Professional Documents
Culture Documents
گئی تھی
مگر اس میں جو سبق دیا گیا تھا وہ بچوں سے زیادہ بڑوں کیلئے مفید ہے۔
میاں خرگوش بڑے اداس تھے کیونکہ ان کا بیٹا کہیں شادی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک دن میاں خرگوش نے اپنے بیٹے کو
بلیا اور کہا بیٹا میں بہت اداس ہوں کیونکہ تم کہیں شادی نہیں کرتے ہو۔ مجھے اس بات کا بے حد دکھ ہے‘ تم بن بیاہے
پھرتے ہو۔ بیٹے نے جواب دیا ابا جان میں نے اس مسئلے پر بے حد غور کیا ہے اور میں آپ کو یقین دلتا ہوں کہ میں
ایک نہ ایک دن ضرور شادی کر لوں گا۔ مگر فی الحال ممکن نہیں۔ خرگوش نے کہا کیوں ممکن نہیں ۔ بیٹے نے جواب
دیا اس لئے کہ مجھے اپنی پسند کی بیوی نہیں ملتی۔ خرگوش نے پوچھا وہ کیسے؟ بیٹے نے جواب دیا پہلے میں نے
سوچا تھا کہ کچھوے کی بیٹی سے شادی کر لوں۔ وہ بہت عقلمند ہے وہ اچھی طرح گھر چلئے گی۔ مگر پھر مجھے
معلوم ہوا وہ تو جھوٹ بول کرتی ہے اس لئے اس کا خیال چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا ہوں۔
بیٹے نے کہا پھر مجھے خیال آیا کہ سانپ کی بیٹی سے شادی کر لوں و ہ لہرا لہرا کر چلتی ہے ‘ دل کو بھاتی ہے مگر
پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو آئے دن نئے نئے کپڑے بدلتی ہے ۔ ایک کپڑا ذرا پرانا ہوا تو جھٹ اتار پھینکا اور دوسرا
جوڑا پہن لیا۔ اگر میں اس سے شادی کر لیتا تو وہ ہر روز نئے نئے کپڑوں کا مطالبہ کرتی رہتی چنانچہ میں نے اس کا
خیال بھی جانے دیا۔ خرگوش نے کہا ہوں۔ بیٹا بول پھر میں نے سوچا کہ چیتے کی بیٹی سے شادی کر لوں مگر پھر
مجھے معلوم ہوا وہ تو بے حد غصیلی ہے چنانچہ میں نے اس کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا اچھا‘ بیٹا بول
پھر میں نے سوچا دریائی گھوڑے کی بیٹی سے شادی کر لوں وہ بہت مہربان نظر آتی ہے۔ وہ ایک اچھی بیوی ثابت ہو
گی مگر بعد میں مجھے پتہ چل وہ تو بے وقوف ہے بس میں نے اس کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا پھر‘ بیٹا
بول پھر میں نے سوچا کہ لگڑ بگڑ کی بیٹی سے شادی کر لوں وہ بہت چالکا ہے اور چلتی پھرتی اچھی لگتی ہے۔
مگر مجھے پتہ چل وہ تو بے حد مکار ہے ۔ بس میں نے اس پر بھی صبر کر لیا۔ خرگوش نے کہا پھر ‘ بیٹا بول بس
یہی وجہ ہے کہ میں آج تک شادی نہ کر سکا۔ اب میں اس انتظار میں ہوں کہ مجھے کوئی ایسی بیوی مل جائے جو
عقلمند بھی ہو‘ خوبصورت بھی ہو‘ چست و چالکا بھی ہو ‘ مہربان طبیعت بھی رکھتی ہو گھر بھی اچھی طرح چلئے‘
مکاری بھی نہ کرے‘ جھوٹ بھی نہ بولے‘ غصے میں بھی نہ آئے اور نئے نئے کپڑے بھی نہ مانگا کرے۔ خرگوش نے
کہا میرے بیٹے پھر بس صبر کر کے بیٹھ جاﺅ کیونکہ تم کبھی بیاہے نہیں جا سکو گے۔
ہماری سوسائٹی میں آج کل رشتے کرنے کے معاملے میں معیار عموماا اتنا اونچا رکھا جاتا ہے کہ خرگوش کے اس باریک
بین بیٹے کی طرح بہت سا نوجوان طبقہ بن بیاہے بیٹھا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مناسب عمریں گزر جاتی ہیں اور اپنے پیچھے
بے شمار پیچیدگیاں چھوڑ جاتی ہیں۔ لڑکیاں خود اور ان کے والدین رشتہ کرتے ہوئے لڑکوں کے بارے میں معیار اتنا
اونچا رکھے ہیں کہ اس معیار کے لڑکے ملنا محال ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف خود لڑکے اور لڑکوں کے والدین
لڑکیوں کے معاملے میں اس قدر باریک بین ہو جاتے ہیں کہ کوئی لڑکی ان کی نگاہ میں جچتی ہی نہیں۔ اس چھان بین کی
وجہ سے وقت گزرتا چل جاتا ہے یہاں تک کہ شادی کی مناسب عمریں گزر جاتی ہیں اور عمریں زیادہ ہو جانے کے باعث
اچھا رشتہ ملنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ اولد بے حد عزیز ہوتی ہے کہ سب والدین یہی چاہتے ہیں کہ بہتر سے بہتر رشتہ
ملے۔ مگر خدا نے عقل بھی اسی لئے دی ہے کہ اس سے کام لیا جائے۔ اولد کی شادی کے سلسلے میں معیار کو بہت زیادہ
بڑھا لینا بعض اوقات خود اولد کیلئے مضر ثابت ہوتا ہے۔ معیاری رشتے تلش کرتے کرتے اعلیی رشتے بھی ہاتھ سے
نکل جاتے ہی اوروقت گنوا کے پھر معمولی رشتے پہ قناعت کرنا پڑتی ہے۔ ایسی بہت ساری مائیں آپ کو ملیں گی جو اس
غم میں گھلی جارہی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کے رشتے نہیں ہو رہے مگر کسی صورت میں اپنے معیار کو کم کرنے کو تیار
نہیں ہیں۔ لڑکے پڑھے لکھے ہوں۔ اعلیی عہدوں پر بھی فائز ہوں۔
اخلق و عادات کے بھی اچھے ہوں۔ طور طریقے بھی عمدہ رکھتے ہوں۔ شکل و صورت بھی غیر معمولی ہو۔ اچھے
خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے ہوں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب ظاہر ہے ایسے بہت کم انسان ہوں گے جن میں یہ تمام صفات
جمع ہوں ۔ شادی کو خدا نے اخلق اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لئے اس کو بھاری بھرکم اور مشکل
بنانے کی بجائے آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الٹی سیدھی ہندﺅوانہ رسوم کی پابندی کرنا اور رشتے کے معیار
کو بہت زیادہ بڑھا لیتے ہیں ہر کام مشکل سے مشکل ہوتا چل جا رہا ہے۔ جتنا یہ مشکل ہوتا جارہا ہے اتنے ہی طبقے
کے اخلق اور ایمان کے خطرے میں پڑنے کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔