو باغوں کو چلتے ہیں‬
‫چلوجگنو پکڑتے ہیں‬
‫ستارے پھول اور شبنم‬
‫ہمارادکھ سمجھتے ہیں‬
‫ہوا میں راکھ اڑتی ہے‬
‫کہیں کاغذ سے جلتے ہیں‬
‫تمھاری با ت کرتے ہیں‬
‫تمھارا نا م لکھتے ہیں‬
‫چلو ناصر کو پڑ ھتے ہیں‬
‫پہاڑی راگ سنتے ہیں‬
‫جنھیں ہم دودھ دیتے ہیں‬
‫وہی آ خر کو ڈ ستے ہیں‬
‫بڑ ے دشوار رستے ہیں‬
‫یہیں سے لو ٹ جا تے ہیں‬
‫ہمیں تم یاد آتے ہو‬
‫تمھیں ہم بھول سکتے ہیں‬
‫تبھی ہم شعر کہتے ہیں‬
‫فرشتے جب اترتے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چر مراتے خشک پتے اک ہوائے تیز میں‬
‫اڑ رہے ہیں زرد لمحے اک ہوائے تیز میں‬
‫وہ اڑے گا کس طرح سے وسعت افلک میں‬
‫جس نے اپنے پر نہ کھولے اک ہوائے تیز میں‬
‫راکھ اڑتی پھر رہی ہے بستیوں میں کس‬
‫طرح‬
‫کون آنکھیں کھول دیکھے اک ہوائے تیز میں‬
‫یوں بکھر جائیں گے میرے خواب کیا معلوم‬
‫تھ ا‬
‫خاک پر جو نقش کھینچے اک ہوائے تیز میں‬
‫کس قدر ہیبت تھی دل کی تیرہ گلیوں میں‬
‫کلیم‬
‫دو دیے جلنے سے پہلے اک ہوائے تیز میں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫بے فصیل شہروں میں بے امان بستی میں‬


‫کس طر ف نکل آئے بے دھیان بستی میں‬
‫راکھ اڑتی پھر تی ہے سب اداس رستوں پر‬
‫بس نشان حیرت ہے اک نشان بستی میں‬
‫ہر کسی کے ہونٹوں پر درد کی کہانی ہے‬
‫کس سے اپنا دکھ کرتے ہم بیان بستی میں‬
‫جو علوم حاضر کی خلعتوں سے عاری ہو‬
‫کاش کوئی مل جائے نکتہ دان بستی میں‬
‫معرکہ پڑا تو وہ رزم گہ سے بھاگ آیا‬
‫جس کو لوگ کہتے تھے پہلوان بستی میں‬
‫سارے صادق و کاذب شاہ کی طرف نکلے‬
‫ڈھونڈتے پھرے اپنا ہم زبان بستی میں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫جب تقدیریں بن جاتی ہیں‬


‫نئی لکیریں بن جاتی ہیں‬
‫کچھ تصویریں مٹ جاتی ہیں‬
‫کچھ تصویریں بن جاتی ہیں‬
‫چپ کے معنی کیا ہوتے ہیں‬
‫کیا تفسیریں بن جاتی ہیں‬
‫خواب نجانے کیا ہوتے ہیں‬
‫ہم بھی رانجھے بن جاتے ہیں‬
‫وہ بھی ہیریں بن جاتی ہیں‬
‫صحرا صحرا دیوانوں کی‬
‫جب جاگیریں بن جاتی ہیں‬
‫قسمت میں جب ملنا ہو تو‬
‫سو تدبیریں بن جاتی ہیں‬
‫بھاگتے بھاگتے ان پیروں میں‬
‫خود زنجیریں بن جاتی ہیں‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫گھر کے اندر گھر بنا کے اور بے گھر ہو گیا‬


‫ہر طرف ہی ایک جیسا سرد منظر ہو گیا‬
‫میرے پیچھے چل رہا تھا اک ہجوم دوستاں‬
‫مڑ کے دیکھا اور پھر حیرت سے پتھر ہو گیا‬
‫پھر سکوت شب میں اک آواز پا آنے لگی‬
‫پھر تری یادوں سے سار ا گھر معطر ہو گیا‬
‫جیسے سایہ رات کی تاریکیوں میں کھو گیا‬
‫میں اکیل کس قدر تجھ سے بچھڑ کر ہو گیا‬
‫جو سمجھتا تھا ہمالہ آپ اپنی ذات کو‬
‫وقت کی آندھی میں اک تنکے برابر ہو گیا‬

‫جب بھی گفتار لے کے آیا ہے‬


‫حرف پر کار لے کے آیا ہے‬
‫درمیاں سر بریدہ لوگوں کے‬
‫ایک دستار لے کے آیا ہے‬
‫جب بھی آیا ہے میرے آنگن میں‬
‫گل و گلزار لے کے آ یا ہے‬
‫وہ جسے ہم بھنور سمجھتے تھے‬
‫کشتیاں پار لے کے آیا ہے‬
‫یا الہی ! ہو خیریت گھر میں‬
‫ڈاکیا تار لے کے آیا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫چل مدح شا ہ میں ہم بھی کریں خون دل‬


‫کشید‬
‫سر پیچ و ہفت پارچہ مالئے مروارید‬
‫اب زور دست و بازوئے قاتل کا ذکرکیا‬
‫اہل قفس کے واسطے ہے قفل نو نوید‬
‫ہونے لگی ہے شہر میں ارزانی جمال‬
‫جیب طلب میں جب نہ رہی قوت خرید‬
‫واحسرتا کہ تنگی دامان آرزو‬
‫مژدہ کہ اہتمام دعائے ہلل عید‬
‫الجھا رہا ہے فکر و عمل کا معاملہ‬
‫یا راہ اہل بیت ہے یا بیعت یزید‬
‫پہلے سے بھی کڑی ہے وہی نامراد رات‬
‫رستے میں آ پڑی ہے وہی نامراد رات‬
‫دیکھی تھی ہم نے خواب میں اک خوشگوار‬
‫صبح‬
‫جاگے تو پھر کھڑی ہے وہی نامراد رات‬
‫سورج ذرا سی دیر میں چمکے گا بام پر‬
‫بس ایک دو گھڑی ہے وہی نامراد رات‬
‫جتنا بڑا ہے دل میں مرے ظلمتوں کا خوف‬
‫اتنی کہاں بڑی ہے وہی نامراد رات‬
‫نہ جانے کتنی دیر تک روتے رہیں گے ہم‬
‫تاروں سے پھر جڑی ہے وہی نامراد رات‬
‫ہر دل میں تیری شعلہ بیانی اتر گئی‬
‫دریا کے ساتھ ساتھ روانی اتر گئی‬
‫اوج فلک پہ اڑنے لگا طائر خیال‬
‫حرف و قلم میں روح معانی اتر گئی‬
‫سورج کو ڈوبتے ہوئے ہم دیکھتے رہے‬
‫آنکھوں میں ایک شام سہانی اتر گئی‬
‫کمرے کا سارا بوڑھا پلستر اکھڑ گیا‬
‫یا دل سے ایک یاد پرانی اتر گئی‬
‫شانوں پہ تیری زلف کی خوشبو بکھرنے سے‬
‫سانسوں میں جیسے رات کی رانی اتر گئی‬
‫اب سچ کو کوئی سچ ہی نہیں مانتا کلیم‬
‫ہر دل میں اس کی جھوٹی کہانی اتر گئی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہر قدم منادی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫موت کیوں بچھا دی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫اس قدر بھی کیا تیزی اس قدر بھی کیا‬
‫جلدی‬
‫خاک سی اڑا دی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫ایک کم نصیبی ہے ہر قدم پہ منزل تک‬
‫ایک نامرادی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫جب گزر کے آگے ہوں سامری کی بستی سے‬
‫ایک شاہ زادی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫غم کبھی نہ حائل ہوں دکھ کہیں نہ آ پائیں‬
‫ماں نے یہ دعا دی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫آدمی سے کہتا ہے ڈوبتاہوا سورج‬
‫ہر خوشی تو آدھی ہے زندگی کے رستے میں‬
‫ہم کہ چھوڑ جائیں گے روشنی خیالوں کی‬
‫شمع اک جل دی ہے زندگی کے رستے میں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫شہزادہ جب چوتھی سمت کو جاتا ہے‬


‫سبز پرندہ ا س کو راہ بتلتا ہے‬
‫اپنا آپ ہی ہم کو د ھو کا دیتا ہے‬
‫کون کسی سے ورنہ د ھو کا کھاتا ہے‬
‫اک اک کر کے ساتھی بچھڑے رستے میں‬
‫دیکھتے ہیں اب سامنے کیا کیا آتا ہے‬
‫اس بستی میں دھوپ اترنے والی ہے‬
‫بوڑھا برگد ہم کو یہ سمجھاتا ہے‬
‫اسی لیے وہ ایک نیا دن لگتا ہے‬
‫وہ سورج کو ساتھ ہمیشہ لتا ہے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہر نقش اس کے چہرے کا سادہ رکھا گیا‬


‫اس پر منا فقت کا لبادہ رکھا گیا‬
‫کچھ بوجھ ہم کو حد سے زیادہ دیے گئے‬
‫کچھ ہم کو سہل حد سے زیادہ رکھا گیا‬
‫ہم اس کی آنکھیں دیکھ کے مجلس سے اٹھ‬
‫گئے‬
‫مینا و جام و ساغر و بادہ رکھا گیا‬
‫وہ بزدلوں میں فیل و علم بانٹتا رہا‬
‫جبکہ بہا در وں کو پیادہ رکھا گیا‬
‫عمریں ہماری تنگ مکانوں میں کٹ گئیں‬
‫لیکن ہمارے دل کو کشادہ رکھا گیا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫حسن شعلہ مثال کے پرچم‬


‫کھل گئے ہیں خیال کے پرچم‬
‫زد میں تیغ ستم کی ہے لشکر‬
‫پھر بھی رکھنا سنبھال کے پرچم‬
‫حوصلہ بڑھ کے تھام لیتا ہے‬
‫بازوؤے خستہ حال کے پرچم‬
‫سبز طائر ہوا میں اڑتے ہیں‬
‫یا کہ حسن و جمال کے پرچم‬
‫آنکھ میں چاند سے چمکتے ہیں‬
‫شام عہد وصال کے پرچم‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫میر ے بت کو کر کے زندہ لے جائے گا‬
‫اس کی جانب سبز پرندہ لے جائے گا‬
‫جس نے خواب سنانے کی یاں غلطی کی‬
‫اس کو آخر ایک درندہ لے جائے گا‬
‫جن گلیوں کو شہر سے چھوڑ کے نکلے تھے‬
‫ان گلیوں میں دل شرمندہ لے جائے گا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کھڑکی ہے نہ رستہ ہے کوئی پاس گھٹن کا‬


‫رہتا ہے مری سانس کو احساس گھٹن کا‬
‫بچھڑا ہوا پھر تا ہوں کسی تازہ ہوا سے‬
‫موسم نہیں ہر گز یہ مجھے راس گھٹن کا‬
‫ہے شہر کی اطراف میں اک خوف کا سایا‬
‫ا ک زہر ہو ا شا مل انفاس گھٹن کا‬
‫اب دل میں کسی یاد کی بیلیں نہ سجاؤ‬
‫اس کمرے میں کیا کر لے گی یہ گھاس گھٹن‬
‫کا‬
‫ان بند مکانوں میں تو آسیب ہیں رقصاں‬
‫چارہ ہے تو بس سورۂ الناس گھٹن کا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫روگ دل کا لگا کے بیٹھ گیا‬
‫وہ تو کونے میں جا کے بیٹھ گیا‬
‫در و دیوار سے ا تر کر اب‬
‫خوف کمرے میں آ کے بیٹھ گیا‬
‫ہم نے دیکھا ہے ہر طرف جس کو‬
‫آج پردے گرا کے بیٹھ گیا‬
‫مجھ سے کہتا تھا آج جلدی ہے‬
‫آ پ مجھ کو اٹھا کے بیٹھ گیا‬
‫اس نے مجھ کو جواب تک نہ دیا‬
‫میں بھی نظریں چرا کے بیٹھ گیا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫در و دیوار کو تاروں سے حسیں کیسے کریں‬


‫آسمانوں کو ترے گھر کی زمیں کیسے کریں‬
‫رہن اغیار ہے دستار فضیلت جس کی‬
‫ایسے سردار کی عظمت کا یقیں کیسے‬
‫کریں‬
‫یوں تو اجداد کی سنت ہے مگر ارض وطن‬
‫ہجر تیںر وز بتا تیرے مکیں کیسے کریں‬
‫اس نے وہ مانگ لیا ہے کہ نہیں دے سکتے‬
‫ہم اسی سو چ میں ہیں اس کو نہیں کیسے‬
‫کریں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہم نے تمھارے شہر میں دو سانس تو لیے‬
‫شامل ہوا ہے زہر لہو میں تو کیا ہوا‬
‫لے وہ پڑی ہے سوزن تدبیر ٹوٹ کر‬
‫بگڑا ہے سارا کام رفو میں تو کیا ہوا‬
‫ہم نے ہمیشہ دشمنوں کو زیر کر لیا‬
‫اب یار ہو گیا ہے عدو میں تو کیا ہو ا‬
‫رنگوں کی ایک قوس قزح سی بکھر گئی‬
‫پایا تمھارا ڈھب جو کسو میں تو کیا ہوا‬
‫واعظ شراب پی کے بھی منبر نشین ہے‬
‫آئے ہیں آج رند وضو میں تو کیا ہوا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کاغذ ‪ ،‬قلم ‪ ،‬کتاب نہ چھین‬


‫مجھ سے میرے خواب نہ چھین‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اپنی جیب اور گھر کا خرچہ دیکھ رہے ہیں‬


‫کیسے گزرے گا یہ ہفتہ دیکھ رہے ہیں‬
‫چاند نجانے کس بستی میں جا اترا ہے‬
‫ہم تو بس مدت سے رستہ دیکھ رہے ہیں‬
‫اس بستی پر آ گ برسنے والی ہے‬
‫مستقبل کا ہم جو نقشہ دیکھ رہے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مجھ کو آتا نہیں ظالم کی اطاعت کرنا‬
‫میری تاریخ میں لکھا ہے بغاوت کرنا‬
‫گو کہ یہ کام ضروری بھی نہیں ہے اتنا‬
‫دل کی بس ضد ہے ترے ساتھ محبت کرنا‬
‫لفظ میراث میں چھوڑے ہیں تو ڈر لگتا ہے‬
‫مری اولد سے مشکل ہے حفاظت کرنا‬
‫اپنا شیوہ ہے شکایت نہیں کرتے کچھ بھی‬
‫ہم نے سیکھا ہے اسی طور محبت کرنا‬
‫اس کو کیا ہو گا کسی نفل عبادت کا ثواب‬
‫جس کو آیا نہ کبھی فرض عبادت کرنا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫پھر میر کی زمین کوئی ڈھونڈنے لگے‬


‫اک دکھ مل تو شعر کئی سوجھنے لگے‬
‫دل کا برا نہیں ہے مگر بد زبان ہے‬
‫وہ سو چتا نہیں ہے اگر بولنے لگے‬
‫اک زخم انتظار ہرے کا ہرا رہا‬
‫شیشم بھی راہگزار کے اب سوکھنے لگے‬
‫یوں دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا‬
‫رستے بھی اس گلی کے مجھے بھولنے لگے‬
‫یاروں سے پہل کام پڑا تھا مجھے کلیم‬
‫وہ مجھ کو دشمنوں کی طرح سوچنے لگے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫جس کی خواہش پر وطن سے دور جا نا پڑ‬


‫گیا‬
‫لوٹ کر دیکھا تو اس کی آنکھ میں آ نسو‬
‫بھی تھے‬
‫اک ہمارے غم کا اس کے پاس کچھ چار ہ نہ‬
‫تھ ا‬
‫ورنہ ا س کی جیب میں تتلی بھی تھی جگنو‬
‫بھی تھے‬
‫اک محبت ہی نہیں تھی میرے اس کے‬
‫درمیاں‬
‫اس تعلق کے ہزاروں دوسرے پہلو بھی تھے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫وہ خوا ب تھا جو مری چشم تر کی قید میں‬


‫تھ ا‬
‫کہ عکس مہ تو ابھی شیشہ گر کی قید میں‬
‫تھ ا‬
‫مرے وجود سے آ گے مرا سفر نکل‬
‫یہ آسماں تو مرے بال و پر کی قید میں تھا‬
‫تمھارے نام سے اس کے کئی معانی تھے‬
‫وہ ا یک لفظ جو دست ہنر کی قید میں تھا‬
‫ہوئے ہیں شش جہت اس طرح سے تنگ مجھ‬
‫پر‬
‫جدھر گیا ہوں انہی بام و در کی قید میں تھا‬
‫ہمارے ساتھ پھری ہے ہماری ماں کی یاد‬
‫سفر کا آ خر ی لمحہ بھی گھر کی قید میں‬
‫تھ ا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫تمھاری زلف سنورنے میں د یر لگتی ہے‬
‫کہ سر د رات کے ڈھلنے میں د یر لگتی ہے‬
‫یہ ٹھیک ہے کہ بہت جلد مان جاتا ہے‬
‫تمھی کہو کہ مکر نے میں دیر لگتی ہے‬
‫یہ دل نہ ماننا چاہے تو مانتا ہی نہیں‬
‫ذرا سی بات سمجھنے میں د یر لگتی ہے‬
‫میں جس بلندی پہ بیٹھا ہوا ہوں اے واعظ‬
‫مجھے یہاں سے اترنے میں دیر لگتی ہے‬
‫ہمارے عشق کا چرچا گلی گلی میں ہوا‬
‫کہ خوشبوؤں کے بکھرنے میں د یر لگتی ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫شاخوں میں اڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬


‫اک دھول پڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬
‫آنکھوں میں ا ندھیروں کے سو ا کچھ بھی‬
‫نہیں ہے‬
‫شیشوں میں جڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬
‫یا ایک سیاہ رات مقدر ہے ہمار ا‬
‫یا سوکھی سڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬
‫سر سبز درختوں کو کٹا دیجیے لیکن‬
‫رستوں میں بڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬
‫یہ حرف شکایت ہے نہ یہ جائے شکایت‬
‫دو چار گھڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬
‫بار ش کا کوئی ایک بھی قطرہ نہیں برسا‬
‫کمروں میں کھڑی دھوپ ہے اے ظل الہی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہر دل سے نکل جانے کا امکان کھل رکھ‬


‫یا دھوپ میں مت موم کا سامان کھل رکھ‬
‫اس گاؤں میں ہر شام اتر آتے ہیں عفریت‬
‫اک ورد کا پیڑوں پہ نگہبان کھل رکھ‬
‫پلکوں پہ دئیے جلتے رہیں اشکوں کے لیکن‬
‫ہاتھوں میں مرے میر کا دیوان کھل رکھ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دل سے صبر و سکوں روانہ ہوا‬


‫اس کو دیکھے ہوئے زمانہ ہوا‬
‫دل پہ پہلے بھی ایک بوجھ سا تھا‬
‫تیر ا جا نا تو ا ک بہانہ ہوا‬
‫ہم بھی کیسے نصیب والے ہیں‬
‫ایک حر ف غلط خزانہ ہوا‬
‫اب تو چپ سادھنا ہی بہتر ہے‬
‫جب سخن اتنا عا میا نہ ہوا‬
‫ہنس کے ملنا کلیم ہر اک سے‬
‫ایک فتنے کا شا خسا نہ ہوا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫درد ٹھہرے تو بات کرتے ہیں‬
‫چین آ لے تو بات کرتے ہیں‬
‫ہم کسی سے کبھی نہیں کھلتے‬
‫کوئی سمجھے تو بات کرتے ہیں‬
‫دل میں میرے ہزار شکوے ہیں‬
‫جب وہ کہہ دے تو بات کرتے ہیں‬
‫ہم سے کیونکر وہ کچھ نہیں کہتے‬
‫آگے پیچھے تو بات کرتے ہیں‬
‫ہم ابھی دیکھتے ہیں بس اس کو‬
‫چاند ڈوبے تو بات کرتے ہیں‬
‫ہم اسی گو مگو میں بیٹھے ہیں‬
‫غیر کہہ لے تو بات کرتے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫تیرے کو چے کہاں گزرتی ہے‬


‫ز ند گیر ا ئگاں گزرتی ہے‬
‫چاند تاروں سے آسماں خالی‬
‫رات بے خا نماں گزرتی ہے‬
‫زندگی میں مزا نہیں باقی‬
‫بس مرے مہر باں گزرتی ہے‬
‫اسی کونے میں یاد ہے اس کی‬
‫رو شنی سی جہاں گزرتی ہے‬
‫خامشی ہی میں عا فیت ہے کلیم‬
‫بات ان کو گراں گزرتی ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫آیا کرو ‪ ،‬بیٹھا کر و اور حال دل پوچھا کرو‬


‫تم ہمارے پاس تھوڑی دیر تو ٹھہر ا کرو‬
‫صحن گلشن میں یوں شب بھر چاندنی‬
‫پھرتی رہی‬
‫جیسے اس کو نیند میں چلتے ہوئے دیکھا کرو‬
‫اب کسے فرصت تمھار ا راستہ دیکھا کرے‬
‫اب پرانی البموں میں وقت کو کھو جا کرو‬
‫ا نکھ میں نم لے کے بیٹھے میر کو پڑھتے رہو‬
‫آنسوؤں کی دھند میں چہر ہ مر ا سوچا کرو‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کتنا شیریں بیان لگتا ہے‬


‫آج وہ مہربان لگتا ہے‬
‫دل ہمارا اجاڑ بستی میں‬
‫ایک خالی مکا ن لگتا ہے‬
‫میرے شانوں پہ بیٹھ کر بونا‬
‫ایک کڑیل جوان لگتا ہے‬
‫کھیت ہے ہاتھ میں لکیر وں کا‬
‫وقت بوڑھا کسان لگتا ہے‬
‫جس سے میں بار بار گزرا ہوں‬
‫پھر وہی امتحان لگتا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آئینہ روبرو بھی دیکھا کر‬
‫تو مگر چار سو بھی دیکھا کر‬
‫وہ جو تصویر کی طرح چپ ہے‬
‫وہ د م گفتگو بھی دیکھا کر‬
‫تو جو ہنس ہنس کے بات کرتا ہے‬
‫میرے دل کا لہو بھی دیکھا کر‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫تمھار ا سانس بھی دشوار کر دیا جا ئے‬


‫ہر ایسے حکم سے انکار کر دیا جائے‬
‫وہ جس نے جنگ میں سردار کو گرایا ہے‬
‫اسے قبیلے کا سردار کر دیا جائے‬
‫یوں دل میں پیار چھپانے سے فائدہ کیا ہے‬
‫اب اس کے سامنے اظہار کر دیا جائے‬
‫وہ آج تخت پہ بیٹھا ہے تاج پہنے ہوئے‬
‫قصیدہ خوانوں کو ہشیار کر دیا جائے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دن کڑے اور رات بھا ری ہو گئی‬


‫ز ند گی پر موت طاری ہو گئی‬
‫بیچتے ہیں جو کبھی بیچا نہ تھا‬
‫اس قدر بے روز گاری ہو گئی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اک ملقات ترے ساتھ جو کل اور ہوئی‬


‫ایک غم اور پڑا ایک غزل اور ہوئی‬
‫بعد اس وقت کے کہتے ہیں کہ دائم ہے حیات‬
‫اک اجل اور بھی گر شام اجل اور ہوئی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اس سے تعلقات کی حسرت بھی کچھ نہیں‬


‫نفرت بھی کچھ نہیں ہے محبت بھی کچھ نہیں‬
‫گھر میں ضرورتوں کے ہیں جنگل اگے ہوئے‬
‫بستی میں روز گار کی صورت بھی کچھ‬
‫نہیں‬
‫میں تو سمجھ رہا تھا اثاثہ ہیں لفظ بھی‬
‫لیکن کھل خیال کی قیمت بھی کچھ نہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫سو رنج و الم کھینچے ہیں سو درد سہے ہیں‬


‫تب جا کے مری جان یہ دو بول کہے ہیں‬
‫یوں خار و خس و خاک و رہ سنگ پہ چلنا‬
‫چھالے ہیں کہ آنکھوں سے مری پھوٹ بہے ہی‬
‫ہم لوگ پر کاہ سر راہ گزر ہیں‬
‫بے وجہ مسافت کی سزا کاٹ رہے ہیں‬
‫بیٹھا ہے جہاں بام پہ وہ حسن دل آرا‬
‫ہر اک سے اسی گھر کا پتہ پوچھ رہے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫حیلوں کے ساتھ تھی وہ مثالوں کے ساتھ تھی‬
‫وہ گفتگو تما م حو ا لوں کے سا تھ تھی‬
‫سورج کو میرے سر پہ کھڑا کر دیا گیا‬
‫یعنی مری سزا بھی ا جالوں کے ساتھ تھی‬
‫وہ روشنی نجا نے کہاں کھو گئی ا ب‬
‫جو تھوڑی دیر پہلے خیا لوں کے ساتھ تھی‬
‫ترکے میں جو ملے ہیں مجھے والدین سے‬
‫دیمک بھی ان پرانے رسالوں کے ساتھ تھی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اس کا چہر ہ یاد نہیں ہے‬


‫باتیں ‪ ،‬لہجہ یا د نہیں ہے‬
‫جانے کب سے بچھڑ گیا ہے‬
‫میرا سا یہ یا د نہیں ہے‬
‫اس بستی سے پہلے بھی تھا‬
‫کوئی رشتہ یا د نہیں ہے‬
‫تھوڑا تھوڑا یاد ہے لیکن‬
‫سارا قصہ یاد نہیں ہے‬
‫وہ دن یاد ہے اب تک لیکن‬
‫سال مہینہ یاد نہیں ہے‬
‫اس کوچے کی بات نہ چھیڑو‬
‫اب وہ کوچہ یاد نہیں ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کہیں آنکھوں میں خوابوں کا نگر تعمیر کرتے‬
‫ہیں‬
‫کہیں پانی کے رستے میں بھی گھر تعمیر‬
‫کرتے ہیں‬
‫وہ کوتا ہ قامتی کی اس طرح خفگی مٹاتے‬
‫ہیں‬
‫جہاں جائیں وہاں پر شاہ در تعمیر کرتے ہیں‬
‫ہماری آخری منزل ہمار اگھر ہی ہوتا ہے‬
‫بڑے رستے بناتے ہیں سفر تعمیر کرتے ہیں‬
‫وہ جس کا سر نہیں ہوتا اسے دستار دیتے ہیں‬
‫ہزاروں سا بقے پھر نا م پر تعمیر کرتے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دل کی باتیں لکھ کر میں نے غیر مکمل‬


‫چھوڑ رکھی ہیں‬
‫کتنی غزلیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ‬
‫رکھی ہیں‬
‫کتنے ورق ہیں سادہ جن کو بالکل سادہ رکھ‬
‫چھوڑا ہے‬
‫کچھ پر سطریں لکھ کر میں نے غیر مکمل‬
‫چھوڑ رکھی ہیں‬
‫جی چاہا ہے آج پرانے کاغذ کھول کے بیٹھ‬
‫رہوں‬
‫جن میں یادیں لکھ کر میں نے غیر مکمل‬
‫چھوڑ رکھی ہیں‬
‫تم بھی جانو مجھ کو تمھاری دید کی کتنی‬
‫حسرت ہے‬
‫اپنی آنکھیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ‬
‫رکھی ہیں‬
‫جیسے لکھتے لکھتے کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہو‬
‫پاگل سوچیں لکھ کر میں نے غیر مکمل‬
‫چھوڑ رکھی ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ہمارے لفظ بے تاثیر نکلے‬
‫کوئی تو صورت تعمیر نکلے‬
‫ہماری نیند کیسے کھو گئی ہے‬
‫ہمارے خواب کی تعبیر نکلے‬
‫کوئی تو کاسہ و کشکول توڑے‬
‫کوئی تو صاحب توقیر نکلے‬
‫ہماری چھت ہمی پر آ گری ہے‬
‫بڑے ہی کھوکھلے شہ تیر نکلے‬
‫جسے دار و رسن سمجھے ہوئے ہیں‬
‫تمھاری زلف کی زنجیر نکلے‬
‫یہاں سچ بولنا مشکل بہت ہے‬
‫یہاں پر سب ترے کف گیر نکلے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہم پہ آیا ایسا وقت محبت میں‬


‫ایک گھٹن تھی باقی اس کی صحبت میں‬
‫کل یہ شہر میں چھوڑ کے جانے وال ہوں‬
‫آج ملو ہر صورت میں ہر حالت میں‬
‫اپنے گھر میں رہ کر ایسا لگتا ہے‬
‫جیون جیسے بیتر ہا ہو ہجرت میں‬
‫ہم نے ساری عمر گنوا د ی سوچوں میں‬
‫ہم سے کچھ بھی ہو نہ سکا اس مہلت میں‬
‫اب تو کتنی دور تعلق آ پہنچا ہے‬
‫ہم بیٹھے ہیں اب تک پہلی حیرت میں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫شرح غم کیسے کریں لطف بیاں کیسے ہو‬
‫اپنے لہجے میں ترے منہ کی زباں کیسے ہو‬
‫ہم بھی جا نذر کریں کو ئی قصیدہ لیکن‬
‫ہم غریبوں سے یہ لفظوں کا زیاں کیسے ہو‬
‫اس کے اس طرز تغافل کا گلہ کیسے کریں‬
‫ہم سے وہ پوچھ رہا ہے کہ میاں کیسے ہو‬
‫اب تو برگد ہے نہ وہ پیڑہے شیشم کا کلیم‬
‫اب پرندوں کا بسیرا بھی یہاں کیسے ہو‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫گھر چھوڑ کر مکین گھروں کے چلے گئے‬


‫قسمت میں اس مکان کی جالے لکھے گئے‬
‫پہلے تو قتل آل پیمبر کیا گیا‬
‫پھر کربل کی شام پر ماتم کیے گئے‬
‫ہر بے خطا کو دار و رسن کی سزا ملی‬
‫جب منصفی کے واسطے قاتل چنے گئے‬
‫دشمن کو پہلے جنگ کا نقشہ دیا گیا‬
‫الزام پھر شکست کے ہم کو دیے گئے‬
‫کل بھی حقیقتوں سے چراتے رہے نظر‬
‫دل چسپیوں سے آج بھی قصے سنے گئے‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے‬
‫کہ غم آسان ہوتا جا رہا ہے‬
‫محبت روگ بنتی جا رہی ہے‬
‫مجھے سرطان ہوتا جا رہا ہے‬
‫ہرے شیشم سے چڑیاں اڑ گئی ہیں‬
‫یہ گھر سنسان ہوتا جا رہا ہے‬
‫لٹا بیٹھے ہیں ہم نقد و فا بھی‬
‫بڑا نقصان ہوتا جا رہا ہے‬
‫وہی تھا اک تعار ف شہر بھر میں‬
‫وہی انجان ہوتا جا رہا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کچھ سبب ہے یا یونہی وہ بے سبب مصروف‬


‫ہے‬
‫آدمی کس کے لیے یاں روز و شب مصروف‬
‫ہے‬
‫ا ب کسے فرصت پیپل کہ تلے بیٹھا رہے‬
‫میں بھی اب مصروف ہوں اور وہ بھی اب‬
‫مصروف ہے‬
‫ہم اکیلے سوچ میں گم سم اسے دیکھا کیے‬
‫اتنا نازک ہے مگر کیسا غضب مصروف ہے‬
‫فیصلہ ہونے میں ہے تاخیر کا بس یہ سبب‬
‫ذی حشم ‪ ،‬شاہ زمن ‪ ،‬عا دل لقب مصروف‬
‫ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫لزم تھی احتیا ط کی حد سے گزر گئے‬
‫ہم اس سے اختلط کی حد سے گزر گئے‬
‫دل یوں تمھار ے شہر میں پتھر کا ہو گیا‬
‫ہم قبض و انبساط کی حد سے گزر گئے‬
‫وہ لوگ جو اڑان سے آگے چلے گئے‬
‫وہ لوگ جو بساط کی حد سے گزر گئے‬
‫معنی ہماری بات سے گم ہو گئے ہیں کیوں‬
‫لفظوں کے انحطاط کی حد سے گزر گئے‬
‫کچھ لوگ امتحان میں پڑنے سے ڈر گئے‬
‫کچھ لوگ پل صراط کی حد سے گزر گئے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہم سے پھر وعد ہ خل فی ہو گئی‬


‫راستے میں رات کافی ہو گئی‬
‫سارے منصف اس کے آگے بک گئے‬
‫ہر عدالت سے معافی ہو گئی‬
‫اک تر ا غم آ پڑا ہے جان پر‬
‫ساری خوشیوں کی تلفی ہو گئی‬
‫اس نے اتنی آج کل غزلیں کہیں‬
‫شاعر ی بھی نور با فی ہو گئی‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫یار ہے یا عدو ہمی سا ہے‬
‫آئنہ ہو بہو ہمی سا ہے‬
‫بات سنتا نہیں کسی کی پھر‬
‫وہ دم گفتگو ہمی سا ہے‬
‫اپنے خنجر پہ جو چمکتا ہے‬
‫د یکھنا یہ لہو ہمی سا ہے‬
‫یہ کہیں آئنہ نہ ہو یارو‬
‫پھر کوئی روبرو ہمی سا ہے‬
‫بات کیسے چلے گی آگے پھر‬
‫وہ اگر تند خو ہمی سا ہے‬
‫ہم اسی واسطے نہیں ملتے‬
‫جانتے ہیں کہ تو ہمی سا ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ہر آن کوئی قہر مرے سامنے پھر تھا‬


‫اک دھوپ بھرا شہر مرے سامنے پھر تھا‬
‫اک چہر ہ جسے بھولے ہوئے لحظہ ہوا تھا‬
‫اے دوست ذرا ٹھہر مرے سا منے پھر تھا‬
‫ہر عہد میں ہوتے رہے زندان مقدر‬
‫ہر عہد میں اک زہر مرے سامنے پھر تھا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اس قدر بات بگڑ جائے گی معلوم نہ تھا‬
‫وہ جو سمجھا ہے مری بات کا مفہوم نہ تھا‬
‫شا ہ کی سب پہ عنایات برابر تھیں کلیم‬
‫شہر میں کوئی بھی اس لطف سے محروم‬
‫نہ تھ ا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫جلوۂ چہرہ شب تاب نہ آنکھوں میں رہا‬


‫حیف وہ منظر صد خواب نہ آنکھوں میں رہا‬
‫اب تری یاد میں رو لیتے ہیں قطرہ قطرہ‬
‫یعنی اشکوں کا وہ سیلب نہ آنکھوں میں رہا‬
‫تو نے الزام دیے غیر کو کیسے کیسے‬
‫اس کے ماتھے کا بھی محراب نہ آنکھوں میں‬
‫رہا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دیکھتا اک نظر تو کیا ہوتا‬


‫غیر ہو تا ادھر تو کیا ہوتا‬
‫اپنا دشمن ہے آسماں یوں ہی‬
‫کچھ بھی ہوتا ہنر تو کیا ہوتا‬
‫وہ نہیں ہے تو کیا نہیں اب بھی‬
‫وہ بھی ہوتا ا گر تو کیا ہوتا‬
‫دو قدم ساتھ چل نہیں پایا‬
‫وہ مرا ہم سفر تو کیا ہوتا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫میں مسافر مزاج رکھتا ہوں‬
‫میرا ہوتا بھی گھر تو کیا ہوتا‬
‫کس قدر سخت زند گی تھی کلیم‬
‫یونہی ہوتی بسر تو کیا ہوتا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫درد اظہار تک نہیں آیا‬


‫میں در یار تک نہیں آیا‬
‫وہ جسے میں سمجھتا تھا سایہ‬
‫وہ شب تار تک نہیں آیا‬
‫آج گھر میں ہو اس کے خیریت‬
‫آجبازار تک نہیں آیا‬
‫دار تک آ گیا ہوں میں لیکن‬
‫تیرے کردار تک نہیں آیا‬
‫دشمن جاں کو سا منے دیکھا‬
‫ہاتھ تلوار تک نہیں آیا‬
‫اس کو کہتا ہے کون مے خانہ‬
‫ایک مے خوار تک نہیں آیا‬
‫وہ بہت سر بلند ہے لیکن‬
‫مرے معیار تک نہیں آیا‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دل لگی سی دل لگانے سے رہی‬
‫ایک رونق اس بہانے سے رہی‬
‫اس قدر صدمے پڑے ہیں جان پر‬
‫زندگی ا ب مسکرانے سے رہی‬
‫ایک تو پہلو بدلتے بج گیا‬
‫آج شب پھر نیند آنے سے رہی‬
‫ایک چارہ بن گئی بے چارگی‬
‫ایک ہمت آزمانے سے رہی‬
‫میں نے کی ہے آسماں سے دوستی‬
‫اس کی نسبت آب و دانے سے رہی‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫وہ لگ گیا ہے جان کو آزار دوستا‬


‫بیٹھا ہوا ہوں جان سے بے زار دوستا‬
‫صد شکر آستینوں میں پنہاں نہیں ہے کچھ‬
‫صد حیف تیرے ہاتھ میں تلوار دوستا‬
‫ہم نے سنا تھا تجھ سا مسیحا نہیں کوئی‬
‫ہم نے سنا کہ مر گیا بیمار دوستا‬
‫قسمت کہ وہ بھی راستے اپنے بدل گیا‬
‫چھوڑا تھا جس کے واسطے گھر بار دوستا‬
‫مجھ تک نہ پہنچتے کبھی یوں دشمنوں کے ہاتھ‬
‫ہوتے جو تم سے اور بھی دو چار دوستا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫نہ پر ی کی تھی نہ وہ جادو کی‬
‫وہ کہا نی تھی ایک جگنو کی‬
‫موت کی خامشی میں آتی ہے‬
‫مجھ کو آواز جیسے گھنگھرو کی‬
‫ہر طرف تیغ زن نکل آئے‬
‫بات چھیڑی تھی کس نے ابر و کی‬
‫نرم تکیوں پہ سو سکا نہ کلیم‬
‫مجھ کو عادت تھی ماں کے بازو کی‬
‫شکار و ناوک و دانہ و دام ہو تے ہیں‬
‫چمن میں پھر سے وہی اہتمام ہوتے ہیں‬
‫قد م قدم پہ ہمیں روک لیتے ہیں جلوے‬
‫ہم ایسے لوگ کہاں تیز گام ہوتے ہیں‬
‫زباں پہ ہوتی ہیں اکثر حلل کی باتیں‬
‫اگرچہ ہاتھ میں لقمے حرام ہوتے ہیں‬
‫تمھارا عشق بھی اپنی جگہ سلمت ہے‬
‫جو ز ندگی میں مگر اور کام ہوتے ہیں‬
‫گلی میں گاؤں کے بچے یہ کہہ رہے تھے کلیم‬
‫سنا ہے شہر میں دیدار عام ہوتے ہیں‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دل کے ٹوٹ جانے کا سانحہ نکل آیا‬
‫ہاتھ کی لکیروں سے زائچہ نکل آیا‬
‫وہ جہاں بسایا تھا شوق خود نما ئی نے‬
‫آئینے کے پیچھے بھی آئینہ نکل آیا‬
‫کس نے ذکر چھیڑا تھا اس کی سرد مہری‬
‫کا‬
‫باد و برف زاروں کا سلسلہ نکل آیا‬
‫دائرے کے باہر بھی دائرے ہی لگتے ہیں‬
‫دائرے کے اندر بھی دائرہ نکل آیا‬
‫پھر مرے خیالوں میں پھوٹنے لگی سرسوں‬
‫پھر جنون و و حشت کا مسئلہ نکل آ یا‬
‫اس کی جھوٹی باتوں پر میں یقین کیوں کر‬
‫لو ں؟‬
‫پھن ا ٹھائے بل سے پھر وسو سہ نکل آیا‬
‫میں ابھی سفر کی دھول گھر کو لے کے لوٹا‬
‫تھ ا‬
‫پھر نئی مسافت کا راستہ نکل آیا‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫یہ جانتے تھے کہ ملنا اداس کر دے گا‬


‫کسے خبر تھی کہ اتنا اداس کر دے گا‬
‫یہ جان کر بھی ہے کتنا ترا خیال عزیز‬
‫ترے خیال کا رہنا اداس کر دے گا‬
‫میںکچھ نہیں ہوں تو ہونے کی کوششوں میں‬
‫ہوں‬
‫اگرچہ بعد میں ہونا اداس کر دے گا‬
‫وہ میرے گرد لگائے گا ڈھیر خوشیوں کا‬
‫اور اس طرح مجھے دگنا اداس کر دے گا‬
‫تما م دن میں پریشانیوں میں پھرتا رہا‬
‫کہ چاند شام کو کتنا ا داس کر دے گا‬
‫پروف ریڈنگ اور ای بک‪ :‬اعجاز عبید‬
‫اردو لئبریری ڈاٹ آرگ‪ ،‬کتابیں ڈاٹ آئی‬
‫فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ‪ 250‬فری‬
‫ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش‬
‫‪http://urdulibrary.org,‬‬
‫‪http://kitaben.ifastnet.com,‬‬
‫‪http://kutub.250free.com‬‬

You might also like