Professional Documents
Culture Documents
ف ہرست
•مقدم ہ
1
•افسان ہ افکار وخیالت ”روحانی مسرتیں “
•زندگی اور موت ک ے متعلق
• ہم اپنی زندگی دوچند کیس ے کریں
•شجر ہ خیر اور شجر ہ شر ک ے مابین
•دوسروں س ے ہماری محبت ک ے آثار ونتائج
•لوگوں میں ب ہتر جانب کی تلش ک ے نتائج
•حقیقی عظمت کا راست ہ
•دوسروں کی محنت کا اعتراف کرنا
•افکار پ ھیلن ے کی خوشی
•علم اور معرفت ک ے مابین فرق
•معرفتوں کو یکجا کرن ے میں طالب کی جستجو
•اس عالم میں معلوم اور مج ہول
•انسان الل ہ س ے مستغنی ن ہیں ہوسکتا
•حریت وبندگی ک ے متعلق
•اصول اور اشخاص الگ ن ہیں ہوسکت ے
•منزل راست ے کو درست قرار ن ہیں دیتی
•روحانی مسرتیں دوسروں کو خوش کرک ے حاصل
ہوتی ہیں
•کامیابیوں اور غلطیوں پر ایک نظر
2
دوستوں کو مصر وغیر ہ میں خطوط لک ھت ے ر ہ ے جن میں
زندگی س ے متعلق اپن ے افکار وخیالت کا تذکر ہ ب ھی کرت ے
ی ہ بعض ادبی رسائل میں اپن ے بعض مقالت ب ھی چ ھپوات ے
ر ہت ے ت ھ ے ۔مثل ً مجل ہ ”الکتاب“جس ک ے ای ڈیٹر ادیب ”عادل
الغضبان“تھےے جو سید صاحب سےے بغرض اشاعت ادبی
ش ہ پاروں کا تقاضا کرت ے ت ھ ے لیکن و ہ امریک ہ میں ہون ے
کی وج ہ س ے ادبی مقالت تحریر کرن ے س ے کنار ہ کش ت ھے
چنانچ ہ اقرباءواحباب کو لک ھے گئ ے اپن ے خطوط کو قارئین
ک ے لئ ے مفید خیال کرک ے ان ک ے کچ ھ حص ے منتخب کرک ے
استاد عادل الغضبان کو روان ہ کئ ے لیکن ان ہوں ن ے شائع ن ہ
کئ ے اور جب سید صاحب واپس تشریف لئ ے تو ایک پیکٹ
کی صورت میں ی ہ تمام ش ہ ہ پار ے ان ہیں اسی طرح واپس
کردئی ے ۔سید قطب اپریل 1951ءمجل ہ الکتاب ک ے شمار ے
میں شائع اپن ے مقال ے ”فی الدب والحیا ۃ“میں رقمطراز
ہیں ”:دوسال جب میں امریکہے میں وطن سےے دور ت ھا
میرےے دل میں ایسےے خیالت پیدا ہوتےے رہےے جن ہیں شاذ
وناد ر ہی می ں ضبط تحری ر می ں لسکت ا ت ھا ........لیکن
شوق تحریر اس عرص ہ میں ب ھ ی مج ھ س ے جدا ن ہ ہوسکا
میں مصر ودیگر بلدعرب اور فرانس وغیرہے میں اپن ے
ب ھائی ،ب ہنوں اور دوستوں کو خطوط لک ھتا ر ہ ا جن میں
ان ہیں و ہی باتیں لک ھتا جو اپنی مختلف کتابوں میں
لوگوں کےے لئےے لک ھا کرتا ....بسا اوقات مجھےے یہے خیال
آتاکہے یہے خطو ط جن ہی ں بغر ض اشاع ت ن ہی ں لک ھ ا گی ا بلک ہ
اس وقت ک ے چند حقیقی اور واقعی مقاصد ک ے لئ ے لک ھا
گیا اس مواد س ے زیاد ہ اشاعت کا مستحق ہ ے جو بغرض
اشاعت لک ھ ا جاتا ہ ے ....چنانچ ہ اس کا ایک حص ہ منتخب
کرک ے استاذ ادیب کبیر عادل الغضبان کو روان ہ کردیا جو
مج ھ س ے اپن ے مجل ے ک ے لئ ے تحریر کا تقاضا کرت ے ر ہت ے ت ھے
....پ ھر مصر واپسی پر جب ہماری ملقات ہوئی تو ان ہوں
ن ے میر ے لک ھ ے ہوئ ے اوراق مج ھ ے واپس کرت ے ہوئ ے ک ہ ا ک ہ
”:میں آپ کی وجہے سےے ان ہیں شائع کرناچا ہتا ت ھا لیکن
مج ھ ے ی ہ خوف ب ھ ی ت ھ ا ک ہ آپ ک ے قارئین اس ک ے بعد آپ
س ے مایوس ن ہ ہوجائیں چنانچ ہ مج ھ ے آپ ک ے خطوط میں
س ے چند چیزوں کا انتخاب کرناپڑا“ ۔
3
سید صاحب ن ے اپنا مقال ہ ”فی الدب والحیا ۃ“مندرج ہ ذیل
خطوط س ے منتخب کرک ے لک ھا ہے :
اپنی ب ہن حمید ہ کی ایک خط ۔ 1
ایک تنگ دل دوست کی طرف ایک خط ۔ 2
لوگوں سےے الگ ت ھلگ ر ہنےے والےے ایک دوسر ے 3
دوست کی طرف ایک خط ۔
اپن ے ایک تیسر ے دوست کی طرف ایک خط س ے 4
جس میں اس پر ی ہ واضح کیاک ہ ضروری ن ہیں ک ہ مقصد کا
جائز ہونا حصول مقصد ک ے لئ ے اختیار کرد ہ طریق کو ب ھی
جائز کرد ے ۔
ایسا معلوم ہوتا ہ ے ک ہ سید صاحب ن ے عادل غضبان س ے
مذکور ہ خطوط ل ے کر اپن ے گ ھ ر میں محفوظ کردیئ ے پ ھر
جب 50کی د ھائی میں جیل جانا پڑا ی ہ خطوط ک ے مجل ہ
”الفکر“ ک ےے لئ ےے روان ہے کردیئ ےے جس ک ےے چ ھٹ ےے ای ڈیشن
1959ءمارچ میں ”دُور کی روشن کرنیں “ ک ے عنوان س ے
”مجل ۃ الکتاب“فروری 1950ءکےے لئےے ایک مقالہے لک ھا ت ھا
لیکن ان کا اس سےے کوئی تعلق ن ہیں ہےے ۔الدارالعلمی ہ
بیروت ن ے 1971ءمیں ان خطوط کو ایک کتابچ ےے کی
صورت میں ”روحانی مسرتیں“ ک ے عنوان س ے پ ھر شائع
کردیا اس عنوان ک ے متعلق ب ھ ی میں اسی طرح لعلم
ہو ں پ ھ ر یہے خطوط اس ی نئےے عنوا ن کےے تحت متع د دبار
شائع ہوت ےے ر ہےے اور قارئین ن ےے ان ہیں خوب پسندب ھی
کیا ۔ایسا معلوم ہوتا ہےے سید قطب ن ےے اپن ےےے 17ذاتی
خطوط میں س ے انتخابات کئ ے ت ھ ے جن میں س ے چ ھ ک ے
انتخابات اپن ےے مقال ےے ”فی الدب والحیا ۃ “میں شائع
کردیئ ے باقی ک ے متعلق ہمیں کچ ھ علم ن ہیں ہوسکااسی
ذریع ے س ے ہمیں ی ہ ب ھ ی معلوم ہوسکا ک ہ ی ہ کتابچ ہ و ہ خط
ن ہی ں جو ان ہوں نےے اپن ی ب ہ ن امینہے کو لک ھ ا بلکہے ا ن ستر ہ
خطوط س ے منتخب شد ہ ہیں جن ہیں ان ہوں ن ے امریک ہ میں
اپن ےے دوستوں اورب ہن ب ھائیوں کو لک ھا اور ”روحانی
مسرتیں“ی ہ ے عنوان ب ھی سید قطب کا ن ہیں بلک ہ
الدارالعلمیہے ک ا قائ م کردہے ہےے ہمار ی ا ن باتو ں کا مقصد
محض اتنا ہ ے ک ہ مرور زمان ہ ک ے سات ھ سات ھ اصل حقائق
پرد ہے اخفاءمیں ن ہے ر ہے جائیں اور جب عامر ہے ک ےے ”دار
4
عمار“نےے ا س کتابچےے کو شائع کرنا چا ہاتو استاذ عصام
فارس ن ے مج ھ س ے نظر ثانی اور مقدم ہ لک ھن ے کا تقاضا
کیا چنانچ ہ میں ن ے اس میں بعض عبارات اور جملوں کو
ضبط میں لنےے اور ان ہیں شکل دینےے اور منتخب شد ہ
خطوط ک ے عناوین قائم کرن ے اور ان کامقدم ہ لک ھن ے کی
اپنی سی سعی کی ہ ے الل ہ تعالی ٰ اس ے میر ے لئ ے باعث
اجر وثواب اور لوگوں ک ے لئ ے باعث نفع بنائ ے ۔آمین
5
حشرات انڈےے دیتےے ہیں جو زندوں اور زندگی کےے سات ھ
پ ھ ٹ پڑت ے ہیں زمین نباتات اگاتی ہ ے آسمان مین ہ برساتا
ہ ے سمندر موج مارتا ہ ے اس سرزمین پر ہر شئ ے نموپذیر
ہے بڑ ھ ر ہی ہے ۔
ایک لمح ے س ے دوسر ے لمح ے (دوبار ہ زندگی )ک ے درمیان
موت آتی اپنا پنجہے مارتی پ ھ ر چل ی جات ی یا پ ھ ر غراتی
ر ہتی ہےے تاکہے زندگی کےے دسترخوان سےے چند گرےے پڑ ے
لقمےے چا ٹ لےے جبکہے زندگ ی اپنی راہے پ ر گامزن ر ہت ی ہے
زندہے پ ھیلی ہوئی او ر تی ز ت ر مو ت ک ا احسا س ت ک ن ہیں
کرتی ۔
صرف اس لمح ے تکلیف س ے چیخ اٹ ھتی ہ ے جب موت اس
کا جسم نوچتی ہ ے لیکن ی ہ زخم ب ہ ت جلد مندل ہوجاتا ہے
اور تکلیف ب ھی تیزی س ے راحت میں بدل جاتی ہے انسان
،جانور،پرند ےےے ،مچ ھلیاں،کیڑ ے،حشرات،گ ھاس،پ ھوس ،
درخت ،روئ ے زمین کو زندگی اور زندوں س ے ڈھانپت ے ر ہت ے
ہیں اورموت دور ک ھڑی غراتی ر ہتی ہ ے آتی ہ ے نوچتی ہے
چلی جاتی ہ ے یا زندگی ک ے دسترخوان ک ے چند گر ے ہوئ ے
خوش ے چن لیتی ہ ے سورج طلوع وغروب ہوتا ہ ے زمین
اس ک ے گرد گ ھومتی ہے زندگی اِد ھر اُد ھر پ ھوٹتی ر ہتی ہے
ہرشئ ے نمو پذیر ہ ے تعدادمیں اقسام میں کمیت وکیفیت
میں اگر موت کچھے کرپاتی توزندگی کےے مقابل ک ھڑی
ہوجاتی ب ہرحال و ہ شادماں ب ھرپور اور موت کی پروا ہ ن ہ
کرن ے والی زندگی ک ے مقابل ے میں حقیر وناتواں ہ ے ۔الل ہ
زند ہ وبرتر کی قوت س ے زندگی پ ھلتی اور پ ھولتی ر ہتی
ہےے ۔[مقال ہے ”فی الدب والحیا ۃ“ مجل ہے ”الکتاب“چوت ھا
شمار ہ اپریل 1951ءص ]192-191
ہم اپنی زندگی دوچند کیس ے
کریں؟
جب ہم صرف اپنےے لئےے جیتےے ہیں توزندگی ہمیں ب ہت
چ ھوٹی اور لغر محسوس ہوتی ہے و ہیں س ے شروع ہوتی
ہ ے ج ہاں س ے ہ م شروع کریں اور ہماری محدود عمر ک ے
سات ھ ہی ختم ہوجاتی ہے اور جب ہم اوروں ک ے لئ ے جیئیں
یعن ی نظریات ی زندگ ی گزاری ں توزندگ ی ب ہ ت طوی ل اور
6
عمیق ہوجاتی ہ ے اس کی ابتداءو ہاں س ے ہوتی ہ ے ج ہاں
س ے انسانیت کی ابتداء ہ ے اور روئ ے زمین س ے ہمار ے الگ
ہوجانےے کےے بعد ب ھی باقی ر ہتی ہےے اس طرح ہم اپنی
ضروری زندگی کو مفید بنالیتےے ہیں اور افادیت ب ھی
حقیقی نہے کہے مو ہومہے اس طرز کی زندگی ہمارےے ایام
ولمحات ک ے متعلق ہمار ے شعور کو جلبخشتی ہ ے زندگی
سالوں کی گنتی کانام ن ہیں بلکہے احساسات کانام ہے
اس ی حال ت می ں حقیق ت پسن د اسےے و ہ م قرا ر ن ہی ں د ے
سکتےے یہے دراص ل حقیق ت ہےے تما م حقائ ق سےے صحی ح تر
حقیقت کیونک ہے زندگی انسان کی زندگی س ےے متعلق
شعور س ے کوئی الگ شئ ے ن ہیں حقیقی معنوں میں جب
انسا ن زندگ ی ک و اپن ی ذا ت ت ک محدو د سمجھےے ت و اس
کی زندگی ہر طرح ک ے شعور س ے ب ھی خالی ہوتی ہے اور
جب انسان اپنی زندگی کو شعوری طور پر بڑ ھانا چا ہتا ہے
توعمل ً ب ھ ی باشعور زندگی گزارتا ہ ے مج ھ ے تو ی ہ سمج ھ
آتی ہے ک ہ ی ہ مسئل ہ اتنا واضح ہے ک ہ دلیل کا محتاج ن ہیں ہم
اپن ے لئ ے تو ب ھرپور زندگی جیت ے ہیں جب ہ م دوسروںک ے
لئ ےے جیئیں اور دوسروں اور اپن ےے متعلق زندگی کا
احساس ک ہ میں اس طرح ہم اس زندگی کو ن ہایت ب ھرپور
بناسکت ے ہیں اور بڑ ھاسکت ے ہیں ۔
شجر ہ خیر اور شجر ہ شر ک ے
مابین
شر کا بیج سوک ھ ا ر ہتا ہ ے جبک ہ خیر کا بیج پ ھلدار ہوتا ہے
پ ہل فضاءمی ں بڑی تیزی سےے چڑ ھتا ہےے لیک ن اس کا تنا
زمین میں ب ہت کم ہوتا ہ ے تاک ہ شجر ہ خیرس ے روشنی اور
ہوا روک سک ے لیکن شجر ہ خیر ہمیش ہ پ ھلتا پ ھولتا ر ہتا ہے
کیونک ہ اس کا تنا زمین میں ب ہت گ ہرا ہوتا ہے ی ہی چیز اس
ک ے لئ ے حرارت اور ھوا ءکا متبادل ثابت ہوتی ہ ے اس ک ے
باوجود ہم شجر ہ شرک ے ان ج ھوٹ ے اورناپائیداراوصاف س ے
صرف نظرکرت ے ہوئ ے اس کی حقیقی قوت وصلحیت ک ے
متعلق تحقیق کریں تو ہم پر عیاں ہوجائ ے گاک ہ ی ہ کمزور ،
ج ھڑا ہوا اور ناپائیدا ر ہوتا ہے!....جس وقت شجرہے خیر
آفات پر صبر وثبات کا مظا ہر ہ کرر ہا ہوتا ہ ے مسلسل نمو
7
پار ہ ا ہوتا ہ ے شجر ہ شر کانٹوں کی محفل سجا ر ہ ا ہوتا
ہے ۔
8
دوست کی طرف خط ۔مقال ہ ”فی الدب والحیا ۃ “مجل ہ
”الکتاب“ اپریل 1951ءص ]392
9
حقیقی عظمت کا راست ہ
جب لوگوں س ے اس لئ ے الگ ر ہیں ک ہ ہ م خود کو ان س ے
زیاد ہ پاک سمج ھیں روحانی اور قلبی اعتبار س ے یا ان
س ے زیاد ہ وسیع النفس اورعقل کُل سمج ھیں تو ہم ن ے کیا
تیر مارلیا ا س طرح تو ہم نےے اپنےے لئےے آسا ن اور صاف
ست ھرا راست ہ چن لیا ۔
حقیقی عظمت ی ہ ہ ے ک ہ ہ م لوگوں س ے میل جول رک ھیں
ان س ے نرمی برتیں ان کی کمزوری ونقص اور غلطیوں
سےے درگزر کریں حقیقی عظمت یہے ہےے کہے ہم ان کی
تط ہیر کریں ان ہیں م ہذب بنائیں ان ہیں حتی المقدور اپن ے
برابر لک ھڑاکریں اس کا ی ہ معنی ن ہیں ہ ے ک ہ ہ م اپن ے بلند
مراتب س ے معزول ہوجائیں اور ان لوگوں کی چاپلوسی
کرنےے لگیں ا ن ک ی کمزوریو ں پ ر ب ھی ا ن ک ی تعریفیں
کریں یا خود کو ان سےے برتر سمج ھیں ن ہیں بلکہے ان
تفادات میں موافقت پیداکرنا اور اس موافقت ک ے لئ ے
درکار مشقت کےے لئےے خودد کوتیار کرلینا ہی حقیقی
عظمت ہے [ایضا ً ص ]393
10
عملی طور پر کمزور ہوں ....البت ہ جب ہم حقیقی طورپر
قوی اور بااختیار ہوں تو ایسا کچ ھ ن ہیں سوچت ے ۔بچ ہ و ہ
ہوتا ہ ے جو آپ کا ہات ھ ج ھڑک د ے جب آپ اُس ے س ہارا دین ے
کی کوشش کریں اور و ہ خود س ے چلن ے کی کوشش کرتا
ہ ے ۔جب ہ م کسی قدر بااختیار ہوجائیں تو ہمیں بخوشی
اور شکری ے ک ے سات ھ دوسروں ک ے تعاون کو قبول کرنا
چا ہی ے شکری ہ اس لئ ے ک ہ و ہ ہماری مدد کرر ہ ا ہ ے خوشی
اس لئ ے ک ہ کوئی ایسا ب ھ ی ہ ے جو ہمار ے سات ھ محنت اور
ت ھکاوٹ میں شریک ہ ے شعوری ہ م آ ہنگی کی خوشی ہی
آزاد اور مقدس خوشی ہے۔
افکار پ ھیلن ے کی خوشی
جب ہم اپن ے افکار ونظریات ذخیر ہ کرلیں اور اس بات پر
ناراض ہوں ک ے دوسر ے لوگ آپس میں تقسیم کرلیں اور
ہ م پوری کوشش کریں ی ہ ہماری ہ ی طرف منسوب ر ہیں
اور کوئی دوسرا اس ے ہرگز اپنی طرف منسوب ن ہ کر ے
ہم ی ہے سب اس وقت کرت ےے ہیں جب ہمیں ان افکار
ونظریات پر مکمل اعتماد ن ہ ہ و جب و ہ ہمار ے خیالت کی
تخلی ق نہے ہو ں جیسےے ہمارےے چاہےے بنا ہ ی وجو د می ں آگئ ے
ہوں جب و ہ ہمیں اپنی ذات س ے بڑ ھ کر وجود میں آگئ ے
ہوں جب وہے ہمیں اپن ی ذات س ے بڑ ھ کر محبوب نہے ہوں
پاکیز ہے خوشی اس مزاج کاثمر ہے ہےے ک ہے ہم اپن ےے افکار
ونظریات کو دوسروں کی ملکیت سمج ھیں اس ک ے بعد
ہ م زندہے رہے پائیں گےے ہمارا صرف اتنا تصو ر کہے یہے بالخر
دوسرو ں ک ی ملکیت بن جائیں گ ے” اگرچہے ہمارےے روئ ے
زمین س ے جدا ہون ے ک ے بعد ہ ی س ہ ی “ی ہ ی کافی ہ ے ک ہ
ہمارا دل راضی ومطمئن ہے ۔
تاجر حضرا ت تجارتی تعلقات کےے بڑےے حریص ہوتےے ہیں
تاک ہ ان ک ے مال میں دوسر ے خیانت ن ہ کرسکیں ان کا نفع
ن ہ اُڑا سکیں جبک ہ مفکروں اور حاملین نظریات ک ے لئ ے
باعث سعادت بات یہے ہےے کہے وہے لوگوں میں اپنےے افکار
ونظریات تقسیم کرت ے ہیں اور لوگوں کو اس حد تک ب ے
خو ف کردیتےے ہی ں کہے وہے ان ہی ں خو د اپن ی طر ف منسوب
کرن ے لگیں ن ہ ک ہ ان ک ے پ ہل ے مستحقین کی طرف ان کا ی ہ
نظری ہ ہ ی ن ہیں ہوتا ک ہ و ہ ہ ی ان افکار ونظریات ک ے بانی
11
ہیں اور و ہ ہ ی ان کی نقل وترجمانی میں ڈاکیا ہیں بلک ہ
ان کا احساس ی ہ ہوتا ہ ے ک ہ جس چشم ے س ے و ہ سیراب
ہور ہ ے ہیں و ہ ان کا بنایا ہوا ن ہیں ن ہ ان کا کارنام ہ ہ ے ان ہیں
اصل اور مقدس خوشی اس بات پر ہوتی ہ ے ک ہ و ہ اس
چشم ہ صافی تک پ ہنچ پائ ے ۔
علم اور معرفت ک ے مابین فرق
حقائق ک ے ف ہ م اور حقائق ک ے ادراک ک ے مابین بڑا فرق
ہے اول الذکر علم ہے اور ثانی الذکر معرف ہ اول الذکرمیں
ہم محض الفا ظ ومعانی یا جزئی تجربات وتنائج تک ر ہت ے
ہیں جبک ہ ثانی الذکر میں زند ہ استجابات اور کلی ادراکات
پر ہوت ے ہیں مقدم الذکر میں معلومات ہم تک ہماری ذات
س ے خارج ہوتی ہیں یا ہماری عقول میں کسی گوش ہ میں
ہوتی ہیں مؤخرالذکر میں حقائق ہمار ےے خیالت س ے
تخلیق پات ے ہیں ان میں و ہی خون جاری ہوتا ہے جو ہماری
رگوں میں ہوتا ہ ے ان کی د ھڑکن ہماری نبض ک ے سات ھ
د ھڑکتی ہے ۔
پ ہل ے میں حرف کالم اور عنوانات ہوت ے ہیں علم کا کالم
اور اس ک ے تحت عنوانات مختلف خان ے دین کا خان ہ اس
ک ے ماتحت عنوانات فصلیں اور ابواب فن کا خان ہ اور اس
ک ے تحت منا ہ ج ورجحانات دوسر ے میں ایک طاقت پائی
جاتی ہ ے جوبڑی کائناتی طاقت س ے متصل ہوتی ہ ے اور
و ہ چمکتا ہوا نقش ہ ہوتا ہ ے جو اصل چشم ہ فیضان تک ل ے
جائ ے ۔
12
جذب ے س ے ن ہیں بلک ہ لذت حاصل کرن ے ک ے لئ ے ........اس
عابد کا جذب ہ جو اپنی روح اپن ے معبود ک ے لئ ے وقف کرک ے
ب ھی خوش ر ہتا ہو ۔اس ک ے باوجود ب ھی ہمیںجاننا چا ہئی ے ک ہ
ی ہ لوگ زندگی ک ے رخ کو سمج ھ ن ہیں سکت ے یا انسانیت ک ے
لئےے راہے متعین ن ہیں کرسکتےے طالب ہمیشہے ر ہیں ہیں اور
ر ہیں گ ے ی ہ بلند روحانی طاقتوں ک ے مالک ہوت ے ہیں ی ہی
اس مقدس مشعل ک ے حامل ہوت ے ہیں جس کی حرارت
س ے معرفت ک ے تمام ذرات پگ ھ ل جات ے ہیں اور جس کی
روشن ی میںضوءکرنےے کا راستہے ظا ہ ر ہوجات ا ہےے ا ن تمام
جزئیات س ے لیس اس سامان ک ے سات ھ قوی ی ہ ی منزل
تک بڑی تیزی س ے ل ے جاتا ہ ے ی ہ طالبین ہ ی اپنی بصیرت
سےے علم ،فن،عقیدہے و عم ل می ں متعد د المظا ہ ر وحدت
شامل ہ کا ادراک کرسکت ے ہیں اور ان میں س ے کسی ایک
کو ب ھ ی پست ن ہیں جانت ے ن ہ ہ ی اس ک ے مستوی س ے زیاد ہ
فائق کرتےے ہیں معمولی اوررذیل طالبیں اور ان کی
وحدت ہےے جو مختلف مظا ہر والی قوتوں ک ےے مابین
تعارض کا اعتقاد رک ھت ے ہیں علم ک ے خلف دین ک ے نام پر
یا دین ک ے خلف علم ک ے نام پر جنگ کرت ے ہیں فن کو
عم ل کےے نام پری ا قوت مدافعت کو صوفیانہے عقیدےے ک ے
نام پر حقیرجانت ے ہیں ی ہ اس لئ ے ک ہ و ہ ان تمام قوتوںکا
ادراک رک ھت ے ہیں جو دیگر قوتوں ک ے مجموع ے س ے الگ
ہوں جو سب کی سب ایک ہی مصدر س ے اور اس عالم پر
پ ھیلی ہوئی بڑی قوت س ے صادر ہیں [درست بات ی ہ ہے ک ہ
قوت وال ک ہا جائ ے کیونک ہ الل ہ تعالی ٰ ذات موصوف ہ ہے ن ہ ک ہ
کوئی صفت]لیکن بڑ ےے طالبین اس وحدت کا ادراک
رک ھت ے ہیں کیونک ہ و ہ اسی اصل من ہج س ے متصل ہوت ے ہیں
اسی س ے فیضیاب ہوت ے ہیں ۔و ہ تاریخ انسانی میں بڑ ے
ہ ی کم ہیں بلک ہ نایاب ہیں پ ھ ر ب ھ ی کافی ہیں ........اس
کائنات پر قوت مشرف ہ [درست بات ی ہ ہ ے ک ہ اس کائنات
کا طاقتور مدبر ک ہ ا جائ ے ]ی ہ ی ہ ے جوان ہیں ڈھاتی ہ ے پ ھر
ضرورت ک ے مقرر ہ وقت پر ان ہیں ب ھیج دیتی ہے ۔
اس عالَم میں معلوم اور مج ہول
خوارق او رمج ہول قوتوں ک ےے متعلق مطلق اعتقاد
رک ھناخطرہے ہےے کیونکہے یہے خرافات کا پیش خیمہے ہےے اور
13
زندگی کو و ہ م میں ڈالتا ہ ے لیکن اس اعتقاد کا چ ھانٹ
پ ھٹک کم خطرناک ہےے کیونکہے یہے تمام مج ہول ک ھڑکیاں
بندکردیتا ہےے اور ہر اس قوت کا انکار کردیتا ہے
جودک ھائی ن ہ د ے صرف اس لئ ے ک ہ و ہ ہماری زندگی ک ے
کسی دورمیں و ہ ہمار ے ادراک بشری س ے ک ہیں بڑ ھ کر
ہوتا ہ ے اور اسی ک ے ذریع ے اس عالم کی نسبت مسافت
وطاقت اور ایس ے ہ ی قیمت کو معمولی سمج ھ ا جاتا ہے
او ر اسےے معلو م ک ہ ا جات ا ہےے او ر ج س لمحےے کائنا ت کی
عظمت کو ملحظ ہ کیاجائ ے ی ہ انت ہائی حقیر دک ھائی دیتا
ہے ۔
زمین پر ی ہ انسانی زندگی کائناتی قوتوں ک ے ادراک س ے
عاجز آجان ے کا ایک سلسل ہ ہ ے یا ان قوتوں ک ے ادراک پر
قادر ہون ے کا ایک سلسل ہ جبک ہ اس بیڑی س ے آزاد ہوجائ ے
او رپیش قدمی کرےے اپنےے طویل سفر کےے لئےے انسان
وقت گزرنےے کےے ساتھے ہی کسی ایک کائناتی قوت ک ے
ادرا ک پ ر قاد ر ہوت ا ہےے ج و ای ک عرصےے سےے ا س کےے لئ ے
مج ہول ت ھی اورکب ھی اس کےے ادراک سےے ماوراءت ھی ی ہ
بات یقینی ہے ک ہ ی ہ اپنی بصیرت ک ھول ل ے اس بات ک ے لئ ے
کہے کچھے ایسی قوتیں ب ھی ہیں جن کا یہے بعد میں ب ھی
ادراک ن ہیں کرسکتا کیونک ہ ی ہ ہمیش ہ تجرب ہ ک ے ادوار میں
ر ہ ے گا ۔عقل بشری کا ی ہ احترام ہ ے ک ہ ہ م اپنی زندگی
میں مج ہول کا ب ھی حساب رک ھیں ن ہ ک ہ اپن ے امور اس ک ے
سپرد کردیں جیسا ک ہ و ہم وخرافات میں مبتل افراد کرت ے
ہیں لیکن ہمیں اس کائنات کی حقیقی عظمت کا
احساس کرنا چا ہیئ ے اوراس وسیع کائنات میں اپن ے نفس
کی قدر کرنی چا ہیئ ےے ی ہے عادت انسانی روح ک ےے لئ ے
معرفت وشعور کی ب ہ ت سی قوتیں ظا ہ ر کرد ے گی ان
ٹ ہنیوں ک ے ذریع ے جو ہمار ے اندر س ے ہمیں کائنات ک ے سات ھ
مربوط کرتی ہیں اور ی ہ بل شک وشب ہ اس سب س ے بڑ ھ
کر ہ ے جس کا ادراک ہم اپنی عقلوں ک ے ذریع ے کرت ے ہیں
حتی ک ہ آج ب ھ ی اس دلیل کی بناپر ک ہ ہ م روز ایک نئ ے
مج ہول کا سامنا کرت ے ہیں ۔
14
انسان الل ہ س ے مستغنی ن ہیں
ہوسکتا
ا س دو ر کےے بع ض لو گ انسا ن ک ی قد ر ومنزل ت گ ھٹات ے
ہوئ ے اوراس عالم میں اپنی حالت کو دلیل بنات ے ہوئ ے الل ہ
تعالی ٰ کی عظمت مطلق ہ کا اعتراف کرت ے ہیں گویا الل ہ
اور انسان دوایسی اضداد ہیں جو اس کائنات میں
عظمت مطلق ہ ک ے شعور میں جس قدر بڑ ھیں گ ے اپنی
ذات کی عظمت میں ب ھی بڑ ھیں گےے کیونکہے ہم عظیم
معبود کی تخلیق ہیں ۔ی ہ لوگ جو ی ہ سمج ھت ے ہیں ک ہ جب
و ہ اپن ے گمان میں اپن ے معبود کو پست کرت ے ہیں یا اس کا
انکا ر کرتےے ہیں تو اپنےے آ پ کو برت ر کررہےے ہوتےے ہی ں ی ہ
محدود سوچ وال ے ہیں ی ہ صرف ظا ہ ر سطحی اور قریب
کی چیز ہی دیک ھ سکت ے ہیں ی ہ سمج ھت ے ہیں ک ہ جب انسان
اللہے کی طرف لجاجت کرتا ہےے تو اپنی کمزوری اور
عاجزی کا اظ ہار کرتا ہے جبک ہ دوسری صورت میں و ہ خود
کو قوی تصور کرتا ہے جو کسی معبود کا محتاج ن ہ ہوگویا
کمزوری بصیرت کو جگاتی ہےے جبکہے قدرت اسےے ختم
کردیتی ہ ے ۔انسان ک ے لئق ہ ے ک ہ جب ب ھ ی اس کی قوت
نمو پذیر ہ و ی ہ الل ہ کی عظمت ک ے احساس میں بڑ ھ جائ ے
کیونک ہ اس طرح ی ہ اس قوت کا مصدر کا ادراک کرسک ے
گا جب ب ھی اس ادراک پر اس کی قوت میں اضاف ہ
ہوگا....الل ہ ک ے عظمت پر ایمان رک ھن ے وال ے اپن ے نفوس
کو ضائع یاکمزور محسوس ن ہیں کرت ےے بلک ہے اس ک ے
برعکس اپنےے نفوس می ں عز ت وبزرگی محسوس کرت ے
ہیں جب اس بڑی قوت (مناسب ہوتا اگر قوت وال ک ہا
جاتا کیونک ہ الل ہ تعالی ٰ موصوف ہ ے صفت ن ہیں )کا س ہارا
لیت ے ہیں جو اس کائنات میں پ ھلی ہوئی ہ ے و ہ جانت ے ہیں
ک ہ ان کی عظمت اس زمین تک اور اس ک ے باشندوں تک
محدود ہےے جو ا س کائنات می ں اللہے کی عظمت مطلق ہ
س ے متصادم ن ہیں ان ک ے ایمان عمیق میں عظمت وعزت
کا ایک بیلنس ہوتا ہ ے جس ے ی ہ لوگ ن ہیں سمج ھ سکت ے جو
غباروں میں ہوا ب ھرت ے ہیں اور اس ے اتنا پ ھلدیت ے ہیں ک ہ و ہ
15
ان کی آنک ھوں ک ےے آگ ےے آکر ان س ےے پوری کائنات
چ ھپالیتا ہے ۔
حریت وبندگی ک ے متعلق
بسا اوقات بندگی حریت ک ے لباد ے میں چ ھپ جاتی ہے پ ھر
اس کائنات کی انسانی تکالیف س ےے آزاد ہوکر ذلت
وپستی اور کمزوری س ے آزاد ہون ے اور انسانیت اور اس
ک ے متعلقات س ے آزاد ہون ے ک ے مابین ایک بنیادی فرق ہے
پ ہل ے کا مطلب ہے ک ہ ان تمام اسباب س ے آزادی جو انسان
کےے بنائےے او ر اسےے حیوانیت ک ی ب ھار ی بیڑیوں سےے آزاد
کر ے ۔
ی ہ حریت گری پڑی ہ ے کیونک ہ درحقیقت حیوانی میلنات
کی بندگی اور ا س کےے آگےے ج ھک جانا ہےے ا ن رجحانات
کاانسان اپنی ابتداء س ے مقابل ہ کرتا آر ہ ا ہ ے تاک ہ اس کی
تنگ بیڑیوں سےے ک ھلی انسانی فضاءمیں آزادی حاصل
کرسک ےے انسان اپنی ضروریات ظا ہر کرن ےے س ےے کیوں
شرماتا ہے ؟ کیونک ہ و ہ فطرتا ً ی ہ احساس رک ھتا ہ ے ک ہ ان
ضروریات ک ے باوجود بلندی حاصل کرنا ہ ی انسانیت کی
اولین ترجیحات میں س ے ہ ے اور اس کی قیود س ے آزادی
ہ ی اصل حریت ہ ے اور کشت وخون ک ے محرکات پر غلب ہ
پانا اور ضعف وذلت ک ے محرکات کو قابو میں کرلینا ی ہ
دونوں ہی انسانیت ک ے لئ ے ضروری ہیں ۔
اصول اور اشخاص الگ ن ہیں
ہوسکت ے
میں ا ن لوگو ں می ں سےے ن ہی ں ج و اصولو ں کو اشخاص
س ے الگ سمج ھت ے ہوں کیونک ہ مضبوط اور کامل عقید ے
ک ے بغیر کوئی اصول ہ و ہ ی ن ہیں سکتا اور ایسا مضبوط
اور کامل عقید ہ انسان ک ے علو ہ کسی اور ک ے دل میں
کس طرح متصور ہوسکتا ہے؟اصول وافکار کامل عقید ے
ک ے بغیر محض عبث الفاظ وکلمات کا نام ہ ے یا زیاد ہ س ے
زیاد ہ نامکمل معانی کا اورایمانی حرارت جو انسانی دل
میں کسی اصول یافکر کو ن ہیں مانت ے جو عقل سلیم یا
قلب ومعنی میں پیدا ہوپ ہل ے آپ اپنی فکرکو مانیں اس ے
16
مضبوط اعتقاد کی حد تک تسلیم کریں اس وقت دیگر
لوگ اس ے مانیں گ ے وگرن ہ و ہ صرف صیغ ے اور الفاظ ہی
ر ہیں گ ے جو روح اور زندگی س ے خالی ہوں اس فکر کی
کوئی زندگی ن ہیں جو انسانی روح کا لباد ہ ن ہ اوڑ ھ ے اورن ہ
ہی وہے روئےے زمین پربشری صورت میں ایک زندہے کی
حیثیت سےے رین گ سکت ی ہےے ایسےے ا س میدا ن می ں ایسا
کوئی شخص وجودن ہیں رک ھتا جس ک ا دل کس ی ایسی
فکرس ے آباد ن ہ ہ و جس ے و ہ مانتا ہ و فکر اور شخص میں
تفریق ایس ےے ہی ہےے جیس ےے روح اور جسم یا لفظ
اورمعنی میں عملی تفریق جو بعض اوقات تومحال ہے
اور بعض اوقات حلول اور فناءک ے معنی میں ہوتی ہ ے ہر
زند ہ فکر انسان کا دل چباتی ہ ے اور جو افکار ی ہ مقدس
غذانہے لیں وہے مردہے پیدا ہوتی ہیں اور انسان کو ایک
بالشت ب ھی آگ ے ن ہیں بڑ ھاتیں ۔
17
کوشش ب ھ ی ن ہیں کرتا منزل راست ے کو جائز کردیتی ی ہ
مغربی حکمت ہ ے کیونک ہ مغرب اپن ے ذ ہ ن ک ے بل بوت ے پر
زند ہ ہ ے اور ذ ہن منزلوں اور راستوں ک ے مابین تقسیمات
اورتفریقات کا وجود ممکن ہےے ۔[امریکا سےے اپنےے ایک
دوست کی طرف خط جس میں اس ن ے سید قطب کو
ایک نظری ہ لک ھا اور اس ے قبول کرن ے کامطالب ہ کیا ۔معلوم
ہوت ا ہےے سی د صاح ب نےے اسےے قبو ل ن ہی ں کی ا ۔مقال ہ”فی
الدب والحیا ۃ“مجل ہ ”الکتاب“اپریل :ص 951,393:۔
18
طر ف پل ٹ جات ی ہےے ہمار ی ذا ت کےے کس ی ب ھ ی خارجی
عنصر کی ضرورت محسوس کئےے بغیر ی ہی اپنےے کامل
جزاءک ی حامل ہوتی ہےے کیونکہے اس کی جزاءاسی میں
پوشید ہ ہے۔
کامیابیوں اور غلطیوں پر ایک
نظر
میں موت س ے زیاد ہ تیز ن ہیں دوڑ سکتا جب ک ہ و ہ کسی
لمح ہ آجائ ے میں ن ے اس زندگی میں ب ہت کچ ھ لیا ہ ے مج ھے
دیا گیا ہےے بعض اوقات لینےے اور دیئےے جانےے میں فرق
مشکل ہوجاتا ہ ے کیونک ہ ان دونوں کا عالم روح میں ایک
ہی معنی ہ ے جب ب ھی مج ھ ے کچ ھ د ے دیا میر امطلب ی ہ ہے
ک ہ میں ن ے و ہ چیز ل ے لی جو میں دیاگیا کیونک ہ جو چیز
مج ھ ے دی جائ ے اس پر میرا خوش ہونا کسی ب ھ ی طرح
ان لوگوں س ے کم ن ہیں ہوتا جو لیت ے ہیں ۔
میں موت س ے زاد ہ تیز ن ہیں دوڑ سکتا جبک ہ و ہ کسی لمح ہ
آجائ ے میں عمل کیا جس قدر عمل کرسکتا ت ھ ا ب ہ ت سی
ایسی چیزیں ہیں جن پر میں عمل کرنا چا ہتا ہوں اگر
میر ے لئ ے زندگی بڑ ھ ا دی جائ ے لیکن جب میں طاقت ہی
ن ہیں رک ھوں گا توحسرت میرا دل ن ہیں ک ھائ ے گی دوسر ے
لوگ و ہ کرگزریں گ ے جو زند ہ ر ہن ے ک ے قابل ہوو ہ کب ھی
ن ہیں مرتا میں مطمئن ہوک ہ اس عالم پر کی جان ے والی
عنایت قابل فکر کو مرن ے ک ے لئ ے ن ہیں چ ھوڑ ے گی ۔
میں موت س ے زیاد ہ تیز ن ہیں دوڑ سکتا جبک ہ و ہ کسی لمح ہ
آجائ ے ۔میں ن ے حتی المقدور کوشش کرلی ک ے ب ہتر بن
جاو¿ں میں اپنی خطاو¿ں اور غلطیوں پرنادم ہوں ان کا
معامل ہ الل ہ ک ے سپرد کرتا ہوں اس کی رحمت وعفوت کی
امید رک ھتا ہوں اس ک ےے عقاب کی وجہے س ےے میں ب ے
قرارن ہیں میں مطمئن ہوں کہے وہے عقاب ب ھی برحق ہے
عدل پر مبنی سزا و ہ ی ہ ے میں ن ے اپن ے اعمال کا انجام
س ہن ے کی عادت بنالی ہ ے اچ ھ ے ہوں یا بر ے ........مج ھ ے ی ہ
بات بری ن ہیں لگتی ک ہ روز حساب میں اپنی غلطی کی
جزاءپاؤں!....
19
مسلم ورل ڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان
http://www.muwahideen.tk
20