You are on page 1of 20

‫تالیف ‪ :‬الستاذ سید قطب ش ہید‬

‫تقدیم وعناوین ‪ :‬استاذ صلح عبدالفتاح‬


‫الخالدی‬
‫اردو ترجم ہ ‪:‬مدثر احمد لود ھی‬

‫مسلم ورل ڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان‬


‫‪http://www.muwahideen.tk‬‬
‫‪info@muwahideen.tk‬‬

‫ف ہرست‬
‫•مقدم ہ‬

‫‪1‬‬
‫•افسان ہ افکار وخیالت ”روحانی مسرتیں “‬
‫•زندگی اور موت ک ے متعلق‬
‫• ہم اپنی زندگی دوچند کیس ے کریں‬
‫•شجر ہ خیر اور شجر ہ شر ک ے مابین‬
‫•دوسروں س ے ہماری محبت ک ے آثار ونتائج‬
‫•لوگوں میں ب ہتر جانب کی تلش ک ے نتائج‬
‫•حقیقی عظمت کا راست ہ‬
‫•دوسروں کی محنت کا اعتراف کرنا‬
‫•افکار پ ھیلن ے کی خوشی‬
‫•علم اور معرفت ک ے مابین فرق‬
‫•معرفتوں کو یکجا کرن ے میں طالب کی جستجو‬
‫•اس عالم میں معلوم اور مج ہول‬
‫•انسان الل ہ س ے مستغنی ن ہیں ہوسکتا‬
‫•حریت وبندگی ک ے متعلق‬
‫•اصول اور اشخاص الگ ن ہیں ہوسکت ے‬
‫•منزل راست ے کو درست قرار ن ہیں دیتی‬
‫•روحانی مسرتیں دوسروں کو خوش کرک ے حاصل‬
‫ہوتی ہیں‬
‫•کامیابیوں اور غلطیوں پر ایک نظر‬

‫افسان ہ افکار وخیالت ”روحانی‬


‫مسرتیں“‬
‫سید قطب وزارت تعلیم کی جانب س ےے منا ہج تعلیم‬
‫وتربیت س ے آگا ہ ی کی خاطر ایک وفد میں شامل ہوکر‬
‫امریکہے میں ‪ 2‬سال ‪1948/11/3‬تا ‪ 1950/8/20‬قیام پذیر ر ہے‬
‫اس عرص ہ می ں وہے اپنےے ب ہ ن ب ھائی ‪،‬ادار ہ تعلیم او ر اپن ے‬

‫‪2‬‬
‫دوستوں کو مصر وغیر ہ میں خطوط لک ھت ے ر ہ ے جن میں‬
‫زندگی س ے متعلق اپن ے افکار وخیالت کا تذکر ہ ب ھی کرت ے‬
‫ی ہ بعض ادبی رسائل میں اپن ے بعض مقالت ب ھی چ ھپوات ے‬
‫ر ہت ے ت ھ ے ۔مثل ً مجل ہ ”الکتاب“جس ک ے ای ڈیٹر ادیب ”عادل‬
‫الغضبان“تھےے جو سید صاحب سےے بغرض اشاعت ادبی‬
‫ش ہ پاروں کا تقاضا کرت ے ت ھ ے لیکن و ہ امریک ہ میں ہون ے‬
‫کی وج ہ س ے ادبی مقالت تحریر کرن ے س ے کنار ہ کش ت ھے‬
‫چنانچ ہ اقرباءواحباب کو لک ھے گئ ے اپن ے خطوط کو قارئین‬
‫ک ے لئ ے مفید خیال کرک ے ان ک ے کچ ھ حص ے منتخب کرک ے‬
‫استاد عادل الغضبان کو روان ہ کئ ے لیکن ان ہوں ن ے شائع ن ہ‬
‫کئ ے اور جب سید صاحب واپس تشریف لئ ے تو ایک پیکٹ‬
‫کی صورت میں ی ہ تمام ش ہ ہ پار ے ان ہیں اسی طرح واپس‬
‫کردئی ے ۔سید قطب اپریل ‪1951‬ءمجل ہ الکتاب ک ے شمار ے‬
‫میں شائع اپن ے مقال ے ”فی الدب والحیا ۃ“میں رقمطراز‬
‫ہیں ‪”:‬دوسال جب میں امریکہے میں وطن سےے دور ت ھا‬
‫میرےے دل میں ایسےے خیالت پیدا ہوتےے رہےے جن ہیں شاذ‬
‫وناد ر ہی می ں ضبط تحری ر می ں لسکت ا ت ھا ‪........‬لیکن‬
‫شوق تحریر اس عرص ہ میں ب ھ ی مج ھ س ے جدا ن ہ ہوسکا‬
‫میں مصر ودیگر بلدعرب اور فرانس وغیرہے میں اپن ے‬
‫ب ھائی‪ ،‬ب ہنوں اور دوستوں کو خطوط لک ھتا ر ہ ا جن میں‬
‫ان ہیں و ہی باتیں لک ھتا جو اپنی مختلف کتابوں میں‬
‫لوگوں کےے لئےے لک ھا کرتا ‪....‬بسا اوقات مجھےے یہے خیال‬
‫آتاکہے یہے خطو ط جن ہی ں بغر ض اشاع ت ن ہی ں لک ھ ا گی ا بلک ہ‬
‫اس وقت ک ے چند حقیقی اور واقعی مقاصد ک ے لئ ے لک ھا‬
‫گیا اس مواد س ے زیاد ہ اشاعت کا مستحق ہ ے جو بغرض‬
‫اشاعت لک ھ ا جاتا ہ ے ‪....‬چنانچ ہ اس کا ایک حص ہ منتخب‬
‫کرک ے استاذ ادیب کبیر عادل الغضبان کو روان ہ کردیا جو‬
‫مج ھ س ے اپن ے مجل ے ک ے لئ ے تحریر کا تقاضا کرت ے ر ہت ے ت ھے‬
‫‪....‬پ ھر مصر واپسی پر جب ہماری ملقات ہوئی تو ان ہوں‬
‫ن ے میر ے لک ھ ے ہوئ ے اوراق مج ھ ے واپس کرت ے ہوئ ے ک ہ ا ک ہ‬
‫‪”:‬میں آپ کی وجہے سےے ان ہیں شائع کرناچا ہتا ت ھا لیکن‬
‫مج ھ ے ی ہ خوف ب ھ ی ت ھ ا ک ہ آپ ک ے قارئین اس ک ے بعد آپ‬
‫س ے مایوس ن ہ ہوجائیں چنانچ ہ مج ھ ے آپ ک ے خطوط میں‬
‫س ے چند چیزوں کا انتخاب کرناپڑا“ ۔‬

‫‪3‬‬
‫سید صاحب ن ے اپنا مقال ہ ”فی الدب والحیا ۃ“مندرج ہ ذیل‬
‫خطوط س ے منتخب کرک ے لک ھا ہے ‪:‬‬
‫اپنی ب ہن حمید ہ کی ایک خط ۔‬ ‫‪1‬‬
‫ایک تنگ دل دوست کی طرف ایک خط ۔‬ ‫‪2‬‬
‫لوگوں سےے الگ ت ھلگ ر ہنےے والےے ایک دوسر ے‬ ‫‪3‬‬
‫دوست کی طرف ایک خط ۔‬
‫اپن ے ایک تیسر ے دوست کی طرف ایک خط س ے‬ ‫‪4‬‬
‫جس میں اس پر ی ہ واضح کیاک ہ ضروری ن ہیں ک ہ مقصد کا‬
‫جائز ہونا حصول مقصد ک ے لئ ے اختیار کرد ہ طریق کو ب ھی‬
‫جائز کرد ے ۔‬
‫ایسا معلوم ہوتا ہ ے ک ہ سید صاحب ن ے عادل غضبان س ے‬
‫مذکور ہ خطوط ل ے کر اپن ے گ ھ ر میں محفوظ کردیئ ے پ ھر‬
‫جب ‪ 50‬کی د ھائی میں جیل جانا پڑا ی ہ خطوط ک ے مجل ہ‬
‫”الفکر“ ک ےے لئ ےے روان ہے کردیئ ےے جس ک ےے چ ھٹ ےے ای ڈیشن‬
‫‪1959‬ءمارچ میں ”دُور کی روشن کرنیں “ ک ے عنوان س ے‬
‫”مجل ۃ الکتاب“فروری ‪1950‬ءکےے لئےے ایک مقالہے لک ھا ت ھا‬
‫لیکن ان کا اس سےے کوئی تعلق ن ہیں ہےے ۔الدارالعلمی ہ‬
‫بیروت ن ے ‪1971‬ءمیں ان خطوط کو ایک کتابچ ےے کی‬
‫صورت میں ”روحانی مسرتیں“ ک ے عنوان س ے پ ھر شائع‬
‫کردیا اس عنوان ک ے متعلق ب ھ ی میں اسی طرح لعلم‬
‫ہو ں پ ھ ر یہے خطوط اس ی نئےے عنوا ن کےے تحت متع د دبار‬
‫شائع ہوت ےے ر ہےے اور قارئین ن ےے ان ہیں خوب پسندب ھی‬
‫کیا ۔ایسا معلوم ہوتا ہےے سید قطب ن ےے اپن ےےے ‪ 17‬ذاتی‬
‫خطوط میں س ے انتخابات کئ ے ت ھ ے جن میں س ے چ ھ ک ے‬
‫انتخابات اپن ےے مقال ےے ”فی الدب والحیا ۃ “میں شائع‬
‫کردیئ ے باقی ک ے متعلق ہمیں کچ ھ علم ن ہیں ہوسکااسی‬
‫ذریع ے س ے ہمیں ی ہ ب ھ ی معلوم ہوسکا ک ہ ی ہ کتابچ ہ و ہ خط‬
‫ن ہی ں جو ان ہوں نےے اپن ی ب ہ ن امینہے کو لک ھ ا بلکہے ا ن ستر ہ‬
‫خطوط س ے منتخب شد ہ ہیں جن ہیں ان ہوں ن ے امریک ہ میں‬
‫اپن ےے دوستوں اورب ہن ب ھائیوں کو لک ھا اور ”روحانی‬
‫مسرتیں“ی ہ ے عنوان ب ھی سید قطب کا ن ہیں بلک ہ‬
‫الدارالعلمیہے ک ا قائ م کردہے ہےے ہمار ی ا ن باتو ں کا مقصد‬
‫محض اتنا ہ ے ک ہ مرور زمان ہ ک ے سات ھ سات ھ اصل حقائق‬
‫پرد ہے اخفاءمیں ن ہے ر ہے جائیں اور جب عامر ہے ک ےے ”دار‬

‫‪4‬‬
‫عمار“نےے ا س کتابچےے کو شائع کرنا چا ہاتو استاذ عصام‬
‫فارس ن ے مج ھ س ے نظر ثانی اور مقدم ہ لک ھن ے کا تقاضا‬
‫کیا چنانچ ہ میں ن ے اس میں بعض عبارات اور جملوں کو‬
‫ضبط میں لنےے اور ان ہیں شکل دینےے اور منتخب شد ہ‬
‫خطوط ک ے عناوین قائم کرن ے اور ان کامقدم ہ لک ھن ے کی‬
‫اپنی سی سعی کی ہ ے الل ہ تعالی ٰ اس ے میر ے لئ ے باعث‬
‫اجر وثواب اور لوگوں ک ے لئ ے باعث نفع بنائ ے ۔آمین‬

‫صلح الدین الخالدی‬


‫بروز منگل ‪2002/1/15‬بمطابق‬
‫‪ 1422/11/1‬ہجری‬

‫ہمشیر ہ عزیز ہ ‪[....‬ی ہ خط حمید ہ کی طرف ہ ے ن ہ ک ہ امین ہ‬


‫کی طرف جیسا ک ہ بعض حضرات کا خیال ہ ے کیونک ہ اپنی‬
‫دیگر ب ہنوں کی بہے نسبت حمیدہے موت کےے متعلق زیاد ہ‬
‫سوچاکرتی ت ھی]ی ہ افکار پیش خدمت ہیں ۔‬
‫زندگی اورموت ک ے متعلق‬
‫آپ ہمیش ہ موت ک ے متعلق سوچتی ہیں ہرجگ ہ اس کاتصور‬
‫کرتی ہیں اور اس ے ایساقوی سرکش بادل گمان کرتی‬
‫ہیں جو ہم ہ وقت زندگی اور زندوں پر سای ہ فگن ر ہتا ہے‬
‫اور اس ک ے مقابل ے میں زندگی کو حقیر‪،‬شیفت ہ اور موت‬
‫س ے ے خوفزد ہ ے خیال کرتی ہیں جبک ہ ے میں موت کو‬
‫شادماں‪،‬ب ھرپور اور موت کی پروا ہ ن ہ کرن ے والی زندگی‬
‫ک ے مقابل ے میں ایک حقیر اور کمزور لمح ہ گمان کرتا ہوں‬
‫جو اس س ےے زیاد ہے کچ ھے ن ہیں کرسکتی ک ہے زندگی ک ے‬
‫دسترخوان س ے ایک گرا ہوا لقم ہ اٹ ھاکر چپا ڈال ے ۔زندگی‬
‫ک ے مناظر میر ے اردگرد بک ھر ے پڑ ے ہیں ہ ر شئ ے نمو پذیر‬
‫ہ ے ارتقاءک ے عمل س ے گزرر ہ ی ہ ے مائیں گاب ھ ن ہوتی ہیں‬
‫جن دیتی ہیں انسان اور جانور برابر ہیں پرند ے مچ ھلیاں‬

‫‪5‬‬
‫حشرات انڈےے دیتےے ہیں جو زندوں اور زندگی کےے سات ھ‬
‫پ ھ ٹ پڑت ے ہیں زمین نباتات اگاتی ہ ے آسمان مین ہ برساتا‬
‫ہ ے سمندر موج مارتا ہ ے اس سرزمین پر ہر شئ ے نموپذیر‬
‫ہے بڑ ھ ر ہی ہے ۔‬
‫ایک لمح ے س ے دوسر ے لمح ے (دوبار ہ زندگی )ک ے درمیان‬
‫موت آتی اپنا پنجہے مارتی پ ھ ر چل ی جات ی یا پ ھ ر غراتی‬
‫ر ہتی ہےے تاکہے زندگی کےے دسترخوان سےے چند گرےے پڑ ے‬
‫لقمےے چا ٹ لےے جبکہے زندگ ی اپنی راہے پ ر گامزن ر ہت ی ہے‬
‫زندہے پ ھیلی ہوئی او ر تی ز ت ر مو ت ک ا احسا س ت ک ن ہیں‬
‫کرتی ۔‬
‫صرف اس لمح ے تکلیف س ے چیخ اٹ ھتی ہ ے جب موت اس‬
‫کا جسم نوچتی ہ ے لیکن ی ہ زخم ب ہ ت جلد مندل ہوجاتا ہے‬
‫اور تکلیف ب ھی تیزی س ے راحت میں بدل جاتی ہے انسان‬
‫‪،‬جانور‪،‬پرند ےےے ‪،‬مچ ھلیاں‪،‬کیڑ ے‪،‬حشرات‪،‬گ ھاس‪،‬پ ھوس ‪،‬‬
‫درخت ‪،‬روئ ے زمین کو زندگی اور زندوں س ے ڈھانپت ے ر ہت ے‬
‫ہیں اورموت دور ک ھڑی غراتی ر ہتی ہ ے آتی ہ ے نوچتی ہے‬
‫چلی جاتی ہ ے یا زندگی ک ے دسترخوان ک ے چند گر ے ہوئ ے‬
‫خوش ے چن لیتی ہ ے سورج طلوع وغروب ہوتا ہ ے زمین‬
‫اس ک ے گرد گ ھومتی ہے زندگی اِد ھر اُد ھر پ ھوٹتی ر ہتی ہے‬
‫ہرشئ ے نمو پذیر ہ ے تعدادمیں اقسام میں کمیت وکیفیت‬
‫میں اگر موت کچھے کرپاتی توزندگی کےے مقابل ک ھڑی‬
‫ہوجاتی ب ہرحال و ہ شادماں ب ھرپور اور موت کی پروا ہ ن ہ‬
‫کرن ے والی زندگی ک ے مقابل ے میں حقیر وناتواں ہ ے ۔الل ہ‬
‫زند ہ وبرتر کی قوت س ے زندگی پ ھلتی اور پ ھولتی ر ہتی‬
‫ہےے ۔[مقال ہے ”فی الدب والحیا ۃ“ مجل ہے ”الکتاب“چوت ھا‬
‫شمار ہ اپریل ‪1951‬ءص ‪]192-191‬‬
‫ہم اپنی زندگی دوچند کیس ے‬
‫کریں؟‬
‫جب ہم صرف اپنےے لئےے جیتےے ہیں توزندگی ہمیں ب ہت‬
‫چ ھوٹی اور لغر محسوس ہوتی ہے و ہیں س ے شروع ہوتی‬
‫ہ ے ج ہاں س ے ہ م شروع کریں اور ہماری محدود عمر ک ے‬
‫سات ھ ہی ختم ہوجاتی ہے اور جب ہم اوروں ک ے لئ ے جیئیں‬
‫یعن ی نظریات ی زندگ ی گزاری ں توزندگ ی ب ہ ت طوی ل اور‬

‫‪6‬‬
‫عمیق ہوجاتی ہ ے اس کی ابتداءو ہاں س ے ہوتی ہ ے ج ہاں‬
‫س ے انسانیت کی ابتداء ہ ے اور روئ ے زمین س ے ہمار ے الگ‬
‫ہوجانےے کےے بعد ب ھی باقی ر ہتی ہےے اس طرح ہم اپنی‬
‫ضروری زندگی کو مفید بنالیتےے ہیں اور افادیت ب ھی‬
‫حقیقی نہے کہے مو ہومہے اس طرز کی زندگی ہمارےے ایام‬
‫ولمحات ک ے متعلق ہمار ے شعور کو جلبخشتی ہ ے زندگی‬
‫سالوں کی گنتی کانام ن ہیں بلکہے احساسات کانام ہے‬
‫اس ی حال ت می ں حقیق ت پسن د اسےے و ہ م قرا ر ن ہی ں د ے‬
‫سکتےے یہے دراص ل حقیق ت ہےے تما م حقائ ق سےے صحی ح تر‬
‫حقیقت کیونک ہے زندگی انسان کی زندگی س ےے متعلق‬
‫شعور س ے کوئی الگ شئ ے ن ہیں حقیقی معنوں میں جب‬
‫انسا ن زندگ ی ک و اپن ی ذا ت ت ک محدو د سمجھےے ت و اس‬
‫کی زندگی ہر طرح ک ے شعور س ے ب ھی خالی ہوتی ہے اور‬
‫جب انسان اپنی زندگی کو شعوری طور پر بڑ ھانا چا ہتا ہے‬
‫توعمل ً ب ھ ی باشعور زندگی گزارتا ہ ے مج ھ ے تو ی ہ سمج ھ‬
‫آتی ہے ک ہ ی ہ مسئل ہ اتنا واضح ہے ک ہ دلیل کا محتاج ن ہیں ہم‬
‫اپن ے لئ ے تو ب ھرپور زندگی جیت ے ہیں جب ہ م دوسروںک ے‬
‫لئ ےے جیئیں اور دوسروں اور اپن ےے متعلق زندگی کا‬
‫احساس ک ہ میں اس طرح ہم اس زندگی کو ن ہایت ب ھرپور‬
‫بناسکت ے ہیں اور بڑ ھاسکت ے ہیں ۔‬
‫شجر ہ خیر اور شجر ہ شر ک ے‬
‫مابین‬
‫شر کا بیج سوک ھ ا ر ہتا ہ ے جبک ہ خیر کا بیج پ ھلدار ہوتا ہے‬
‫پ ہل فضاءمی ں بڑی تیزی سےے چڑ ھتا ہےے لیک ن اس کا تنا‬
‫زمین میں ب ہت کم ہوتا ہ ے تاک ہ شجر ہ خیرس ے روشنی اور‬
‫ہوا روک سک ے لیکن شجر ہ خیر ہمیش ہ پ ھلتا پ ھولتا ر ہتا ہے‬
‫کیونک ہ اس کا تنا زمین میں ب ہت گ ہرا ہوتا ہے ی ہی چیز اس‬
‫ک ے لئ ے حرارت اور ھوا ءکا متبادل ثابت ہوتی ہ ے اس ک ے‬
‫باوجود ہم شجر ہ شرک ے ان ج ھوٹ ے اورناپائیداراوصاف س ے‬
‫صرف نظرکرت ے ہوئ ے اس کی حقیقی قوت وصلحیت ک ے‬
‫متعلق تحقیق کریں تو ہم پر عیاں ہوجائ ے گاک ہ ی ہ کمزور ‪،‬‬
‫ج ھڑا ہوا اور ناپائیدا ر ہوتا ہے‪!....‬جس وقت شجرہے خیر‬
‫آفات پر صبر وثبات کا مظا ہر ہ کرر ہا ہوتا ہ ے مسلسل نمو‬

‫‪7‬‬
‫پار ہ ا ہوتا ہ ے شجر ہ شر کانٹوں کی محفل سجا ر ہ ا ہوتا‬
‫ہے ۔‬

‫لوگوں میں ب ہتر جانب کی تلش‬


‫ک ے نتائج‬
‫جب ہم لوگوں کےے نفوس میں ب ہتر جانب تلش کریں‬
‫تو ہمیں ی ہاں خیر ہ ی خیر نظر آتی ہ ے جس ے آنک ھیں پ ہلی‬
‫ج ھپکی میں ن ہیں دیک ھ پاتیں میں اس کا بار ہا اور ب ہت س ے‬
‫لوگوں ک ے سات ھ تجرب ہ کرچکا ہوں حتی ک ہ ان لوگوں ک ے‬
‫سات ھ ب ھ ی جو پ ہلی مرتب ہ میں شریر معلوم ہوت ے ہیں یا‬
‫شعور و ادراک سےے بالکل کورے۔ے ان کی غلطیوں اور‬
‫حماقتوں پرکچ ھے تون ہے نرمی آتی ہےے کچ ھے ان ک ےے لئ ے‬
‫حقیقی ن ہ ک ہ بناوٹی محبت پ ھر کچ ھ عنایت ان ک ے ارادوں‬
‫اور مقاصد ک ے لئ ے پ ھ ر آپ ک ے سامن ے ان ک ے نفوس میں‬
‫خیر کا پ ہلو جاگزیں ہوتا ہے پ ھر و ہ ب ھی آپ کو اپنی محبت‬
‫ومودت اور اعتماد دیت ے ہیں اس ت ھوڑی سی م ہربانی ک ے‬
‫بدل ے میں جو آپ ن ے ان ہیں دی لیکن صدق وصفائی اور‬
‫اخلص ک ےے سات ھ۔شر انسان ک ےے نفس میں اس قدر‬
‫گ ہران ہیں جتنا ہ م بسا اوقات تصور کربیٹ ھت ے ہیں ی ہ اس‬
‫سخت چ ھلک ے میں ر ہتا ہے جس ک ے سات ھ لوگ زند ہ ر ہن ے کی‬
‫جدوج ہ د کرت ے ہیں پ ھ ر اگر وہے مامون ہیں تو ی ہ ی سخت‬
‫چ ھلکا ان کےے لئ ے من پسند شیریں پ ھ ل لتا ہےے ی ہ میٹ ھا‬
‫پ ھ ل اس لئ ے ظا ہر ہوتا ہ ے جو لوگوںکو اپنی جانب س ے ب ے‬
‫خوف رک ھےے ان ہیں اپنی محبت کا یقین دلئ ےے ان کی‬
‫مشقتوں ‪،‬تکالیف‪،‬غلطیوں اور حماقتوں پر نرمی س ے‬
‫کام ل ے اپنا سین ہ وسیع کرل ے اس سب کاکفیل بن جائ ے‬
‫لوگوں س ےے ان کی توقعات س ےے زیاد ہے قریب ہوجائ ے‬
‫‪....‬میں اس کا تجرب ہ کرچکا ہوں خود اپنی ذات ک ے سات ھ‬
‫صرف اسےے محض چند جملےے قرار ن ہیں دیتا جو افکار‬
‫وخیالت کا شاخسان ہ ہوں ۔[امریکا س ے اپن ے ایک تنگ دل‬

‫‪8‬‬
‫دوست کی طرف خط ۔مقال ہ ”فی الدب والحیا ۃ “مجل ہ‬
‫”الکتاب“ اپریل ‪1951‬ءص ‪]392‬‬

‫دوستوں س ے ہماری محبت ک ے‬


‫آثار ونتائج‬
‫جب ہمار ے دل میں محبت ونرمی اور خیر ک ے جذبات جنم‬
‫لیں گ ےے ہم اپن ےے لفظوں کو ب ہت سی ت ھکاوٹوں اور‬
‫مشقتوں س ےے نجات د ےے دیں گ ےے ہمیں ایسی کوئی‬
‫ضرورت ن ہیں پڑےے گی کہے لوگوں کی چاپلوسی کرت ے‬
‫پ ھریں کیونک ہ ہ م سچ ے اور مخلص ہوں گ ے ک ہ ہ م ان کی‬
‫ج ھوٹی تعریفیں کریں ہ م ان ک ے دلوں میں اپن ے لئ ے خیر‬
‫کےے جذبات پیدا کرلیں گےے ان کےے ب ہتر سلوک کا سامنا‬
‫کریں گ ے ان ک ے تعریف می ں سچ ے ہوں گےے انسان میں‬
‫خیر اور اچ ھائی کی و ہ جانب جو اس ے ب ہترین گفتگو کا‬
‫ا ہ ل بناد ے اس وقت تک ظا ہ ر ن ہیں ہوتا جب تک ک ہ ہمار ے‬
‫دلوں میں محبت کا بیج ن ہ پڑجائ ے‪....‬‬
‫ایس ے ہی ہمیں لوگوں س ے تنگ دل ہون ے کی ب ھی ضرورت‬
‫ن ہ ر ہ ے گی ن ہ ان کی غلطیوں اور حماقتوں پر صبر کرن ے‬
‫کی کیونکہے کمزور اور نقص کےے مقامات پر ہم درگزر‬
‫کریں گ ے اس کی ٹو ہ میں ن ہیں لگیں گ ے جبک ہ ہمار ے دل‬
‫میں نرمی کا جذبہے جاگزیں ہو ان سےے کینہے ب ھی ن ہیں‬
‫رک ھیں گ ے ان س ے بچ کر ب ھ ی ن ہیں ر ہیں گ ے ہ م دوسروں‬
‫س ے کین ہ رک ھت ے ہی اس لئ ے ہیں ک ہ ہمار ے نفوس میں خیر‬
‫کا بیج نمو ن ہیں پاتا ہ م ان س ے خوفزد ہ اس لئ ے ہوت ے ہیں‬
‫کیونک ہ ہ م میں خیر کا ماد ہ کم ہوتا ہ ے ہ م اپن ے نفس کو‬
‫کس قدر مطمئن اور شاداں وفرحا ں کردیتےے ہیں جب‬
‫دوسرو ں سےے نرم ی کرتےے ہی ں ا ن سےے محب ت کرتےے ہیں‬
‫ان ہیں اعتماد میں لیت ے ہیں جب ہمار ے دلوں میں محبت‬
‫نرمی اور خیر کا بیج نموپاتا ہے۔‬

‫‪9‬‬
‫حقیقی عظمت کا راست ہ‬
‫جب لوگوں س ے اس لئ ے الگ ر ہیں ک ہ ہ م خود کو ان س ے‬
‫زیاد ہ پاک سمج ھیں روحانی اور قلبی اعتبار س ے یا ان‬
‫س ے زیاد ہ وسیع النفس اورعقل کُل سمج ھیں تو ہم ن ے کیا‬
‫تیر مارلیا ا س طرح تو ہم نےے اپنےے لئےے آسا ن اور صاف‬
‫ست ھرا راست ہ چن لیا ۔‬
‫حقیقی عظمت ی ہ ہ ے ک ہ ہ م لوگوں س ے میل جول رک ھیں‬
‫ان س ے نرمی برتیں ان کی کمزوری ونقص اور غلطیوں‬
‫سےے درگزر کریں حقیقی عظمت یہے ہےے کہے ہم ان کی‬
‫تط ہیر کریں ان ہیں م ہذب بنائیں ان ہیں حتی المقدور اپن ے‬
‫برابر لک ھڑاکریں اس کا ی ہ معنی ن ہیں ہ ے ک ہ ہ م اپن ے بلند‬
‫مراتب س ے معزول ہوجائیں اور ان لوگوں کی چاپلوسی‬
‫کرنےے لگیں ا ن ک ی کمزوریو ں پ ر ب ھی ا ن ک ی تعریفیں‬
‫کریں یا خود کو ان سےے برتر سمج ھیں ن ہیں بلکہے ان‬
‫تفادات میں موافقت پیداکرنا اور اس موافقت ک ے لئ ے‬
‫درکار مشقت کےے لئےے خودد کوتیار کرلینا ہی حقیقی‬
‫عظمت ہے [ایضا ً ص ‪]393‬‬

‫دوسروں کی محنت کا اعتراف‬


‫کرنا‬
‫جب ہ م کسی قدر بااختیار ہوجائیں تواس میں کچ ھ حرج‬
‫محسو س ن ہی ں کری ں گےے کہے دوسرو ں سےے اپنےے لئےے کام‬
‫لی ں ی ہا ں ت ک کہے اپنےے ماتحتوں سےے ب ھ ی ا س سےے ہماری‬
‫قدر میں فرق ن ہیں آئ ے گا ک ہ ہ م اپن ے لئ ے دوسروں کی‬
‫مدد حاصل کریں ہم نےے اس مقام تک پ ہنچنےے کےے لئ ے‬
‫سخت محنت کی ہےے ہم اپنےے نفس کےے ساتھے سب کچ ھ‬
‫کرنےے ک ی کوش ش کرتےے ہی ں او ر اپنےے لئےے کس ی او ر کا‬
‫تعاون لین ے س ے یا مشقت میں ان کا ہات ھ بٹان ے س ے ناک‬
‫ب ھوں چڑ ھات ے ہیں ہم لوگوں کو ی ہ تاثر دیت ے ہیں ک ہ اگر ہم‬
‫ان ک ے سات ھ ہات ھ بٹائیں تو اس س ے ہمار ے مقام میں کمی‬
‫آجائےے گی دراصل ہم یہے سب اس وقت کرتےے ہیں جب‬
‫ہمیں خود اپن ے آپ پر اعتماد ن ہ ہو ہ م کسی ب ھ ی پ ہلو میں‬

‫‪10‬‬
‫عملی طور پر کمزور ہوں ‪....‬البت ہ جب ہم حقیقی طورپر‬
‫قوی اور بااختیار ہوں تو ایسا کچ ھ ن ہیں سوچت ے ۔بچ ہ و ہ‬
‫ہوتا ہ ے جو آپ کا ہات ھ ج ھڑک د ے جب آپ اُس ے س ہارا دین ے‬
‫کی کوشش کریں اور و ہ خود س ے چلن ے کی کوشش کرتا‬
‫ہ ے ۔جب ہ م کسی قدر بااختیار ہوجائیں تو ہمیں بخوشی‬
‫اور شکری ے ک ے سات ھ دوسروں ک ے تعاون کو قبول کرنا‬
‫چا ہی ے شکری ہ اس لئ ے ک ہ و ہ ہماری مدد کرر ہ ا ہ ے خوشی‬
‫اس لئ ے ک ہ کوئی ایسا ب ھ ی ہ ے جو ہمار ے سات ھ محنت اور‬
‫ت ھکاوٹ میں شریک ہ ے شعوری ہ م آ ہنگی کی خوشی ہی‬
‫آزاد اور مقدس خوشی ہے۔‬
‫افکار پ ھیلن ے کی خوشی‬
‫جب ہم اپن ے افکار ونظریات ذخیر ہ کرلیں اور اس بات پر‬
‫ناراض ہوں ک ے دوسر ے لوگ آپس میں تقسیم کرلیں اور‬
‫ہ م پوری کوشش کریں ی ہ ہماری ہ ی طرف منسوب ر ہیں‬
‫اور کوئی دوسرا اس ے ہرگز اپنی طرف منسوب ن ہ کر ے‬
‫ہم ی ہے سب اس وقت کرت ےے ہیں جب ہمیں ان افکار‬
‫ونظریات پر مکمل اعتماد ن ہ ہ و جب و ہ ہمار ے خیالت کی‬
‫تخلی ق نہے ہو ں جیسےے ہمارےے چاہےے بنا ہ ی وجو د می ں آگئ ے‬
‫ہوں جب و ہ ہمیں اپنی ذات س ے بڑ ھ کر وجود میں آگئ ے‬
‫ہوں جب وہے ہمیں اپن ی ذات س ے بڑ ھ کر محبوب نہے ہوں‬
‫پاکیز ہے خوشی اس مزاج کاثمر ہے ہےے ک ہے ہم اپن ےے افکار‬
‫ونظریات کو دوسروں کی ملکیت سمج ھیں اس ک ے بعد‬
‫ہ م زندہے رہے پائیں گےے ہمارا صرف اتنا تصو ر کہے یہے بالخر‬
‫دوسرو ں ک ی ملکیت بن جائیں گ ے” اگرچہے ہمارےے روئ ے‬
‫زمین س ے جدا ہون ے ک ے بعد ہ ی س ہ ی “ی ہ ی کافی ہ ے ک ہ‬
‫ہمارا دل راضی ومطمئن ہے ۔‬
‫تاجر حضرا ت تجارتی تعلقات کےے بڑےے حریص ہوتےے ہیں‬
‫تاک ہ ان ک ے مال میں دوسر ے خیانت ن ہ کرسکیں ان کا نفع‬
‫ن ہ اُڑا سکیں جبک ہ مفکروں اور حاملین نظریات ک ے لئ ے‬
‫باعث سعادت بات یہے ہےے کہے وہے لوگوں میں اپنےے افکار‬
‫ونظریات تقسیم کرت ے ہیں اور لوگوں کو اس حد تک ب ے‬
‫خو ف کردیتےے ہی ں کہے وہے ان ہی ں خو د اپن ی طر ف منسوب‬
‫کرن ے لگیں ن ہ ک ہ ان ک ے پ ہل ے مستحقین کی طرف ان کا ی ہ‬
‫نظری ہ ہ ی ن ہیں ہوتا ک ہ و ہ ہ ی ان افکار ونظریات ک ے بانی‬

‫‪11‬‬
‫ہیں اور و ہ ہ ی ان کی نقل وترجمانی میں ڈاکیا ہیں بلک ہ‬
‫ان کا احساس ی ہ ہوتا ہ ے ک ہ جس چشم ے س ے و ہ سیراب‬
‫ہور ہ ے ہیں و ہ ان کا بنایا ہوا ن ہیں ن ہ ان کا کارنام ہ ہ ے ان ہیں‬
‫اصل اور مقدس خوشی اس بات پر ہوتی ہ ے ک ہ و ہ اس‬
‫چشم ہ صافی تک پ ہنچ پائ ے ۔‬
‫علم اور معرفت ک ے مابین فرق‬
‫حقائق ک ے ف ہ م اور حقائق ک ے ادراک ک ے مابین بڑا فرق‬
‫ہے اول الذکر علم ہے اور ثانی الذکر معرف ہ اول الذکرمیں‬
‫ہم محض الفا ظ ومعانی یا جزئی تجربات وتنائج تک ر ہت ے‬
‫ہیں جبک ہ ثانی الذکر میں زند ہ استجابات اور کلی ادراکات‬
‫پر ہوت ے ہیں مقدم الذکر میں معلومات ہم تک ہماری ذات‬
‫س ے خارج ہوتی ہیں یا ہماری عقول میں کسی گوش ہ میں‬
‫ہوتی ہیں مؤخرالذکر میں حقائق ہمار ےے خیالت س ے‬
‫تخلیق پات ے ہیں ان میں و ہی خون جاری ہوتا ہے جو ہماری‬
‫رگوں میں ہوتا ہ ے ان کی د ھڑکن ہماری نبض ک ے سات ھ‬
‫د ھڑکتی ہے ۔‬
‫پ ہل ے میں حرف کالم اور عنوانات ہوت ے ہیں علم کا کالم‬
‫اور اس ک ے تحت عنوانات مختلف خان ے دین کا خان ہ اس‬
‫ک ے ماتحت عنوانات فصلیں اور ابواب فن کا خان ہ اور اس‬
‫ک ے تحت منا ہ ج ورجحانات دوسر ے میں ایک طاقت پائی‬
‫جاتی ہ ے جوبڑی کائناتی طاقت س ے متصل ہوتی ہ ے اور‬
‫و ہ چمکتا ہوا نقش ہ ہوتا ہ ے جو اصل چشم ہ فیضان تک ل ے‬
‫جائ ے ۔‬

‫معرفتوں کو یکجا کرن ےے میں‬


‫طالب کی جستجو‬
‫ہمیں ہ ر چیز میں اسپیشلسٹ چا ہیئ ے انسانی معرفتوں‬
‫کی تمام اقسام میں ی ہ لوگ اپن ے کارخانوں اور آفسوں‬
‫کےے ساتھے کنیسےے او ر عباد ت گا ہی ں بنالیتےے ہی ں اور اپنی‬
‫زندگیاں اس نوع کےے لئےے وقف کردیتےے ہیں جس میں‬
‫ان ہوں نےے اسپیشلئزیشن کیا ہوتا ہےے صرف قربانی ک ے‬

‫‪12‬‬
‫جذب ے س ے ن ہیں بلک ہ لذت حاصل کرن ے ک ے لئ ے ‪........‬اس‬
‫عابد کا جذب ہ جو اپنی روح اپن ے معبود ک ے لئ ے وقف کرک ے‬
‫ب ھی خوش ر ہتا ہو ۔اس ک ے باوجود ب ھی ہمیںجاننا چا ہئی ے ک ہ‬
‫ی ہ لوگ زندگی ک ے رخ کو سمج ھ ن ہیں سکت ے یا انسانیت ک ے‬
‫لئےے راہے متعین ن ہیں کرسکتےے طالب ہمیشہے ر ہیں ہیں اور‬
‫ر ہیں گ ے ی ہ بلند روحانی طاقتوں ک ے مالک ہوت ے ہیں ی ہی‬
‫اس مقدس مشعل ک ے حامل ہوت ے ہیں جس کی حرارت‬
‫س ے معرفت ک ے تمام ذرات پگ ھ ل جات ے ہیں اور جس کی‬
‫روشن ی میںضوءکرنےے کا راستہے ظا ہ ر ہوجات ا ہےے ا ن تمام‬
‫جزئیات س ے لیس اس سامان ک ے سات ھ قوی ی ہ ی منزل‬
‫تک بڑی تیزی س ے ل ے جاتا ہ ے ی ہ طالبین ہ ی اپنی بصیرت‬
‫سےے علم ‪،‬فن‪،‬عقیدہے و عم ل می ں متعد د المظا ہ ر وحدت‬
‫شامل ہ کا ادراک کرسکت ے ہیں اور ان میں س ے کسی ایک‬
‫کو ب ھ ی پست ن ہیں جانت ے ن ہ ہ ی اس ک ے مستوی س ے زیاد ہ‬
‫فائق کرتےے ہیں معمولی اوررذیل طالبیں اور ان کی‬
‫وحدت ہےے جو مختلف مظا ہر والی قوتوں ک ےے مابین‬
‫تعارض کا اعتقاد رک ھت ے ہیں علم ک ے خلف دین ک ے نام پر‬
‫یا دین ک ے خلف علم ک ے نام پر جنگ کرت ے ہیں فن کو‬
‫عم ل کےے نام پری ا قوت مدافعت کو صوفیانہے عقیدےے ک ے‬
‫نام پر حقیرجانت ے ہیں ی ہ اس لئ ے ک ہ و ہ ان تمام قوتوںکا‬
‫ادراک رک ھت ے ہیں جو دیگر قوتوں ک ے مجموع ے س ے الگ‬
‫ہوں جو سب کی سب ایک ہی مصدر س ے اور اس عالم پر‬
‫پ ھیلی ہوئی بڑی قوت س ے صادر ہیں [درست بات ی ہ ہے ک ہ‬
‫قوت وال ک ہا جائ ے کیونک ہ الل ہ تعالی ٰ ذات موصوف ہ ہے ن ہ ک ہ‬
‫کوئی صفت]لیکن بڑ ےے طالبین اس وحدت کا ادراک‬
‫رک ھت ے ہیں کیونک ہ و ہ اسی اصل من ہج س ے متصل ہوت ے ہیں‬
‫اسی س ے فیضیاب ہوت ے ہیں ۔و ہ تاریخ انسانی میں بڑ ے‬
‫ہ ی کم ہیں بلک ہ نایاب ہیں پ ھ ر ب ھ ی کافی ہیں ‪........‬اس‬
‫کائنات پر قوت مشرف ہ [درست بات ی ہ ہ ے ک ہ اس کائنات‬
‫کا طاقتور مدبر ک ہ ا جائ ے ]ی ہ ی ہ ے جوان ہیں ڈھاتی ہ ے پ ھر‬
‫ضرورت ک ے مقرر ہ وقت پر ان ہیں ب ھیج دیتی ہے ۔‬
‫اس عالَم میں معلوم اور مج ہول‬
‫خوارق او رمج ہول قوتوں ک ےے متعلق مطلق اعتقاد‬
‫رک ھناخطرہے ہےے کیونکہے یہے خرافات کا پیش خیمہے ہےے اور‬

‫‪13‬‬
‫زندگی کو و ہ م میں ڈالتا ہ ے لیکن اس اعتقاد کا چ ھانٹ‬
‫پ ھٹک کم خطرناک ہےے کیونکہے یہے تمام مج ہول ک ھڑکیاں‬
‫بندکردیتا ہےے اور ہر اس قوت کا انکار کردیتا ہے‬
‫جودک ھائی ن ہ د ے صرف اس لئ ے ک ہ و ہ ہماری زندگی ک ے‬
‫کسی دورمیں و ہ ہمار ے ادراک بشری س ے ک ہیں بڑ ھ کر‬
‫ہوتا ہ ے اور اسی ک ے ذریع ے اس عالم کی نسبت مسافت‬
‫وطاقت اور ایس ے ہ ی قیمت کو معمولی سمج ھ ا جاتا ہے‬
‫او ر اسےے معلو م ک ہ ا جات ا ہےے او ر ج س لمحےے کائنا ت کی‬
‫عظمت کو ملحظ ہ کیاجائ ے ی ہ انت ہائی حقیر دک ھائی دیتا‬
‫ہے ۔‬
‫زمین پر ی ہ انسانی زندگی کائناتی قوتوں ک ے ادراک س ے‬
‫عاجز آجان ے کا ایک سلسل ہ ہ ے یا ان قوتوں ک ے ادراک پر‬
‫قادر ہون ے کا ایک سلسل ہ جبک ہ اس بیڑی س ے آزاد ہوجائ ے‬
‫او رپیش قدمی کرےے اپنےے طویل سفر کےے لئےے انسان‬
‫وقت گزرنےے کےے ساتھے ہی کسی ایک کائناتی قوت ک ے‬
‫ادرا ک پ ر قاد ر ہوت ا ہےے ج و ای ک عرصےے سےے ا س کےے لئ ے‬
‫مج ہول ت ھی اورکب ھی اس کےے ادراک سےے ماوراءت ھی ی ہ‬
‫بات یقینی ہے ک ہ ی ہ اپنی بصیرت ک ھول ل ے اس بات ک ے لئ ے‬
‫کہے کچھے ایسی قوتیں ب ھی ہیں جن کا یہے بعد میں ب ھی‬
‫ادراک ن ہیں کرسکتا کیونک ہ ی ہ ہمیش ہ تجرب ہ ک ے ادوار میں‬
‫ر ہ ے گا ۔عقل بشری کا ی ہ احترام ہ ے ک ہ ہ م اپنی زندگی‬
‫میں مج ہول کا ب ھی حساب رک ھیں ن ہ ک ہ اپن ے امور اس ک ے‬
‫سپرد کردیں جیسا ک ہ و ہم وخرافات میں مبتل افراد کرت ے‬
‫ہیں لیکن ہمیں اس کائنات کی حقیقی عظمت کا‬
‫احساس کرنا چا ہیئ ے اوراس وسیع کائنات میں اپن ے نفس‬
‫کی قدر کرنی چا ہیئ ےے ی ہے عادت انسانی روح ک ےے لئ ے‬
‫معرفت وشعور کی ب ہ ت سی قوتیں ظا ہ ر کرد ے گی ان‬
‫ٹ ہنیوں ک ے ذریع ے جو ہمار ے اندر س ے ہمیں کائنات ک ے سات ھ‬
‫مربوط کرتی ہیں اور ی ہ بل شک وشب ہ اس سب س ے بڑ ھ‬
‫کر ہ ے جس کا ادراک ہم اپنی عقلوں ک ے ذریع ے کرت ے ہیں‬
‫حتی ک ہ آج ب ھ ی اس دلیل کی بناپر ک ہ ہ م روز ایک نئ ے‬
‫مج ہول کا سامنا کرت ے ہیں ۔‬

‫‪14‬‬
‫انسان الل ہ س ے مستغنی ن ہیں‬
‫ہوسکتا‬
‫ا س دو ر کےے بع ض لو گ انسا ن ک ی قد ر ومنزل ت گ ھٹات ے‬
‫ہوئ ے اوراس عالم میں اپنی حالت کو دلیل بنات ے ہوئ ے الل ہ‬
‫تعالی ٰ کی عظمت مطلق ہ کا اعتراف کرت ے ہیں گویا الل ہ‬
‫اور انسان دوایسی اضداد ہیں جو اس کائنات میں‬
‫عظمت مطلق ہ ک ے شعور میں جس قدر بڑ ھیں گ ے اپنی‬
‫ذات کی عظمت میں ب ھی بڑ ھیں گےے کیونکہے ہم عظیم‬
‫معبود کی تخلیق ہیں ۔ی ہ لوگ جو ی ہ سمج ھت ے ہیں ک ہ جب‬
‫و ہ اپن ے گمان میں اپن ے معبود کو پست کرت ے ہیں یا اس کا‬
‫انکا ر کرتےے ہیں تو اپنےے آ پ کو برت ر کررہےے ہوتےے ہی ں ی ہ‬
‫محدود سوچ وال ے ہیں ی ہ صرف ظا ہ ر سطحی اور قریب‬
‫کی چیز ہی دیک ھ سکت ے ہیں ی ہ سمج ھت ے ہیں ک ہ جب انسان‬
‫اللہے کی طرف لجاجت کرتا ہےے تو اپنی کمزوری اور‬
‫عاجزی کا اظ ہار کرتا ہے جبک ہ دوسری صورت میں و ہ خود‬
‫کو قوی تصور کرتا ہے جو کسی معبود کا محتاج ن ہ ہوگویا‬
‫کمزوری بصیرت کو جگاتی ہےے جبکہے قدرت اسےے ختم‬
‫کردیتی ہ ے ۔انسان ک ے لئق ہ ے ک ہ جب ب ھ ی اس کی قوت‬
‫نمو پذیر ہ و ی ہ الل ہ کی عظمت ک ے احساس میں بڑ ھ جائ ے‬
‫کیونک ہ اس طرح ی ہ اس قوت کا مصدر کا ادراک کرسک ے‬
‫گا جب ب ھی اس ادراک پر اس کی قوت میں اضاف ہ‬
‫ہوگا‪....‬الل ہ ک ے عظمت پر ایمان رک ھن ے وال ے اپن ے نفوس‬
‫کو ضائع یاکمزور محسوس ن ہیں کرت ےے بلک ہے اس ک ے‬
‫برعکس اپنےے نفوس می ں عز ت وبزرگی محسوس کرت ے‬
‫ہیں جب اس بڑی قوت (مناسب ہوتا اگر قوت وال ک ہا‬
‫جاتا کیونک ہ الل ہ تعالی ٰ موصوف ہ ے صفت ن ہیں )کا س ہارا‬
‫لیت ے ہیں جو اس کائنات میں پ ھلی ہوئی ہ ے و ہ جانت ے ہیں‬
‫ک ہ ان کی عظمت اس زمین تک اور اس ک ے باشندوں تک‬
‫محدود ہےے جو ا س کائنات می ں اللہے کی عظمت مطلق ہ‬
‫س ے متصادم ن ہیں ان ک ے ایمان عمیق میں عظمت وعزت‬
‫کا ایک بیلنس ہوتا ہ ے جس ے ی ہ لوگ ن ہیں سمج ھ سکت ے جو‬
‫غباروں میں ہوا ب ھرت ے ہیں اور اس ے اتنا پ ھلدیت ے ہیں ک ہ و ہ‬

‫‪15‬‬
‫ان کی آنک ھوں ک ےے آگ ےے آکر ان س ےے پوری کائنات‬
‫چ ھپالیتا ہے ۔‬
‫حریت وبندگی ک ے متعلق‬
‫بسا اوقات بندگی حریت ک ے لباد ے میں چ ھپ جاتی ہے پ ھر‬
‫اس کائنات کی انسانی تکالیف س ےے آزاد ہوکر ذلت‬
‫وپستی اور کمزوری س ے آزاد ہون ے اور انسانیت اور اس‬
‫ک ے متعلقات س ے آزاد ہون ے ک ے مابین ایک بنیادی فرق ہے‬
‫پ ہل ے کا مطلب ہے ک ہ ان تمام اسباب س ے آزادی جو انسان‬
‫کےے بنائےے او ر اسےے حیوانیت ک ی ب ھار ی بیڑیوں سےے آزاد‬
‫کر ے ۔‬
‫ی ہ حریت گری پڑی ہ ے کیونک ہ درحقیقت حیوانی میلنات‬
‫کی بندگی اور ا س کےے آگےے ج ھک جانا ہےے ا ن رجحانات‬
‫کاانسان اپنی ابتداء س ے مقابل ہ کرتا آر ہ ا ہ ے تاک ہ اس کی‬
‫تنگ بیڑیوں سےے ک ھلی انسانی فضاءمیں آزادی حاصل‬
‫کرسک ےے انسان اپنی ضروریات ظا ہر کرن ےے س ےے کیوں‬
‫شرماتا ہے ؟ کیونک ہ و ہ فطرتا ً ی ہ احساس رک ھتا ہ ے ک ہ ان‬
‫ضروریات ک ے باوجود بلندی حاصل کرنا ہ ی انسانیت کی‬
‫اولین ترجیحات میں س ے ہ ے اور اس کی قیود س ے آزادی‬
‫ہ ی اصل حریت ہ ے اور کشت وخون ک ے محرکات پر غلب ہ‬
‫پانا اور ضعف وذلت ک ے محرکات کو قابو میں کرلینا ی ہ‬
‫دونوں ہی انسانیت ک ے لئ ے ضروری ہیں ۔‬
‫اصول اور اشخاص الگ ن ہیں‬
‫ہوسکت ے‬
‫میں ا ن لوگو ں می ں سےے ن ہی ں ج و اصولو ں کو اشخاص‬
‫س ے الگ سمج ھت ے ہوں کیونک ہ مضبوط اور کامل عقید ے‬
‫ک ے بغیر کوئی اصول ہ و ہ ی ن ہیں سکتا اور ایسا مضبوط‬
‫اور کامل عقید ہ انسان ک ے علو ہ کسی اور ک ے دل میں‬
‫کس طرح متصور ہوسکتا ہے؟اصول وافکار کامل عقید ے‬
‫ک ے بغیر محض عبث الفاظ وکلمات کا نام ہ ے یا زیاد ہ س ے‬
‫زیاد ہ نامکمل معانی کا اورایمانی حرارت جو انسانی دل‬
‫میں کسی اصول یافکر کو ن ہیں مانت ے جو عقل سلیم یا‬
‫قلب ومعنی میں پیدا ہوپ ہل ے آپ اپنی فکرکو مانیں اس ے‬

‫‪16‬‬
‫مضبوط اعتقاد کی حد تک تسلیم کریں اس وقت دیگر‬
‫لوگ اس ے مانیں گ ے وگرن ہ و ہ صرف صیغ ے اور الفاظ ہی‬
‫ر ہیں گ ے جو روح اور زندگی س ے خالی ہوں اس فکر کی‬
‫کوئی زندگی ن ہیں جو انسانی روح کا لباد ہ ن ہ اوڑ ھ ے اورن ہ‬
‫ہی وہے روئےے زمین پربشری صورت میں ایک زندہے کی‬
‫حیثیت سےے رین گ سکت ی ہےے ایسےے ا س میدا ن می ں ایسا‬
‫کوئی شخص وجودن ہیں رک ھتا جس ک ا دل کس ی ایسی‬
‫فکرس ے آباد ن ہ ہ و جس ے و ہ مانتا ہ و فکر اور شخص میں‬
‫تفریق ایس ےے ہی ہےے جیس ےے روح اور جسم یا لفظ‬
‫اورمعنی میں عملی تفریق جو بعض اوقات تومحال ہے‬
‫اور بعض اوقات حلول اور فناءک ے معنی میں ہوتی ہ ے ہر‬
‫زند ہ فکر انسان کا دل چباتی ہ ے اور جو افکار ی ہ مقدس‬
‫غذانہے لیں وہے مردہے پیدا ہوتی ہیں اور انسان کو ایک‬
‫بالشت ب ھی آگ ے ن ہیں بڑ ھاتیں ۔‬

‫منزل راست ے کو درست قرارن ہیں‬


‫دیتی‬
‫میں بڑی مشکل س ے سوچ پاتا ہوں ک ہ کیس ے ممکن ہ ے ک ہ‬
‫اعلیٰے مقصد تک ہم خسیس راستےے کےے ذریعےے پ ہنچیں‬
‫اعلی ٰ مقصد اعلی ٰ دل میں ہ ی زند ہ ر ہتا ہ ے تو اس دل‬
‫کےے لئےے کیسےے ممک ن ہےے کہے خسی س ذریعےے ک و استعمال‬
‫کرسکےے بلکہے ایسا کرنےے کی کوشش ب ھی کرےے جب ہم‬
‫کیچڑ س ے گزر کر شاداب اور مبارک کنار ے تک جائیں تو‬
‫کنار ے تک پ ہنچت ے پ ہنچت ے ہ م کیچڑ میں ضرور لت ھ ڑ جائیں‬
‫گ ے راست ے ک ے حالت ہمار ے قدموں پر اپن ے نشانات ضرور‬
‫چ ھوڑ ےے گی ی ہی حال ہوتا ہےے جب ہم خسیس ذریع ہ‬
‫استعمال کرتےے ہی ں گندگ ی ہماری ارواح کےے ساتھے چمٹ‬
‫جائ ے گی ان ارواح پر اپن ے آثار مرتب کر ے گی جب تک ہم‬
‫منزل تک پ ہنچیں گ ے۔راستہے ب ھی روح کےے حساب میں‬
‫منزل کا ہی حصہے ہےے اور عالم ارواح میں یہے تفریقیں‬
‫اورتقسیمیں ن ہیں ہوتیں انسانی شعور جب اعلی ٰ مقصد‬
‫ک ا احسا س کرلےے کب ھ ی ب ھ ی خسی س راستہے اختیا ر ن ہیں‬
‫کرتا بلکہے اپنےے مزاج کےے مطابق اسےے اختیار کرنےے کی‬

‫‪17‬‬
‫کوشش ب ھ ی ن ہیں کرتا منزل راست ے کو جائز کردیتی ی ہ‬
‫مغربی حکمت ہ ے کیونک ہ مغرب اپن ے ذ ہ ن ک ے بل بوت ے پر‬
‫زند ہ ہ ے اور ذ ہن منزلوں اور راستوں ک ے مابین تقسیمات‬
‫اورتفریقات کا وجود ممکن ہےے ۔[امریکا سےے اپنےے ایک‬
‫دوست کی طرف خط جس میں اس ن ے سید قطب کو‬
‫ایک نظری ہ لک ھا اور اس ے قبول کرن ے کامطالب ہ کیا ۔معلوم‬
‫ہوت ا ہےے سی د صاح ب نےے اسےے قبو ل ن ہی ں کی ا ۔مقال ہ”فی‬
‫الدب والحیا ۃ“مجل ہ ”الکتاب“اپریل ‪:‬ص‪ 951,393:‬۔‬

‫روحانی مسرتیں دوسروں کو‬


‫خوش کرک ے حاصل ہوتی ہیں‬
‫تجر ے س ے ی ہ بات جان لی ہ ے ک ہ اس زندگی میں روحانی‬
‫مسرت جس ے ہ م محسوس کرسکیں سب س ے بڑ ھ کر اور‬
‫کچ ھ ب ھی ن ہیں ہ ے جب ہم اس قابل ہوجائیں ک ہ تسلی اور‬
‫رضامندی اور اعتماد وامید اور مسرت کو دوسر ے نفوس‬
‫میں داخل کردیں ۔ی ہ عجیب آفاقی لذت ہ ے جو زمین کی‬
‫کسی شئ ے میں ن ہیں ی ہ خالص سماوی عنصر کی ہماری‬
‫طبیعت میں ہم آ ہنگی ہےے جواس کی خارجی جزاءکی‬
‫طالب ن ہیں ہوتی کیونک ہے اس کی جزاءتو اسی میں‬
‫پوشید ہ ہ ے ی ہاں ایک دوسرا مسئل ہ ب ھ ی ہ ے جس میں لوگ‬
‫بناسوچ ے سمج ھ ے داخل ہوجات ے ہیں جبک ہ و ہ اس ک ے ا ہل‬
‫ن ہیں ہیں دوسروں ک ے لئ ے اچ ھائی کا اعتراف کرنا میں‬
‫اس اعتراف میں موجود خوبی کا انکار کرن ے کی کوشش‬
‫ن ہیں کروں گااورن ہ ہ ی اس میں موجود عطاءکرن ے والوں‬
‫کی عظیم مسرت کا لیکن یہے سب دیگر شئےے ہےے ی ہاں‬
‫مسئل ہ خوشی کا ہ ے ی ہ ک ہ خیر کی بازگشت اور دوسروں‬
‫ک ے نفوس میں ظا ہر اور قریب ہوتی ہے جبک ہ اس خوشی‬
‫کی قیمت اس ک ے علو ہ ہ ے کیونک ہ ی ہ اس دوسری مسرت‬
‫کا مزاج ن ہیں جس کا ہ م احساس کرپات ے ہیں صرف اس‬
‫وقت جس وقت ہم اس قابل ہوت ےےے ہیں ک ہ‬
‫تسلی‪،‬رضامندی‪،‬اعتماد‪،‬امید‪،‬اور مسرت کو دوسروں ک ے‬
‫نفوس میں داخل کرپائیں یقین ی ہ ی و ہ خالص اور پاکیز ہ‬
‫فرحت ہ ے جو ہمار ے نفوس س ے پ ھوٹتی ہ ے اور ان ہ ی کی‬

‫‪18‬‬
‫طر ف پل ٹ جات ی ہےے ہمار ی ذا ت کےے کس ی ب ھ ی خارجی‬
‫عنصر کی ضرورت محسوس کئےے بغیر ی ہی اپنےے کامل‬
‫جزاءک ی حامل ہوتی ہےے کیونکہے اس کی جزاءاسی میں‬
‫پوشید ہ ہے۔‬
‫کامیابیوں اور غلطیوں پر ایک‬
‫نظر‬
‫میں موت س ے زیاد ہ تیز ن ہیں دوڑ سکتا جب ک ہ و ہ کسی‬
‫لمح ہ آجائ ے میں ن ے اس زندگی میں ب ہت کچ ھ لیا ہ ے مج ھے‬
‫دیا گیا ہےے بعض اوقات لینےے اور دیئےے جانےے میں فرق‬
‫مشکل ہوجاتا ہ ے کیونک ہ ان دونوں کا عالم روح میں ایک‬
‫ہی معنی ہ ے جب ب ھی مج ھ ے کچ ھ د ے دیا میر امطلب ی ہ ہے‬
‫ک ہ میں ن ے و ہ چیز ل ے لی جو میں دیاگیا کیونک ہ جو چیز‬
‫مج ھ ے دی جائ ے اس پر میرا خوش ہونا کسی ب ھ ی طرح‬
‫ان لوگوں س ے کم ن ہیں ہوتا جو لیت ے ہیں ۔‬
‫میں موت س ے زاد ہ تیز ن ہیں دوڑ سکتا جبک ہ و ہ کسی لمح ہ‬
‫آجائ ے میں عمل کیا جس قدر عمل کرسکتا ت ھ ا ب ہ ت سی‬
‫ایسی چیزیں ہیں جن پر میں عمل کرنا چا ہتا ہوں اگر‬
‫میر ے لئ ے زندگی بڑ ھ ا دی جائ ے لیکن جب میں طاقت ہی‬
‫ن ہیں رک ھوں گا توحسرت میرا دل ن ہیں ک ھائ ے گی دوسر ے‬
‫لوگ و ہ کرگزریں گ ے جو زند ہ ر ہن ے ک ے قابل ہوو ہ کب ھی‬
‫ن ہیں مرتا میں مطمئن ہوک ہ اس عالم پر کی جان ے والی‬
‫عنایت قابل فکر کو مرن ے ک ے لئ ے ن ہیں چ ھوڑ ے گی ۔‬
‫میں موت س ے زیاد ہ تیز ن ہیں دوڑ سکتا جبک ہ و ہ کسی لمح ہ‬
‫آجائ ے ۔میں ن ے حتی المقدور کوشش کرلی ک ے ب ہتر بن‬
‫جاو¿ں میں اپنی خطاو¿ں اور غلطیوں پرنادم ہوں ان کا‬
‫معامل ہ الل ہ ک ے سپرد کرتا ہوں اس کی رحمت وعفوت کی‬
‫امید رک ھتا ہوں اس ک ےے عقاب کی وجہے س ےے میں ب ے‬
‫قرارن ہیں میں مطمئن ہوں کہے وہے عقاب ب ھی برحق ہے‬
‫عدل پر مبنی سزا و ہ ی ہ ے میں ن ے اپن ے اعمال کا انجام‬
‫س ہن ے کی عادت بنالی ہ ے اچ ھ ے ہوں یا بر ے ‪........‬مج ھ ے ی ہ‬
‫بات بری ن ہیں لگتی ک ہ روز حساب میں اپنی غلطی کی‬
‫جزاءپاؤں‪!....‬‬

‫‪19‬‬
‫مسلم ورل ڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان‬
‫‪http://www.muwahideen.tk‬‬

‫‪20‬‬

You might also like