Professional Documents
Culture Documents
خلیفہ وہ ہوتا ہے جو تمام عالم اسلم کا سربراہ ہو ،خلفت کا یہ نظام اسلم میں ایک سو چوبیس
سال تک دہا ہے۔اس کے بعد خلفت ختم ہو گئی اور خلفت کے نام سے بادشاہت آگئی اور مسلما
نوں کی حکو میتں مختلف ریاستوں میں بٹ گئیں پھر تاریخ نے ایسا دور بھی دیکھا کہ مسلمان
حکمران ایک دوسرے کے خلف اپنی دفاعی قوتوں کو صرف کرتے رہے اور کفار کے خلف
جنگ اور جہاد ایک قصہ پارینہ بن گیا۔ہم یہاں اختصار کے ساتھ خلفاء کے عہد کا ایک جائزہ
پیش کررہے ہیں۔فنقول و با اللہ التوفیق وبہ الستعانۃ یلیق۔
۔ حضرت ابو بکر صدیق بارہ ربیع الول کو پیرکے دن 11ھ کو منتخب ہوئے اور منگل کی1
رات بائیس جمادی الخرۃ 13ھ میں وصال فرمایا ،آپ نے حضرت اسامہ کی قیادت میں شام
کی طرف لشکر بھیجا جو رومیوں سے جنگ کر کے کامیاب لوٹا۔مسیلمہ کذاب کو قتل کیا
،حضرت علء بن حضرمی کو بھیج کر بحرین کے مرتدین کی سرکوبی کی،مانعین زکوۃ سے
قتال کیا ،حضرت عکرمہ بن ابی جہل کو بھیج کر عمان کے مرتدوں کی سرکوبی کی ،حضرت
خالد بن ولید کو بصرہ بھیجا اور ایلہ شہر فتح کیا ،عراق کے مشہور شہر مدائن کسری کو فتح
کیا ،حضرت عمرو بن عاص کے ساتھ شام کی طرف لشکر بھیجا اور اجنادین فتح ہوا ۔فتح
ہوا ۔
۔ حضرت عمر فاروق ،حضرت ابو بکر کی وصیت کے مطابق خلیفہ ہوئے 26زوالحجہ 223
ھ کو آپ پر حملہ کیا گیا اور یکم محرم 24ھ کو آپ شہید ہو گئے ،آپ کی خلفت میں 14ھ کو
دمشق صلح اور جنگ سے فتح ہوا پھر حمص اور لبلیک پر صلح سے قبضہ کیا۔اسی سال
بصرہ اور ایلہ فتح ہوئے۔ 16ھ میں اہواز اور مدائن فتح ہوئے ،تکریت اور بیت المقدس فتح ہوا،
قنسرین ،حلب اور انطاکیہ فتح ہوئے ،جند نیشا پورااور حلوان جنگ سے فتح ہوئے19 ،ھ میں
قیساریہ پر قبضہ ہوا20 ،ھ میں مصر جنگ سے فتح ہوا اور تستر فتح کیا۔ 21ھ میں اسکندریہ
اور نہاوند فتح ہوئے22 ،ھ میں آذر بائیجان فتح ہوا اس کے بعد دینور اور ہمدان جنگ سے فتح
ہوا ،طرابلس الغرب فتح ہوا ،عسکر اور قومس فتح ہوئے اور رے )طہران( فتح ہوا23 ،ھ میں
کر مان ،سجستان اور مکر ان فتح ہوئے اور بلد جبل سے اصفہان تک کے علقے فتح ہوئے۔
۔ حضرت عثمان شوری کے انتخاب سے خلیفہ ہوئےاور 18ذوالحجہ 35ھ کو شہید کیے گئے3،
آپ کے عہد میں 24ھ میں مکمل رے )طہران( فتح ہوا ،روم کا وسیع علقہ فتح ہوا27 ،ھ میں
قبرص فتح ہوا ،افریقہ فتح ہوا اور اسی سال اندلس فتح ہوا30 ،ھ میں جور ،خراسان اور
پورامیشا پور صلح سے فتح ہوئے ،ایران کے چند شہر طوس،سرخس،مرو اور بیہق بھی صلح
سے فتح ہوئے۔
۔ حضرت علی اہل مدینہ کے انتخاب سے خلیفہ ہوئےاور 21رمضان 40ھ میں شہید ہوئے آپ4
کے عہد میں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی۔
۔حضرت حسن بن علی اہل کوفہ کی بیعت سے خلیفہ ہوئے جمادی الول 41ھ میں خلفت سے5
دستبردار ہوئے۔
۔ حضرت حسن سے صلح کے نتیجہ حضرت معاویہ خلیفہ ہوئے اور 22رجب 60ھ کو انتقال6
ہوا )اصابہ(ان کے عہد میں 51ھ میں بلخ فتح ہوا53 ،ھ میں جزیرہ رودس اوربخارا فتح ہوا۔
۔ حضرت معاویہ کے ولی عہد مقرر کرنے کی وجہ سےیزید خلیفہ ہوا اور 15ربیع ا لول 764
ھ میں ہلک ہو گیا ،یزید کے عہد میں سانحہ کربل رونما ہوا ،میدان حرہ میں اہل مدینہ سے
جنگ کی گئی اور ان کا قتل عام کیا گیا اور خانہ کعبہ جلیا گیا۔
۔ معاویہ بن یزید ،یزید کا جانشین ہوا اور چالیس دن یا دو ماہ بعد 64ھ کو ہلک ہو گیا۔8
۔ یزید کی موت کے بعدحجاز ،یمن ،عراق اور خراسان کے مسمانوں نے حضرت عبداللہ بن9
الزبیر
کے ہاتھ پر)64ھ(میں بیعت کرلی اور شام اور مصر کے لوگوں نے یزیدبن معا ویہ کےہاتھ پر
بیعت کی تھی لیکن اس کی موت کے بعد شام اور مصر کے لوگوں نے بھی حضرت عبداللہ بن
الزبیرکے ہاتھ پر بیعت کر لی لیکن اس کی موت کی بعد شام اور مصر کے لوگو نے حضرت
عبداللہ بن الزبیر کے ہاتھ بعیت کر لی پھر مروان بن الحکم نے ان کی خلفت میں بغاوت کی
اور شام اور مصر پر غلبہ حاصل کر لیا65 ،ھ میں مروان مر گیا اور اس کا بیٹا عبدالملک بن
مروان ولی عہد ہوا اس نےحجاج بن یوسف سے حضرت عبداللہ بن الزبیر پر حملہ کرایا اور
17جمادی الول 73ھ میں حضرت عبداللہ بن الزبیر کو شہید کر دیا گیا ،اس طرح نو سال کے
بعد حضرت عبداللہ بن الزبیر کی خلفت ختم ہو گئی ،اور عبدالملک بن مروان تمام ممالک
اسلمیہ پر غلبہ سےقابض ہو گیا ،حضرت عبداللہ بن الزبیر نے اپنےعہد میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق کعبہ کی تعمیر کی۔
۔ عبد ا لملک بن مروان 73ھ میں غلبہ سے خلفت پر قابض ہوا اور شوال 86ھ میں اس نے10
وفات پائی ،اس کے عہد میں زیادہ تر خارجیوں سے جنگ ہوتی رہی81 ،ھ میں قالیقا فتح ہوا
اور 84ھ میں قلعہ باز غیس کی تسخیر ہوئی۔
۔ ولید بن عبدا لملک کو عبدالملک نے اپنی زندگی میں نامزد کردیا تھا ،اس نے 15جمادی11
الخری 99ھ میں وفات پائی،اس کے عہد میں بیقند،بخارا،سردانیہ،طمورہ ،قمیم اور
بحیرۃالفرسان فتح ہوئے۔
۔ سلیمان بن عبدالملک بھی عبدا لملک کی وصیت کے مطابق خلیفہ ہوا،اس کی خلفت صفر12
99ھ تک رہی ،اس کے عہد میں جرجان،قلعہ حدید،سردا،شفا ،طبرستان اور شہر سفانیہ فتح
ہوئے۔
۔ عمر بن عبدالعزیز ،سلیمان کی وصیت سےخلیفہ ہوئے ،ان کی خلفت 25رجب 101ھ تک13
رہی ان کو خلیفہ راشد قرار دیا گیا ،ان کے عہد میں زیادہ تر داخلی اصلحات ہوئیں۔
۔ یزید بن عبدالملک بن مروان اپنے بھائی سلیمان بن عبدا لملک کی وصیت کے مطابق14
عمر بن عبدالعزیز کے بعد خلیفہ ہوا،شعبان 105ھ میں اس کی وفات ہو گئی۔
۔ ہشام بن عبدا لملک اپنے بھائی یزیدبن عبدالملک کے ولی عہد کی حیثیت سے خلیفہ ہوا15،
ربیع الخر 125ھ میں اس کی وفات ہو گئی ،اس کی حکومت کے ساتویں سال روم جنگ
وجدال سے فتح ہوا ،آٹھویں سال میں حنجرہ فتح ہوااوربارھویں سال میں خرشتہ فتح ہوا۔
۔ ولید بن یزیدبن عبدالملک ،اپنے باپ کی وصیت کے مطابق جانشین ہوا یہ انتہائی بد کار16،
شرابی اور لوطی تھا،لوگوں نے اس کے فسق و فجور سے تنگ آکر جمادی الخر 126ھ میں
اس کو قتل کر دیا۔
۔ یزید ناقص ابو خالد بن ولید،یہ اپنے عم زاد ولید بن یزید کو قتل کر کے خلفت پر قابض17
ہوا،یہ قدری تھااور لوگوں کو قدریت کی طرف دعوت دیتا تھا ،خلفت کے چھ ماہ بعد ذوا لحجہ
126ھ میں فوت ہوا۔
۔ ابراہیم بن ولیدبن عبدا لملک ،اس کے ولی عہد ہونے میں اختلف ہے ،اس صرف ستردن18
حکومت کی ،اسکے خلف مروان بن محمد نے خروج کیا اور یہ اس کے حق میں دستبردار ہو
گیا۔
۔مروان بن محمد بن مروان بن الحکم الحمار127 ،ھ میں غلبہ سے خلفت پر قابض ہوا ،اس19
کے خلف عباسیوں نے خروج کیا اور ذوالحجہ 132ھ میں اس کو قتل کر دیا گیا،یہ بنوامیہ کا
آخری خلیفہ تھا۔
21۔المنصور ابو جعفر عبداللہ ،اس کو سفا نے اپنا ولی عہد بنایا تھا148 ،ھ تک تمام مقبوضہ
ممالک پر اس کا قبضہ ہوگیا ،البتہ اندلس پر قبضہ نہیں کرسکا۔ کیونکہ اندلس میں عبدالرحمان
بن معاویہ اموی مروانی نے اپنی سلطنت قائم کرلی تھی ،اس کےعہد خراسان میں بغاوت ہوئی،
ذولحجہ 158ھ میں منصور فوت ہوگیا۔
134ھ کے بعد تمام عالم اسلم ایک حکمران کے تحت نہیں رہا کیونکہ اندلس میں ایک الگ
حکومت قائم ہوچکی تھی اور عمل خلفت ختم ہوچکی تھی ،کیونکہ اب تمام علم اسلم کا ایک
سربراہ نہیں تھا۔
22۔مہدی ابو عبداللہ محمد بن منصور ،اس کو منصور نے اپنی زندگی میں خلیفہ نامزد کردیا
تھا ،اس کے عہد میں روم کے اکثر علقے فتح ہوئے169 ،ھ میں مہدی کا انتقال ہوگیا۔
23۔ابو محمد موسی بن المہدی المعروف بالہادی ،یہ مہدی کی وصیت کے مطابق خلیفہ ہوا،
170ھ میں فوت ہوگیا۔
24۔ الرشید ہارون بن مہدی ،اس کو مہدی نے ہادی کے بعد نامزد کیا تھا ،اس کے عہد میں
176ھ میں دبستہ شہر فتح ہوا181 ،ھ میں صنصاف کا قلعہ فتح ہوا183 ،ھ میں آرمینیہ میں
بغاوت شروع ہوگئی190 ،ھ میں ہارون نے روم کا شہر ،ہرقلعہ فتح کیا193 ،ھ میں فوت ہوگیا۔
25۔المین محمد ابو عبداللہ بن رشید ،اس کو ہارون نے ولی عہد بنایا تھا ،ہاروننے اس کے بعد
مامون بن رشید کو ولی عہد بنایاتھا194 ،ھ میں امین نے مامون کو ولی عہدی سے معزول
کردیا ،مامون نے امین کے خلف بغاوت کرکے 198ھ میں خلفت پر قبضہ کرلیا ،امین قرآن
کے مخلوق ہونے کا قائل تھا ،گانے بجانے ،شراب نوشی اور اغلم کا عادی تھا198 ،ھ میں اس
کو قتل کردیا تھا۔
26۔ مامون عبداللہ ابو العباس بن رشید ،اس نے غلبہ سے خلفت پر قبضہ کرلیا211 ،ھ میں اس
نے اعلن کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے
افضل ہیں211 ،ھ میں اس نے خلق قرآن کے عقیدے کا اظہار کیا۔ 215ھ میں روم کے بعض
شہروں کو فتح کیا ،جن علماء نے خلق قرآن کے عقیدے میں اس کی ہمنوائی نہیں کی ،ان کو
مروا دیا یا سخت آزمائش میں مبتل کیا۔ 12رجب 218ھ کو مرگیا۔
27۔المعتصم باللہ ابو اسحاق محمد بن الرشید ،مامون کے بعد اس کی بیعت کی گئی۔ یہ بھی
معتزلی تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو قتل کیا223 ،ھ میں اس نے روم پر لشکر کشی کی اور
اموریہ کو فتح کیا19 ،ربیع الول 227ھ میں فوت ہوگیا۔
۔ الواثق باللہ ہارون ابو جعفر بن معتصم ،اس کو معتصم نے ولی عہد مقرر کیا ،یہ بھی خلق28
قرآن کے عقیدے کا حامل تھا ،اور اس نے بھی علما کو آزمائش میں ڈال ،یہ 24ذی الحجہ
232ھ کو فوت ہو گیا۔
29۔المتوکل علی اللہ جعفر ابو الفضل بن معتصم بن ہارون،یہ واثق کی موت کے بعد خلیفہ ہوا
اس نے امام حسین کی قبر کھدوا دی تھی،یہ ایک عیاش شخص تھااس نے پہلے اپنے بیٹے کو
ولی عہد مقرر کیا بعد میں اس کو بدلناچاہا تو منتصر نے سازش کرکے اس کو 247ھ کو قتل
کرا دیا۔
30۔محمد ابو جعفر المنتصرباللہ۔یہ اپنے باپ کو قتل کرنے کے بعد غلبہ سے خلیفہ ہوا۔ 5ربیع
الخر 248ھ میں فوت ہوگیا۔
31۔المستعین باللہ ابو العباس احمد بن معتصم بن رشید ،اس کو ترک سرداروں نے مشاورت کے
ذریعہ خلفت پر بٹھایا بعد میں اس کی ترکوں سے مناقشت ہو گئی جس کے نتیجے میں اس کو
252ھ میں خلفت سے دستبردار ہونا پڑا 3 ،شوال 252ھ میں قتل کردیا گیا۔
32۔المعتز باللہ محمد بن ابو عبداللہ بن المتوکل بن المعتصم بن الرشید ،اس کو ترکوں نے خلفت
پر بٹھایا تھا 255ھ میں یہ ترکوں کے مالی مطالبہ کو پورا نہ کر سکا جس کے نتیجہ میں ترک
سرداروں نے اس کو مار پیٹ کر اس سے خلفت سے دستبرداری لکھوا لی ،شعبان 255ھ میں
ترکو ں کے ظلم سے پیاسا مر گیا۔
33۔المہتدی باللہ ابو عبداللہ بن واثق بن معتصم بن رشید ،اس کو ترکو نے خلفت پر بٹھایا ،اس
نے ترکوں سے جنگ کی لیکن اس نے شکست کھائی اسے گرفتار کر کے اس کےخصیے دبا
کراس کو 256ھ میں مار ڈال گیا۔
34۔المعتد علی اللہ احمد بن متوکل بن معتصم بن رشید،اس کو جیل خانے سے نکال کر اس کے
ہاتھ پر بیعت کی گئی 12 ،رجب 279ھ میں مر گیا۔
35۔المعتضد باللہ احمد بن موفق بن متصم بن رشید ،اس معتمد نے ولی عہد بنایا تھا ،یہ فلسفہ کے
خلف تھا22 ،ربیع آلخر 279ھ میں فوت ہو گیا۔
36۔المکتفی باللہ بن معتضد ،اس کو اس کے باپ نے اپنی زندگی میں نامزد کر دیا تھا291 ،ھ
میں روم کا شہر انطاکیہ فتح ہوا ،یہ نیک اور عادل خلیفہ تھا۔ 22ذوالقعدہ 295ھ میں فوت ہوا۔
37۔المقتدر باللہ جعفعر بن المعتضد ،اس کو اس کے بھائی نے اپنی بیماری کے ایام میں خلیفہ
نامزد کیا تھا 301 ،ھ میں مہدی فاطمی ،اسکندریہ اور قیوم پر قابض ہو گیا312 ،ھ میں حاکم
خرسان کے ہاتھوں فرغانہ فتح ہوا314،ھ میں سلیطہ پر رومیوں نے قبضہ کر لیا315 ،ھ میں
رومیوں نے دمیاط پر قبضہ کر لیا316،ھ میں قرامطہ کی یورش سے بہت سے مقبوضات مقتدر
کے ہاتھوں سے نکل گئے317 ،ھ میں مقتدر بغاوت سے گھبرا کر روپوش ہو گیا لیکن دوبارہ
اقتدار پر بحال ہو گیا320 ،ھ میں مقتدر کی بربریوں سے جنگ ہوئی ایک بربر نے اس کو قتل
کر دیا۔ یہ بدھ کا دن تھا اور شوال کی 27تاریخ تھی۔
۔القا ہر باللہ ابو منصور محمد بن المعتضد،اس کو استصواب کے بعد خلیفہ بنایا گیا ،یہ رقص38
وسرود کا رسیا اور شراب کا عادی تھا322 ،ھ میں ابن بویہ نے فارس پر قابض کر لیا پھر اس
نے مزید شہروں پر قبضہ کیا اور خراسان اور فارس بنو عباس کے قبضہ سے نکل گئے ،القا
ہر انتہائی ظالم اور سفاک تھا ،اس کے ظلم اور خونریزی کی بنا پر 322ھ میں اس سے خلفت
سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا گیا اور انکار پر گرم سلخوں سے اس کی آنکھیں نکال دی
گئیں333،ھ تک یہ قید رہا پھر اس کو رہائی ملی ،مکتفی کے دور حکومت میں یہ نظر بند رہا
اور جمادی الول 339ھ میں فوت ہو گیا۔
39۔ الراضی باللہ ابوالعباس محمد بن مقتدر بن معتصد ،یہ قاہر باللہ کی معز ولی کے بعد 322ھ
میں تخت نشین ہوا 324ھ میں محمد بن نے رائق نے واسط اور اس کے نواحی علقوں پر قبضہ
کر لیا اور خلیفہ کے قبضہ سے تمام ملکی اور مالی امور نکل گے 325ھ میں متعدد شہروں پر
خارجیوں کا قبضہ ہو گیا،ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا اور راضی باللہ کے قبضہ
میں بغداد اور نواحی بغداد کے سوا کچھ نہ رہا ،اس صورت حال سے اسپین کے بادشاہ
امیرعبدالرحمان بن محمد اموی نے فائدہ اٹھایا اور اس نے دعوی کیا کہ خلفت کاسب سے
زیادہ میں حقدار ہوں ،اس نے امیرالمومنین ناصر دین اللہ کا لقب اختیار کیا ،یہ بلند ہمت مجاہد
تھا اندلس کے وسیع حصہ کو اس نے فتح کیا اور ستر شہروں پر قبضہ کیا325،ھ میں خلفت
کے تین دعویدار تھے ،اندلس میں عبدالرحمن ،بغداد میں راضی باللہ اور قیردان میں مہدی۔
ربیع الثانی 329ھ میں راضی با اللہ طویل عللت کے بعد مر گیا۔
40۔ المتقی اللہ ابو اسحاق ابراہیم بن المقتدر بن المعتضد،یہ اپنے بھائی راضی کی موت کے بعد
تخت سلطنت پر بیٹھا ،یہ عابد اور زاہد حکمران تھا یہ صرف نام کا بادشاہ تھا تمام امور
حکومت ابو عبداللہ احمد بن الکوفی سیکرٹری کے اختیار میں تھے330 ،ھ میں بغداد میں
ایک ہو لناک قحط پڑا333،ھ میں اس کو اندھا کر کے اس سے خلفت لے لی گئی۔
41۔ المستکفی باللہ ابو القاسم عبد اللہ بن مکتفی بن معتضد ،صفر 333ھ میں تخت پر بیٹھا،
اس نے ابو بویہ کو معزالدولہ کا خطاب دیا۔ معزالدولہ تمام سلطنت پر قابض ہو گیا334 ،ھ میں
المستکفی کو قید کرا دیا ،اس کو خلفت سے دستبردار کرایا اور اس کی آنکھیں نکلوالیں348،ھ
میں یہ قید خانہ کے اندر مر گیا۔
42۔ المطیع للہ ابو القاسم الفضل بن مقتدر 334 ،ھ میں تخت نشین ہوا یہ بھی اپنے پیشرو کی
طرح اختیارات سے کلیۃمحروم تھا 340 ،ھ میں مغرب میں منصوری بادشاہ مر گیا اور اس کا
بیٹا سعدحکمران ہوا ،اس کا لقب معز لدین اللہ تھا343 ،ھ میں خراسان کے بادشاہ نے خطبوں
میں مطیع اللہ کا نام پڑھوایا۔351ھ میں معزالدولہ نے حضرت امیرمعاویہ اور صحابہ پر علی
العلن لعنت کرانی شروع کی356 ،ھ میں قرامطی دمشق پر قابض ہو گئے ،اب شیعوں کی
حکومت اقلیم مغرب،مصر اور عراق تک پھیل گئی ،ربیع الخر 359ھ میں قاہرہ میں جامع
ازہر کی بنیاد پڑی جو دو سال میں مکمل ہو ئ362 ،ھ میں المطیع اور معزالدولہ میں اختلف
ہو گیا ،معزالدولہ کا ایک غلم مارا گیا اس نے طیش میں آکر بغداد میں ایک جگہ آگ لگوا دی
جس سے سینکڑوں گھر جل گئے363 ،ھ میں المطیع پر فالج گرا،معزالدولہ نے حکم دیا کہ وہ
اپنے بیٹے الطائع اللہ کے حق میں دستبردار ہو جائے چنانچہ 23ذوالقعدہ 363ھ کو اس کے حکم
کی تکمیل ہو ئی اور الطائع اللہ کو خلیفہ بنا دیا گیا۔مطیع للہ 364ھ میں فوت ہو گیا۔
۔ الطائع اللہ ابوبکر عبدالکریم بن مطیع،اس کی تخت نشینی کے لیے اس کے باپ کو خلفت43
سے دستبردار کرایا گیا تھا365 ،ھ میں رکن الدولہ بن یویہ نے اپنے ممالک محروسہ کو اپنی
اولد میں تقسیم کر دیا۔ اس نے عضدالدولہ کو فارس و کرمان ،موحدالدولہ کورے اور اصبہان
اور فخرالدولہ کو ہمدان اور دینور دے دیے۔اسی سال المعزالدین اللہ شاہ مصر کا انتقال ہو گیا
اور اس کا بیٹا نزار بادشاہ ہو ا ،اس کا لقب عزیز تھا366،ھ میں المستنصر باللہ الحکم بن
ناصرالدین اموی بادشاہ اندلس کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا الموید باللہ ہشام تخت نشین ہو ا،
367ھ میں عزالدولہ اور عضدالدولہ کامیاب ہو ا اور الطائع للہ نے اس کو اپنا ولی عہد مقرر
کردیا368 ،ھ میں طائع کے حکم سے خطبوں میں عضدالدولہ کا نام لیا جانے لگا372 ،ھ میں
عضدالدولہ کا انتقال ہو گیا379 ،ھ میں طائع نے ابو نصر کو بہاؤالدولہ کا خطاب دیا381 ،ھ میں
بہاؤالدولہ نے الطائع کو گرفتار کر لیا اور اس سےکہا اپنے بیٹے قادر باللہ کے حق میں خلفت
سے دستبردار ہو جاؤ393 ،ھ میں قادر باللہ فوت ہو گیا۔
44۔القا در باللہ ابو العباس احمد بن اسحاق المقتدر ،اس کو 381ھ میں خلفت پر بٹھایا گیا،
387ھ میں سلطان فخرالدولہ کا نتقال ہو گیا ،اس کا چار سالہ بیٹا تخت پر بٹھایا گیا۔ قادر باللہ
نے اسی کے لیے مجدالدولہ کا لقب تجویز کیا 396 ،ھ میں بغداد میں ذبردست شیعہ سنی فساد
ہوا422 ،ھ میں القادر باللہ انتقال کر گیا۔
45۔القائم بامر اللہ ابو جعفر عبداللہ بن القادر ،اسے اس کے باپ القادر باللہ نے اپنی ذندگی میں
خلیفہ نامزد کردیا تھا۔450ھ میں ایک ترک سردار بسا سیری کی القائم سے جنگ ہوئی اور
بسا سیری کامیاب ہو ا اس نے القائم کو گرفتار کرکے غانہ بھجوا دیا451 ،ھ میں القائم رہا ہوا
اور بسا سیری قتل کر دیا گیا467 ،ھ میں القائم کا انتقال ہو ا اس نے اپنے پوتے عبداللہ بن محمد
کو خلیفہ نامزد کیا۔
46۔المقتدی بامراللہ ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن القائم بامر اللہ ،یہ بطور ولی عہد خلیفہ ہوا،
479ھ میں یوسف بن تاشفین والی مرا کش نے مقتدی سے درخواست کی کہ جو ممالک اس کے
قبضہ میں ہیں ان پر اس کے اقتدار کو تسلیم کر کے اس کو سلطان کا لقب عطا کیا جائے ،مقتدی
نے یہ درخواست منظور کر لی اور اس کوامیرالمسلیمن کا لقب دیا گیا481 ،ھ میں ابراہیم بن
مسعود بن محمود سبکتگین والی غزنی کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا جلل الدین تخت نشین
ہوا485 ،ھ میں ملک شاہ بغداد آیا اور مقتدی سے بغداد خالی کرنے کو کہا ،مقتدی نے دس دن
کی مہلت مانگی اور ان دس دنوں میں ملک شاہ کا انتقال ہو گیا اور یہ مقتدی کی کرامت
سمجھی گئی 487 ،ھ میں مقتدی کا انتقال ہو گیا۔
47۔المستظہر باللہ ابو العباس احمد بن المقتدی باللہ ،یہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر
بیٹھا490 ،ھ میں سلطان ارغون سلجوتی والی ایران قتل کر دیا گیا اور سلطان بر کیاروق نے
اس کے تمام ممالک محروسہ پر قبضہ کرلیا ،اسی سال عیسائیوں نے شام کے شہر انیقیہ پر قبضہ
کر لیا 492ھ میں قرامطہ پورے اصفہان پر چھا گئے اور اسی سال عیسائیوں نے ڈیڑھ سال کے
محاصرہ کے بعد بیت المقدس کو فتح کر لیا اور ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا۔494ھ میں
عیسائیوں نے شہر سروج،ارسوف،حیفہ اور قیساریہ پر قبضہ کر لیا495 ،ھ میں المستعلی والی
مصر کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا تخت نشین ہوا جو آمرباحکام اللہ کا لقب یافتہ تھا503 ،ھ
میں فرنگیوں نے دو سال کے محاصرے کے بعد طرابلس کو فتح کرلیا503 ،ھ میں فرانس کے
بادشاہ اور ابن تاشفین والی اندلس کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔512ھ
میں المستظہر باللہ فوت ہو گیا۔
۔المسترشد باللہ ابوالمنصورالفضل بن المستظہر باللہ یہ اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا48،
525ھ میں مسعود نے المسترشد کو گرفتار کر کے قید کر لیا اور قرامطہ نے المسترشد کو قتل
کر دیا۔
49۔ الراشد باللہ ابو جعفر منصور بن مسترشد ،یہ المسترشد کے بعدجانشین ہوا 530ھ سلطان
مسعود کے اشارے سے اس کو معزول کیا گیا اور اس کے چچا محمد مستظہر کو المقتضی
لمراللہ کا خطاب دے کر خلیفہ مان لیا گیا 532ھ میں اس کو قتل کر دیا گیا۔
51۔ المستنجد باللہ ابو المظفر یوسف بن المقتضی ،اس کو المقتضی نے ولی عہد نامزد کیا تھا،
564ھ میں فرنگیوں نے مصر پر حملہ کیا اور شہر بلیس پر قبضہ کر لیا اور قاہرہ کا محاصرہ
کر لیا۔ سلطان نورالدین مسلمانوں کی مدد کے لیے آیا اور فرنگی بھاک کھڑے ہوگئے 8 ،ربیع
الثانی 566ھ میں مستنجد کا انتقال ہو گیا۔
52۔ المستضی بامراللہ حسن بن المستنجد باللہ ،یہ اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد
میں مصر میں بنو عبید کی حکومت ختم ہو گئی اور مصر میں المستضی کا نام خطبوں میں
پڑھا جانے لگا572 ،ھ میں سلطان صلح الدین کا انتقال ہو گیا575،ھ میں المستضی کا انتقال ہو
گیا۔
53۔الناصر لدین اللہ احمد ابو العباس بن المستضی بامراللہ ،یہ اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا،یہ
مذہبا شیعہ تھا ،الناصر نے ایک مرتبہ علمہ ابن جوزی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے بعدکون افضل ہے،ابن جوزی نے کہا"من کانت ابنتہ تحتہ" اس جملہ کے دو معنی ہیں
"جن کی بیٹی آپ کے عقد میں تھی یعنی حضرت ابو بکر اوردوسرا معنی ہے جن کے عقد
میں آپ کی صاحبزادی تھی"یعنی حضرت علی622 ،ھ میں الناصر فوت ہو گیا۔
54۔ الظاہر بامر اللہ ابونصر محمد بن الناصرلدین اللہ ،اپنے باپ کے تخت نشین ہوا اور 623ھ
میں فوت ہو گیا۔
55۔ المستنصر باللہ ابو جعفر منصوربن الظاہر بامراللہ ،الظاہر کے بعد نشین ہوااور 640ھ میں
فوت ہو گیا تھا۔
56۔ المستعصم باللہ ابو احمد عبداللہ بن المستنصر اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا،یہ عراق میں
عباسیوں کا آخری خلیفہ تھا655 ،ھ میں تاتاریوں نے عباسی سلطنت پر حملے شروع کر دیے
اسی سال ہلکو نے بغداد نے حملہ کردیا ،چالیس روز تک تاتاری بغداد میں مسلمانوں کو قتل
کرتے رہے ،لکھوں مسلمان قتل کر دیئے گئ،ے المستعصم کی لش کو دفن ہونا بھی نصیب
نہیں ہوا657 ،ھ میں کوئی بھی خلیفۃ المسلمین کے نام سے سلطان نہیں تھا،مصر میں المنصور
علی بن معز والی تھا لیکن یہ کمسن تھا اس کا اتالیق سیف الدین تھا658 ،ھ میں بھی کوئی
خلیفہ نہیں تھااور تاتاری دمشق تک پہنچ گئے تھے569 ،ھ میں بھی بغداد کاتخت خلفت سے
خالی تھا۔
ھ میں الحاکم بامر اللہ ابوالعباس سلطان بیبرس )ملک الظاہر( کی مدد سے مصر میں 661
خلیفہ ہو گیا663 ،ھ میں سلطان ابوعبداللہ بن الحمر بادشاہ اندلس کو فرانسیسیوں پر فتح حاصل
ہوئی672 ،ھ میں سلطان بیبرس کا انتقال ہو گیا 701 ،ھ میں الحاکم بامراللہ کا انتقال ہو گیا،اور
اس کا بیٹا المستکفی باللہ ولی عہد نامزدہوا ،مصر اور شام میں اس کے نام کا خطبہ پڑھاجاتا
تھا736 ،ھ میں المستکفی گرفتار ہونے کے بعد قید میں فوت ہو گیا ،اس کے بعداسحکاکم
بامراللہ خلیفہ ہوا ،اور 752ھ میں فوت ہو گیا ،المعتضد باللہ خلیفہ ہوا اور 763ھ میں فوت گیا،
پھر المتوکل علی اللہ خلیفہ ہوا785 ،ھ میں المتوکل کو گرفتار کر کے معزول کر دیا گیا ،اس
کے بعد واثق باللہ خلیفہ ہوا اور 788ھ میں فوت ہو گیا ،اس کے بعد اس کے بھائی المستعصم
بااللہ زکریا کی بیعت کی گئی لیکن 791ھ میں اس کو معزول کر دیا گیا ،اس کے بعد متوکل
پھر تخت نشین ہوا808 ،ھ میں المستعین باللہ ابوالفضل کی بیعت کی گئی۔814ھ میں غیاث
الدین شاہ ہندوستان نےمستعین کی خدمت میں حاضر ہو کر سلطان کا خطاب حاصل کیا815،ھ
میں مستعین کو گرفتار کر کے معزول کردیا گیا اور اس کا بھائی معتضد باللہ خلیفہ ہو گیا،
845ھ میں معتضد فوت ہو گیا ،اس کے بعد المستکفی باللہ بطور ولی عہد نامزد ہوگیا اور
854ھ میں فوت ہو گیا ،اس کے بعد القائم بامرللہ کی بعیت کی گئی859 ،ھ میں اس کو سلطان
نے قید کر لیا اور یہ 863ھ میں قید خانے میں ہی مر گیا،اسکی معزولی کے بعد المستنجد باللہ
خلیفہ ہوا اور 884ھ میں فوت ہوگیا ،اس کے بعد المتوکل علی اللہ خلیفہ ہوا اور 903ھ میں فوت
ہوگیا۔
تیرھویں صدی عیسوی سے مغرب میں بھی سنی خلیفہ نظر آنے لگا:اسلمی دنیا کے مشرقی
حصے میں بھی وقتافوقتا بہت سے امیروں نے اس لقب کواختیار کر لیا تھا ،جیسے سلجوق،
تیموری ،ترکمان ،ازبک اور عثمانی حکمران )مگر انہیں بھی وہ مرکزی اہیمت نہ مل سکی(۔
بہت سے خود مختار امیر ایسے تھے جو اپنی رعایا سے عہدوفاداری کے جواز کے لیے اپنے
مرتبے کوخلیفہ سے منوا کر اس سے خطاب حاصل کرنا چاہتے تھے ،مثل جنوبی ایران میں
مظفر یہ خاندان کے دو بادشاہ )1313تا 1384ء( ،ہندوستان میں محمد بن تغلق )1325تا
1351ء( اور اسکے جانشین فیروز شاہ تغلق )1351تا 1388ء( نے بھی یہی کیا ،بلکہ کہا جاتا
ہے کہ ترکیہ کے عثمانی سلطان با یزید اول )رک باں( نے بھی 1394ء میں قاہرہ کے عباسی
خلیفہ سے یہ درخواست کی کہ وہ اسے سلطان کا خطاب باقاعدہ رسمی طور پر عطا کرے۔
بار دوم ،(195:1 ،مگر اس( ) (Gesch. D. Osman Reiches: V.Hammer
روایت کے بارے میں شک کیا جاتا ہے کیونکہ چودھویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے اور
نہ )رک باں( اور فیلیوپو پولس وغیرہ کی فتح کے بعد اس کے باپ مراد اول نے اپنے آپ کو
خلیفۃ اللہ المختار )خدا کا منتخب خلیفہ( کہلوانا شروع کر دیا تھا )فریدون 93:1 ،س (22اور
اس کے بعد عثمانی سلطین نے خلیفہ کا لقب اختیار کرلیااور ان کی رعایا اور دوسرے ملکوں
میں ان کے وقائع نگار یا دوسرے خط و کتابت کرنے والے لوگ ان کے اس دعوے کوتسلیم کر
لیتے تھے۔اس زمانے تک پہنچتے پہنچتے امام کے لئے قریشی ہونے کی شرط نظر انداز ہو چکی
ل ۔یداوداناجعلنک خلیفۃ فی الرض۔)ہم نے تجھ کو زمین پر تھی اور قران مجید کی آیات مث ً
ل۔
خلیفہ بنایا ہے(سے جواز حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔اسی طرح دوسری آیتوں مث ً
وھو الذی جعلکم خلئف الرض۔ النعام۔کا حوالہ بھی اس زمانے کی سیاسی خط وکتابت میں
برابر نظر آتا ہے ،چنانچہ جب سلطان سلیم اول )رک باں(جنوری 1517ء میں فاتحانہ قاہرہ میں
داخل ہوا اور وہاں کی عباسی خلفت کو ختم کر کے اس خاندان کے آخری نمائندے المتوکل کو
اپنے ساتھ قسطنطنیہ لے گیا تو اس وقت وہ پہلے ہی سے نہ صرف اپنے آپ کو خلیفہ کہلواتا تھا
بلکہ اپنے آباو اجداد کو بھی جو ڈیڑھ سو برس قبل گزرے تھے ،خلیفہ کہلوارہا تھا۔
ایک روایت یہ ہے کہ المتوکل نے اپنا منصب سلیم کو منتقل کر دیا تھا جس کا ذکر
`(depنے 1788ء میں کیا تھا ) (Mouradgea D`Ohsson Constantine
ییرس 1824-1788ء 269:1 ،تا -( 670جن دوسرے ہم عصر Empire Othoman
مستند مصنفین نے مصر کی فتح کا ذکر کیا ہے ،ان میں سے کسی نے منصب خلفت کے اس
طرح منتقل کیے جانے کا ذکر نہیں کیا )تا ہم اس انتقال خلفت کا امکان اس لیے ہے کہ المتوکل
سلطان سلیم کی زندگی میں قسطنطنیہ میں با عزت و احترام رہا(۔ سلیم کی وفات کے بعد
المتوکل کو مصر واپس جانے کی اجازت مل گئ تھی اور وہ وہاں اپنی وفات )1543ء(تک
خلیفہ رہا۔ )بہرحال بیسوی صدی کے آغاز تک عثمانی سلطین ہی منصب خلفت پر فا
ئزرہے ،اگرچہ صفوی اور دوسرے ایرانی بادشاہوں نے اور ہندستان کے مغل شہنشاہوں نے یا
تو انہیں اپنا ہم مرتبہ تصور کیا یا حریف خیال کیا (– اٹھارہویں صدی عیسوی میں مغل
سلطنت کے زوال کے بعد اسلمی دنیا میں عثمانی سلطین بظاہر سب سے بڑے حکمرن رہ گئے
تھے ،مگر ان کی طاقت کو بھی اپنے دراز دست شمالی ہمسائے کی طرف سے خطرہ پیدا ہو
چلتھا– روس سے ان کی جنگ )1774-1728ء(کے بعد انھیں بحراسودکے شمالی سا حل والے
علقوں کو روس کے حوالے اور قریم کے تاتاریوں کی خودمختاری کو تسلیم کرنا پڑا –اس پر
کیتھرائن دوم نے عثمانی مملکت کی حدود میں رہنے والے ان عیسائیوں کی سر پرستی کا
دعوی کیا ،جو راسخ العقیدہ کلیسا کے پیرو تھے ،مگر عثمانی وکلئے مختار نے ،جنہوں نے
کوچک قینارجہ کا صلح نامہ 1774ءمیں مکمل کیا ،خلیفہ کے خطاب سے فائدہ اٹھاتے
ہوئےاسی قسم دعوی سلطان کی طرف سے بھی پیش کر دیا)کہ مسلمان جہاں بھی ہیں ان پر
سلطان کا مذہبی اقتدار تسلیم کیا جائے(؛ چناچہ صلح نامے میں ایک دفعہ بڑھا دی گئی جس کی
رو سے خلیفۃ المسلمین کا مذہبی اقتدار ان تاتاریوں پر تسلیم کر لیا گیا جو دینوی حیثیت سے
اسے اپنا بادشاہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں خلیفہ اسی طرح
مسلمانوں کا مذہبی پیشوا سمجھا جانے لگا جس طرح کہ پوپ تمام عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ہے
اور اس کا روحانی اقتدار اس کے سب ہم مذہبوں پر ہے ،خواہ بطور سلطان ترکیہ وہ اس کی
دینوی حکمرانی اور سیاسی اقتدار کے تابع ہوں یا نہ ہوں۔ عثمانی سلطین کو خود بھی اپنے
اس منصب کا احساس تھا اور سلطان عبدالحمید ثانی )1876ء تا 1909ء( کے زمانے میں تو
انہیں )تمام عالم اسلم کا( خلیفہ تسلیم کیے جانے پر زور دیا گیا اور ان کے عہد میں جو آئین
نشر کیا گیا اس میں اس بات کی تائید کی گئی کہ "اعلی حضرت سلطان خلیفہ کی حیثیت سے
اسلم کے محافظ )حامی( اور علمبردار ہیں"۔ سلطان عبدالحمید نے اسلمی دنیا کے مختلف
حصوں میں اپنے سفیر بھیجے تا کہ خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے جملہ مسلمانان عالم کی طرف
سے تعظیم و تکریم حاصل کی جائے اور یہ کوشش کسی حد تک بار آور بھی ہوئیں ،کیونکہ
بعض مفکر اور صاحب نظر مسلمانوں نے )خاص طور سے ان ارباب علم نے جو اسلمی دنیا
میں یورپی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے پریشان تھے(یہ تسلیم کیا کہ صرف ترکیہ ہی ایک
ایسی خود مختار مسلم سلطلنت ہے جس کا دنیا میں احترم باقی ہے ،مگر سلطان عبدالحمید کو
داخلی طور پر اپنے ہی ملک کے اصلح پسندوں اور تجدد پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا
اور جب 1909ء میں اسے تخت سے اتارا گیا تو ترکیہ کے معاملت ایسی تجدد پسند جماعت کے
ہاتھوں میں آگئے جو حکومت کی دینی اساس ہی کے قائل نہ تھے ،نومبر 1922ء میں ترکیہ ایک
جمہوریہ بن گیا۔خلیفہ کا بحیثیت سلطان سارا دنیوی اختیارواقتدار چھین لیا گیا،مگر اس سے قبل
کہ اس امر کا فیصلہ ہوتا کہ اس جمہوریہ میں خلیفہ)یا سلطان(کے منسب کی کیا نوعیت ہوگی،
مارچ 1624ء میں منسب کو بے ضرورت قرار دے دیا گیا اور خلفت بھی ختم ہوگئی۔