You are on page 1of 34

‫پیش لفظ‬

‫انے والے صفحات میں ‪ ،‬میں نے ڈیکارٹ کی مشہور زمانہ "‪ " Meditations‬میں‬
‫سے پہلی تین کا اردو ترجمہ اسان اور سلیس زبان میں کرنے کی کوشش‬
‫کی ہے۔ میں اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں‪ ،‬اس کا فیصلہ تو‬
‫پڑھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ میں استاد محترم جناب وقار اسلم صاحب کا‬
‫مشکو ر ہوں کہ انہوں نے ایک اہم کام ہمارے زمہ لگایا‪ ،‬کہ ہم یہ اردو ترجمہ‬
‫کریں۔ اسی وجہ سے اج ہم ڈیکارٹ کے ابتدائی فلسفہ کو بہتر طور پر‬
‫سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اُن کی شفیق طبیعت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے‬
‫مجھے امید ہے کہ وہ اس میں موجود غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کریں‬
‫گے اور اُن کی درستگی فرمانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اس اسائنمنٹ کو‬
‫مکمل کرنے کے دوران میرے کلس فیلوز نے مجھے زہنی طور پر پریشان‬
‫کرکے‪ ،‬جو میری مدد کی اُس کے لیے میں اُن کا بھی مشکور ہوں۔‬
‫اللہ ہم سب کو اسانیاں عطا فرمائے‪ ،‬اور اسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا‬
‫فرمائے۔ اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔‬
‫عثمان خان‬
‫‪12-05-2008‬‬

‫بی زیڈ یو‪ ،‬ملتان‬


‫"پ ہل تفکر"‬

‫(اُن چیزوں کے بارے میں جن کو شک کے دائرے میں رکھا جا سکتا ہے۔)‬

‫کچ ھ عرص ہ پہل ے مج ھ پر ی ہ عقد ہ کھل ک ہ اپن ے اغاز ِ جوانی س ے اج تک ایس ے کتن ے ہی‬
‫غلط عقاہد ہیں جن کومیں سچ مانتا ا رہا ہوں‪ ،‬اور شکوک و شبہات میں لپٹے ایسے‬
‫ہی عقاہد کی بنیادوں پر میں نے ہر چیز کی تشکیل کی ہے۔ جب مجھ پر یہ راز کھل‬
‫تب سے میں نے یہ عہد کیا کہ میں ان تمام عقاہد کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کروں‬
‫گا‪ ،‬جن کومیں ا ج تک بل سوچے سمجھے سچ مانتا ا رہا ہوں اور اخر کار اُس بنیاد‬
‫تک پہنچوں گا جو واقعی صرف اور صرف سچ ہو گی۔ یہ اس صورت میں اور بھی‬
‫ضروری ہے اگر میں ساہنس کے میدان میں کوئی نظریہ قائم کرنا چاہتا ہوں‪ ،‬لیکن‬
‫جیسا کہے اپ اندازہے کر سکتےے ہیں کہے یہے ایک نہایت دقیق کام ہے ‪ ،‬لہذا مجھےے لمبا‬
‫انتظار کرنا پڑا تا کہ میں عمر کی سنجیدہ اور سمجھدار منزل تک پہنچ جائوں۔ اور‬
‫پھر مجھے اس بات کی امید نہ رہے کہ میں اس سے بھی زیادہ بہتر اور مکمل نقشے‬
‫تک اج ک ے بعد بھ ی پہنچ سکتا ہوں۔ یعنی سب کچ ھ حتمی اور مکمل ہو۔ اسی وجہ‬
‫س ے مجھے ایک لمب ے عرص ے تک انتظار کرنا پڑا ۔ یہاں تک ک ہ مجھے احساس ہونے‬
‫لگا کہ اگر میں مذید رکا رہا تو یہ میرے اور میرے خیالت کے لیے غلط ہو گا۔‬
‫اب باقی ماند ہ جو وقت تھا‪ ،‬و ہ میر ے کام کرن ے کا وقت تھا‪ ،‬ا ُس دن س ے اج تک‬
‫ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق میں نے اپنے زہن کو ایک خاص سمت میں‬
‫بڑی احتیاط ک ے سات ھ (مجھے خوشی ہے ک ہ بغیر جذبات کے ) کام پر اکسایا اور اب‬
‫میر ے پاس ایک یقینی فرصت اور پُرامن کام س ے خالی وقت ہے ‪ ،‬جس س ے میں‬
‫پوری طرح لطف اندوز ہو سکتا ہوں۔ انے والی سطور میں میں کوشش کروں گا‬
‫کہے پوری سنجیدگی‪ ،‬ایمانداری اور اذادی کےے ساتھے اپنا نقطہے نظر اپ تک پہنچا‬
‫سکوں‪ ،‬اور اپن ے سابقہ خیالت و عقائد کا تجزی ہ کر سکوں۔ اس کے لیے ی ہ ضروری‬
‫نہیں ہے کہ میں یہ ظاہر کروں کہ میرے تمام سابقہ عقائد و خیالت کلی طور پر غلط‬
‫تھے۔ شاید میں کبھی ایسے انجام تک نہ پہنچ سکوں۔ لیکن جہاں تک تعقلت کی بات‬
‫ہےے یہے پہلےے سےے ہ ی مجھےے اکساتےے ہیں کہے مجھےے مذید احتیاط کےے ساتھے اپنےے سابقہ‬
‫خیالت ک ے اثاث ے س ے دستبردار ہونا چاہیے ‪ ،‬جو ک ہ مکمل طور پر شکوک س ے پاک‬
‫نہیں ہے‪ ،‬اور جن میں سے زیادہ تر میرے نزدیک غلط ہیں۔ اگر میں تعقلت کی بناء‬
‫پر ایسے دلئل تک پہنچ سکوں کہ مجھے ان میں شک کی امیزش نظر ائے تو میرے‬
‫لیے یہ کافی ہو گا‪ ،‬کہ اس کی بنیاد پر میں اپنے تمام سابقہ عقائد کو جٹھل دوں۔ اور‬
‫اس منزل تک پہنچن ے کے لی ے ( سابق ہ عقائد س ے چھٹکارا پانے کے منزل) ی ہ ضروری‬
‫نہیں ہے کہ میں اپنے تمام سابقہ عقاہد کی‪ ،‬ایک ایک کرکے نمبر وار پڑتال کروں۔ اگر‬
‫میں ایسا کروں‪ ،‬تو یقیننا ً یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے وال اور تھکا دینے وال کام ہو گا۔‬
‫حقیقت یہ ہے کہ اگر میں صرف بنیادوں کو تباہ کر دوں ( جن پر میرے سابقہ عقائد‬
‫قائم ہیں) تو ی ہ میر ے تمام سابق ہ عقائد کی عمارت کو گران ے ک ے لی ے کافی ہ و گا۔‬
‫جنانچہ شروع میں میں صرف اُن اصولوں پر بحث کروں گا‪ ،‬جو بنیادی ہیں اور جن‬
‫پر میرے عقائدکی عمارے قائم ہے۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے ‪ ،‬کہ کبھی کبھی ہمارا‬
‫ادراک ہمیں دھوکا دے ‪ ،‬خاص چیز پر ا ُن چیزوں ک ے بار ے میں جو اپس میں ملتی‬
‫جلتی ہیں ۔ اور ایسا بھ ی ہ و سکتا ہے ک ہ ہ م ایسی بہ ت سی چیزوں س ے ملیں‪ ،‬جن‬
‫کی موزومیت کی حد تک شک کا پہلو موجود ن ہ ہو ۔ اگرچ ہ ہ م اُنہیں‪ ،‬ا ُن ک ے زرائع‬
‫سے پہچانیں گے۔ مثال کے طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ میں اس وقت یہا٘ں موجود ہ‬
‫ہوں‪ ،‬اتش دان ک ے سامن ے بیٹھ ا ہوا ہوں‪ ،‬اور میں ن ے ڑدیسنگ گائون پہ ن رکھ ا ہے۔‬
‫میر ے ہاتھوں میں‪ ،‬کاغذ ہے اور اسی طرح کی دوسری بہ ت سی چیزیں ۔ اور میں‬
‫اس بات سے کیسے انکار کر سکتا ہوں کہ یہ ہاتھ اور جسم میرا نہیں ہے۔‬
‫شاید ایسا نہیں ہو گا کہ میں اپنے ا پ کا کسی خاص شخص کے ساتھ موازنہ کروں‪،‬‬
‫ایک ایسے شخص کے ساتھ‪ ،‬جس کے دماغ کوتبخیر کے عارض ے نے مفلوج کر دیا ہو‬
‫اور وہ ہمیں یہ یقین دلنے کی کوشش کرے کہ وہ بادشاہ ہے‪ ،‬حالنکہ وہ انتہائی غریب‬
‫ہو‪ ،‬اور و ہ ہمیں‪ ،‬ی ہ یقین دلن ے کی کوشش کر ے ک ہ اس ن ے بیش قیمت لباس پہن‬
‫رکھ ا ہے ‪ ،‬حالنک ہ و ہ اس وقت ننگا ہو ۔ یقینا ً ایس ے شخص کو ہ م پاگل کہیں گے ‪ ،‬اور‬
‫سمجھیں گےے ۔ے اور یقینا ً میں کوئی احمق نہیں ہوں کہے ایسےے سنکی شخص کی‬
‫مثالوں کی پیروی کروں ۔ لیکن سات ھ سات ھ اپ کو ی ہ بھ ی یاد دہانی کرواتا چلوں کہ‬
‫میں ایک انسان ہوں‪ ،‬اور ایک انسان ہون ے کی حیثیت س ے مجھے سون ے کی عادت‬
‫بھ ی ہے ‪ ،‬اپن ے خوابوں میں میں وہ ی کچ ھ دیکھتا ہوں‪ ،‬یا کم ازکم ایسی ہ ی ملتی‬
‫جلتی چیزیں دیکھتا ہوں جن کو میں‪ ،‬جاگتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہوں۔‬
‫کتنی ہی دفعہ خواب میں ایسا ہوتا ہے‪ ،‬کہ میں خود کو کپڑے پہنے ہوئے ‪ ،‬اتشدان کے‬
‫قریب بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں‪ ،‬حالنکہ در حقیت اُس وقت میں برہنہ بستر پر سو رہا‬
‫ہوتا ہوں۔‬
‫اس لمحے جیسا کہ میں دیکھ سکتا ہوں یہ بات واضع ہے کہ میری انکھیں ُکھل ی ہیں‬
‫اور میں اس کاغذ کیطرف دیکھ رہا ہوں اوراسی طرح اپنے سر کو جو کہ میں ہلتا‬
‫ہوں اس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ میں حالت بیداری میں ہوں۔ اور اسی طرح یہ‬
‫بات جھٹلئی نہیں جا سکتی‪ ،‬اور بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ‪ ،‬میں اپنا‬
‫ہاتھ پھیلتا ہوں‪ ،‬اور میں محسوس کر سکتا ہوں کہ یہ سب کچھ میں نیند کی حالت‬
‫میں نہیں کر رہا بلکہ جاگ رہا ہوں۔‬
‫نیند کی حالت میں کیا ہوتا ہے۔ جیسا ک ہ اور مج ھ س ے اتفاق کریں گ ے ک ہ نیند کی‬
‫حالت میں ہم جو کچ ھ دیکھت ے ہیں‪ ،‬وہ اس قدر واضع اور شفاف نہیں ہوتا جیسا کہ‬
‫حالت بیداری میں ہوتا ہے۔ اسی بات پر مذید غورو فکر کرتے ہوئے میں اپنے اپ کو‬
‫یہ بھی یاد دلتا ہوں کہ نیند کی حالت میں بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ایک‬
‫سراب ہون ے کی وج ہ س ے اپس میں اس طرح مل جات ے ہیں ک ہ اُن کی کوئی واضع‬
‫حقیقت مجھ پر نہیں کھلتی‪ ،‬اور میں دھوکا کھا جاتا ہوں‪ ،‬اس بات کے سمجھنے میں‬
‫کہ میں نے اصل میں کیا دیکھا۔‬
‫بہت احتیاط کے ساتھ‪ ،‬اسی عکس کو اگے بڑھاتے ہوئے میں بہت واضع طور پر دیکھ‬
‫سکتا ہوں ک ہ کہیں بھ ی کوئی ایسی علمات نہیں ملتی جن س ے ہ م نیند اور حالت‬
‫بیداری میں فرق کر سکیں۔ اور اس مقام پر میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ اور یہ‬
‫حیرانی اس قدر بڑتی ہےے کہے کبھی کبھی مجھےے یوں لگتا ہےے جیسےے میں حالت‬
‫بیداری میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ ائیے اب ہم فرض کرتے ہیں کہ ہم سو رہے ہیں‪ ،‬اور‬
‫یہ تما م تر خصوصیات جو کہ حالت نیند سے منسلک ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر‪ ،‬ہم اپنی‬
‫انکھوں کو کھولت ے اور بند کرت ے ہیں‪ ،‬اپن ے سر کو ہلت ے ہیں‪ ،‬اپن ے ہاتھوں کو پھیلتے‬
‫ہیں اور اسی طرح دوسری بہ ت سی باتیں ہیں۔ے یہے تمام ایسےے دھوکا دینےے والے‬
‫عوامل ہیں جن سے ہم کسی واضع حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔‬
‫اور ائی ے اب ہ م سوچت ے ہیں ک ہ ممکن ہ طور پر اگر ایسا ہ و ک ے ہمار ے ہات ھ اور ہمارا‬
‫جسم حقیقت میں ایسا نہیں ہے ‪ ،‬جیسا ک ہ ہ م سوچت ے ہیں ۔ اور اسی دوران‪ ،‬ہمیں‬
‫لزما ً ی ہ اعتراف بھ ی کرنا چاہیےے کہ ‪ ،‬جو چیزیں ہ م حالت نیند میں دیکھت ے ہیں‪ ،‬وہ‬
‫اُنہیں چیزوں کی تصاویر ہوتی ہیں‪ ،‬بالکل اُن چیزوں جیسی‪ ،‬یا کم از کم اُن چیزوں‬
‫سے ملتی جلتی‪ ،‬جن کو ہم حالت بیداری میں اپنی کھلی انکھوں سے دیکھتے ہیں۔‬
‫جیسا ک ہ ہمار ے ہاتھ ‪ ،‬ہمارا جسم کوئی فرضی چیزیں نہیں ہیں‪ ،‬ی ہ حقیقت میں اپنا‬
‫وجود رکھتی ہیں ۔ اور جب ہ م حالت بیداری میں ان کو دیکھت ے ہیں‪ ،‬تو ہ م ان کو‬
‫حقیقت میں دیکھ رہے ہوتےہیں‪ ،‬اور جب ہم حالت خواب میں ان کو دیکھتے ہیں‪ ،‬تو‬
‫ہ م حقیقت میں ان کو نہیں دیک ھ رہے ہوت ے بلک ہ ان ک ے عکس یا تصویریں دیک ھ رہے‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫جیسا کہ یہ بھی ایک واضع حقیقت ہے کہ‪ ،‬جب مصور اپنی بہترین صلحیت کے ساتھ‬
‫کسی چیز کو کینوس پر ابھارنےے کی کوشش کرتا ہے ‪ ،‬تو اصل میں کیا ہوتا ہے؟‬
‫فرض کیجی ے ک ہ مصور جب‪ ،‬یونانی دیو مال ک ے کسی دیوتا کو کینوس پر بنائ ے گا‪،‬‬
‫تو و ہ اس کی شبی ہ کو ضرور کینوس پر اُتار دے گا لیکن اُس میں روح نہیں پھونک‬
‫سک ے گا ۔ اسی طرح مصور‪ ،‬بہ ت سی چیزوں کو کینوس پر بنا سکتا ہے ‪ ،‬لیکن ان‬
‫چیزوں کو و ہ خصوصیات عطا نہیں کر سکتا جو و ہ اصل میں رکھت ے ہیں ۔ اور اگر‬
‫کوئی مصور کینوس پر کوئی ایسی چیز بناتا ہے جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہ‬
‫دیکھی ہو‪ ،‬وہ کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے‪ ،‬جس کی فطرت اور خصوصیات سے‪،‬‬
‫کسی کو پہلے سے اگاہی نہ ہو اور وہ دیکھنے والوں کےلیے ایک نئی چیز ہو‪ ،‬وہ کوئی‬
‫کہانی یا کوئی خیال تو ہ و سکتا ہے ‪ ،‬لیکن ا ُس کا سچ اور حقیقت س ے کوئی تعلق‬
‫نہیں ۔ے وہے ایک کہانی اور افسان ے س ے زیاد ہ کچھے حقیقت نہیں رکھتا۔ے ی ہ محض ایک‬
‫جھوٹ ہو گا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے‪ ،‬کہ جن رنگوں سے اُس نے وہ تصویر بنائی ہے‪ ،‬وہ‬
‫رنگ سچ اور حقیقت ہے۔ اور بالکل اسی وج ہ س ے اگرچ ہ ہ م عام چیزوں ک ے بارے‬
‫میں گفگتو کر رہےے ہیں‪ ،‬اگر ہم جسم ‪،‬انکھوں‪ ،‬ہاتھوں‪ ،‬اور ایسی ہی دوسری‬
‫چیزوں کے بارے میں عام فہم زبان میں بات کریں‪ ،‬تو ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض‬
‫کرلیتے ہیں کہ یہ محض تصوراتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ‬
‫دنیا میں کچ ھ ایسی ساد ہ اور سمج ھ میں ان ے والی چیزیں موجود ہیں‪ ،‬جو حقیقت‬
‫ہیں‪ ،‬اور اُن کو حقیقت مانے بنا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‬
‫مثال ک ے طور پر‪ ،‬رنگ ‪ ،‬حقیقی ہوت ے ہیں اور ان کی سچائی پر شب ہ نہیں کیا جا‬
‫سکتا‪ ،‬ہ ر رنگ کچ ھ اپنی منفرد خصوصیات رکھتا ہے۔ ی ہ تمام خیالت اور تصویریں‪،‬‬
‫جو ک ہ مختلف چیزوں کی ہیں‪ ،‬ی ہ ہمار ے زہ ن میں موجود ہیں‪ ،‬اور بھل اس س ے کیا‬
‫فرق پڑتا ہے کہ چیزیں حقیقت ہیں یا جھوٹ۔ ہاں وہ چیزیں اور اُن کی تصویریں جو‬
‫ہمارے زہن میں ہیں‪ ،‬نہایت شاندار ہیں۔‬
‫اسی طرح اگر ہ م ایسی چیزوں کی ایک فہرست بنائیں جو طبعی طور پر اپنا‬
‫وجود رکھتی ہیں‪ ،‬جو ک ہ مقدار اور تعداد ک ے لحاظ س ے شمار کی جا سکتی ہیں۔‬
‫اور اسی طرح ہجم رکھتی ہیں اور جگہے گھیرتی ہیں‪ ،‬اور وقت کےے پیمانےے کو‬
‫استعمال کرت ے ہوئ ے ہ م ا ُن ک ے بار ے میں مختلف انداز ے لگا سکت ے ہیں ۔ ی ہ ہ م انہی‬
‫چیزوں کی بات کر رہےے ہیں‪ ،‬جو ہمارےے ارد گرد موجود ہیں‪ ،‬جن کو ہ م جاگتی‬
‫انکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اور پھر اُن کا عکس یا تصویر ہمارے زہن میں بن جاتی ہے۔‬
‫ی ہ ممکن ہے ک ہ کیوں ہمار ے تعقلت محض ناکافی ثابت ہوت ے ہیں‪ ،‬جب ہ م مختلف‬
‫علوم سے نتائج حاصل کرتے ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر ‪ ،‬طبیعات‪ ،‬علم ہیت‪ ،‬ادویات کا‬
‫علم‪ ،‬اور اسی طرح دوسر ے تجرباتی علوم جن کو ہ م سائنس ک ے نام س ے جانتے‬
‫ہیں۔ جو کہ ہر بات میں اور ہر تجربے میں ایک منطقی اختتا م رکھتے ہیں‪ ،‬لیکن بہت‬
‫سی چیزوں اور عناصر کے بارے میں ان علوم سے حاصل کردہ نتائج بھی مشکوک‬
‫اور غیر یقینی ہوتےے ہیں۔ے لیکن علم ریاضی‪ ،‬جومیڑی‪ ،‬اور کچھے دوسرےے سائنی‬
‫علوم‪ ،‬جو صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بحث کرت ے ہیں جو بہت سادہ اور عام‬
‫ہیں۔ جو اس بحث میں نہیں پڑتے ‪ ،‬اور ن ہ ہی ی ہ جانن ے کی تکلیف کرت ے ہیں ک ہ جس‬
‫چیز کے بارے میں وہ بحث کر رہے ہیں‪ ،‬نتائج اخذ کر رہے ہیں‪ ،‬وہ حقیقت میں وجود‬
‫بھی رکھتی ہے یا نہیں۔‬
‫ی ہ چیزیں عام طور پر دو پہلو رکھتی ہیں ۔ ایک پہلو یقین اور دوسرا پہلو شک کے‬
‫شانہ بشانہ چلتا ہے۔ مثال کے طور پر میں جاگ رہا ہوں یا سو رہا ہوں‪ ،‬یہ ایک علحدہ‬
‫قسم کی بحث ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں بحث کرنے کے لیے‪ ،‬اور نتائج اخذ کرنے‬
‫کے لیے ہمیں کچھ اور طرح کے علوم کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ دو‬
‫اور تین مل کر پانچ بناتے ہیں۔ اور ایک مربع چار سے زیادہ اضلع پر مشتمل نہیں ہو‬
‫سکتا ۔ ی ہ ایک الگ طرح کا مسئل ہ ہے۔ اس ک ے بار ے میں بحث کرن ے ک ے لیے ‪ ،‬ہمیں‬
‫کچھ اور طرح کے علوم کی ضرورت ہو گی‪ ،‬اور جیسا کہ ایک عام زہن بھی مذکورہ‬
‫بال مثالوں س ے کم از کم ی ہ نتیج ہ تو اخذ کر سکتا ہے ک ہ اول زکر مسئل ے ک ے بارے‬
‫میں ہ م جو نتائج اخذ کریں گے ‪ ،‬ا ُن ک ے یقنیی اور سچ ہون ے کا کوئی دعو ہ نہیں کر‬
‫سکتا۔ اور اس قسم کے مسئلے کے نتائج میں ہمیشہ شک اور غلطی کا پہلو موجود‬
‫ہوتا ہے۔ لیکن ثانی زکر مسئلے میں‪ ،‬جو نتائج اخذ ہوں گے وہ یقینی اور غلطی سے‬
‫پاک ہوں گے۔‬
‫ایک طویل عرص ے س ے اپن ے زہ ن میں ‪ ،‬میں ی ہ عقید ہ رکھتا ہوں ک ہ کہیں کوئی بہت‬
‫طاقتور خدا موجو د ہے ‪ ،‬جس ن ے مجھے بنایا ہے اور بالکل ایسا بنایا ہے جیسا میں‬
‫خود کو دیکھتا ہوں۔ لیکن میں یہ کس طرح جانتا ہوں کہ وہ اس زمین کو اسمانوں‬
‫کو‪ ،‬اجسام کو‪ ،‬جگہوں کو‪ ،‬مقدراوں کو‪ ،‬عدم س ے وجود میں لیا ہے۔ ی ہ میں اس‬
‫طرح جانتا ہوں‪ ،‬ک ہ ان ک ے بار ے میں تصورات میر ے زہ ن میں موجود ہیں‪ ،‬اگر چہ‬
‫میں لمح ہ موجو د میں اپن ے تصورات کی وضاحت ‪ ،‬تعقلت کی بنیاد پر نہیں کر‬
‫سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ک ہ کیا یہ واقعی حقیت میں ایسی ہیں جیسا کہ میں ان‬
‫کو دیکھتا ہوں‪ ،‬اور اس ک ے سات ھ سات ھ اس بات کا بھ ی خیال رہے ک ہ کبھ ی کبھی‬
‫میں سوچتا ہوں کہ دوسرے لوگ اپنے اپ کو دھوکا دیتے ہں‪ ،‬جب وہ یہ سوچتے ہیں کہ‬
‫وہ چیزوں کو بالکل بہترین انداز میں جانتے ہیں۔‬
‫میں ی ہ کیس ے جانتا ہوں ک ہ اور میں ی ہ کیس ے مان لوں ک ہ جب میں دو اور تین کو‬
‫جمع کروں گا تو میں دھوکا نہیں کھائوں گا ۔ اور اگر میں علم ریاضی کو منطقی‬
‫اور یقنیی مان لوں تو پھر مجھے یقین کر نا پڑتا ہے کہ جب میں دو اور تین کو جمع‬
‫کروں گا تو مجھے سچے اور یقینی نتائج ملیں گے۔ یا اسی طرح جب میں ایک مربع‬
‫شکل کے اضلع کو ماپوں گا تو مجھے ٹھیک ٹھیک نتائج ملیں گے۔‬
‫لیکن ممکنہ طور پر خدا کی یقینا ً یہ خواہش نہیں ہو گی کہ میں دھوکا کھائوں کیونکہ‬
‫وہ ماورائی حد تک خیر ہی خیر ہے۔ تاہم اگر اس کی خیر سے یہ بات مطابقت نہیں‬
‫رکھتی کہ میں ہمیشہ ہر چیز کے بارے میں شک اور دھوکے میں مبتل رہوں تو اسی‬
‫طرح یہ بات بھی اس خیر مطلق سے متزاد نظر اتی ہے کہ‪ ،‬مجھے کچھ چیزوں کے‬
‫بار ے میں کبھی کبھی دھوکا ہو ۔ یقینا ً میں اس وقت تک دھوکا نہیں کھ ا سکتا جب‬
‫تک وہ مجھے دھوکا کھانے کی اجازت نہ دے۔‬
‫اس جہان رنگ و بُو میں یقینا ً کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے‪ ،‬جو خدا کے ہونے یا اس‬
‫ک ے بہ ت طاقتور ہون ے کا انکار کردیں گے۔ بجائ ے اس ک ے ک ہ و ہ اس بات کا اعتراف‬
‫کریں ک ہ چیزیں اپنی ماہیت میں غیر یقینی ہیں ۔ لیکن ائی ے ابھ ی ہ م ا ُن ک ہ مخالفت‬
‫نہیں کرتے۔ اور فرض کر لیت ے ہیں ک ہ مندرج ہ بال سطور میں خدا ک ے بار ے میں جو‬
‫کچھے کہ ا وہے محض ایک کہانی تھی۔ے اور ٹھیک اسی طرح سےے سچ مان لیتےے ہیں‪،‬‬
‫جیسا ک ہ و ہ فرض کرتےے ہیں ک ہ میں اس لمح ہ موجود تک جیسا ک ہ میں ہوں کس‬
‫طرح پہنچا ہوں ۔ و ہ اس ے قسمت یا حادث ے کا نام دیت ے ہیں تو ٹھیک ہے۔ یا اگر و ہ یہ‬
‫کہت ے ہیں ک ہ ی ہ مسلسل ارتقائی عمل کا نتیج ہ ہے ‪ ،‬یا و ہ اس ے کچ ھ اور کہنا چاہیں تو‬
‫بھ ی اسےے کچھے دیرکےے لیےے سچ مان لیتےے ہیں۔ے کسی کو ہمیشہے دھوکا دینا اور بے‬
‫وقوف بنانا ممکن نہیں ہے‪ ،‬اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ میرے ہونے کے ممکنات‬
‫اس قدر نا مکمل ہیں جو ممکنات وہے تلش کرتےے ہیں ‪ ،‬یہے مجھےے دھوکا دینےے کے‬
‫مترادف ہے۔ اسی وج ہ س ے میر ے پاس جواب دین ے ک ے لی ے یقینی طور پر کچ ھ نہیں‬
‫ہے‪ ،‬لیکن اخر میں میں یہ اعتراف کرتے ہوئے مشکل محسوس کرتا ہوں کہ‪ ،‬حقیقت‬
‫میں کہیں کچھ ایسا نہیں ہے جس کو میں ماضی میں ایک سچائی اور حقیقت مانتا‬
‫ایا ہوں ۔ اور جس ک ے متعلق مجھے کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اب‬
‫چونکہ کچھ ایسی طاقتور اور سنجیدگی سے پیش کی گئی وجو ہات ہیں‪ ،‬جن کی‬
‫بناء پر میں فی الوقت اپنے سابقہ عقیدے سے دست بردار ہوتا ہوں‪ ،‬کم از کم اُس‬
‫وقت تک ک ے لی ے جب تک مجھے اپن ے عقید ے ک ے حق میں مضبوط دلئل نہیں مل‬
‫جاتے۔‬
‫لیکن ی ہ کافی نہیں ہے ک ہ میں ان ک ے متعلق کسی قسم کا کوئی تبصر ہ کروں اور‬
‫ہمیں ان کے متعلق سوچتے ہوئے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ ایسے قدیم اور عام طور پا‬
‫پائ ے جان ے ول ے خیالت اور افکار اب بھ ی میر ے زہ ن میں موجود ہیں‪ ،‬اور ی ہ قدیم‬
‫رسوم اور رواج کی وج ہ س ے ہیں ک ہ ایس ے خیالت ن ے میر ے زہ ن میں ایک مستقل‬
‫ت ثانی ہ بن چک ے ہیں ۔ یہی‬
‫جگ ہ بنا لی ہے اور ایس ے خیالت اور نظریات میر ے فطر ِ‬
‫وج ہ ہے ک ہ میں فرض کرتا ہوں ک ہ میں غلطی پر عمل پیرا نہیں ہوں گا اور صحیح‬
‫حل تک پہنچنے کے لیے میں کچھ دیر کے لیے خود کو یہ مان لینے کی اجازت دے دوں‬
‫گا کہ یہ خیالت فرضی اور عقائد غلط ہیں۔ یہاں تک ک ہ اخر کار مجھے کوئی واضح‬
‫اور صحیح سمت مل سکے جس پر چل کر مجھے منزل کا چہرہ نظر ائے۔ میں اپ‬
‫کو یقین دل چکا ہوں ک ہ اس بات میں ن ہ ہ ی تو کوئی فائد ہ ہے اور ن ہ کوئی نقصان‬
‫کیونک ہ یہاں پر میں کسی قسم ک ے عمل کی بات نہیں کر رہ ا بلک ہ صرف علم کی‬
‫بات کر رہا ہوں۔‬
‫تب میں یہ فرض کروں گا کہ خدا جو کہ خیر مطلق ہے اور سچائی کا سرچشمہ ہے‪،‬‬
‫لیکن کچھے بُرائی کی طاقتیں بھ ی کم طاقتور نہیں ہیں۔ے میں فرض کروں گا کہ‬
‫اسمان اور زمین‪ ،‬رنگ اور تصویریں‪ ،‬خدوخال اوازیں‪ ،‬اور ایسی دوسرے بہت سی‬
‫چیزیں خیالت ہیں اور سراب ہیں ۔ اور ی ہ ایس ے پھند ے ہیں جو کسی بہ ت ہ ی زہین‬
‫زہ ن ن ے مجھے بہکان ے ک ے لی ے بنائ ے ہیں ۔ میں فرض کرتا ہوں ک ہ میر ے ہات ھ نہیں ہیں‪،‬‬
‫انکھیں نہیں ہیں‪ ،‬بسارت نہیں ہے ‪ ،‬خون نہیں ہے اور ن ہ ہ ی میر ے حسیات ہیں ۔ یہاں‬
‫تک کہے میں غلطی سےے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہے سب چیزیں میرےے پاس‬
‫موجود ہیں۔ اور میں سختی کے ساتھ اس سوچ کے ساتھ سمٹا رہوں گا اور یہ ایسی‬
‫صورت میں اور بھ ی ضروری ہے ک ہ اگر میں سچ تک نہیں پہنچ سکتا تب بھ ی سچ‬
‫تک پہنچن ے کی ایک کوشش تو کر سکتا ہوں ۔ کم از کم مجھے و ہ ضرور کرنا چاہیے‬
‫جو میرے بس میں ہے۔ ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ وہ طاقتور اور دھوکا دینے وال ہے۔‬
‫لیکن اس معمہے کو سلجھانےے کےے لیےے ہمیں بہ ت زیادہے وقت چاہیے۔ے لیکن زہنی اور‬
‫جسمانی تھکاوٹ مجھے اس عارضی زندگی میں اجازت نہیں دیتی ۔ اور ایک ایسا‬
‫زہ ن جو حالت خواب میں ہ و ازادی محسوس کرتا ہے ‪ ،‬ایک فرضی ازادی ۔ لیکن‬
‫جب و ہ ی ہ شک کرنا شروع کر د ے ک ہ اس کی ی ہ ازادی محض ایک خواب ہے تو وہ‬
‫خوف زد ہ ہ و کر جاگ جاتا ہے۔ تب و ہ اپن ے سراب ک ے سات ھ مل کر ایک ایس ے شک‬
‫الود سازش میں مبتل ہ و جاتا ہے جو ہمیش ہ باقی رہتی ہے۔ پس میر ے اپن ے مطابق‬
‫میں اپنے سابقہ عقائد کی طرف واپس پلٹتا ہوں‪ ،‬کیونکہ یہاں تک کہ رات کے خواب‬
‫جاگتی انکھوں سے نہیں دیکھے جا سکتے اور سچ مشکلت کا ایک اندھیرا ہے جیسا‬
‫کہ ہم نے اس کے بارے میں ابھی ایک طویل بحث کی۔‬

‫"دوسرا تفکر"‬
‫(انسانی ز ہن کی فطرت اور ی ہ ک ہ اس ے جسم ک ے مقابل ے زیاد ہ اسانی‬
‫ک ے سات ھ جانا جا سکتا ہے۔)‬
‫گزشتہ روز کے تفکر نے میرے زہن کو ایسے بہت سے خیالت اور شبہات سے بھر دیا‬
‫ہے جن کو نظر انداز کر نا میر ے بس کی بات نہیں اگرچ ہ ابھ ی مجھے اس بات کا‬
‫علم نہیں کہ میں ان سوالت کو کس طرح حل کر سکتا ہوں اور ابھی مجھے ایسے‬
‫لگتا ہے جیس ے میں اچانک گہر ے پانی میں گر گیا ہوں اور ی ہ خیال میر ے لی ے بہت‬
‫پریشان کن ہے کہ میں اپنے پائوں ایک جگہ مضبوطی سے نہیں رکھ سکتا۔ اور نہ ہی‬
‫میں تیرنا جانتا ہوں کہ خود کو سطح اب پر ل سکوں۔‬
‫می ں ن ے ای ک مرتب ہ پھ ےر اپن ے خیالت ک و مربوط کی ا اور پھ ےر س ے خیالت ک ے اس‬
‫ن تفکر میں داخل‬
‫دروازے پر دستک دی جس سے گزر کر میں گزشتہ روز اس جہا ِ‬
‫ہوا۔ می ں اس بات ک و جاری رکھوں گ ا اور اس طریق ے س ے جاری رکھوں گ ا ک ہ‬
‫خیالت کے پہلو بہ پہلو شک کی لہر بھی موجود ہو۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح میں‬
‫نے پہلے یہ نتیجہ اخذ کیا ت ھا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ اور میں اسی نظریے کی شاہراہ پر‬
‫اس وقت تک گامزن رہوں گا جب تک مج ھے یقین کی منزل نہ یں مل جاتی۔ یا کم‬
‫از ک م اس وق ت ت ک ج ب ت ک می ں اس نتیج ے ت ک نہی ں پہن چ نہی ں جات ا ک ہ دنی ا می ں‬
‫کوئی چیز ب ھی "یقینی" نہ یں۔ ارشمیدس نے جس طرح اپنی جگہ پر رہ تے ہوئے دنیا‬
‫ک ا نقش ہ بنای ا اور پھےر اس ے تمام دنی ا پ ر پھیل دی ا اور اس بات ک ا مطالب ہ کی ا ک ہ اگ ر‬
‫ا ُسے صرف ایک غیر حرکت پذیر نقطہ دے دیا جائے اسی طرح سے مج ھے یہ حق ہے‬
‫کہ مٰ یں یہ اعلی امید رکھ سکوں کہ شاید میں ایک ایسی چیز پا سکوں جو شک و‬
‫شبہ سے خالی اور یقین ی ہو۔ میں فرض کرتا ہوں کہ میں نے اب تک جو کچھ بھےی‬
‫دیکھےا س ب غی ر یقین ی اور غلط ہے۔ می ں فرض کرت ا ہوں اور خود س ے کہت ا ہوں ک ہ‬
‫کوئی چی ز بھےی لفان ی نہی ں ہے ج و کچ ھ بھےی اب ت ک میری یاد داش ت می ں محفوظ‬
‫ہے۔ میں فرض کرتا ہوں کہ میرے پاس کسی قسم کی حسیات نہیں ہیں۔ میں فرض‬
‫کرتا ہوں کہ جسم ‪،‬خدوخال‪ ،‬حرکات‪ ،‬اور جگہ یں میرے زہ نی تصورات کے علوہ کچھ‬
‫ب ھی نہیں ہیں۔ تب ایسی صورتحال میں کیا ہے جس کو سچ مانا جا سکتا ہے۔ شاید‬
‫کچھ بھےی نہ یں۔ اس وقت تک کچھ بھےی سچ نہ یں جب تک اس جہان رنگ و ب ُو میں‬
‫ہم کسی ایسی چیز کو نہ یں پا لیتے جس پر شک کے دبیز سائے نہ لہرا رہے ہوں اور‬
‫وہ یقین ی ہو۔ لیک ن ک س طرح می ں ی ہ جان س کتا ہوں ک ہ کوئی بھےی چی ز دوس ری‬
‫چیزوں س ے ٘مختلف نہی ں ہے جیس ا ک ہ می ں ن ے ابھےی فرض کی ا۔ اور کون س ی چی ز‬
‫ایسی ہے جس پر ہلکا سا بھی شک نہ کیا جا سکے۔ کیا کوئی خدا نہیں ہے؟ یا کوئی‬
‫بھےی ٘ مخلوق جس ے ہم خدا ک ے نام س ے پ ُکا ر س کیں۔ کون ہے ج و ان عکس وں ک و‬
‫میرے زہن می ں ڈالت ا ہے۔ ضروری نہی ں ہے ک ہ می ں خود اُنہی ں (خیالت) اپن ے زہن می ں‬
‫پیدا کرن ے ک ے قاب ل ہوں۔ می ں بذات خود۔ کی ا کچ ھ نہی ں ہے۔ لیک ن می ں پہلے ہی اس‬
‫بات سے انکا ر کر چکا ہوں کہ میرے پاس حسیات اور جسم ہے۔ اگرچہ میں ہچکچاتا‬
‫ہوں اس بارے میں یقنی طورپر کچھ کہتے ہوئے کہ کون سے چیز کس چیز کی پیروی‬
‫کرتی ہے۔ کیا میں جسم اور حسیات پر اس حد تک انحصار رکھنے پر مجبور ہوں کہ‬
‫ان کے بغیر میں باقی نہ یں رھ سکتا۔ لیکن میں اس بات کا قائل ہوں کے دنیا میں‬
‫کوئی بھےی چی ز ایس ی نہی ں ہے ن ہ ہی جن ت‪ ،‬ن ہ کوئی زمی ن ‪ ،‬ن ہ کوئی زہن ‪ ،‬ن ہ کوئی‬
‫اجس ام ۔ کی ا اس بات ک و تس لیم کرن ے ک ے بع د می ں ناچاہت ے ہوئے بھےی اس بات ک و‬
‫تس لیم نہی ں ک ر رھ ےا ک ہ کبھ ےی می ں بھ ےی موجود نہی ں ہوں۔ بہر حال اب اس لمح ہ‬
‫موجود می ں‪ ،‬می ں موجود ہوں اور اپن ے وجود ک ے موجود ہون ے ک ا یقی ن مجھےے اس ے‬
‫بات سے ملتا ہے کہ میں سوچنے کے قابل ہوں۔ قصہ مختصر " میں ہوں‪ ،‬کیونکہ میں‬
‫سوچ سکتا ہوں"۔ لیکن کوئی نہ کوئی دھوکا دینے وال ہے جو کہ بہت طاقتور ہے اور‬
‫بہت چالک ہے۔‬
‫جو اپنی طاقت کو مجھےے دھوکا دینے کے لیے صرف کرتا ہے۔ اگرچہ وہ مجھےے شک‬
‫اور وہم کے ہتھیاروں سے ہرانے کی کوشش کرتا ہے تب ب ھی بل شک وشبہ میں اس‬
‫بات ک ا قائل ہوں ک ہ می ں موج و دہوں۔ اور ا ُ سے مجھےےے اس قدر دھوک ا دے لین ے دو‬
‫جتن ا قدر وہ دے س کتا ہے۔ اس وق ت ت ک وہ میرے وجود اور میرے ہون ے ک و ش ک اور‬
‫وہم کے دبیز پردوں میں نہیں چھپا سکتا جب تک مجھے یقین ہے کہ میں ہوں۔ اچھی‬
‫طرح س ے غورو فک ر کرن ے ک ے بع د اور احتیاط س ے تجزی ہ کرن ے ک ے بع د ہمی ں اس‬
‫نتیجے پر پہ نچ جانا چاہ یے جیسا کہ میں پہنچا ہوں کہ میں ہوں ۔ یہ اسی طرح سچ ہے‬
‫اور اس سچ کا یقین بڑھ تا جائے گا جیسے جیسے میں اس بات کو دھرائوں گا یہاں‬
‫تک کہ میرا زہن بھی اس بات کو قبول کر لے۔‬
‫لیک ن اگرچ ہ می ں واض ح طور پ ر نہی ں جانت ا ک ہ می ں کی ا ہوں‪ ،‬می ں کون ہوں۔ اگرچ ہ‬
‫می ں یقین ی طور پ ر ی ہ بات جانت ا ہوں ک ہ می ں ہوں۔ مجھےے اس ام ر می ں احتیاط س ے‬
‫کام لینا چاہ یے کہ میں اپنے وجود کی جگہ کسی اور چیز کو نہ یں دے سکتا۔ اور میں‬
‫اس لحاظ س ے علم ی طور پ ر گمراہی ک ا شکار نہی ں ہوں ک ہ وہ علم اور ثبوت و‬
‫شواہد ج و میرے زہن می ں ہی ں پہلے ک ے مقابلے می ں زیادہ پخت ہ اور زیادہ منطق ی ہی ں۔‬
‫اس ی لی ے می ں اب ی ہ فرض کروں گ ا ای ک نئے طریق ے س ے ک ہ کی ا می ں خود پ ر یقی ن‬
‫رکھت ا ہوں اور میرا موجودہ یقی ن علم ی لحاظ س ے اس قاب ل ہے ک ہ می ں اس ک و‬
‫کس ی ح د ت ک یقین ی جان س کوں اور اس ک ی بنیاد پ ر اپن ے گزشت ہ عقاہد و نظریات‬
‫سے دست بردار ہو سکوں یا کم از کم ان پر نظر ثانی کر سکوں۔ کیا تعقلت اس‬
‫ممکنہ حد تک میری رہنمائی کر سکتے ہ یں کہ میں ان کی روشنی میں اگے کی راہ‬
‫متعین کر سکوں ۔ اس لحاظ سے کہ شاید کوئی بھےی چیز ایسی نہ ہو جو ہر لحاظ‬
‫سے یقنیی اور شک و شبہ سے بالتر ہو۔ تب کیا تھےا جب پہلے میرا یقین تھےا کہ میں‬
‫ہوں‪ ،‬یقینیی طور پر میرا اس بات پر یقین تھا کہ میں ایک ادمی ہوں لیکن سوال یہ‬
‫ہے کہ ادمی کیا ہے۔ کیا اس کے جواب میں مج ھے یہ کہ نا چاہ یے کہ ادمی ایک معقول‬
‫جانور ہے۔ یقین ی طورپ ر نہی ں اس س وال ک ا جواب ی ہ نہی ں ہے۔ ت ب کی ا مجھےے اس‬
‫بات ک ی جس تجو کرن ی چاہی ے ک ہ ای ک جانور کی ا ہے اور معقول ہون ا کی ا ہے۔ اپ ن ے‬
‫دیکھا کہ ایک سادہ اور اسان سے سوال سے سوالت کا وہ پنڈورا باکس کھل جاتا ہے‬
‫جس سے پیچیدہ اور مشکل سوالت برامد ہوتے ہ یں۔ لیکن یقینی طور پر میں اپنا‬
‫قیمتی وقت اور فرصت کے یہ انمول لمحات ایسے فضول اور پیچ در پیچ سوالت‬
‫کو حل کرنے میں ضائع نہیں کر سکتا۔‬
‫لیک ن می ں اپن ے خیالت ک و یہی ں پ ر روک دوں گ ا ی ہ فرض کرت ے ہوئے ک ہ خیالت خود‬
‫بخود میرے زہن میں در اتے ہ یں۔ اور وہ سوالت جو فطرت نے مج ھے عطا نہ یں کیے‬
‫لیکن مجھے اس لیے اُن کا سامنا کرنا پڑا‪ ،‬چونکہ میں نے اپنے ہونے پر غور کیا تھا۔‬
‫شروع س ے شروع کرت ے ہی ں۔س ب س ے پہلے نقط ہ اغاز ج ب می ں ن ے خود پ ر غور‬
‫شروع کی ا می ں ن ے فرض کی ا ک ہ میرا ای ک چہرہ ہے ‪،‬ہات ھ ہی ں‪ ،‬بازو ہی ں‪ ،‬اور وہ س ارا‬
‫نظام ہے ج و ہڈیوں‪ ،‬ماس‪ ،‬اور ریشوں س ے بن ا ہوا ہے۔ ج س ک و می ں جس م ک ے نام‬
‫سے جانتا ہوں۔ اس میں مذید اس امر کا اضافہ کر لیجیے میں نے فرض کیا کہ میں‬
‫چلتا ہوں‪ ،‬محسوس کرتا ہوں اور سوچتا ہوں اور میں نے مذکورہ بال تمام امور کو‬
‫روح سے موسوم کیا۔ لیکن میں خود کو یہ فرض کرنے سے باز نہ رکھ سکا کہ روح‬
‫کی ا ہے؟ اور اگ ر می ں خود ک و س وچنے س ے باز رکھن ے پ ر قادر ہوت ا ت و می ں فرض ک ر‬
‫لیتا کہ روح کوئی انتہائی نایاب اور ہوا کی طرح کی کوئی چیز ہے یا کوئی شعلہ جو‬
‫میرے پورے جس م می ں اور اعض ا می ں پھیل دی ا گی ا ہے۔ جہاں ت ک جس م ک ا تعلق ہے‬
‫مج ھے اس کی اصلیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہ یں ہے‪ ،‬کیونکہ اس کے بارے‬
‫می ں میرا علم بہت واض ح ہے۔ اور اگ ر می ں اس ک و بیان کرن ا چاہوں ‪ ،‬اس ک ی‬
‫س اخت اور افعال ک ے لحاظ س ے ‪،‬ت و می ں بہت اس انی س ے واض ح طور پ ر بیان ک ر‬
‫س کتا ہوں ۔ می ں ی ہ س مجھتا ہوں ک ہ جس م ای ک ایس ی چی ز ہے ج س ک ے مخص وص‬
‫خدوخال ہوت ے ہی ں اور جس م ک و اُن خدوخال ک ے لحاظ س ے واض ح طور پ ر بیان کی ا‬
‫جا سکتا ہے۔‬
‫اگر میں اسان زبان میں کہوں تو جسم ایک ایسی چیز ہے جو کسی خاص جگہ پر‬
‫موجود ہوت ی ہے اور ج و اپن ی کمی ت ک ے لحاظ س ے خل ک و بھ ےر دیت ی ہے۔ اور اس‬
‫طرح سے بھر تی ہے کہ جس خل میں کوئی جسم موجو دہو گا اُس خل سے دوسرے‬
‫ہر جس م ک و نکلن ا پڑے گ ا۔ اور جس م ک و چھون ے س ے محس وس کی ا ج ا س کتا ہے اور‬
‫انکھ سے دیکھےا جا سکتا ہے اور کان سے سنا جا سکتا ہے اور چکھےا جا سکتا ہے اور‬
‫خوشبو سے محسوس کیا جا سکتا ہے اور جو بہت سے طریقوں سے حرکت پذیر ہو‬
‫س کتا ہے اور ی ہ اپن ے اپ می ں ای ک س چ ہے۔ ی ہ ای ک علیحدہ بح ث ہے ک ہ اس ک و کیس ے‬
‫چھوا جا تا ہے اور چھونے کا احساس کہاں سے پیدا ہو کر کہاں تک جاتا ہے۔ چونکہ یہ‬
‫خود حرکت پذیر ہونے کی قوت رکھتا ہے اور اسی طرح محسوس کرنے اور سوچنے‬
‫کی قوت رکھتا ہے۔‬
‫میں نہ یں سمجھتا کہ میں جسم کی فطری اصلیت سے منسلک ہوں مذید اختلفی‬
‫پہلو ی ہ ک ہ می ں ی ہ پ ا ک ر حیران ہوا ک ہ میرے جس م ک ی خص وصیات دوس رے بہت س ے‬
‫اجسام میں بھےی موجو د ہ یں۔ لیکن سوال پھےر وہی ہے کہ میں کون ہوں؟ اب جبکہ‬
‫می ں ن ے ی ہ فرض کی ا ک ہ کہی ں کوئی ایس ا نابغ ہ موجود ہے ج و بہت طاقتور ہے پ ر اگ ر‬
‫مج ھے کہ نے دیا جائے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ شاید وہ اپنی ساری قوتوں‬
‫کو مجھے دھوکا دینے کے لیے صرف کر رہا ہے۔‬
‫کی ا می ں اس بات پ ر اس رار ک ر س کتا ہوں ک ہ میرے پاس واقع ی وہ تمام چیزی ں‬
‫موجود ہیں جن کو میں نے ابھی اپنے جسم کی اصلیت کو بیان کرتے ہوئے گنوایا ہے۔‬
‫مجھےے ی ہ فرض کرن ا پڑے گ ا ی ہ تمام چیزی ں میرے زہن می ں گھومت ی ہی ں اور ان می ں‬
‫کوئی بھےی چی ز مج ھ س ے منس لک نہی ں ہے۔ ی ہ اکت ا دین ے وال ام ر ہو گ ا ک ہ می ں ان‬
‫چیزوں کو پھر ایک ایک کرکے بیان کروں ۔ ائیے اب ہم روح کی طرف چلتے ہیں اور‬
‫دیکھت ے ہی ں ک ہ کی ا روح نام ک ی کوئی چی ز مج ھ می ں موجود ہے۔ حرکیات ک ی اص ل‬
‫ماہیت کیا ہے؟ لیکن اگر یہ واقعی ایسا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ میں کچھ‬
‫نہیں ہوں اور اگر یہ بھی سچ ہے کہ میں چل نہیں سکتا اور اسی طرح ایک اور پہلو یہ‬
‫ہے جسے ہم احساس کے نام سے جانتے ہ یں‪ ،‬لیکن یہ بات ب ھی قابل غور ہے کہ کوئی‬
‫بھےی جس م ک ے بغی ر "احس اس" ک ے ہون ے ک ا دعوہ دار نہی ں ہو س کتا۔ اور اس ی طرح‬
‫می ں ن ے ی ہ س وچا ک ہ می ں ایس ی بہت س ی چیزوں ک و وص ول کرت ا ہوں‪ ،‬س ونے ک ے‬
‫دوران ‪ ،‬مثال کے طور پر جب میں خواب میں چلتا ہوں ‪ ،‬تو میں حقیقت میں ایسا‬
‫نہیں کر رہا ہوتا۔‬
‫سوچنے کا عمل کیا ہے۔ یہاں پر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ خیالت خالصتا ً مجھ‬
‫سے ہ یں ان ک و مجھ س ے کُلی یا ُ‬
‫جزوی طور پر رد نہ یں کیا ج ا سکتا۔ میرا ہونا اور‬
‫میرا موجود ہون ا یقین ی ہے۔ لیک ن س وال ی ہ ہے ک ہ ک س قدر یقین ی ہے۔ ٹھی ک اس ی‬
‫لمح ے ج ب می ں س وچتا ہوں ی ہ ممک ن ہے ک ہ اگ ر می ں س وچنا چھوڑ دوں ت و کی ا اُس‬
‫لمح ے میرا وجود بھےےی خت م ہو جائے گ ا۔ کی ا ی ہ دونوں ای ک دوس رے ک ے لی ے لزم‬
‫وملزوم ہی ں۔ اور اب می ں ایس ی کس ی بھےی چی ز ک و تس لیم کرن ے ک ے لی ے تیار نہی ں‬
‫ہوں ج و یقین ی طور پ ر س چ ن ہ ہو۔ اور اگ ر می ں ٹھی ک ٹھی ک بیان کروں ت و می ں‬
‫سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایسی چیز سے زیادہ کچھ نہ یں ہوں جو سوچتی ہو‪ ،‬ایسی‬
‫سوچنے والی چیز جس کو ہم زہن یا روح کہتے ہیں اور تفہیم اور تعقلت کہتے ہیں۔‬
‫ی ہ ایس ی اص طلحات ہی ں ج ن ک ے مفہوم س ے می ں ابھےی ت ک ن ا اشن ا ہوں‪ ،‬می ں ہوں‪،‬‬
‫تاہم ایک حقیقی چیز اور حقیقی وجود‪ ،‬لیکن کیا چیز‪ ،‬میں جواب دے چکا ہوں۔ ایک‬
‫ایسی چیز جو سوچتی ہے۔ اور علوہ ازیں کیا؟‬
‫میں اپنے خیالت اور تصورات کو بروئے کار لئوں گا (ایا کہ میں اس سے زیادہ کچھ‬
‫ہوں کہ نہ یں ہوں) میں ایسے اجسام کا مجموعہ نہیں ہوں جس کو انسانی جسم کہا‬
‫جاتا ہے۔ میں قید کی ہوئی ہوا اور اعضاء کے درمیان تقسیم کیا گیا شعلہ بھےی نہ یں‬
‫ہوں‪ ،‬میں ہوا اور اگ نہیں ہوں‪ ،‬میں قطرہ اور جھونکا نہیں ہوں‪ ،‬میں ایسا کچھ نہیں‬
‫ہوں‪ ،‬جو میں سمجھتا ہوں‪ ،‬تصور کرتا ہوں اور مانتا ہوں۔ کیونکہ میں فرض کر چکا‬
‫ہوں کہ یہ تمام چیزیں کچھ نہیں ہیں۔ اور میری اس فرضیت کو تحلیل کیے بغیر میں‬
‫اس نتیج ے پ ر پہنچ ا ہوں ک ہ می ں ان تمام چیزوں ک ے علوہ (جس م اور روح) ان س ے‬
‫دُور ‪ ،‬ان سے ماوراء کچھ اور ہوں۔‬
‫لیکن یہ سچ ہے کہ یہ تمام ایک جیسی چیزیں جن کے متعلق میں نے فرض کیا کہ یہ‬
‫موجود نہ یں ہ یں‪ ،‬کیونکہ میں ان کے متعق کچھ نہ یں جانتا‪ ،‬یقنیی طور پر اس سے‬
‫مختلف نہیں ہیں ‪،‬جو میں جانتا ہوں۔ میں اس کے متعلق پُر یقین نہیں ہوں اور نہ ہی‬
‫میں ان کے متعلق بحث میں پڑوں گا۔ میں صرف اُن اشیا کے متعلق اپنی رائے دے‬
‫س کتا ہوں ج ن ک ے متعلق می ں جانت ا ہوں۔ جیس ا ک ہ می ں جانت ا ہوں ک ہ می ں ہوں اور‬
‫میں سوال کرتا ہوں کہ میں ہوں‪ ،‬اور میں جانتا ہوں کہ میں ہوں‪ ،‬اور میں جانتا ہوں‬
‫ک ہ ہون ا کی ا ہے۔ لیک ن ی ہ ام ر نہای ت یقین ی ہے ک ہ میرے ہون ے ک ے متعلق میرا علم اُن‬
‫چیزوں پ ر منحص ر اور بہت ح د ت ک ٹھی ک نہی ں ہے‪ ،‬ج ن چیزوں ک ے متعلق اور ج ن‬
‫چیزوں کا ہونا میرے یقینی علم کے احاطے سے باہر ہے۔ نتیجیتا ً میرا ہونا کسی ایسی‬
‫چی ز پ ر منحص ر نہی ں ہے‪ ،‬ج س ک و می ں اپن ے احاط ہ خیال می ں جذبات ی طور پ ر‬
‫محسوس کر سکتا ہوں اور حقیقت میں جذبات کی یہ اصطلح یہ ثابت کرتی ہے کہ‬
‫می ں غلط ی پ ر ہوں۔ اگ ر می ں واقع ی س مجھتا ہوں ک ہ می ں کچ ھ ہوں۔ یہاں ت ک ک ہ‬
‫تص ور کچ ھ نہی ں ہے اس س ے زیادہ ک ہ می ں کس ی خدوخال ی ا کس ی جس م ک ے متعلق‬
‫س وچوں۔ لیک ن ی ہ بات می ں پہلے ہی جانت ا ہوں ک ہ می ں ہوں اور مذی د ی ہ ک ہ ی ہ تمام‬
‫تشبہی ں ‪ ،‬اور اگ ر می ں عام فہم زبان می ں کہوں ت و میرے جس م ک ے متعلق تم ا م‬
‫خیالت حقیق ت می ں خوابوں س ے زیادہ کچ ھ اہمی ت نہی ں رکھت ے۔ یہی وج ہ ہے ک ہ می ں‬
‫س وچتا ہوں ت ا ک ہ می ں واض ح طور پ ر س مجھ س کوں ک ہ می ں کی ا ہوں۔ اور جیس ا ک ہ‬
‫میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اب جاگا ہوں‪ ،‬اور میں نے کسی ایسی چیز کو پا لیا ہے‬
‫جو حقیقی اور سچ ہے۔ لیکن چونکہ ابھی میں نے اس حقیقت اور سچ کو واضح اور‬
‫ادراکی سطح پر نہ یں پایا۔ میں اپنے بستر پر سونے کے لیے چل جائوں گا‪ ،‬شاید کے‬
‫میرے خواب اُن حقائق و شواہد کو بیان کر سکیں جن کی تشبیہات میرے زہن میں‬
‫ہیں۔‬
‫اور چنانچ ہ می ں یقین ی طور پ ر جانت ا ہوں ک ہ ان تمام حقائق و شواہدات ک و اپن ے‬
‫خیالت اور تفکرات سے جان سکتا ہوں جو اس علم سے متعلق ہیں‪ ،‬جو علم میرے‬
‫اپنے بارے میں ہے۔‬
‫اور زہن ک ی لی ے ی ہ یاد دہان ی اش د ضروری ہے ک ہ ‪ ،‬فک ر ک ے اس ی پہلو س ے یقی ن اور‬
‫علم ک ی وہ منزل پان ا ضروری ہے‪ ،‬ج س س ے مجھےے میرے ہون ے اور س چ ک ی یقین ی‬
‫منزل مل سکے۔ لیکن اس تمام گفتگو کے بعد سوال پھر وہی ہے‪ ،‬میں کیا ہوں؟ کیا‬
‫ایسی چیز جو سوچ سکتی ہے‪ ،‬لیکن پھےر سوال یہ ہے کہ سوچنا کیا ہے؟ وہ چیز کیا‬
‫ہے جو سوچ سکتی ہے۔ کیا ایسی چیز جو شک کرتی ہے‪ ،‬سمجھتی ہے‪ ،‬اصرار کرتی‬
‫ہے‪ ،‬انکار کرت ی ہے‪ ،‬خواہش رکھت ی ہے‪ ،‬تردی د رکھت ی ہے ‪ ،‬ج و تص ور کرت ی ہے اور‬
‫محسوس بھی کرتی ہے۔ یقینی طور پر یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے کہ اگر یہ تما م‬
‫چیزی ں واقع ی میری اص لیت س ے منس لک ہی ں‪ ،‬لیک ن ی ہ تمام چیزی ں مربوط کیوں‬
‫نہیں ہیں۔ کیا میں ایک ایسا شخص نہیں بنتا جا رہا ہوں‪ ،‬جو تقریبا ً تقریبا ً ہر چیز کے‬
‫بار ے میں شک میں مبتل ہے ‪ ،‬اور جو یقینی اشیا ک ے بار ے میں کچ ھ نہیں جانتا ۔ اور‬
‫جو یہ دعوہ کرتا ہے کہ سچائی صرف ایک ہے اور جو باقی تمام باتوں سے انکار کرتا‬
‫ہے اور جو زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔ اور جو بہت سے چیزوں کے بارے میں تصور‬
‫کرتا ہےے اور کبھ ی کھبی اپنےے ارادےے سےے بھ ی کنارہے کر لیتا ہے۔ے اور جو بہ ت سی‬
‫چیزوں کو ایک طرح س ے ادراکی سطح پر پرکھتا ہے ‪ ،‬جیسا ک ہ و ہ کسی جسم کے‬
‫اعضاء ہوں۔‬
‫کیا ان سب چیزوں میں س ے کوئی بھی ایسی چیز نیں ہے ‪ ،‬جو یقینی ہو‪ ،‬جو سچ‬
‫ہو‪ ،‬جیسا ک ہ ی ہ بات یقینی اور سچ ہے ک ہ میں ہوں ۔ حتٰ ی ک ہ میں ہمیش ہ ی ہ سوچتے‬
‫ہوئے سوتا ہوں کہ وہ کون ہے‪ ،‬جو اپنے اختیار اور قدرت کو مجھے دھوکا دینے کے لیے‬
‫استعمال کر رہ ا ہے۔ کیا کوئی ایسی ایک ہ ی طرح کی چیزیں اور روی ے ہیں‪ ،‬جو‬
‫میر ے خیالت س ے جدا ہوں‪ ،‬اور جنہیں مج ھ س ے الگ فرض کیا جا سکتا ہے ‪ ،‬ی ہ اپنے‬
‫اپ میں بجائے خود ایک واضح ثبوت ہے ک ہ ی ہ وہی ہے جس ک ے بارے میں‪ ،‬میں شک‬
‫میں مبتل ہوں۔۔ جو سمجھتا ہے‪ ،‬جو خواہش رکھتا ہے کہ کہیں کسی ایسے تعقلت کا‬
‫وجود نہیں ہے جن کو اس چیز کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫اور میرے اندر متشابہات کو سوچنے کی ایک یقینی قوت موجود ہے۔ اگرچہ ایسا ہوتا‬
‫ہے ک ہ (جیسا ک ہ میں ن ے پہل ے فرض کیا) ک ہ جو بھ ی چیز میں سوچتا ہوں‪ ،‬سچ نہیں‬
‫ہوتی۔ اگرچہ سوچنے اور سمجھنے کی اس قوت کو میں پوری طرح استعمال میں‬
‫نہیں ل سکتا۔ اور یہ میرے خیالت کا صرف ایک حصہ تشکیل دیتی ہے۔ اخر کار‪ ،‬میں‬
‫اس نتیج ے پر پہنچتا ہوں ک ہ میں ایسا ہ ی ہوں جو سوچتا ہے۔ اور اگر کہ ا جائ ے تو‬
‫ایسا ہوں جو اشیاء کو ادراکی سطح پر وصول کرتا ہوں۔ چنانچہ سچ یہ ہے کہ میں‬
‫روشنی کو دیکھتا ہوں‪ ،‬اواز کو سنتا ہوں‪ ،‬اور حرارت کو محسوس کرتا ہوں۔ لیکن‬
‫یہ کہا جائے گا‪ ،‬کہ یہ تمام اعمال غلط ہیں‪ ،‬اور یہ ایسا ہی ہے جیسا میں خواب دیکھ‬
‫رہا ہوں۔ ائیے اسی پیرائے میں بات کو اگے بڑھاتے ہیں۔‬
‫کم از کم ی ہ بات مجھے یقینی دکھائی دیتی ہے ک ہ میں روشنی کو دیکھتا ہوں‪ ،‬اواز‬
‫کو سنتا ہوں اور حرارت کو محسوس کرتاہوں۔ے کم از کم یہے باتیں غلط نہیں ہو‬
‫سکتیں۔ اور اگر میں خاص طور پر کہوں‪ ،‬تو ان کو احساسات کے نام سے موسوم‬
‫کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر میں کسی خاص حس کو استعمال میں لئوں‪ ،‬تو یہ میری‬
‫سوچ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس وقت سے میں نے یہ جاننا شروع کیا ہے کہ‪ ،‬کہ میں اب‬
‫پہلے کے مقابلے میں زیادہ پُر یقین اور ارام دہ حالت میں ہوں۔‬
‫لیکن میں اب بھی خود کو سوچنے کے عمل سے نہیں روک سکتا‪ ،‬ایک ایسی سوچ‬
‫جس کا عکس میرےے زہ ن میں خیالت سےے بنتا ہے۔ے جن کو ادراک سےے جانچا جا‬
‫سکتا ہے۔ یہ خیالت کا وہ حصہ ہے جن کو ہم تصورات کے زمرے میں نہیں ل سکتے۔‬
‫اگر چہ یہ کہنا کسی حد تک احمقانہ ہو گا کہ میں ان چیزوں کو بہتر طور پر سمجھتا‬
‫ہوں جن ک ے موجود ہون ے پر مجھے شک ہے ‪ ،‬جو میر ے لی ے اجنبی ہیں‪ ،‬اور جو مجھ‬
‫سے نہیں ہیں۔ سچ اس کے علوہ ہے جو میں سمجھتا ہوں‪ ،‬جو میں جانتا ہوں اور جو‬
‫میرے اصلیت سے منسلک ہے۔‬
‫اگر ایک لفظ میں کہوں‪ " ،‬میرا اپنا اپ" ۔ لیکن میں واضح طورپر دیکھ سکتا ہوں‬
‫ک ہ حالت کیا صورت اختیار کرت ے ہیں ۔ میرا زہ ن اوارگی کو پسند کرتا ہے اور میں‬
‫اس کو سچ کی حدود میں قید نہیں کر سکتا۔ بہت اچھے‪ ،‬مجھے اسے ایک اور رسی‬
‫پہنا لین ے دیجی ے تا کہ بعد میں جب ہمیں خیالت کی باگ کھینچنی پڑ ے تو ہم اسانی‬
‫کے ساتھ اس سےعہدہ برا ہو سکیں۔ ائیے ہم مشترکات سے اغاز کرتے ہیں۔ جن کے‬
‫بار ے میں ہ م پ ُر یقین ہیں ک ہ ی ہ چیزیں موجود ہیں‪ ،‬جن کو ہ م اجسام ک ے نام سے‬
‫جانتےے ہیں‪ ،‬جن کو چھ و سکت ے ہیں اور دیکھے سکتےے ہیں۔ے جن کےے بارےے میں ہمارے‬
‫نظریات و افکار عام طور پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ صورتحال کو سلجھانے‬
‫کےلیے اور اپنے خیالت کو صحیح سمت میں رکھنے کے لیے ہم اغاز میں صرف ایک‬
‫جسم ک ے بار ے میں فرض کرت ے ہیں ۔ مثال ک ے طور پر موم کا ایک ٹکڑا ۔ اس کو‬
‫ابھی ابھی اپنے چھتے سے جدا کیا گیا ہے‪ ،‬اور یہ ابھی تک گیل ہے‪ ،‬اور ابھی تک میٹھا‬
‫ہے‪ ،‬اور اسے کے اندر شہد کی مٹھاس ہے وہ شہد جو اس کے اندر ہے۔‬
‫اور اس کے اندر ابھی تک ان پھولوں کی مہک ہے جن کے رس سے یہ تشکیل پایا ہے‪،‬‬
‫اس کا رنگ ‪ ،‬اس ک ے خدوخال اور اس کا حجم ظاہ ر ی چیزیں ہیں۔ ی ہ سخت ہے‪،‬‬
‫ٹھنڈا ہے اور اسانی کے ساتھ چھوا جا سکتا ہے‪ ،‬اور اگر اپ انگلی سے اس کو ضرب‬
‫لگاتے ہیں ‪،‬اس کے اندر سے اواز نکلے گی۔ یعنی کہ وہ تمام باتیں اور تجزیے جن کی‬
‫مدد سے ہم کسی چیز کو ایک جسم کے لحاظ سے شناخت کر سکتے ہیں‪ ،‬وہ تمام‬
‫خصوصیات اس کےے اندر موجو د ہیں۔ے لیکن خیال رہےے کہے جب ہ م اس کو اگ پر‬
‫رکھتے ہیں‪ ،‬اس کا زائقہ بدل جا تا ہے‪ ،‬اس کے اندر سے مہک نکل جاتی ہے‪ ،‬اس کا‬
‫رنگ تبدیل ہ و جا تاہے ‪ ،‬اس ک ے خدوخال تبا ہ ہ و جات ے ہیں‪ ،‬اس کا حجم بڑ ھ جاتا ہے‬
‫اور یہ مائع میں تبدیل ہو جا تا ہے۔ اب اسے اسانی کے ساتھ برتا نہیں جا سکتا۔‬
‫اس ے انگلی ک ے سات ھ ضرب لگائیے۔ کیا اب بھ ی اس ے ک ے اندر س ے اواز نکل ے گی۔‬
‫سوال یہ ہے کہ یہ موم کا ٹکڑا گرم کرنے کے بعد بھی وہی پہلے وال موم کا ٹکڑا ہے ۔‬
‫اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اور وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی اصل میں کیا‬
‫ہے۔ کیا اس حالت میں اس موم کے ٹکڑے کو دیکھنے وال شخص اس کو گرم کرنے‬
‫سے پہلے والی حالت میں تصور کر سکتا ہے ‪ ،‬یا اس ک ے خدوخال زہن میں ل سکتا‬
‫ہے یا یہ مان سکتا ہے کہ یہ وہی پہلے وال موم کا ٹکڑا ہے۔ اگرچہ میں اپنی حسیات کو‬
‫بروئےے کار لت ے ہوئ ے ی ہ جان سکتا ہوں ک ہ اس ک ے اندر وہ ی زائق ہ ‪ ،‬خوشبو ‪ ،‬رنگ‬
‫موجود ہے لیکن بہرحال یہ ماننا پڑے گا‪ ،‬کہ یہ پہل ے وال موم کا ٹکڑا نہیں ہے۔ شاید یہ‬
‫وہی ہے جو میں اب سوچتا ہوں۔ کہ یہ موم کا ٹکڑا اصل میں شہد کے اس چھتے کا‬
‫حص ہ نہیں ہے ‪ ،‬کیونک ہ اس میں شہ د کی و ہ مٹھاس باقی نہیں ہے ‪ ،‬اور ن ہ ہ ی پھولوں‬
‫کی و ہ مہ ک ہے ن ہ ہ ی اس ک ے اندر و ہ مخصوص سفیدی ہے ‪ ،‬ن ہ اس ک ے و ہ خدوخال‬
‫ہیں‪ ،‬اور نہ ہی انگلی سے ضرب لگانے پر اس کے اندر سے وہ پہلے والی اواز نکلتی‬
‫ہے۔ لیکن سادہ سی بات یہ ہے اس کے اندر یہ تمام خصوصیات تھوڑی دیر پہلے ( گرم‬
‫کرنے سے پہلے) موجود تھیں۔ اور یہ خصوصیات‪ ،‬کچھ دوسری خصوصیات کے نیچے‬
‫دب گئیں ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اگر درست طور پر کہا جائے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ‬
‫اس بات پر منحصر ہے کہ میں کس طرح اپنے خیالت کو تشکیل دیتا ہوں۔ اب غور‬
‫سے اس کا تجزیہ کیجیے اور تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ اس کے اندر وہ‬
‫تما م خصوصیات موجود نہیں ہیں‪ ،‬جو موم کےے اندر موجود ہونی چاہیں۔ے ائیے‬
‫دیکھتے ہیں کہ باقی کیا بچا۔ یقینی طور پر باقی رھ جانے والی چیز ایک مائع اور بہہ‬
‫جانے والی چیز ہے۔ لیکن اصل میں بہن ے والی ‪ ،‬کھینچ جان ے والی چیز کا مفہوم کیا‬
‫ہے۔‬
‫ایسا نہیں ہے ک ہ میں ی ہ سوچتا ہوں ک ہ موم کا ی ہ ٹکڑا گول ہ و گیا ہے ‪ ،‬یا مربع نما‬
‫شکل اختیار کر گیا ہے یا ی ہ انگلیوں ک ے مثلث ک ے درمیان س ے گزر سکتا ہے ۔ نہیں‬
‫یقیینا ً ایسا نہیں ہے۔ اب میں فرض کرتا ہوں یہ ایسی بہت سی تبدیلیوں س ے گزرتا‬
‫ہے ۔ اور یہ بات میرے خیالت سے ماوراء ہے کہ ان بےشمار تبدیلیوں جن سے موم کا‬
‫یہ ٹکڑا گزرا ہے ان تبدیلیوں کی حقیقی سمت کون سی ہے۔ اور تتینیجتا ً یہ سوچ کہ‬
‫موم کا ٹکڑا محض تصوراتی نہیں ہے اگر اس کو مذید سوچا جائ ے تو ی ہ ہمار ے لیے‬
‫اجنبی بھ ی نہیں ہے۔ ی ہ ہجم میں بڑ ھ جاتا ہے جب اس کو گرم کیا جاتا ہے ‪ ،‬اس کا‬
‫ہجم اس وقت مذید بڑھ جائے گا جب اس کو اُبال جائے گا اور جیسے جیسے حرارت‬
‫کی مقدار بڑھاتے جائیں گے اس کا ہجم بھی بڑھتا جائے گا۔ اور ان تمام تجزیات کے‬
‫پیش نظر میں اب یقینی طور پر نہیں جانتا کہ موم کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موم کا‬
‫یہے ٹکڑا اپنےے اندر تبدیلیوں کو قبول کرکےے اپنےے خواص کےے بدلنےے کی اس قدر‬
‫صلحیت رکھتا ہے کہ جو میرے حواس سے بھی باہر ہے۔‬
‫مذکورہ بال تما م بحث کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ میرے حواس اس قدر‬
‫بھ ی قابل یقین نہیں ہیں ک ہ ان کی مدد س ے میں محض ی ہ جان سکوں ک ہ موم کا‬
‫ٹکڑا حقیقت میں کیا ہے اور کیسا ہے۔ اور میرا دماغ اکیل ہے جو اس کو ادراکی‬
‫سطح پر وصول کرتا ہے۔ اگر میں کہوں "ی ہ موم کا ٹکڑا" تو ی ہ موم ک ے ایک خاص‬
‫ٹکڑے کی طرف اشارہ ہے۔ اگر میں کہوں کہ یہ موم تب بھی یہ بات کسی قدر واضح‬
‫ہے ۔ لیکن اس صورتحال میں موم کے ایک ٹکڑے کو دماغ کا استعمال کیے بغیر نہیں‬
‫سمجھا جا سکتا ‪ ،‬یہ اس صورت حال کے لیے مخصوص ہے جب ہم موم کی ماہیت‬
‫پر غور کرت ے ہیں یعنی موم ک ے اس خاص ٹکڑ ے کا بار ے میں جس کا ہ م تجزی ہ کر‬
‫رہے ہیں‪ ،‬کیا واقعی ایسا نہیں ہے۔ ی ہ واضح طور پر ایسا ہے جس کو میں دیکھتا‬
‫ہوں‪ ،‬چھوتا ہوں‪ ،‬محسوس کرتا ہوں اور جس کے بارے میں شروع سے جانتا ہوں کہ‬
‫یہے کیسا ہے۔ے لیکن ان تبدیلیوں کےے بعد اس کےے بارےے میں میرےے خیالت محض‬
‫تصورات نہیں ہیں ۔ ن ہ میں اس کو دیک ھ سکتا ہوں ( پہل ے والی حالت میں) ن ہ چھو‬
‫سکتا ہوں‪ ،‬نہ تصور کر سکتا ہوں‪ ،‬یہ پہلے کبھی بھی ایس نہیں تھا‪ ،‬جیسا کہ میں اس‬
‫کےے بارےے میں جانتا ہوں۔ے کیا اب یہے محض میرےے دماغ کی توقعات نہیں ہیں‪ ،‬جو‬
‫ادھوری اور پریشان کن تھیں۔ جب ک ہ اب میں اس ک ے بار ے میں زیاد ہ واضح طور‬
‫پر جانتا ہوں۔ اگرچہ میرے سوچنے اور سمجھنے کی صلحیتوں کی سمت کم یا زیادہ‬
‫اس ک ے عناصر ک ے بار ے میں ہے ‪ ،‬جن س ے مل کر ی ہ بنا ہے۔ اگرچ ہ اسی اثناء میں‬
‫میں ا ُس وقت چونک گیا جب میں ن ے فرض کیا ک ہ (اپن ے زہ ن کی کمزوری کو مدِ‬
‫نظر رکھت ے ہوئے ) میں کس قدر غلطی پر ہ و سکتا ہوں۔ اگر چہ میں ی ہ تمام باتیں‬
‫ظاہ ر کی ے بغیر اپن ے زہ ن میں رکھتا ہوں‪ ،‬ی ہ تصور کی ے بغیر‪ ،‬الفاظ اکثر مجھے اپنے‬
‫مفاہیم کے لحاظ سے پریشان کرتے ہیں اور میں عام زبان کی اصطاحات سے عام‬
‫طورپر دھوکا کھا جاتا ہوں۔‬
‫جیسا کہ ہم کہیں کہ ہم مو م کا وہی ٹکڑا دیکھ رہے ہیں جو یہ گرم کرنے سے پہلے تھا‪،‬‬
‫جس کو ہ م چھ و سکت ے تھے اور جس کی خوشبو کو محسوس کر سکت ے تھے ‪ ،‬اور‬
‫اس کا وہی رنگ ہے اور وہی خدوخال۔ اس سے میں یہ تتیجہ نکالوں گا کہ میں موم‬
‫کے اس ٹکڑے کو اپنی بصارت کے یقینی (کسی حد تک یقینی) لحاظ سے جانتا ہوں‬
‫اور یہ صرف میرے زہن کا تصور نہیں ہے۔ جیسا کہ میں کھڑکی سے باہر دیکھتےہوئے‬
‫ی ہ کہوں ک ہ میں ن ے سڑک پر س ے گزرت ے ہوئ ے ادی کو دیکھ ا ہے ‪ ،‬اگرچ ہ جو کچ ھ میں‬
‫نےے دیکھ ا ہےے ان کو حقیقی طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا‪ ،‬لیکن میں اپنےے زہنی‬
‫اعتقادات کو بروئے کار لتے ہوئے یہی کہوں گا کہ میں نے سٹرک پر سے ادمی گزرتے‬
‫ہوئ ے دیکھ ا ہے ‪ ،‬ٹھیک اسی طرح تبدیل شد ہ موم کو بھ ی جو بہ ت سی تبدیلیوں کو‬
‫اپن ے اندر سمو چکا ہے (گرم کرن ے ک ے بعد) میں اپن ے سابق ہ زہنی اعتقاد کو بروئے‬
‫کار لت ے ہوئ ے کہوں گا ک ہ ی ہ موم ہے۔ جب میں کھڑکی س ے باہ ر دیکھتا ہوئ ے ی ہ کہتا‬
‫ہوں کہ میں نے ادمیوں کو دیکھا ہے کیا حقیقت میں میں واقعی ادمیوں کو دیکھ رہا‬
‫ہوتا ہوں‪ ،‬یا میں ایسی خود کا رمشینوں کو دیک ھ رہ ا ہوتا ہوں جنہوں ن ے کوٹ پہنے‬
‫ہوئے ہوتے ہیں؟‬
‫لیکن میں ان کو حقیقت س ے قطع نظر ادمیوں ک ے طور پر پہنچانتا اور جانتا ہوں‬
‫اور اس عمل میں میرا دماغ خود کار طریقے سے میری مدد کرتا ہے اور میں اس‬
‫بات کو سچ مانتا ہوں جو میں اپنی انکھوں س ے دیک ھ رہ ا ہوتا ہوں ۔ ایک ادمی جو‬
‫اپنی زندگی کا مقصد یہ بنا لے‪ ،‬کہ اس نے اپنے علم کو بڑھانا ہے‪ ،‬اب اس کو فضول‬
‫گو لوگوں کی باتوں س ے اپن ے زہ ن کو شک س ے الود ہ ہونے سے بچانا چاہی ے اور اس‬
‫بات سے شرمسار ہونا چاہیے۔ میں اس بات سے سرسری طور پر قطع نظر کروں‬
‫گا اور یہ فرض کرتا ہوں کہ جب میں نے موم کو پہلی بار دیکھا تھا اور اپنے زہن میں‬
‫موجود خیالت کی مدد س ے ‪،‬بطور موم اس کو پہچانا تھا‪ ،‬وہ ی کسی حد تک سچ‬
‫تھا‪ ،‬اور جب مجھے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے تب میں اسے اپنی بیرونی حسیات‬
‫کی مدد سے پہچانتا ہوں یا کم ازکم اپنی عام فہم کی مدد سے ۔‬
‫اب یہ کہنا پڑے گا کہ اپنے تصوراتی نظام کی مدد سے میری موجودہ فہم کی سطح‬
‫جو بھ ی ہ و ی ہ اب بہ ت حد تک واضع ہے ک ہ میں موم ک ے ٹکڑ ے کو بہ ت احتیاط کے‬
‫سات ھ تجزیاتی عمل س ے گزار چکا ہوں اور میں جانتا ہوں ک ہ ی ہ کیا ہے ‪ ،‬اور ی ہ جانتا‬
‫ہوں کہے کس طرح اس کی اصل ماہیت کو پہچانا جا سکتا ہے۔ے موم کےے ٹکڑےے کا‬
‫میر ے زہ ن مین پہل تاثر کیا تھا؟ و ہ ایک شک الود بات تھی ۔ و ہ تاثر (ظاہری تاثر)‬
‫کوئی بھ ی جانور اپن ے زہ ن میں قائم کر سکتا ہے۔ لیکن اب اس سار ے تجزی ے کے‬
‫بعد میں اپنےے علم میں پختہے اور پ ُر یقین ہوں ‪ ،‬میں نےے صرف اپنی حسیات پر‬
‫بھروس ہ کرک ے غلط تاثر کو حقیقت نہیں مانا‪ ،‬میں ن ے اس کی ماہیت پر غور کیا‪،‬‬
‫تبدییلیوں س ے وقوع پذیر ہون ے والی حقیقتوں کو مد ِ نظر رکھ ا اور اب میں کسی‬
‫یقینی حد تک جانتا ہوں کہے موم کا ٹکڑا اصل میں کیا ہے‪ ،‬اگرچہے اس بات کے‬
‫امکانات واضع ہیں کہے اب بھ ی میر ے نتائج میں کئی قسم کی غلطیاں موجود ہو‬
‫سکتی ہیں اور میں اسرار بھی نہیں کرتا کہ میرے اخذ کردہ نتائج حتمی اور درست‬
‫ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اب میں اپنے تصور میں اور نتائج میں زیادہ پُر یقین‬
‫ہوں۔‬
‫ایک اور چیز کا اضاف ہ کرنا چاہوں گا‪ ،‬ک ہ میں زہ ن ک ے بغیر کسی قسم ک ے نتائج پر‬
‫نہیں پہنچ سکتا ۔ اور اخر میں میں زہ ن ک ے متعلق کچ ھ کہنا چاہوں گا ۔ زہ ن کیا ہے؟‬
‫کیا میرا اپنا اپ محض زہن ہے۔ زہن میرے اندر موجود ہے‪ ،‬کیا زہن کے بغیر میں کچھ‬
‫نہیں ہوں ۔ میں موم ک ے اس ٹکڑ ے کو زہ ن ک ے بغیر صحیح انداز میں کیس ے سمجھ‬
‫سکتا تھا ۔ یقیننا ً زہ ن ک ے بغیر میں موم ک ے متعلق زیاد ہ واضح اور سچ ے نتائج تک‬
‫نہیں پہنچ سکتا۔ے کیا میں اپنےے اپ کو نہیں جانتا ہوں۔ے کیا میں اپنےے اپ کو زیادہ‬
‫سچائی اور یقین ک ے سات ھ نہیں جانتا ہوں ۔ اگر میں ی ہ کہوں ک ہ میں موم کو جانتا‬
‫ہوں کیونکہ میں اسے دیکھ سکتا ہوں‪ ،‬تب دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے‪ ،‬کہ‬
‫میں موم کو دیکھ سکتا ہوں اس لیے میں اسے جانتا ہوں۔‬
‫لیکن اس سے یہ شبعہ پیدا ہوتا ہے‪ ،‬کہ جس چیز کو میں دیکھ رہا ہوں ‪ ،‬کیا یہ واقعی‬
‫موم ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے میرے پاس انکھیں نہ ہوں جن سے میں کسی چیز کو‬
‫دیکھ سکوں۔ لیکن ایسی صورتحال میں جب میں دیکھتا ہوں یا میں سوچتا ہوں کہ‬
‫میں دیکھتا ہوں‪ ،‬اور اسی طرح اگر میں کہوں ک ہ موم موجود ہے کیونک ہ میں اسے‬
‫چھو سکتا ہوں ۔ لیکن اگر کسی وجہ سے میں موم کو چھو نہ سکوں تو کیا موم کا‬ ‫ُ‬
‫وجود نہیں رہے گا۔ یقیننا ً ایس نہیں ہے۔ موم کی یہی مثال دوسری تما م چیزوں پر‬
‫لگو کی جا سکتی ہے جو مج ھ س ے باہ ر موجو د ہیں ۔ اور موم ک ے متعلق میر ے یہ‬
‫خیالت و بحث دوسری تمام چیزوں پر لگو کی ے جا سکت ے ہیں‪ ،‬جو مج ھ س ے باہر‬
‫موجود ہیں اور مذید یہ کہ موم کے متعلق میرا علم محض دیکھنے یا چھونے کی حد‬
‫تک نہیں ہے‪ ،‬بلکہ یہ کچھ دوسری وجوہات کے بناء پر زیادہ واضح اور سچ ہے کہ موم‬
‫موجود ہےاب میں یہ بات کس قدر پُر یقین انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنے اپ‬
‫کو جانتا ہوں ۔ و ہ تمام وجوہات ‪ ،‬اعضاء اور دوسر ے امور جو موم ک ے متعلق میرا‬
‫علم پختہ کرنے میں میرا ساتھ دیتے ہیں اور دوسری کوئی بھی چیز جس کے متعلق‬
‫میں نہیں جانتا‪ ،‬یہ اس بات کے بہترین ثبوت ہیں جو میرے زہن کی فطرت کو واضع‬
‫کرت ے ہیں ۔ اور اسی طرح زہ ن میں بھ ی بہ ت سی باتیں موجود ہ و سکتی ہیں‪ ،‬جو‬
‫کسی ن ہ کسی انداز میں جانن ے ک ے اس عمل میں مددگار ثابت ہوتی ہیں‪ ،‬جب ہم‬
‫کسی جسم رکھنےے والی چیز کا تجزیہے کرتےے ہیں ‪ ،‬جیسا کہے ابھی اوپر دی گئی‬
‫مثالوں میں ہم نے انسانوں اور موم کا تذکرہ کیا۔‬
‫ان چیزوں کو ہمیں احتیاط سے گنتی میں لنا چاہیے۔ لیکن یہاں پر نہ سمجھنے والے‬
‫انداز میں میں پہلے نقطے کی طرف جائو ں گا جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا‬
‫کہے اجسام کو صرف حسیات کی مدد سےے نہیں جانا جا سکتا اور نہے ہی صرف‬
‫تصورات کی مدد سے بلکہ یہاں پر ہم ایک بہتر اصطلح لئیں گے‪ ،‬جس کو ہم "فہم"‬
‫کا نام دیں گے۔ اور چونکہ وہ صرف چھونے اور دیکھنے کی وجہ سے نہیں پہچانے اور‬
‫جانے جاتے‪ ،‬بلکہ ہم اُن کو سمجھتے ہیں‪ ،‬اور اسی سمجھ کی وجہ سے اُن کی پہچان‬
‫اور اُن کی ماہیت ‪ ،‬اور اُن کی اصلیت کا راز ہ م پر ُکھل تا ہے۔ میں یہ واضح طور پر‬
‫دیکھتا ہوں ک ہ اپن ے زہ ن س ے زیاد ہ اسان سمجھن ے ک ے لی ے میر ے پاس اور کوئی چیز‬
‫نہیں‪ ،‬لیکن ی ہ کسی بھ ی شخص ک ے لی ے بہ ت مشکل ہوتا ہے ‪ ،‬ک ہ و ہ ان عقائد سے‬
‫چھٹکارا پا سکے‪ ،‬جن کو وہ لمبے عرصے سے اپنے زہن میں رکھے ہوئے ہے۔ یہ بہتر ہو‬
‫گا اگر میں اس نقط ے پر زرا دیر ک ے لی ے ٹھہ ر جائوں اور میں اپن ے تفکر س ے اپنے‬
‫زہن میں اپنے اس نئے اخذ کردہ علم کو اچھی طرح سے رقم کر لوں۔‬

‫"تیسرا تفکر"‬
‫)خدا کے متعلق ‪ ،‬کہ وہ موجود ہے(‬
‫اب میں اپنی انکھیں بند کرتا ہوں‪ ،‬اپنے کان بند کرتا ہوں اور اپنی تمام حسیات سے‬
‫قطع تعلق کرتا ہوں ۔ میں اپنےتمام جسم ک ے متعلق زہنی خیالت کو خالی‪ ،‬غلط‬
‫اور بیکار تصور کرتا ہوں ۔ میں خود س ے گفتگو کروں گا ۔ خود کو گہرائی میں جج‬
‫کرت ے ہوئے اور اسی طرح خود کو جاننے کی بہتر انداز میں کوشش کروں گا۔ میں‬
‫سوچن ے والی چیز ہوں‪ ،‬مثل ً ایس ے شکوک‪ ،‬اقرار‪ ،‬انکار‪ ،‬کچ ھ چیزوں کو سمجھنا‪،‬‬
‫بہت ساری چیزوں کی جہالت ہے۔ ارادے اور انکار یہ چیزیں نہ صرف یہ کہ تصور کی‬
‫جاتی ہیں‪ ،‬بلکہ حسی ادراک بھی رکھتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا حتٰی کہ‬
‫حسی تجربات اور تصورات کے اجسام اگر مجھ سے باہر اپنا وجود نہیں رکھتے‪ ،‬تب‬
‫بھی حسی ادراک اور تصورات بجائے خود دماغی واقعات و حادثات سمجھے جائیں‬
‫گے۔جیسا ک ہ خاص طور پر میر ے سات ھ ہوتا ہے۔ ی ہ ہ ر چیز کو ترتیب دیتا ہے جو میں‬
‫سچائی کے ساتھ جانتا ہوں‪ ،‬یا کم از کم ہر وہ چیز جس کو اب تک میں یہ سمجھتا‬
‫ہوں کہ میں جانتا ہوں۔‬
‫اب مکمل احتیاط ک ے سات ھ میں ی ہ دیکھن ے کی کوشش کروں گا ک ہ میں ن ے اپنے‬
‫متعلق دوسر ے ضروری امور اور حقائق کا جائز ہ لیا ہے یا نہیں ۔ میں ی ہ بات پورے‬
‫یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ میں غور و فکر کرنے وال ہوں۔ کیا یہ مجھے نہیں بتاتا کہ‬
‫مجھے کسی بھی چیز کے متعلق کیسا ہونا چاہیے۔ علم کے اس پہلے نقطے میں وہاں‬
‫ایک واضح اور قابل شناخت ادراک کہ میں کس چیز کو سچ جانتا ہوں‪ ،‬یہ مجھے اس‬
‫سے روکنے کے لیے ہرگز کافی نہیں ہو گی‪ ،‬اس سچ کے متعلق کہ اگر میں نے کبھی‬
‫کسی چیز کو سچ سمجھ ا تھ ا اور و ہ غلط نکلی ۔ تو اب یہاں میں عمومی قانون‬
‫بیان کرنا چاہوں گا ک ہ "ہ ر و ہ چیزسچ ہے جس کو میں ن ے واضح اور قابل شناخت‬
‫طریق ے س ے جانا" ۔ میں ن ے پہل ے کچ ھ چیزوں کو مکمل تضیع ک ے سات ھ جانا لیکن وہ‬
‫شک امیز تھیں جیسا کہ زمین‪ ،‬اسمان‪ ،‬ستارے اور بہت سی دوسری چیزیں جن کو‬
‫میں نے اپنی حسوں سے جانا اور پہچانا۔ لیکن اس صورتحال میں جو کچھ میں نے‬
‫جانا وہ سب خیالت تھے‪ ،‬جو ان چیزوں کے متعلق میرے زہن میں ائے۔‬
‫میں ابھ ی بھ ی اس بات س ے انکارنہیں کر رہ ا ہوں ک ہ و ہ خیالت میر ے اندر موجود‬
‫تھے۔ لیکن میرا اس بات پر بھی یقین ہے کہ میرے خیالت جو ان چیزوں کے متعلق‬
‫میرے زہن میں تھے‪ ،‬وہ ان چیزوں کی وجہ سے میرے زہن میں ائے جو میرے زہن سے‬
‫باہر اپنا وجود رکھتی تھیں‪ ،‬اور وہ خیالت اُن چیزوں سے بعینہ مماثلت رکھتے تھے۔‬
‫درحقیقت میں یقین رکھتا تھا اسی بات سے بہت لمبے عرصے تک کہ میں جس چیز‬
‫کو جانتا ہوں ا ُس کو بالکل صحیح اور واضح طور پر جانتا ہوں ۔ درحقیقت ی ہ غلط‬
‫تھا۔ اور اگر کسی وجہ سے سچ بھی تھا تب بھی یہ میرے ادراک کی طاقت ہرگز نہ‬
‫تھی۔‬
‫لیکن اس صورت میں کیا‪ ،‬جب میں فرض کر رہ ا تھ ا ک ہ کوئی چیز‪ ،‬جومیڑی اور‬
‫حساب میں‪ ،‬ساد ہ اور واضح‪ ،‬مثال ک ے طور پر دو اور تین مل کر پانچ بنات ے ہیں۔‬
‫کیا میں نے ان چیزوں کو اتنا واضح نہیں پایا تھا کہ میں ان کو سچ مان لیتا۔‬
‫درحقیقت صرف ایک وج ہ جو شک کرن ے ک ے لی ے مجھے ملی‪ ،‬و ہ تھی‪ ،‬ک ہ شاید کچھ‬
‫خدا نےے مجھےے بنایا ہے ‪ ،‬کہے میں دھوکاکھائوں۔ے حتیٰے کےے ان معاملت میں بھ ی جو‬
‫بالکل واضح تھے اور شک س ے مبرا تھے۔ جب کبھ ی میں اپن ے زہ ن میں اپن ے پُرانے‬
‫عقائد کو لیا جو خدا ک ے مطلق قوت ک ے متعلق تھے ‪ ،‬مجھے ی ہ تسلیم کرنا پڑا کہ‬
‫خدا ی ہ کر سکتا ہے ‪ ،‬اگر و ہ ی ہ کرنا چاہے۔و ہ اسانی س ے مجھے ان چیزوں ک ے متعلق‬
‫بھ ی گمرا ہ کر سکتا ہے جن کو میں سمجھتا ہوں ک ہ میں واضح طور پر جانتا ہوں۔‬
‫لیکن جب میں نے اپنے خیالت کو چیزوں کی وجودیت پر مرکوز کیا تب ایک مرتبہ‬
‫میرے زہن میں خیال ایا‪ ،‬کہ میں واضح طور پر چیزوں کو جانتا ہوں۔ میں نے اُن کو‬
‫اتنا واضح اور متاثر کن پایا کہ میں ایک دم چل اُٹھا کہ خدا کو مجھے گمراہ کرنے اور‬
‫دھوکا دینے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر لینے دو۔‬
‫وہ کبھی بھی مجھے باور نہیں کرا سکے گا کہ میں کچھ نہیں ہوں‪ ،‬جبکہ میں سوچتا‬
‫ہوں کہ کچھ ہوں یا یہ کہ یہ چیز مستقبل میں سچ ہوتی کہ میں کبھی موجود ہی نہیں‬
‫تھا۔ جبکہ میں اس لمحہ موجود میں اپنا وجود رکھتا ہوں۔ یا اُسے یہ کرنے دو کہ دو‬
‫جمع تین پانچ س ے زیاد ہ ہیں یا پانچ س ے کم‪ ،‬یا ایسی ہ ی کوئی چیز یا اس جیسی‬
‫جس میں مجھے واضع طور پر تفاوت نظر ائے۔ اور ی ہ بھی ک ہ ابھی تک میر ے پاس‬
‫کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کہیں کوئی دھوکا دینے وال خدا موجود ہے۔ اور حتٰی کہ میں یہ‬
‫بھ ی نہیں جانتا‪ ،‬مکمل یقین ک ے سات ھ نہیں جانتا ایا ک ہ خدا ہے بھ ی یا نہیں۔شک کی‬
‫وج ہ ی ہ ہے ک ہ اس فرضیت کی کلی وج ہ اس چیز پر منحصر ہے ک ہ خدا جو ک ہ مجھے‬
‫دھوکا دینا چاہتا ہے‪ ،‬تھوڑا سا زبانی کلمی طور پر حسابی ہے۔ے تاہم میں اس‬
‫معمولی سی وجہے کو بھ ی ختم کرنا چاہوں گا جو شک پیدا کرتی ہے۔ے تا کہے جب‬
‫مجھے موقع مل ے میں ی ہ تجزی ہ کر سکوں ک ہ کوئی خدا ہے اور اگر ہے و ہ دھوکا دے‬
‫سکتا ہے‪ ،‬اور اگر میں اس چیز کے ساتھ نبرد ازما نہیں ہو سکتا تب دیکھنا یہ ہے کہ‬
‫میں کیا کسی چیز کے متعلق کبھی بھی پُر یقین انداز میں کچھ کہہ سکوں گا۔ پہلے‬
‫اگر میں ترتیب کےے ساتھے چلوں تب میں اپنےے خیالت کو ترتیب دوں کچھے خاص‬
‫اقسام کے لحاظ سے اور تب یہ جانوں گا کہ کوئی اقسام ٹھیک طور سے اسی ہیں‬
‫جن کو صحیح یا غلط کہا جا سکتا ہے۔‬
‫میرے کچھ خیالت جیسے بولنا‪ ،‬تصویروں کے متعلق‪ ،‬تصوارت کے متعلق اور چیزوں‬
‫ک ے متعلق ایس ے ہیں جن کو ایک مثال کی مدد س ے بیان کرتا ہوں ۔ جب میں ایک‬
‫ادمی کےے متعلق سوچتا ہوں‪ ،‬یا ایک کیمرےے کےے متعلق سوچتا ہوں یا اسمان کے‬
‫متعلق سوچتا ہوں یا فرشتے اور خدا کے متعلق سوچتا ہوں‪ ،‬میں واضح طور پر کہتا‬
‫ہوں‪ ،‬کہ یہ خیالت ایسے ہیں جن کو تصورات کہنا چاہیے۔ اور کچھ دوسرے خیالت ان‬
‫ک ے علو ہ ہیں۔ے مثال ک ے طور پر اگر میں کسی چیز س ے خوفزدہے ہوں تب میرے‬
‫خیالت کسی خاص چیز کو ظاہ ر کریں گے۔ لیکن اس میں کچھ ایسی چیزیں بھی‬
‫شامل ہوں گی جو ا ُن چیزوں کی موزومیت ک ے علو ہ ہوں گی ۔ اس فہرست میں‬
‫کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو جذبات یا خواہشات کہا جا سکتا ہے‪ ،‬جن کو فیصلے یا‬
‫تجربے کا نام دیا جا سکتا ہے۔‬
‫جب خیالت کو واحد اور یکتا فرض کیا جاتا ہے اور ان کو کسی دوسری چیز کے‬
‫سات ھ جوڑا نہیں جاتا‪ ،‬و ہ غلط نہیں ہ و سکتے۔ جیسا ک ہ اگر ایک بکری ہے ‪ ،‬جس کو‬
‫فرض کریں‪ ،‬یا ایک کمرہ ہے‪ ،‬یہ ہر طرح سے ٹھیک ہے ‪ ،‬جب میں ان کو تصور میں‬
‫لتا ہوں۔ اور اسی طرح ارادے اور جذبات میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی‪ ،‬یہاں تک‬
‫ک ہ جن چیزوں کو میں تصور میں لتا ہوں‪ ،‬اپنا وجو د نہیں رکھتیں ۔ یہاں تک بھی‬
‫ٹھیک ہے ک ہ میں ا ُن کو چاہتا ہوں ۔ ا ُن سب ک ے علو ہ خیال کی ایک اور قسم جس‬
‫میں موجود غلطیوں پر مجھے لزما ً غور کرنا ہو گا‪ ،‬تجربات ہیں۔ اور اس صورتحال‬
‫میں عام طور پر جو غلطی ہوتی ہے کہ میرے خیالت اُس چیز سے ملتے ہیں یا نہیں‪،‬‬
‫جس کے متعلق میں سوچتا ہوں‪ ،‬اور میرے وجود سے باہر اپنا وجود رکھتی ہیں۔ بے‬
‫شک اگر میں خیالت کو ساد ہ طور پر اپنی سوچ کا عکس سمجھوں اور ان کو‬
‫سی دوسری چیز کے ساتھ نہ جوڑوں‪ ،‬تب غلطی کا امکان کم سے کم ہوتا جائے گا۔‬
‫میرے کچھ خیالت پیدائشی ہیں‪ ،‬کچھ باہر سے (مستعار) لیے گئے ہیں‪ ،‬اور باقی میں‬
‫نے خود اپیدا کیے ہیں۔ جیسا کہ کسی چیز کے متعلق اپنی سمجھ سے دیکھتا ہوں کہ‬
‫سچ کیا ہے اور خیال کیا ہے‪ ،‬میری اپنی زات سے جنم لیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ‬
‫ہوا کہ یہ پیدائشی ہیں‪ ،‬میرا اواز کا سننا‪ ،‬سورج کا دیکھنا اوراگ کو محسوس کرنا‪،‬‬
‫اُن چیزوں سے ہے جو مجھ سے باہر ہیں ‪ ،‬اور اوازیں اور دوسری چیزیں میری ایجاد‬
‫ہیں۔ لیکن شاید تمام میرے خیالت باہر سے وارد ہوت ے ہیں‪ ،‬یا سب پیدائشی ہیں یا‬
‫سب بنائ ے گ ے ہیں‪ ،‬لیکن میں ان خیالت کا صحیح مخزن نیہ ں جانتا ک ہ یہ کہاں سے‬
‫اتے ہیں۔‬
‫لیکن میرا اصل سوال اس بات س ے متعلق ہے ک ہ ایس ے خیالت جو باہری چیزوں‬
‫کی وجہ سے میرے اندر اتے ہیں‪ ،‬میں ایسا کیوں سمجھتا ہوں اُن کے متعلق کہ وہ ان‬
‫چیزوں س ے مشابہ ت رکھت ے ہیں۔ فطرت ظاہری طور پر مجھے بتاتی ہے ک ہ و ہ واقع‬
‫ان چیزوں جیسےے ہیں‪ ،‬لیکن اپنےے تجربےے سےے میں یہے بھ ی جانتا ہوں کہے یہے خیالت‬
‫میری خواہ ش ک ے پابند نہیں ہیں ۔ چنانچ ہ ان خیالت کا انحصار مج ھ پر نہیں ہے۔ یہ‬
‫عام طور پر میری خواہش کے بغیر میر ے زہ ن میں اتے ہیں جیسا کہ ابھی مثال کے‬
‫طور پر مجھے حرارت محسوس ہو رہی ہے۔ اب حرارت کا یہ احساس اس بات پر‬
‫منحصر نہیں ہے کہ میں حرارت محسوس کرنا چاہتا ہوں یا نہیں۔‬
‫اور یہ ی بات مجھے ی ہ سوچن ے پر مجبور کرتی ہے ک ہ حرارت کا ی ہ احساس کسی‬
‫ایسی چیز کی وج ہ س ے ہے ‪ ،‬جو مج ھ س ے باہ ر موجو د ہے۔ اگر میں واضع طور پر‬
‫کہوں تو یہ اگ کی حرارت ہے جس کے سامنے مٰں بیٹھا ہوا ہوں اور ایسا فرض کرنا‬
‫بالکل فطری ہ و گا ک ہ بیرونی چیزوں کی وج ہ س ے جو احساس پیدا ہوتا ہے و ہ ان‬
‫بیرونی چیزوں کی فطرت سےے ملتا جلتا ہوتا ہےے نہے کےے ان کےے مخالف۔ے ائیےے اب‬
‫دیکھتےے ہیں یہے میرےے دلئل اور باتیں کس قدر مضبوط ہیں‪ ،‬جب میں کہتا ہوں کہ‬
‫فطرت ن ے مجھے بتایا ہے ک ہ کس طرح سوچا جائے ‪ ،‬تو اس کا مطلب ی ہ ہوتا ہے کہ‬
‫خود بخود طریق ے س ے مجھے اس کو ماننا پڑ ے گا ن ہ ی ہ ک ہ میں ی ہ دکھ ا رہ ا ہوں ک ہ یہ‬
‫کسی فطری روشنی کا سچ ہے۔ ان دونوں ک ے درمیان بہ ت زیاد ہ فرق ہے۔ چیزیں‬
‫جو ک ہ الحامی روشنی کی وج ہ س ے پہچانی جاتی ہیں‪ ،‬مثال ک ے طور پر اگر میں یہ‬
‫کہوں ک ہ مجھے شک ہے کہ مٰ ں موجود ہوں کہ نہیں‪ ،‬تب اس بات کو پرکھن ے کے لیے‬
‫ایک الحامی روشنی کےے علوہے کوئی زریعہے نہیں جس سےے اس بات کےے سچھے یا‬
‫جھوٹ ہونے کا پتہ چلے۔‬
‫میں اکثر سوچتا ہوں کہے میرےے یہے فطری توجہات مجھےے غلط راستےے کی طرف‬
‫دھیکلتے ہیں اور مجھے کوئی ایسی وجہ نہیں ملتی کہ میں اُن پر بھروسہ کروں۔ تب‬
‫ایک مرتبہ پھر اگر یہ خیالت میری مرضی یا خواہش پر منحصر نہیں ہیں‪ ،‬تب یہ بھی‬
‫ضروری نہیں ہیں ک ہ یہ ایسی چیزوں کی وج ہ سے میرے زہ ن مٰ ں ائیں جو مج ھ سے‬
‫باہر موجود ہیں۔ شاید یہ میری کسی ایسی چیز کی وجہ سے میرے زہن میں اتے ہیں‬
‫جو میری مرضی کے علوہ ہیں۔ اور میں مکمل طور پر نہں جانتا کہیہ اصل میں کیا‬
‫چیز ہیں۔ اور یہ بیرونی چیزوں کی مدد کے بغیر خیالت کو پیدا کرتی ہے اور یہی وہ‬
‫چیز ہےے جس کےے بارےے میں اخرکار مجھےے کہنا پڑتا ہےے کہے جس کےے بارےے مٰ ں میں‬
‫ہمیش ہ س ے سوچتا رہ ا ہوں ک ہ حالت خواب میں‪ ،‬خیالت کس طرح س ے میر ے زہن‬
‫میں پیدا ہوت ے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح س ے ی ہ فطری نبضیں جن ک ے بار ے مٰ ں میں‬
‫بات کر چکا ہوں اگرچہے یہے ظاہری طور پر میری خواہش اور ارادےے کےے مخالف‬
‫دکھائی دیتے ہیں میرے اندر ہی سے پیدا ہوتے ہں۔ اور یہ اس بات کا کافی ثبوت مہیا‬
‫کرت ے یہ ں ک ہ ی ہ ایسی بہ ت سی چیزوں ک ے مج ھ س ے سرذد ہون ے کی وج ہ ہ و سکتے‬
‫ہیں جو میں نیہں چاہتا اور نہ ہی یہ چیزیں میرے ارادے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی‬
‫ہیں۔ اخر کار حتٰی کے اگر یہ خیالت ایسی چیزوں کی وجہ سے تشکیل پاتے ہیں جو‬
‫مج ھ س ے باہ ر موجود ہوں تب ی ہ ضروری نہیں ہے ک ہ ی ہ خیالت ان چیزوں س ے ملتا‬
‫جلتے ہوں۔‬
‫حقیقت میں میں سمجھتا ہوں کہے میں نےے اکثر چیزوں کو اپنےخیالت سےے بہت‬
‫مختلف پایا ہے جیسا کہ میں اُن کے بارے مٰں سوچتا تھا‪ ،‬مثال کے طور پر سورج کے‬
‫بارے میں میرے زہن میں دو خیالت تھے‪ ،‬ایک خیال کو ہم حسی یا ادراکی کہہ سکتے‬
‫ہیں‪ ،‬ی ہ کسی بھ ی تصور کی بہترین مثال ہے ک ہ میں ن ے سوچا ک ہ میر ے پاس ایسا‬
‫بیرونی زریعہ ہونا چاہیے‪ ،‬جس کی وجہ سے سورج کو بہت چھوٹے وجو د مٰن ڈھال جا‬
‫سکتا ہے۔ اور دوسرا خیال جو سورج کے متعلق میر ے زہن میں تھا ی ہ علم ہیت کے‬
‫تعقلت کی وجہ سے تھا۔ اور یہ اس لیے تھے کہ ایسے خیالت پیدائشی طور پر میرے‬
‫اندر موجود تھے یا وقت ک ے سات ھ سات ھ خود میں ن ے اپن ے زہ ن مٰ ں تشکیل د ے دیے‬
‫تھے۔ اور ان خیالت ک ے مطابق سورج زمین س ے کئی گنا بڑا تھا ۔ اگرچ ہ بیوقت یہ‬
‫دونوں خیالت سورج سے مماثلت نہیں رکھ سکتے‪ ،‬اور میرے ادراک نے مجھےبتایا کہ‬
‫وہے تصور جو براہے راست سورج سےے منسلک ہےے سورج سےے زیادہے مطابقت نہیں‬
‫رکھتا ۔ ی ہ خیالت اور تصورات ی ہ دکھاتےے ہیں ک ہ نتائج زیاد ہ قابل اعتماد اور پائیدار‬
‫نہیں ہوتے لیکن ایک انجانے وجدان نے میری رہنمائی کی کہ بیرونی چیزیں اپنے سے‬
‫ملتا جلتا عکس میر ے ادراک اور حسیات کی وج ہ س ے یا کسی اور وج ہ س ے میرے‬
‫زہن میں بنا دیتی ہیں ۔ شاید کہ اگرچہ چانچ پرکھ کا ایک اور طریقہ بھی ہے‪ ،‬کہ کچھ‬
‫چیزوں ک ے بارےے میں میں جو خیالت رکھتا ہوں کیا وہے چیزیں مجھے س ے باہ ر بھی‬
‫موجود ہیں یا نہیں۔‬
‫کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ واقع مجھ سے باہر اپنا‬
‫وجود رکتھ ی ہیں‪ ،‬ساد ہ زہنی افعال ک ے بار ے میں فرض کیجیے۔ میر ے تمام خیالت‬
‫بالکل ایک جیسے اورایک ہی جیسی بنیادوں پر ہیں ‪ ،‬یہ تمام کے تمام میرے اندر سے‬
‫کسی نہ کسی زریعے سے تشکیل پاتے ہیں اوراب فرض کیجیے کچھ ایسی تصویروں‬
‫ک ے بار ے میں جو چیزوں کو پیش کرتی ہیں اور ایس ے طریق ے س ے پیش کرتی ہیں‬
‫جیساک ہ و ہ چیزیں نہیں ہیں ۔ ساد ہ الفاظ میں میں ی ہ کہنا چاہتا ہوں ک ہ و ہ تصویریں‬
‫اپن ے اصل چیزوں س ے بہ ت مختلف ہوتی ہیں‪ ،‬بلشک وشب ہ جو خیالت چیزوں کو‬
‫پیش کرت ے ہیں و ہ شمار اور مقدار میں کچ ھ زیاد ہ اپنا وجود رکھت ے ہیں۔و ہ چیزوں‬
‫سے زیادہ حقیقت کے عکاس ہوتے ہیں۔ اور اب کچھ ایسے خیالت کے بارے مٰں بحث‬
‫کرتےے ہیں جو چیزوں کی مقدار کو نہیں بلکہے چیزوں کی اصلیت کو جانچنےے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں اور چیزوں کی اصلیت کو پیش کرتے ہیں۔ ایک بار پھر اپنی اصل‬
‫بحث کی طرف پلٹے ہیں‪ ،‬وہ خیال جو ایک خدائے بزرگ و برتر کے متعلق میرے زہن‬
‫میں تشکیل پاتا ہے‪ ،‬جو کہ اندرونی ہے‪ ،‬لمحدود ہے ‪ ،‬کبھی نہ بدلنے وال ہے ۔‬
‫جو کہ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ خیال دوسرے ایسے تمام خیالت سے منفرد ہے جو‬
‫محدود چیزوں ک ے بار ے میں میر ے زہ ن میں ہیں۔ اب ی ہ بات واضح اور یقینی ہے کہ‬
‫فطری وجدان کی وجہ سے ہر چیز میں اس قدر حقیقت ضرور ہونی چاہیے جتنا وہ‬
‫اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اثر انداز ہون ے کی صلحیت کہاں سے حاصل کرتی ہیں‬
‫اور یہے حقائق کہاں سےے پاتی ہیں اور یہے تمام وجوہات کس طرح سےے اثرات کو‬
‫حقیقت عطاکرت ے ہیں ۔ حالنک ہ ی ہ تمام وجوہات پہل ے س ے خود اپن ے اندر حقیقت کا‬
‫پہلو رکھتی ہیں ۔ دو چیزیں اس زمن میں ہم بیان کر سکتے ہیں ۔ کہ چیزیں کسی نہ‬
‫کسی دوسری چیز سےے وجود پاتی ہیں۔ے سوال یہے ہےے کہے اب کون سی چیز زیادہ‬
‫مکمل ہے۔ پہلے سے موجود چیز یادوسری چیز جو اس کی وجہ سے وجود میں ائیں‬
‫اور ی ہ بات حقیقی اور بنیاد ہ سچائی کےلی ے ضروری ہے جیسا ک ہ فلسفر کہت ے ہیں‪،‬‬
‫بلکہے یہے خیالت کی سچائی کےے لیےے بھ ی ضروری ہے۔ے یہے وہ ی حقیقت ہےے جس کو‬
‫صرف ایک خیال پیش کر سکتا ہے‪ ،‬مثال کے طور پر ایک پتھر صرف اسی صورت‬
‫میں موجود ہو سکتا ہے جب کسی نے اس کو بنایا ہو۔‬
‫اسی طرح سے یہ کلیہ ہم تمام چیزوں پر لگو کر سکتے ہیں کہ چیزیں صرف اسی‬
‫صورت میں موجود ہو سکتی ہیں جب کسی نے اُن کو بنایا ہو۔‬
‫چنانچہ مثال کے طور پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی چیز صرف اسی صورت‬
‫میں گرم ہ و سکتی ہے ک ہ جب و ہ اپن ے اندر حرارت رکھتی ہو ۔ یا و ہ بیرونی حرارت‬
‫کی وج ہ س ے حرارت کو جذب کر ے اور گرم ہ و جائ ے ۔ ی ہ اکملیت کی ایک بہترین‬
‫مثال ہے ک ہ و ہ خود اگ نہیں ہیں لیکن بیرونی اگ کی حرارت کو جذب کرک ے اپنے‬
‫اندر ایک تبدیلی پیدا کرتی ہیں ۔ چنانچ ہ مثال ک ے طور پر ہ م کہہ سکت ے ہیں ک ہ خدا‬
‫خود گرم نہیں ہے لیکن و ہ کسی چیز کو گرم کر سکتا ہے۔ کیونک ہ حرارت اس کے‬
‫قبض ہ اخیتار میں ہے۔ لیکن ی ہ بھ ی سچ ہے ک ہ حرارت اور پتھ ر کا نظری ہ میر ے اندر‬
‫میر ے اپن ے خیالت کی وج ہ س ے پیدا ہوا ہے۔ اور ی ہ خیالت اگ اور پتھ ر کی فطرت‬
‫سے مطابقت رکھتے تھے اور ان پر مذید بحث کی جا سکتی ہے ۔ اگرچہ ان وجوہات‬
‫نے میرے زہن میں کوئی ایسا بنیادی اور حقیقی سچائی کا فرق پیدا نہیں کیا لیکن‬
‫پھر بھی ان کی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی خیال کو کسی‬
‫بھ ی بنیادی سچائی یا حقیقت کی ضرورت نہیں ہوتی ماسواء یہے کہے میں نےے اپنے‬
‫خیالت س ے اخذ کیا ہے اور ی ہ چیزوں کی مقدرا ک ے بار ے مٰ ں ہے یا ان کی اصل‬
‫ماہیت کے بارے میں۔ لیکن ایک ایسا خیال جو کہ حقیقت کا مظہر ہو‪ ،‬وہ اکم از کم‬
‫کسی ایس ے اثر کی وج ہ س ے اپن ے اندر حقائق ضرور پوشید ہ رکھتا ہ و گا ۔ جس قدر‬
‫وہ خیال اپنے اندر حقائق کو پوشیدہ رکتھا ہے اور یہ بھی کچھ کم حقیقی نہیں ہے۔‬
‫اگر ہ م فرض کرت ے ہیں ک ہ ایک خیال اپن ے اندر کچ ھ ایسی سچائی رکھتاہے جو اس‬
‫کی وجوہات میں موجو د نہیں ہیں‪ ،‬تب یہ اس کے اندرکسی ایسی چیز کی وجہ سے‬
‫موجود ہے جو لچیز ہے۔ اگرچ ہ حقیقت کی و ہ قسم جو کسی چیز کی حقیقت کو‬
‫بیان کرتی ہے ‪ ،‬زہ ن میں ایک خیال کی صورت میں اگرچ ہ ی ہ مکمل نہیں ہ و سکتی‪،‬‬
‫لیکن پھ ر بھ ی ہ م اس کو ل چیز نہیں ک ہ سکت ے اور ن ہ ہ ی ی ہ کسی لچیز س ے وجود‬
‫میں اتی ہے۔ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ جس حقیقت کا ذکر میں اپنے خیالت کے زمن‬
‫یہ کسی حد تک اپنے اندر‬ ‫مٰں کر رھا ہوں یہ خیالت کی تقریبا ً مظہر ہو سکتی ہے۔‬
‫سچائی کو اپن ے اندر چپھائ ے ہوئ ے ہے اگرچ ہ مکمل طور نہیں۔ قص ہ مختصر وج ہ خود‬
‫اپن ے اپ میں ایک خیال ہے کیونکہ صرف خیالت ہی حقیقت کو پیش کر سکت ے ہیں‬
‫لیکن غلطی کا امکان بہر طور موجود ہے۔ اگرچہ ایک خیال کا ماخذ دوسرا خیال ہو‬
‫سکتا ہے۔‬
‫یہ بات بھی درست ہے کہ ایس ے خیالت ک ہ لمحدود واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے‪،‬‬
‫درحقیقت ہر کسی کو اسی خیال پر واپس انا پڑتاہے جہاں پر وہ اس وجہ کو تلش‬
‫کر سکے جہاں پر وجہ بغیر خیال کے متمکن ہو ۔ اور یہی اصلی اور پہلی وجہ ہو گی‬
‫اور دوسری تمام وجوہات اسی پہلی وج ہ کی تصویریں ہیں‪ ،‬اور یہ ی پہلی وج ہ اپنے‬
‫اندر ازلی اور ابدی سچائی کو سموئے ہوئ ے ہے اور اس کے اندر اکملیت اپن ے اعلی‬
‫اور ارفع درج ے پر موجود ہے اور خیالت اسی سچائی اوراکملیت کا عکس پیش‬
‫کرت ے ہیں۔ پس فطری روشنی جس ے ہم وجدانی رہنمائی بھی کہہ سکتے ہیں‪ ،‬میرے‬
‫اوپر ی ہ بات واضع کرتی ہے کہ خیالت تصویروں اور عکس کی طرح ہیں‪ ،‬جو اصل‬
‫چیزوں کو پیش کرت ے ہیں ۔ ی ہ اپن ے اندر ان چیزوں کی کچ ھ ن ہ کچ ھ سچائی سموئے‬
‫ہوئ ے ہوت ے ہیں ۔ لیکن ی ہ خیالت اور عکس ان چیزوں ک ے اپن ے اندر موجود سچائی‬
‫سے بڑھ کر کسی سچائی کو مکمل طور پر پیش نہیں کر سکتے۔‬
‫ایک طویل عرصے تک میں نے احتیاط سے تجزیہ کیا کہ یہ تمام خیالت اپنے اندر جو‬
‫سچائی رکھت ے ہیں‪ ،‬میں ا ُن ک ے سچ اور حقیقت کو اچھ ی طرح پہچان لیا ہے لیکن‬
‫سوال یہ ہے کہ ‪ ،‬کیا یہ اپنے اندر کچھ نتائج بھی رکھتے ہیں۔ اور کیا میں کسی حتمی‬
‫نتیج ے پر پہنچ سکتا ہوں ۔ کوئی خیال جو ک ہ میرا ہے اس ک ے اندر حقیقت اس قدر‬
‫موجود ہوتی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اس قدر حقیقت میرے اندر موجو د نہیں ہے اور‬
‫اگر میں مذید واضع طور پر کہوں تو یہ حقیقت کہ وہ اعلی تیرین شکل ہے کہ کوئی‬
‫بھ ی خیال میری اپنی وج ہ س ے وجود میں نہیں اتا ۔ تب چونک ہ ہ ر بات کی کوئی نہ‬
‫کوئی وج ہ ہوتی ہے ‪ ،‬تب ہ م غور کریں گ ے ک ہ اس خیال ک ہ وج ہ کیا ہے جو میر ے اندر‬
‫موجود ہے۔ میں دنیا میں اکیل نہیں ہوں‪ ،‬یہاں کچ ھ دوسری چیزیں بھ ی موجود ہیں‬
‫جن کی وجہ سے وہ خیال میرے زہن میں تشکیل پایا اور اگر ایسا کوئی خیال میرے‬
‫زہن میں موجو دنہیں ہے تب میرے پاس ایسا دعوہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ کچھ‬
‫چیزیں مج ھ س ے باہ ر بھ ی اپنا وجود رکتھ ی ہیں ۔ چنانچ ہ اسی لی ے ایک بہ ت احتیاط‬
‫سے اور وسیع پیمانے پر کی گئی تحقیق سے ہمیں صرف یہ پتا چلتا ہے کہ میرے پاس‬
‫ابھی تک صرف ایک بات ہے جو میں کہہ سکتا ہوں۔‬
‫اپنے خیالت کے درمیان اس چیز سے الگ جو مجھے یا میرے اندر کو پیش کرتی ہے‬
‫اورجس کو اس زمن میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ یہ صرف خیالت‬
‫ہیں‪ ،‬جو مختلف انداز میں خدا کو پیش کرت ے ہیں‪ ،‬غیر مری اجسام کو ‪ ،‬فرشتوں‬
‫کو ‪ ،‬جانوروں کو اور اسی طرح اخر میں مجھے بھی ۔ جہاں تک دوسر ے انسانوں‪،‬‬
‫جانورں ‪ ،‬اور فرشتوں کے متعلق میرے خیالت کا تعلق ہے ‪ ،‬میں اسانی سے سجھ‬
‫سکتا ہوں ک ہ ان کو میر ے اپن ے خیالت کیوج ہ س ے خدا ک ے وجود س ے الگ رک ھ سکتا‬
‫ہوں ۔ حتٰ ی ک ے اگر دنیا مٰ ں میر ے علو ہ کوئی بھ ی جسم‪ ،‬کوئی بھ ی جانور‪ ،‬کوئی‬
‫بھ ی فرشتہے موجود ن ہ ہو۔ے جہاں تک اجسام ک ے متعلق میرا خیال ہےے جیسا کہے مٰں‬
‫دیک ھ سکتا ہوں ک ہ ان ک ے اندر کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو بہ ت عظیم اور‬
‫شاندا ر ہ و مثال کےے طور پر اگر میں ا ُن کا تفصیل سےے تجزیہے کروں ایک ایک‬
‫کرکے۔ جیسا ک ہ میں ن ے گزشت ہ روز موم ک ے ٹکڑ ے کا کیا تھا ۔ میں محسوس کرتا‬
‫ہوں کہ مندرجہ زیل نتائج میں نے تقریبا ً ہر ایک کے اندر پائے۔‬
‫ہجم ‪ ،‬یا لمبائی میں اضافہ ‪ ،‬گہرائی اور انچائی وغیرہ‪،‬‬
‫شکل ‪ ،‬جو کہ اس جسم کے بیرونی حدوں کو ظاہر کرتی ہے۔‬
‫نشست جو ک ہ اس شکل کی مختلف اجزاء ک ے درمیان تعلق اور ان کی شکل کو‬
‫ظاہر کرتی ہے۔‬
‫حرکت‪ ،‬یا جگہ میں تبدیلی ۔‬
‫ان چیزوں میں مندرجہ زیل اضافے بھی کیے جا سکتے ہیں‬
‫مادے کی مقدار ‪ ،‬وقت کی پیمائش اور تعداد‬
‫لیکن جہاں تک دوسری چیزیں ہیں ا ُن میں رنگ اور روشنی‪ ،‬اوازیں مہک‪ ،‬زائق ے ‪،‬‬
‫گرمی اور سردی اور کچ ھ دوسری خصوصیات ہیں‪ ،‬جن کو چھون ے س ے محسوس‬
‫کیا جا سکتا ہے۔ ی ہ میر ے لی ے اس قدر الجھ ی ہوئی اور پریشان کن ہے ک ہ میں نہیں‬
‫جانتا کہ ان میں سے کون سے سچ ہے اور کون سی جھوٹ۔‬
‫اسی لیے میں اس بارے مٰں بھی شک میں مبتل ہوں کہ ان چیزوں کے متعلق میرے‬
‫خیالت حقیقی چیزوں کےے متعلق ہیں یا غیر حقیقی چیزوں ک ے متعق ہیں‪ ،‬یا ہم‬
‫"لچیز" کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ اگر سختی سے کہا جائےتو صرف سے نتائج ہی‬
‫غلط یا صحیح ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں خیالت بھی صحیح یا ایک خاص‬
‫مفہوم میں غلط ہو سکتے ہیں۔ ہم انہیں کسی نہ کسی حد تک غلط کہیں گے‪ ،‬اگر یہ‬
‫کسی لچیز کو ایک چیز کے طور پر پیش کریں۔ مثال کے طور پر میرا حرارت اور‬
‫سردی ک ے متعلق نظری ہ اس قدر الجھ ا ہوا ہے ک ہ میں اس ک ے متعلق بہ ت کم نتائج‬
‫اخذ کر سکتا ہوں۔‬
‫سردی کا مطلب ہے حرارت کی غیر موجودگی‪ ،‬یا‬
‫حرارت کا مطلب ہے سردی کی غیر موجودگی‪ ،‬یا‬
‫حرارت اور سردی دونوں حقیقی ہیں‪ ،‬مثبت خصوصیات ہیں‪ ،‬یا‬
‫نہ ہی حرارت نہ ہی سردی حقیقی ہیں‪ ،‬نہ یہ مثبت خصوصیات ہیں۔‬
‫اگر درست جواب ی ہ ہے ک ہ سردی ماسواء حرارت کی غیر موجودگی ک ے کچ ھ نہیں‬
‫ہے۔ وہ خیال جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی چیز حقیقی اور مثبت ہے ‪ ،‬تب میں اس‬
‫کو غلط کہوں گا۔ اور اسی طرح ہم دوسرے نتائج اور نقاط پر بحث کر سکتے ہیں۔‬
‫ایس ے خیالت یقینا ً صرف اور صرف میری اپنی وج ہ س ے ہیں‪ ،‬اور ان کا ماخذمجھ‬
‫س ے باہ ر کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر و ہ غلط ہیں ‪ ،‬نا مکمل ہیں‪ ،‬تو ی ہ ظاہ ر ہوتا ہے کہ‬
‫میری فطرت غلط اور نا مکمل ہےے اور کمی صرف مجھے میں ہے۔ے اسی فطری‬
‫روشنی کی وج ہ س ے میں جانتا ہوں ک ہ اگر میر ے خیالت سچ ہیں‪،‬تب ایسا کیوں نہ‬
‫ہ و ک ہ ان کا ماخذ صرف اور صرف میری ذات تک ہو ۔ و ہ ایک ایسی چیز کو پیش‬
‫کرتےے ہیں‪ ،‬ایک ایسی سچائی کو جس کےے اور لچیز کےے درمیان میں کوئی فرق‬
‫نہیں کر سکتا ۔ ہ م صرف واضح اور شفاف عناصر کو مد ِ نظر رکھیں گےجب میں‬
‫اپنے اجسام کے متعقل خیالت بیان کروں گا۔‬
‫ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ میں نے کچھ خیالت اپنے اپ سے ادھار لیے ہیں‪ ،‬جیسا کہ مادہ‪،‬‬
‫وقت ‪ ،‬تعداد اور اذادی س ے اپنا وجود رکھنا‪ ،‬اور میں ی ہ بھ ی سمجھتا ہوں کہ ‪ ،‬میرا‬
‫وجود عناصر کی ترکیب ہے۔ میں ی ہ تسلیم کرتا ہوں ک ہ میں اپن ے اپ کو ایک ایسی‬
‫چیز سمجھتا ہوں کہ جو سمجھتی ہے اور میرے خیال میں پتھر ایک ایسی چیز ہے جو‬
‫سوچن ے اور سمجھن ے کی صلحیت سے واضع طور پر عاری ہے۔ مج ھ میں اور پتھر‬
‫میں ایک چیز مشترک ہے ک ہ ہ م ماد ہ ہیں ۔ ایک مرتب ہ پھ ر میں سمجھتا ہوں ک ہ میں‬
‫موجود ہوں‪ ،‬اور یاد رکھی ے ک ہ میں موجود تھا‪ ،‬پچھل ے کچ ھ عرص ے سے۔ مذید ی ہ کہ‬
‫میرے پاس مذید کچھ ایسے خیالت ہیں جن کو میں گن سکتا ہوں۔ یہ اس طرح سے‬
‫ک ہ جب میں وقت اور تعداد ک ے خیالت ک ے متعلق سوچتا ہوں تب میں اپنی سوچ‬
‫کو دوسری چیزوں کی طرف بدل سکتا ہوں ۔ ی ہ تمام خیالت مل کر اجسام کے‬
‫متعلق میرے نظریے کو تشکیل دیتے ہیں‪ ،‬جیسا کہ پھیلئو ‪ ،‬شکل اور حرکت وغیرہ۔‬
‫یہ چیزیں واضع طور پر موجو دہیں لیکن ان کے خیالت واضع نہیں ہیں۔ جنانچہ میں‬
‫فقط ایک سوچن ے والی چیز ہوں اور اس س ے زیاد ہ کچ ھ نہیں ہوں ۔ لیکن چنانچ ہ یہ‬
‫مادے کی مختلف حالتیں ہیں‪ ،‬اور میں بھی مادہ ہوں جنانچہ یہ ممکن دکھائی دیتا ہے‬
‫کہ میں مادے کی کوئی اعلی شکل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے ا پ کو ایک خاص‬
‫حد سےے زیادہے کھینچ نہیں سکتا اور نہے ہ ی اپنی شکل تبدیل کر سکتا ہوں ۔ے لیکن‬
‫کیونکہے میں مادہے ہوں ‪ ،‬میں مابعد اطبیعاتی کچھے خصوصیات بھ ی اپنےے اندر رکھتا‬
‫ہوں۔ جو خیالت کو میرے اندر تشکیل دینے کا باعث ہیں۔ پس اخر میں فقط نظریہ‬
‫خدا باقی رہ جاتا ہے۔ کیا کوئی ایسی چیز ہے‪ ،‬جو میرے اندر اپنا ماخذ نہیں رکھتی‪،‬‬
‫ظ خدا سے میرے اندر ایک ایسے مادے کا تصور پیدا ہوتا ہے جو لمحدود ہے‪ ،‬ابدی‬
‫لف ِ‬
‫ہے ‪ ،‬غیر تبدیل شد ہ ہے ‪ ،‬ازاد ہے ‪ ،‬اعلی و ارفع ہے ‪ ،‬بہ ت طاقتورہے۔ جس ن ے مجھے‬
‫بنایا‪ ،‬اور ہ ر اس چیز کو بنایا جو موجود ہے۔ مذید احتیاط س ے مجھے ان باتوں پر‬
‫غور کرنا چاہیے‪ ،‬ایسا قطعا ً نہیں ہو سکتا کہ کوئی چیز‪ ،‬مجھ سے وجود میں ائی ہو‪،‬‬
‫جنانچ ہ اس تمام بحث س ے ہ م ی ہ نتیج ہ اخذ کرت ے ہیں ک ہ خدا موجود ہے۔اور ضرور‬
‫موجود ہے۔‬
‫یہ سچ ہے کہ میرا موجود ہونا اور یہ کہ میں مادہ ہوں‪ ،‬اس کی بات کی وضاحت کرتا‬
‫ہے کہ مادے کے متعلق میرا تصور کیا ہے۔ لیکن یہ اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ‬
‫لمحدود ماد ہ (خدا) کیسا ہ و گا۔ میں محدود ہوں‪ ،‬اور خدا لمحدود ہے ‪ ،‬جنانچ ہ ایک‬
‫محدود چیز کسی لمحدود کا احاطہ کیسے کر سکتی ہے۔ یہ بھی سوچا جا سکتا ہے‬
‫ک ہ ی ہ غلط ہےکیونک ہ محدود ک ے متعلق میرا خیال اس وقت واضع ہوتا ہے جب ہم‬
‫لمحدود کی بات کرت ے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہ م کسی چیز کی حالت‬
‫سکون کو اس وقت سمجھ سکتے ہیں‪ ،‬جب ہم اس کی حالت حرکت پر بات کریں‪،‬‬
‫اور ٹھیک اسی طرح ہ م روشنی ک ے متعلق ا ُس وقت جان سکت ے ہیں‪ ،‬جب ہمیں‬
‫اندھیرے کی پہچان ہو۔‬
‫تاہم میں واضع طور پر سمجھتا ہوں کہ ایک محدود جسم ک ے مقابل ے میں لمحدود‬
‫ک ے اندر زیاد ہ سچائی موجود ہے۔ جنانچ ہ خدا ک ے متعلق جو ک ہ ل محدود ہے ‪ ،‬میرا‬
‫ادراک اور میرا تصور اور میرا نظریہ زیادہ واضع ہے‪ ،‬جتنا کہ خود میرے اپنے متعلق‪،‬‬
‫کیونکہ میں محدود ہوں۔ تاہم میں جانتا ہوں کہ میں کسی چیز پر شک کرتا ہوں اور‬
‫کوئی چیز چاہتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں ک ہ میر ے اندر کسی چیز کی کمی ہے اور‬
‫میں مکمل نہیں ہوں۔ے جنانچہے میں کسی ایسی ذات لمحدود کےے متعلق کسی‬
‫حتمی خیال اور نتیج ے تک کیس ے پہنچ سکتا ہوں‪ ،‬جب ک ہ وہ ی ذات لمحدود مجھے‬
‫اس قابل بناتی ہے کہ میں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو پہچان سکوں۔‬
‫ایسا بھی نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے متعلق یہ نظریہ مادیت کے لحاظ سے غلط ہے‪،‬‬
‫کیونک ہ یہے نظریہے لچیز سےے وجود میں ایا‪ ،‬جہاں تک اس بحث کا تعلق ہےے میں نے‬
‫ابھی چند لمے پہلے محسوس کیا کہ حرارت اور سردی کے متعلق نظریات میں اس‬
‫قدر حقیقت اور سچائی موجود ہےے کہے کسی بھ ی دوسرےے نظریےے اور تصور میں‬
‫موجو د نہیں ہے۔ مذید یہ کہ وہ کسی ایسی چیز کو ظاہرکرتی ہے جو بہت عظیم ہے‪،‬‬
‫بہت طاقتور ہے‪ ،‬اور بہت حقیقی ہے۔‬

You might also like