You are on page 1of 10

‫اسلمی تاریخ ع ہد ب ہ ع ہد‬

‫خلیفہ وہ ہوتا ہے جو تمام عالم اسلم کا سربراہ ہو‪ ،‬خلفت کا یہ نظام اسلم میں ایک سو چوبیس‬
‫سال تک دہا ہے۔اس کے بعد خلفت ختم ہو گئی اور خلفت کے نام سے بادشاہت آگئی اور مسلما‬
‫نوں کی حکو میتں مختلف ریاستوں میں بٹ گئیں پھر تاریخ نے ایسا دور بھی دیکھا کہ مسلمان‬
‫حکمران ایک دوسرے کے خلف اپنی دفاعی قوتوں کو صرف کرتے رہے اور کفار کے خلف‬
‫جنگ اور جہاد ایک قصہ پارینہ بن گیا۔ہم یہاں اختصار کے ساتھ خلفاء کے عہد کا ایک جائزہ‬
‫پیش کررہے ہیں۔فنقول و با اللہ التوفیق وبہ الستعانۃ یلیق۔‬

‫۔ حضرت ابو بکر صدیق بارہ ربیع الول کو پیرکے دن ‪11‬ھ کو منتخب ہوئے اور منگل کی‪1‬‬
‫رات بائیس جمادی الخرۃ ‪ 13‬ھ میں وصال فرمایا‪ ،‬آپ نے حضرت اسامہ کی قیادت میں شام‬
‫کی طرف لشکر بھیجا جو رومیوں سے جنگ کر کے کامیاب لوٹا۔مسیلمہ کذاب کو قتل کیا‬
‫‪،‬حضرت علء بن حضرمی کو بھیج کر بحرین کے مرتدین کی سرکوبی کی‪،‬مانعین زکوۃ سے‬
‫قتال کیا ‪،‬حضرت عکرمہ بن ابی جہل کو بھیج کر عمان کے مرتدوں کی سرکوبی کی ‪،‬حضرت‬
‫خالد بن ولید کو بصرہ بھیجا اور ایلہ شہر فتح کیا ‪،‬عراق کے مشہور شہر مدائن کسری کو فتح‬
‫کیا ‪،‬حضرت عمرو بن عاص کے ساتھ شام کی طرف لشکر بھیجا اور اجنادین فتح ہوا ۔فتح‬
‫ہوا ۔‬

‫۔ حضرت عمر فاروق‪ ،‬حضرت ابو بکر کی وصیت کے مطابق خلیفہ ہوئے ‪ 26‬زوالحجہ ‪223‬‬
‫ھ کو آپ پر حملہ کیا گیا اور یکم محرم ‪24‬ھ کو آپ شہید ہو گئے ‪ ،‬آپ کی خلفت میں ‪14‬ھ کو‬
‫دمشق صلح اور جنگ سے فتح ہوا پھر حمص اور لبلیک پر صلح سے قبضہ کیا۔اسی سال‬
‫بصرہ اور ایلہ فتح ہوئے۔ ‪ 16‬ھ میں اہواز اور مدائن فتح ہوئے‪ ،‬تکریت اور بیت المقدس فتح ہوا‪،‬‬
‫قنسرین‪ ،‬حلب اور انطاکیہ فتح ہوئے‪ ،‬جند نیشا پورااور حلوان جنگ سے فتح ہوئے‪19 ،‬ھ میں‬
‫قیساریہ پر قبضہ ہوا‪20 ،‬ھ میں مصر جنگ سے فتح ہوا اور تستر فتح کیا۔ ‪21‬ھ میں اسکندریہ‬
‫اور نہاوند فتح ہوئے‪22 ،‬ھ میں آذر بائیجان فتح ہوا اس کے بعد دینور اور ہمدان جنگ سے فتح‬
‫ہوا‪ ،‬طرابلس الغرب فتح ہوا‪ ،‬عسکر اور قومس فتح ہوئے اور رے )طہران( فتح ہوا‪23 ،‬ھ میں‬
‫کر مان‪ ،‬سجستان اور مکر ان فتح ہوئے اور بلد جبل سے اصفہان تک کے علقے فتح ہوئے۔‬

‫۔ حضرت عثمان شوری کے انتخاب سے خلیفہ ہوئےاور ‪ 18‬ذوالحجہ ‪35‬ھ کو شہید کیے گئے‪3،‬‬
‫آپ کے عہد میں ‪24‬ھ میں مکمل رے )طہران( فتح ہوا‪ ،‬روم کا وسیع علقہ فتح ہوا‪27 ،‬ھ میں‬
‫قبرص فتح ہوا‪ ،‬افریقہ فتح ہوا اور اسی سال اندلس فتح ہوا‪30 ،‬ھ میں جور‪ ،‬خراسان اور‬
‫پورامیشا پور صلح سے فتح ہوئے ‪،‬ایران کے چند شہر طوس‪،‬سرخس‪،‬مرو اور بیہق بھی صلح‬
‫سے فتح ہوئے۔‬

‫۔ حضرت علی اہل مدینہ کے انتخاب سے خلیفہ ہوئےاور ‪ 21‬رمضان ‪40‬ھ میں شہید ہوئے آپ‪4‬‬
‫کے عہد میں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئی۔‬
‫۔حضرت حسن بن علی اہل کوفہ کی بیعت سے خلیفہ ہوئے جمادی الول ‪41‬ھ میں خلفت سے‪5‬‬
‫دستبردار ہوئے۔‬

‫۔ حضرت حسن سے صلح کے نتیجہ حضرت معاویہ خلیفہ ہوئے اور ‪22‬رجب ‪60‬ھ کو انتقال‪6‬‬
‫ہوا )اصابہ(ان کے عہد میں ‪51‬ھ میں بلخ فتح ہوا‪53 ،‬ھ میں جزیرہ رودس اوربخارا فتح ہوا۔‬
‫۔ حضرت معاویہ کے ولی عہد مقرر کرنے کی وجہ سےیزید خلیفہ ہوا اور ‪ 15‬ربیع ا لول ‪764‬‬
‫ھ میں ہلک ہو گیا‪ ،‬یزید کے عہد میں سانحہ کربل رونما ہوا‪ ،‬میدان حرہ میں اہل مدینہ سے‬
‫جنگ کی گئی اور ان کا قتل عام کیا گیا اور خانہ کعبہ جلیا گیا۔‬

‫۔ معاویہ بن یزید ‪ ،‬یزید کا جانشین ہوا اور چالیس دن یا دو ماہ بعد ‪ 64‬ھ کو ہلک ہو گیا۔‪8‬‬

‫۔ یزید کی موت کے بعدحجاز‪ ،‬یمن‪ ،‬عراق اور خراسان کے مسمانوں نے حضرت عبداللہ بن‪9‬‬
‫الزبیر‬
‫کے ہاتھ پر)‪64‬ھ(میں بیعت کرلی اور شام اور مصر کے لوگوں نے یزیدبن معا ویہ کےہاتھ پر‬
‫بیعت کی تھی لیکن اس کی موت کے بعد شام اور مصر کے لوگوں نے بھی حضرت عبداللہ بن‬
‫الزبیرکے ہاتھ پر بیعت کر لی لیکن اس کی موت کی بعد شام اور مصر کے لوگو نے حضرت‬
‫عبداللہ بن الزبیر کے ہاتھ بعیت کر لی پھر مروان بن الحکم نے ان کی خلفت میں بغاوت کی‬
‫اور شام اور مصر پر غلبہ حاصل کر لیا‪65 ،‬ھ میں مروان مر گیا اور اس کا بیٹا عبدالملک بن‬
‫مروان ولی عہد ہوا اس نےحجاج بن یوسف سے حضرت عبداللہ بن الزبیر پر حملہ کرایا اور‬
‫‪17‬جمادی الول ‪73‬ھ میں حضرت عبداللہ بن الزبیر کو شہید کر دیا گیا‪ ،‬اس طرح نو سال کے‬
‫بعد حضرت عبداللہ بن الزبیر کی خلفت ختم ہو گئی‪ ،‬اور عبدالملک بن مروان تمام ممالک‬
‫اسلمیہ پر غلبہ سےقابض ہو گیا‪ ،‬حضرت عبداللہ بن الزبیر نے اپنےعہد میں رسول اللہ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق کعبہ کی تعمیر کی۔‬

‫۔ عبد ا لملک بن مروان ‪73‬ھ میں غلبہ سے خلفت پر قابض ہوا اور شوال ‪86‬ھ میں اس نے‪10‬‬
‫وفات پائی‪ ،‬اس کے عہد میں زیادہ تر خارجیوں سے جنگ ہوتی رہی‪81 ،‬ھ میں قالیقا فتح ہوا‬
‫اور ‪ 84‬ھ میں قلعہ باز غیس کی تسخیر ہوئی۔‬

‫۔ ولید بن عبدا لملک کو عبدالملک نے اپنی زندگی میں نامزد کردیا تھا‪ ،‬اس نے ‪ 15‬جمادی‪11‬‬
‫الخری ‪99‬ھ میں وفات پائی‪،‬اس کے عہد میں بیقند‪،‬بخارا‪،‬سردانیہ‪،‬طمورہ‪ ،‬قمیم اور‬
‫بحیرۃالفرسان فتح ہوئے۔‬

‫۔ سلیمان بن عبدالملک بھی عبدا لملک کی وصیت کے مطابق خلیفہ ہوا‪،‬اس کی خلفت صفر‪12‬‬
‫‪99‬ھ تک رہی‪ ،‬اس کے عہد میں جرجان‪،‬قلعہ حدید‪،‬سردا‪،‬شفا‪ ،‬طبرستان اور شہر سفانیہ فتح‬
‫ہوئے۔‬
‫۔ عمر بن عبدالعزیز ‪،‬سلیمان کی وصیت سےخلیفہ ہوئے‪ ،‬ان کی خلفت ‪25‬رجب ‪101‬ھ تک‪13‬‬
‫رہی ان کو خلیفہ راشد قرار دیا گیا‪ ،‬ان کے عہد میں زیادہ تر داخلی اصلحات ہوئیں۔‬

‫۔ یزید بن عبدالملک بن مروان اپنے بھائی سلیمان بن عبدا لملک کی وصیت کے مطابق‪14‬‬
‫عمر بن عبدالعزیز کے بعد خلیفہ ہوا‪،‬شعبان ‪105‬ھ میں اس کی وفات ہو گئی۔‬

‫۔ ہشام بن عبدا لملک اپنے بھائی یزیدبن عبدالملک کے ولی عہد کی حیثیت سے خلیفہ ہوا‪15،‬‬
‫ربیع الخر ‪125‬ھ میں اس کی وفات ہو گئی‪ ،‬اس کی حکومت کے ساتویں سال روم جنگ‬
‫وجدال سے فتح ہوا‪ ،‬آٹھویں سال میں حنجرہ فتح ہوااوربارھویں سال میں خرشتہ فتح ہوا۔‬

‫۔ ولید بن یزیدبن عبدالملک‪ ،‬اپنے باپ کی وصیت کے مطابق جانشین ہوا یہ انتہائی بد کار‪16،‬‬
‫شرابی اور لوطی تھا‪،‬لوگوں نے اس کے فسق و فجور سے تنگ آکر جمادی الخر ‪ 126‬ھ میں‬
‫اس کو قتل کر دیا۔‬

‫۔ یزید ناقص ابو خالد بن ولید‪،‬یہ اپنے عم زاد ولید بن یزید کو قتل کر کے خلفت پر قابض‪17‬‬
‫ہوا‪،‬یہ قدری تھااور لوگوں کو قدریت کی طرف دعوت دیتا تھا‪ ،‬خلفت کے چھ ماہ بعد ذوا لحجہ‬
‫‪126‬ھ میں فوت ہوا۔‬

‫۔ ابراہیم بن ولیدبن عبدا لملک‪ ،‬اس کے ولی عہد ہونے میں اختلف ہے‪ ،‬اس صرف ستردن‪18‬‬
‫حکومت کی‪ ،‬اسکے خلف مروان بن محمد نے خروج کیا اور یہ اس کے حق میں دستبردار ہو‬
‫گیا۔‬

‫۔مروان بن محمد بن مروان بن الحکم الحمار‪127 ،‬ھ میں غلبہ سے خلفت پر قابض ہوا‪ ،‬اس‪19‬‬
‫کے خلف عباسیوں نے خروج کیا اور ذوالحجہ ‪132‬ھ میں اس کو قتل کر دیا گیا‪،‬یہ بنوامیہ کا‬
‫آخری خلیفہ تھا۔‬

‫۔ابوالعباس عبداللہ بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم‪،‬اس کا لقب‪20‬‬


‫سفاح‪،‬یہ پہل عباسی خلیفہ تھا‪،‬سفاح کے دور میں مسلمانوں میں تفرقہ پڑ گیا تھا اسلیے سفاح کے‬
‫قبضہ سے طاہرہ وطنبہ سے لے کر سوڈان اور اندلس تک کے تمام علقے نکل گئے ‪،‬ان علقوں‬
‫کے علوہ اور بھی کئی شہراس کے ہاتھ سے جاتے رہے‪ ،‬ذوالحجہ ‪134‬ھ میں سفاح فوت ہو‬
‫گیا ۔‬

‫‪21‬۔المنصور ابو جعفر عبداللہ‪ ،‬اس کو سفا نے اپنا ولی عہد بنایا تھا‪148 ،‬ھ تک تمام مقبوضہ‬
‫ممالک پر اس کا قبضہ ہوگیا‪ ،‬البتہ اندلس پر قبضہ نہیں کرسکا۔ کیونکہ اندلس میں عبدالرحمان‬
‫بن معاویہ اموی مروانی نے اپنی سلطنت قائم کرلی تھی‪ ،‬اس کےعہد خراسان میں بغاوت ہوئی‪،‬‬
‫ذولحجہ ‪158‬ھ میں منصور فوت ہوگیا۔‬

‫‪134‬ھ کے بعد تمام عالم اسلم ایک حکمران کے تحت نہیں رہا کیونکہ اندلس میں ایک الگ‬
‫حکومت قائم ہوچکی تھی اور عمل خلفت ختم ہوچکی تھی‪ ،‬کیونکہ اب تمام علم اسلم کا ایک‬
‫سربراہ نہیں تھا۔‬

‫‪22‬۔مہدی ابو عبداللہ محمد بن منصور‪ ،‬اس کو منصور نے اپنی زندگی میں خلیفہ نامزد کردیا‬
‫تھا‪ ،‬اس کے عہد میں روم کے اکثر علقے فتح ہوئے‪169 ،‬ھ میں مہدی کا انتقال ہوگیا۔‬

‫‪23‬۔ابو محمد موسی بن المہدی المعروف بالہادی‪ ،‬یہ مہدی کی وصیت کے مطابق خلیفہ ہوا‪،‬‬
‫‪170‬ھ میں فوت ہوگیا۔‬

‫‪24‬۔ الرشید ہارون بن مہدی‪ ،‬اس کو مہدی نے ہادی کے بعد نامزد کیا تھا‪ ،‬اس کے عہد میں‬
‫‪176‬ھ میں دبستہ شہر فتح ہوا‪181 ،‬ھ میں صنصاف کا قلعہ فتح ہوا‪183 ،‬ھ میں آرمینیہ میں‬
‫بغاوت شروع ہوگئی‪190 ،‬ھ میں ہارون نے روم کا شہر ‪،‬ہرقلعہ فتح کیا‪193 ،‬ھ میں فوت ہوگیا۔‬

‫‪25‬۔المین محمد ابو عبداللہ بن رشید‪ ،‬اس کو ہارون نے ولی عہد بنایا تھا‪ ،‬ہاروننے اس کے بعد‬
‫مامون بن رشید کو ولی عہد بنایاتھا‪194 ،‬ھ میں امین نے مامون کو ولی عہدی سے معزول‬
‫کردیا‪ ،‬مامون نے امین کے خلف بغاوت کرکے ‪198‬ھ میں خلفت پر قبضہ کرلیا‪ ،‬امین قرآن‬
‫کے مخلوق ہونے کا قائل تھا‪ ،‬گانے بجانے‪ ،‬شراب نوشی اور اغلم کا عادی تھا‪198 ،‬ھ میں اس‬
‫کو قتل کردیا تھا۔‬

‫‪26‬۔ مامون عبداللہ ابو العباس بن رشید‪ ،‬اس نے غلبہ سے خلفت پر قبضہ کرلیا‪211 ،‬ھ میں اس‬
‫نے اعلن کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے‬
‫افضل ہیں‪211 ،‬ھ میں اس نے خلق قرآن کے عقیدے کا اظہار کیا۔ ‪215‬ھ میں روم کے بعض‬
‫شہروں کو فتح کیا‪ ،‬جن علماء نے خلق قرآن کے عقیدے میں اس کی ہمنوائی نہیں کی‪ ،‬ان کو‬
‫مروا دیا یا سخت آزمائش میں مبتل کیا۔ ‪ 12‬رجب ‪218‬ھ کو مرگیا۔‬

‫‪27‬۔المعتصم باللہ ابو اسحاق محمد بن الرشید‪ ،‬مامون کے بعد اس کی بیعت کی گئی۔ یہ بھی‬
‫معتزلی تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو قتل کیا‪223 ،‬ھ میں اس نے روم پر لشکر کشی کی اور‬
‫اموریہ کو فتح کیا‪19 ،‬ربیع الول ‪227‬ھ میں فوت ہوگیا۔‬

‫۔ الواثق باللہ ہارون ابو جعفر بن معتصم‪ ،‬اس کو معتصم نے ولی عہد مقرر کیا‪ ،‬یہ بھی خلق‪28‬‬
‫قرآن کے عقیدے کا حامل تھا‪ ،‬اور اس نے بھی علما کو آزمائش میں ڈال‪ ،‬یہ ‪ 24‬ذی الحجہ‬
‫‪232‬ھ کو فوت ہو گیا۔‬

‫‪29‬۔المتوکل علی اللہ جعفر ابو الفضل بن معتصم بن ہارون‪،‬یہ واثق کی موت کے بعد خلیفہ ہوا‬
‫اس نے امام حسین کی قبر کھدوا دی تھی‪،‬یہ ایک عیاش شخص تھااس نے پہلے اپنے بیٹے کو‬
‫ولی عہد مقرر کیا بعد میں اس کو بدلناچاہا تو منتصر نے سازش کرکے اس کو ‪247‬ھ کو قتل‬
‫کرا دیا۔‬

‫‪30‬۔محمد ابو جعفر المنتصرباللہ۔یہ اپنے باپ کو قتل کرنے کے بعد غلبہ سے خلیفہ ہوا۔‪ 5‬ربیع‬
‫الخر ‪248‬ھ میں فوت ہوگیا۔‬

‫‪31‬۔المستعین باللہ ابو العباس احمد بن معتصم بن رشید‪ ،‬اس کو ترک سرداروں نے مشاورت کے‬
‫ذریعہ خلفت پر بٹھایا بعد میں اس کی ترکوں سے مناقشت ہو گئی جس کے نتیجے میں اس کو‬
‫‪252‬ھ میں خلفت سے دستبردار ہونا پڑا‪ 3 ،‬شوال ‪252‬ھ میں قتل کردیا گیا۔‬

‫‪32‬۔المعتز باللہ محمد بن ابو عبداللہ بن المتوکل بن المعتصم بن الرشید‪ ،‬اس کو ترکوں نے خلفت‬
‫پر بٹھایا تھا ‪255‬ھ میں یہ ترکوں کے مالی مطالبہ کو پورا نہ کر سکا جس کے نتیجہ میں ترک‬
‫سرداروں نے اس کو مار پیٹ کر اس سے خلفت سے دستبرداری لکھوا لی‪ ،‬شعبان ‪255‬ھ میں‬
‫ترکو ں کے ظلم سے پیاسا مر گیا۔‬

‫‪33‬۔المہتدی باللہ ابو عبداللہ بن واثق بن معتصم بن رشید‪ ،‬اس کو ترکو نے خلفت پر بٹھایا‪ ،‬اس‬
‫نے ترکوں سے جنگ کی لیکن اس نے شکست کھائی اسے گرفتار کر کے اس کےخصیے دبا‬
‫کراس کو ‪ 256‬ھ میں مار ڈال گیا۔‬

‫‪34‬۔المعتد علی اللہ احمد بن متوکل بن معتصم بن رشید‪،‬اس کو جیل خانے سے نکال کر اس کے‬
‫ہاتھ پر بیعت کی گئی‪ 12 ،‬رجب ‪279‬ھ میں مر گیا۔‬

‫‪35‬۔المعتضد باللہ احمد بن موفق بن متصم بن رشید‪ ،‬اس معتمد نے ولی عہد بنایا تھا‪ ،‬یہ فلسفہ کے‬
‫خلف تھا‪22 ،‬ربیع آلخر ‪279‬ھ میں فوت ہو گیا۔‬

‫‪36‬۔المکتفی باللہ بن معتضد‪ ،‬اس کو اس کے باپ نے اپنی زندگی میں نامزد کر دیا تھا‪291 ،‬ھ‬
‫میں روم کا شہر انطاکیہ فتح ہوا‪ ،‬یہ نیک اور عادل خلیفہ تھا۔ ‪ 22‬ذوالقعدہ ‪295‬ھ میں فوت ہوا۔‬

‫‪37‬۔المقتدر باللہ جعفعر بن المعتضد‪ ،‬اس کو اس کے بھائی نے اپنی بیماری کے ایام میں خلیفہ‬
‫نامزد کیا تھا‪ 301 ،‬ھ میں مہدی فاطمی‪ ،‬اسکندریہ اور قیوم پر قابض ہو گیا‪312 ،‬ھ میں حاکم‬
‫خرسان کے ہاتھوں فرغانہ فتح ہوا‪314،‬ھ میں سلیطہ پر رومیوں نے قبضہ کر لیا‪315 ،‬ھ میں‬
‫رومیوں نے دمیاط پر قبضہ کر لیا‪316،‬ھ میں قرامطہ کی یورش سے بہت سے مقبوضات مقتدر‬
‫کے ہاتھوں سے نکل گئے‪317 ،‬ھ میں مقتدر بغاوت سے گھبرا کر روپوش ہو گیا لیکن دوبارہ‬
‫اقتدار پر بحال ہو گیا‪320 ،‬ھ میں مقتدر کی بربریوں سے جنگ ہوئی ایک بربر نے اس کو قتل‬
‫کر دیا۔ یہ بدھ کا دن تھا اور شوال کی ‪ 27‬تاریخ تھی۔‬

‫۔القا ہر باللہ ابو منصور محمد بن المعتضد‪،‬اس کو استصواب کے بعد خلیفہ بنایا گیا‪ ،‬یہ رقص‪38‬‬
‫وسرود کا رسیا اور شراب کا عادی تھا‪322 ،‬ھ میں ابن بویہ نے فارس پر قابض کر لیا پھر اس‬
‫نے مزید شہروں پر قبضہ کیا اور خراسان اور فارس بنو عباس کے قبضہ سے نکل گئے‪ ،‬القا‬
‫ہر انتہائی ظالم اور سفاک تھا‪ ،‬اس کے ظلم اور خونریزی کی بنا پر ‪322‬ھ میں اس سے خلفت‬
‫سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا گیا اور انکار پر گرم سلخوں سے اس کی آنکھیں نکال دی‬
‫گئیں‪333،‬ھ تک یہ قید رہا پھر اس کو رہائی ملی‪ ،‬مکتفی کے دور حکومت میں یہ نظر بند رہا‬
‫اور جمادی الول ‪339‬ھ میں فوت ہو گیا۔‬

‫‪39‬۔ الراضی باللہ ابوالعباس محمد بن مقتدر بن معتصد‪ ،‬یہ قاہر باللہ کی معز ولی کے بعد ‪322‬ھ‬
‫میں تخت نشین ہوا ‪324‬ھ میں محمد بن نے رائق نے واسط اور اس کے نواحی علقوں پر قبضہ‬
‫کر لیا اور خلیفہ کے قبضہ سے تمام ملکی اور مالی امور نکل گے ‪325‬ھ میں متعدد شہروں پر‬
‫خارجیوں کا قبضہ ہو گیا‪،‬ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا اور راضی باللہ کے قبضہ‬
‫میں بغداد اور نواحی بغداد کے سوا کچھ نہ رہا‪ ،‬اس صورت حال سے اسپین کے بادشاہ‬
‫امیرعبدالرحمان بن محمد اموی نے فائدہ اٹھایا اور اس نے دعوی کیا کہ خلفت کاسب سے‬
‫زیادہ میں حقدار ہوں‪ ،‬اس نے امیرالمومنین ناصر دین اللہ کا لقب اختیار کیا‪ ،‬یہ بلند ہمت مجاہد‬
‫تھا اندلس کے وسیع حصہ کو اس نے فتح کیا اور ستر شہروں پر قبضہ کیا‪325،‬ھ میں خلفت‬
‫کے تین دعویدار تھے‪ ،‬اندلس میں عبدالرحمن‪ ،‬بغداد میں راضی باللہ اور قیردان میں مہدی۔‬
‫ربیع الثانی ‪329‬ھ میں راضی با اللہ طویل عللت کے بعد مر گیا۔‬

‫‪40‬۔ المتقی اللہ ابو اسحاق ابراہیم بن المقتدر بن المعتضد‪،‬یہ اپنے بھائی راضی کی موت کے بعد‬
‫تخت سلطنت پر بیٹھا‪ ،‬یہ عابد اور زاہد حکمران تھا یہ صرف نام کا بادشاہ تھا تمام امور‬
‫حکومت ابو عبداللہ احمد بن الکوفی سیکرٹری کے اختیار میں تھے‪330 ،‬ھ میں بغداد میں‬
‫ایک ہو لناک قحط پڑا‪333،‬ھ میں اس کو اندھا کر کے اس سے خلفت لے لی گئی۔‬

‫‪41‬۔ المستکفی باللہ ابو القاسم عبد اللہ بن مکتفی بن معتضد‪ ،‬صفر ‪333‬ھ میں تخت پر بیٹھا‪،‬‬
‫اس نے ابو بویہ کو معزالدولہ کا خطاب دیا۔ معزالدولہ تمام سلطنت پر قابض ہو گیا‪334 ،‬ھ میں‬
‫المستکفی کو قید کرا دیا‪ ،‬اس کو خلفت سے دستبردار کرایا اور اس کی آنکھیں نکلوالیں‪348،‬ھ‬
‫میں یہ قید خانہ کے اندر مر گیا۔‬

‫‪42‬۔ المطیع للہ ابو القاسم الفضل بن مقتدر ‪334 ،‬ھ میں تخت نشین ہوا یہ بھی اپنے پیشرو کی‬
‫طرح اختیارات سے کلیۃمحروم تھا‪ 340 ،‬ھ میں مغرب میں منصوری بادشاہ مر گیا اور اس کا‬
‫بیٹا سعدحکمران ہوا‪ ،‬اس کا لقب معز لدین اللہ تھا‪343 ،‬ھ میں خراسان کے بادشاہ نے خطبوں‬
‫میں مطیع اللہ کا نام پڑھوایا۔‪351‬ھ میں معزالدولہ نے حضرت امیرمعاویہ اور صحابہ پر علی‬
‫العلن لعنت کرانی شروع کی‪356 ،‬ھ میں قرامطی دمشق پر قابض ہو گئے‪ ،‬اب شیعوں کی‬
‫حکومت اقلیم مغرب‪،‬مصر اور عراق تک پھیل گئی‪ ،‬ربیع الخر ‪359‬ھ میں قاہرہ میں جامع‬
‫ازہر کی بنیاد پڑی جو دو سال میں مکمل ہو ئ‪362 ،‬ھ میں المطیع اور معزالدولہ میں اختلف‬
‫ہو گیا‪ ،‬معزالدولہ کا ایک غلم مارا گیا اس نے طیش میں آکر بغداد میں ایک جگہ آگ لگوا دی‬
‫جس سے سینکڑوں گھر جل گئے‪363 ،‬ھ میں المطیع پر فالج گرا‪،‬معزالدولہ نے حکم دیا کہ وہ‬
‫اپنے بیٹے الطائع اللہ کے حق میں دستبردار ہو جائے چنانچہ ‪23‬ذوالقعدہ ‪363‬ھ کو اس کے حکم‬
‫کی تکمیل ہو ئی اور الطائع اللہ کو خلیفہ بنا دیا گیا۔مطیع للہ ‪364‬ھ میں فوت ہو گیا۔‬

‫۔ الطائع اللہ ابوبکر عبدالکریم بن مطیع‪،‬اس کی تخت نشینی کے لیے اس کے باپ کو خلفت‪43‬‬
‫سے دستبردار کرایا گیا تھا‪365 ،‬ھ میں رکن الدولہ بن یویہ نے اپنے ممالک محروسہ کو اپنی‬
‫اولد میں تقسیم کر دیا۔ اس نے عضدالدولہ کو فارس و کرمان‪ ،‬موحدالدولہ کورے اور اصبہان‬
‫اور فخرالدولہ کو ہمدان اور دینور دے دیے۔اسی سال المعزالدین اللہ شاہ مصر کا انتقال ہو گیا‬
‫اور اس کا بیٹا نزار بادشاہ ہو ا‪ ،‬اس کا لقب عزیز تھا‪366،‬ھ میں المستنصر باللہ الحکم بن‬
‫ناصرالدین اموی بادشاہ اندلس کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا الموید باللہ ہشام تخت نشین ہو ا‪،‬‬
‫‪367‬ھ میں عزالدولہ اور عضدالدولہ کامیاب ہو ا اور الطائع للہ نے اس کو اپنا ولی عہد مقرر‬
‫کردیا‪368 ،‬ھ میں طائع کے حکم سے خطبوں میں عضدالدولہ کا نام لیا جانے لگا‪372 ،‬ھ میں‬
‫عضدالدولہ کا انتقال ہو گیا‪379 ،‬ھ میں طائع نے ابو نصر کو بہاؤالدولہ کا خطاب دیا‪381 ،‬ھ میں‬
‫بہاؤالدولہ نے الطائع کو گرفتار کر لیا اور اس سےکہا اپنے بیٹے قادر باللہ کے حق میں خلفت‬
‫سے دستبردار ہو جاؤ‪393 ،‬ھ میں قادر باللہ فوت ہو گیا۔‬

‫‪44‬۔القا در باللہ ابو العباس احمد بن اسحاق المقتدر‪ ،‬اس کو ‪381‬ھ میں خلفت پر بٹھایا گیا‪،‬‬
‫‪387‬ھ میں سلطان فخرالدولہ کا نتقال ہو گیا‪ ،‬اس کا چار سالہ بیٹا تخت پر بٹھایا گیا۔ قادر باللہ‬
‫نے اسی کے لیے مجدالدولہ کا لقب تجویز کیا‪ 396 ،‬ھ میں بغداد میں ذبردست شیعہ سنی فساد‬
‫ہوا‪422 ،‬ھ میں القادر باللہ انتقال کر گیا۔‬
‫‪45‬۔القائم بامر اللہ ابو جعفر عبداللہ بن القادر ‪ ،‬اسے اس کے باپ القادر باللہ نے اپنی ذندگی میں‬
‫خلیفہ نامزد کردیا تھا۔‪450‬ھ میں ایک ترک سردار بسا سیری کی القائم سے جنگ ہوئی اور‬
‫بسا سیری کامیاب ہو ا اس نے القائم کو گرفتار کرکے غانہ بھجوا دیا‪451 ،‬ھ میں القائم رہا ہوا‬
‫اور بسا سیری قتل کر دیا گیا‪467 ،‬ھ میں القائم کا انتقال ہو ا اس نے اپنے پوتے عبداللہ بن محمد‬
‫کو خلیفہ نامزد کیا۔‬

‫‪46‬۔المقتدی بامراللہ ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن القائم بامر اللہ‪ ،‬یہ بطور ولی عہد خلیفہ ہوا‪،‬‬
‫‪479‬ھ میں یوسف بن تاشفین والی مرا کش نے مقتدی سے درخواست کی کہ جو ممالک اس کے‬
‫قبضہ میں ہیں ان پر اس کے اقتدار کو تسلیم کر کے اس کو سلطان کا لقب عطا کیا جائے‪ ،‬مقتدی‬
‫نے یہ درخواست منظور کر لی اور اس کوامیرالمسلیمن کا لقب دیا گیا‪481 ،‬ھ میں ابراہیم بن‬
‫مسعود بن محمود سبکتگین والی غزنی کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا جلل الدین تخت نشین‬
‫ہوا‪485 ،‬ھ میں ملک شاہ بغداد آیا اور مقتدی سے بغداد خالی کرنے کو کہا‪ ،‬مقتدی نے دس دن‬
‫کی مہلت مانگی اور ان دس دنوں میں ملک شاہ کا انتقال ہو گیا اور یہ مقتدی کی کرامت‬
‫سمجھی گئی‪ 487 ،‬ھ میں مقتدی کا انتقال ہو گیا۔‬

‫‪47‬۔المستظہر باللہ ابو العباس احمد بن المقتدی باللہ‪ ،‬یہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر‬
‫بیٹھا‪490 ،‬ھ میں سلطان ارغون سلجوتی والی ایران قتل کر دیا گیا اور سلطان بر کیاروق نے‬
‫اس کے تمام ممالک محروسہ پر قبضہ کرلیا‪ ،‬اسی سال عیسائیوں نے شام کے شہر انیقیہ پر قبضہ‬
‫کر لیا ‪492‬ھ میں قرامطہ پورے اصفہان پر چھا گئے اور اسی سال عیسائیوں نے ڈیڑھ سال کے‬
‫محاصرہ کے بعد بیت المقدس کو فتح کر لیا اور ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا۔‪494‬ھ میں‬
‫عیسائیوں نے شہر سروج‪،‬ارسوف‪،‬حیفہ اور قیساریہ پر قبضہ کر لیا‪495 ،‬ھ میں المستعلی والی‬
‫مصر کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا تخت نشین ہوا جو آمرباحکام اللہ کا لقب یافتہ تھا‪503 ،‬ھ‬
‫میں فرنگیوں نے دو سال کے محاصرے کے بعد طرابلس کو فتح کرلیا‪503 ،‬ھ میں فرانس کے‬
‫بادشاہ اور ابن تاشفین والی اندلس کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔‪512‬ھ‬
‫میں المستظہر باللہ فوت ہو گیا۔‬

‫۔المسترشد باللہ ابوالمنصورالفضل بن المستظہر باللہ یہ اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا‪48،‬‬
‫‪525‬ھ میں مسعود نے المسترشد کو گرفتار کر کے قید کر لیا اور قرامطہ نے المسترشد کو قتل‬
‫کر دیا۔‬

‫‪49‬۔ الراشد باللہ ابو جعفر منصور بن مسترشد‪ ،‬یہ المسترشد کے بعدجانشین ہوا ‪530‬ھ سلطان‬
‫مسعود کے اشارے سے اس کو معزول کیا گیا اور اس کے چچا محمد مستظہر کو المقتضی‬
‫لمراللہ کا خطاب دے کر خلیفہ مان لیا گیا ‪532‬ھ میں اس کو قتل کر دیا گیا۔‬

‫‪50‬۔ المقتضی لمراللہ ابوعبداللہ۔‪543‬ھ میں فرنگیوں نے دمشق کا محاصرہ کر لیا‪،‬نورالدین‬


‫محمود بن زنگی والی حلب نے ان کا مقابلہ کیا اور فرنگیوں سے تمام شہر واپس لےلیے‪544 ،‬ھ‬
‫میں الحافظ لدین اللہ والی مصر کاانتقال ہوگیا اور اس کا بیٹا اسماعیل تخت نشین ہوا‪547 ،‬ھ‬
‫میں سلطان مسعود کا انتقال ہو گیا‪543،‬ھ میں ترکان سنجر پر حملہ کردیا اور تمام ممالک‬
‫محروسہ اس کے قبضے سے نکل گئے‪549 ،‬ھ میں والی مصر الظاہر باللہ فوت ہوگیا اور‬
‫المقتضی نے نورالدین زنگی سے کہا مصر پر قبضۃ کر لو اور اس کو الملک العادل کا خطاب‬
‫دیا۔ نورالدین زنگی اس وقت دمشق کا حکمران تھا‪548 ،‬ھ میں المقتضی کا انتقال ہو گیا۔‬

‫‪51‬۔ المستنجد باللہ ابو المظفر یوسف بن المقتضی‪ ،‬اس کو المقتضی نے ولی عہد نامزد کیا تھا‪،‬‬
‫‪564‬ھ میں فرنگیوں نے مصر پر حملہ کیا اور شہر بلیس پر قبضہ کر لیا اور قاہرہ کا محاصرہ‬
‫کر لیا۔ سلطان نورالدین مسلمانوں کی مدد کے لیے آیا اور فرنگی بھاک کھڑے ہوگئے‪ 8 ،‬ربیع‬
‫الثانی ‪566‬ھ میں مستنجد کا انتقال ہو گیا۔‬

‫‪52‬۔ المستضی بامراللہ حسن بن المستنجد باللہ‪ ،‬یہ اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد‬
‫میں مصر میں بنو عبید کی حکومت ختم ہو گئی اور مصر میں المستضی کا نام خطبوں میں‬
‫پڑھا جانے لگا‪572 ،‬ھ میں سلطان صلح الدین کا انتقال ہو گیا‪575،‬ھ میں المستضی کا انتقال ہو‬
‫گیا۔‬

‫‪53‬۔الناصر لدین اللہ احمد ابو العباس بن المستضی بامراللہ‪ ،‬یہ اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا‪،‬یہ‬
‫مذہبا شیعہ تھا‪ ،‬الناصر نے ایک مرتبہ علمہ ابن جوزی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کے بعدکون افضل ہے‪،‬ابن جوزی نے کہا"من کانت ابنتہ تحتہ" اس جملہ کے دو معنی ہیں‬
‫"جن کی بیٹی آپ کے عقد میں تھی یعنی حضرت ابو بکر اوردوسرا معنی ہے جن کے عقد‬
‫میں آپ کی صاحبزادی تھی"یعنی حضرت علی‪622 ،‬ھ میں الناصر فوت ہو گیا۔‬

‫‪54‬۔ الظاہر بامر اللہ ابونصر محمد بن الناصرلدین اللہ‪ ،‬اپنے باپ کے تخت نشین ہوا اور ‪623‬ھ‬
‫میں فوت ہو گیا۔‬

‫‪55‬۔ المستنصر باللہ ابو جعفر منصوربن الظاہر بامراللہ‪ ،‬الظاہر کے بعد نشین ہوااور ‪640‬ھ میں‬
‫فوت ہو گیا تھا۔‬

‫‪56‬۔ المستعصم باللہ ابو احمد عبداللہ بن المستنصر اپنے باپ کے بعد تخت نشین ہوا‪،‬یہ عراق میں‬
‫عباسیوں کا آخری خلیفہ تھا‪655 ،‬ھ میں تاتاریوں نے عباسی سلطنت پر حملے شروع کر دیے‬
‫اسی سال ہلکو نے بغداد نے حملہ کردیا‪ ،‬چالیس روز تک تاتاری بغداد میں مسلمانوں کو قتل‬
‫کرتے رہے‪ ،‬لکھوں مسلمان قتل کر دیئے گئ‪،‬ے المستعصم کی لش کو دفن ہونا بھی نصیب‬
‫نہیں ہوا‪657 ،‬ھ میں کوئی بھی خلیفۃ المسلمین کے نام سے سلطان نہیں تھا‪،‬مصر میں المنصور‬
‫علی بن معز والی تھا لیکن یہ کمسن تھا اس کا اتالیق سیف الدین تھا‪658 ،‬ھ میں بھی کوئی‬
‫خلیفہ نہیں تھااور تاتاری دمشق تک پہنچ گئے تھے‪569 ،‬ھ میں بھی بغداد کاتخت خلفت سے‬
‫خالی تھا۔‬

‫ھ میں الحاکم بامر اللہ ابوالعباس سلطان بیبرس )ملک الظاہر( کی مدد سے مصر میں ‪661‬‬
‫خلیفہ ہو گیا‪663 ،‬ھ میں سلطان ابوعبداللہ بن الحمر بادشاہ اندلس کو فرانسیسیوں پر فتح حاصل‬
‫ہوئی‪672 ،‬ھ میں سلطان بیبرس کا انتقال ہو گیا‪ 701 ،‬ھ میں الحاکم بامراللہ کا انتقال ہو گیا‪،‬اور‬
‫اس کا بیٹا المستکفی باللہ ولی عہد نامزدہوا‪ ،‬مصر اور شام میں اس کے نام کا خطبہ پڑھاجاتا‬
‫تھا‪736 ،‬ھ میں المستکفی گرفتار ہونے کے بعد قید میں فوت ہو گیا‪ ،‬اس کے بعداسحکاکم‬
‫بامراللہ خلیفہ ہوا‪ ،‬اور ‪752‬ھ میں فوت ہو گیا‪ ،‬المعتضد باللہ خلیفہ ہوا اور ‪763‬ھ میں فوت گیا‪،‬‬
‫پھر المتوکل علی اللہ خلیفہ ہوا‪785 ،‬ھ میں المتوکل کو گرفتار کر کے معزول کر دیا گیا‪ ،‬اس‬
‫کے بعد واثق باللہ خلیفہ ہوا اور ‪788‬ھ میں فوت ہو گیا‪ ،‬اس کے بعد اس کے بھائی المستعصم‬
‫بااللہ زکریا کی بیعت کی گئی لیکن ‪791‬ھ میں اس کو معزول کر دیا گیا‪ ،‬اس کے بعد متوکل‬
‫پھر تخت نشین ہوا‪808 ،‬ھ میں المستعین باللہ ابوالفضل کی بیعت کی گئی۔‪814‬ھ میں غیاث‬
‫الدین شاہ ہندوستان نےمستعین کی خدمت میں حاضر ہو کر سلطان کا خطاب حاصل کیا‪815،‬ھ‬
‫میں مستعین کو گرفتار کر کے معزول کردیا گیا اور اس کا بھائی معتضد باللہ خلیفہ ہو گیا‪،‬‬
‫‪845‬ھ میں معتضد فوت ہو گیا‪ ،‬اس کے بعد المستکفی باللہ بطور ولی عہد نامزد ہوگیا اور‬
‫‪854‬ھ میں فوت ہو گیا‪ ،‬اس کے بعد القائم بامرللہ کی بعیت کی گئی‪859 ،‬ھ میں اس کو سلطان‬
‫نے قید کر لیا اور یہ ‪863‬ھ میں قید خانے میں ہی مر گیا‪،‬اسکی معزولی کے بعد المستنجد باللہ‬
‫خلیفہ ہوا اور ‪884‬ھ میں فوت ہوگیا‪ ،‬اس کے بعد المتوکل علی اللہ خلیفہ ہوا اور ‪903‬ھ میں فوت‬
‫ہوگیا۔‬

‫یہاں تک کی تفصیل ہم نے علمہ سیوطی کی تاریخ الخلفا سے حاصل کی گئی جس کو ہم نے‬


‫اختصار سے بیان کیا ہےاب ہم خلفت کے آخری عہد کو ُاردو دائرہ معارف اسلمیہ کے حوالے‬
‫سے بیان کر رہے ہیں۔‬

‫تیرھویں صدی عیسوی سے مغرب میں بھی سنی خلیفہ نظر آنے لگا‪:‬اسلمی دنیا کے مشرقی‬
‫حصے میں بھی وقتافوقتا بہت سے امیروں نے اس لقب کواختیار کر لیا تھا‪ ،‬جیسے سلجوق‪،‬‬
‫تیموری‪ ،‬ترکمان‪ ،‬ازبک اور عثمانی حکمران )مگر انہیں بھی وہ مرکزی اہیمت نہ مل سکی(۔‬

‫بہت سے خود مختار امیر ایسے تھے جو اپنی رعایا سے عہدوفاداری کے جواز کے لیے اپنے‬
‫مرتبے کوخلیفہ سے منوا کر اس سے خطاب حاصل کرنا چاہتے تھے‪ ،‬مثل جنوبی ایران میں‬
‫مظفر یہ خاندان کے دو بادشاہ )‪1313‬تا ‪1384‬ء(‪ ،‬ہندوستان میں محمد بن تغلق )‪1325‬تا‬
‫‪1351‬ء( اور اسکے جانشین فیروز شاہ تغلق )‪1351‬تا ‪1388‬ء( نے بھی یہی کیا‪ ،‬بلکہ کہا جاتا‬
‫ہے کہ ترکیہ کے عثمانی سلطان با یزید اول )رک باں( نے بھی ‪1394‬ء میں قاہرہ کے عباسی‬
‫خلیفہ سے یہ درخواست کی کہ وہ اسے سلطان کا خطاب باقاعدہ رسمی طور پر عطا کرے۔‬
‫بار دوم‪ ،(195:1 ،‬مگر اس( ) ‪(Gesch. D. Osman Reiches: V.Hammer‬‬
‫روایت کے بارے میں شک کیا جاتا ہے کیونکہ چودھویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے اور‬
‫نہ )رک باں( اور فیلیوپو پولس وغیرہ کی فتح کے بعد اس کے باپ مراد اول نے اپنے آپ کو‬
‫خلیفۃ اللہ المختار )خدا کا منتخب خلیفہ( کہلوانا شروع کر دیا تھا )فریدون‪ 93:1 ،‬س ‪ (22‬اور‬
‫اس کے بعد عثمانی سلطین نے خلیفہ کا لقب اختیار کرلیااور ان کی رعایا اور دوسرے ملکوں‬
‫میں ان کے وقائع نگار یا دوسرے خط و کتابت کرنے والے لوگ ان کے اس دعوے کوتسلیم کر‬
‫لیتے تھے۔اس زمانے تک پہنچتے پہنچتے امام کے لئے قریشی ہونے کی شرط نظر انداز ہو چکی‬
‫ل ۔یداوداناجعلنک خلیفۃ فی الرض۔)ہم نے تجھ کو زمین پر‬ ‫تھی اور قران مجید کی آیات مث ً‬
‫ل۔‬
‫خلیفہ بنایا ہے(سے جواز حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔اسی طرح دوسری آیتوں مث ً‬
‫وھو الذی جعلکم خلئف الرض۔ النعام۔کا حوالہ بھی اس زمانے کی سیاسی خط وکتابت میں‬
‫برابر نظر آتا ہے‪ ،‬چنانچہ جب سلطان سلیم اول )رک باں(جنوری ‪1517‬ء میں فاتحانہ قاہرہ میں‬
‫داخل ہوا اور وہاں کی عباسی خلفت کو ختم کر کے اس خاندان کے آخری نمائندے المتوکل کو‬
‫اپنے ساتھ قسطنطنیہ لے گیا تو اس وقت وہ پہلے ہی سے نہ صرف اپنے آپ کو خلیفہ کہلواتا تھا‬
‫بلکہ اپنے آباو اجداد کو بھی جو ڈیڑھ سو برس قبل گزرے تھے‪ ،‬خلیفہ کہلوارہا تھا۔‬

‫ایک روایت یہ ہے کہ المتوکل نے اپنا منصب سلیم کو منتقل کر دیا تھا جس کا ذکر‬
‫`‪(dep‬نے ‪1788‬ء میں کیا تھا ) ‪(Mouradgea D`Ohsson Constantine‬‬
‫ییرس ‪1824-1788‬ء‪ 269:1 ،‬تا ‪-( 670‬جن دوسرے ہم عصر ‪Empire Othoman‬‬
‫مستند مصنفین نے مصر کی فتح کا ذکر کیا ہے ‪،‬ان میں سے کسی نے منصب خلفت کے اس‬
‫طرح منتقل کیے جانے کا ذکر نہیں کیا )تا ہم اس انتقال خلفت کا امکان اس لیے ہے کہ المتوکل‬
‫سلطان سلیم کی زندگی میں قسطنطنیہ میں با عزت و احترام رہا(۔ سلیم کی وفات کے بعد‬
‫المتوکل کو مصر واپس جانے کی اجازت مل گئ تھی اور وہ وہاں اپنی وفات )‪1543‬ء(تک‬
‫خلیفہ رہا۔ )بہرحال بیسوی صدی کے آغاز تک عثمانی سلطین ہی منصب خلفت پر فا‬
‫ئزرہے ‪،‬اگرچہ صفوی اور دوسرے ایرانی بادشاہوں نے اور ہندستان کے مغل شہنشاہوں نے یا‬
‫تو انہیں اپنا ہم مرتبہ تصور کیا یا حریف خیال کیا (– اٹھارہویں صدی عیسوی میں مغل‬
‫سلطنت کے زوال کے بعد اسلمی دنیا میں عثمانی سلطین بظاہر سب سے بڑے حکمرن رہ گئے‬
‫تھے ‪،‬مگر ان کی طاقت کو بھی اپنے دراز دست شمالی ہمسائے کی طرف سے خطرہ پیدا ہو‬
‫چلتھا– روس سے ان کی جنگ )‪1774-1728‬ء(کے بعد انھیں بحراسودکے شمالی سا حل والے‬
‫علقوں کو روس کے حوالے اور قریم کے تاتاریوں کی خودمختاری کو تسلیم کرنا پڑا –اس پر‬
‫کیتھرائن دوم نے عثمانی مملکت کی حدود میں رہنے والے ان عیسائیوں کی سر پرستی کا‬
‫دعوی کیا ‪ ،‬جو راسخ العقیدہ کلیسا کے پیرو تھے‪ ،‬مگر عثمانی وکلئے مختار نے‪ ،‬جنہوں نے‬
‫کوچک قینارجہ کا صلح نامہ ‪1774‬ءمیں مکمل کیا ‪،‬خلیفہ کے خطاب سے فائدہ اٹھاتے‬
‫ہوئےاسی قسم دعوی سلطان کی طرف سے بھی پیش کر دیا)کہ مسلمان جہاں بھی ہیں ان پر‬
‫سلطان کا مذہبی اقتدار تسلیم کیا جائے(؛ چناچہ صلح نامے میں ایک دفعہ بڑھا دی گئی جس کی‬
‫رو سے خلیفۃ المسلمین کا مذہبی اقتدار ان تاتاریوں پر تسلیم کر لیا گیا جو دینوی حیثیت سے‬
‫اسے اپنا بادشاہ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں خلیفہ اسی طرح‬
‫مسلمانوں کا مذہبی پیشوا سمجھا جانے لگا جس طرح کہ پوپ تمام عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ہے‬
‫اور اس کا روحانی اقتدار اس کے سب ہم مذہبوں پر ہے ‪ ،‬خواہ بطور سلطان ترکیہ وہ اس کی‬
‫دینوی حکمرانی اور سیاسی اقتدار کے تابع ہوں یا نہ ہوں۔ عثمانی سلطین کو خود بھی اپنے‬
‫اس منصب کا احساس تھا اور سلطان عبدالحمید ثانی )‪1876‬ء تا ‪1909‬ء( کے زمانے میں تو‬
‫انہیں )تمام عالم اسلم کا( خلیفہ تسلیم کیے جانے پر زور دیا گیا اور ان کے عہد میں جو آئین‬
‫نشر کیا گیا اس میں اس بات کی تائید کی گئی کہ "اعلی حضرت سلطان خلیفہ کی حیثیت سے‬
‫اسلم کے محافظ )حامی( اور علمبردار ہیں"۔ سلطان عبدالحمید نے اسلمی دنیا کے مختلف‬
‫حصوں میں اپنے سفیر بھیجے تا کہ خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے جملہ مسلمانان عالم کی طرف‬
‫سے تعظیم و تکریم حاصل کی جائے اور یہ کوشش کسی حد تک بار آور بھی ہوئیں‪ ،‬کیونکہ‬
‫بعض مفکر اور صاحب نظر مسلمانوں نے )خاص طور سے ان ارباب علم نے جو اسلمی دنیا‬
‫میں یورپی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے پریشان تھے(یہ تسلیم کیا کہ صرف ترکیہ ہی ایک‬
‫ایسی خود مختار مسلم سلطلنت ہے جس کا دنیا میں احترم باقی ہے‪ ،‬مگر سلطان عبدالحمید کو‬
‫داخلی طور پر اپنے ہی ملک کے اصلح پسندوں اور تجدد پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا‬
‫اور جب ‪1909‬ء میں اسے تخت سے اتارا گیا تو ترکیہ کے معاملت ایسی تجدد پسند جماعت کے‬
‫ہاتھوں میں آگئے جو حکومت کی دینی اساس ہی کے قائل نہ تھے‪ ،‬نومبر ‪1922‬ء میں ترکیہ ایک‬
‫جمہوریہ بن گیا۔خلیفہ کا بحیثیت سلطان سارا دنیوی اختیارواقتدار چھین لیا گیا‪،‬مگر اس سے قبل‬
‫کہ اس امر کا فیصلہ ہوتا کہ اس جمہوریہ میں خلیفہ)یا سلطان(کے منسب کی کیا نوعیت ہوگی‪،‬‬
‫مارچ ‪1624‬ء میں منسب کو بے ضرورت قرار دے دیا گیا اور خلفت بھی ختم ہوگئی۔‬

You might also like