Professional Documents
Culture Documents
ِ
مرزا اسداللہ خان غال ؔ
ب
ت عنوانات
فہرس ِ
بارے اس نسخےکے4................................................................
الف6....................................................................................
ب34....................................................................................
ت35....................................................................................
ج37.....................................................................................
چ38....................................................................................
دد39.....................................................................................
ر41....................................................................................
ز46....................................................................................
س49...................................................................................
ش50...................................................................................
ع51.....................................................................................
ف52....................................................................................
ک52...................................................................................
گ 55...................................................................................
ل55....................................................................................
مدد56....................................................................................
ن58.....................................................................................
و76....................................................................................
ہ82.....................................................................................
ی84....................................................................................
قصائد135..............................................................................
مثنوی157..............................................................................
خمسہ160...............................................................................
مرثیہ162...............................................................................
سلدم د162..............................................................................
سہرے165..............................................................................
قطعات168.............................................................................
رباعیات175............................................................................
متفرقات178............................................................................
ضمیمدۂ اول179.........................................................................
ضمیمدۂ دودمدد187........................................................................
کدتابیات192............................................................................
4
ہم ما ہری ِنہ غالبیات ہونےکا دعوٰی نہیںہ کرتے اور نہہ ہ ہمارا یہہہ
پدددردددے
جادددددۓ۔ اردوویبدددادڈدددٹ آرگکدددےکچدددھ سر ھ خیالدددد ہےکددہ ہمیدددں محّققینمیدددں شمار کیا
غالب کو اردو تحریر کی شکلمیددد ںمدد ہیاد کیا اددددد ٹھایادکددد ہ دیوا ِ ن ؔ رضاکاروددد ںندددے بسیددد ہبیدددڑا
جاۓ
نظامیدددد ہے جو نظامی پریس کانپورسدددے 1862ء میں چھپا تھا اور جس اس کی بنیادنسخدۂ
تدددیدددد ۔کچدددھ اشعار جودوسردددےمروجددد ہدیوانوددد ںمیددد ں ددددد ں ہوئید ھ
غالبددددے اتہدددوددھ
کی تصحیح خو د ؔ کد
گئیدددددد ہے۔ اسکدددےمددددددددے ٹھیک کی جاتددددے یہدددں ،اس کی صحت اسنسخدددے کی سد مختلفپاددددۓ
گئیددددد ہے جو عرشی(سدددے ودادہددں مدد لی ؔ ، لمد ؔدر
حمیدید ،غلم رسو ہ ہ علوددہدوسردددےنسخودددں )
اشعار نظامی میں نہیں تھے۔
نسخۂ بھوپال/حمیدیہ /شیرانی /گِلرعنا سے وہاں بھی مدد لی گئیہے جہاں غزل کےکچھ
ہی اشعار مزید مل سکے تھے ،جیسے کسی غزل میں متداول دیوان میں پانچ سات اشعار ہیں
اور نسخۂ بھوپال میں مزید دو تین اشعار مل گئے تو شامل کردۓ گئے ہیں لیکن اگر مروجہ
آدددددد ٹھ مزید
دواوینمیددد ں محض دو تیناشعارددید ہدددد ں اوربدددھوپالکدددےنسخوددد ںمیددد ں سات
اشعار تو ان کوچھوڑ دیا گیا ہےہ۔ ہ
گئیدددد ہے کدہ تمام اشعار شامل کردددددۓجائیددددں۔ یدہ کام تو غرض کوشش یدہ ن دیہدددں کی
ن غالبکامل د۔ تاریخی ترتیب مش دہورما دہِر اقبالیات محترمی کالی داس ُگپتا رضا اپنی ‘دیوا ِ
۴۲۰۹اشعار شامل ددددیددددددد ں۔ اسنسخدددےمیددد ںاندددوھدددد ںندددے
ددددچکد ے ہسدددے’میددد ں انجام ے
کیدددددےید ہدددد ں جبکددد ہ متداول دویوانمیددد ں کل ۱۸۰۲اشعار تھے۔ نسخۂ حمیدیہ سے کچھ مکمل
غزلیں بطور ضمیمہ دومشامل کردی گئیہیں۔
یددددددددد ہ ہےکددد ہ اسمیددد ں جدید امل کا خیال اسنسخدددے کی ایک مزید خصوصیت
ذیلددددددں ہے:
ددددددں ہے ،ان کیف دہرست مید جوی دہ
ھدددددد ہے۔چنادددں چدہکچدددھ الفاظ کی امل اد اگیا
رکددد
ہ۔۔۔۔۔۔۔کیوددد ں کر ۔۔۔۔۔۔۔ کی
جگددددددددددددددددددددددد کیونکردددددددددددددددددددد
ہاے ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ
سخت جانیہاے ۔۔۔۔۔۔۔ کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ سخت جانی ہاۓ
صحراے کی جگہ صحراۓ
ہ۔۔۔۔۔۔۔پاؤددد ں ۔۔۔۔۔۔۔ کی
جگددددددددددددددددددددددد پانودددددددددددددددددددد
ہ۔۔۔۔۔۔۔بدددے کس ِ
ئ ۔۔۔۔۔۔۔ کی
جگددددددددددددددددددددددد کس ِ بدددے
یدددددددددددددددددددد
بیکسی کیجگددد ہبدددے کسی
ٰ
جہہاں بحر میں ‘ آئ نہ ہ’ درست آتاہ ہہے ،وہہاں بھی آئینہہ )حوالہہ شمس الرح من فاروقی،ہ ‘اچھی اردو،
روزمّرددہ،محاورددہ ،صرف’ ،کالم ‘اردو دنیا’ جنوری ۲۰۰۷ء(
لقبولد ہوئی
نظرددددۓ تو د ہمیدددں اطلعدیدددں ،اگر قاب ِ
اگرپدددھربدددھی کسی قاری کو کوئی غلطی آ
تودد ہم د بسرو چشماسدددے قبولکریددد ںگدددے اور تصحیحکدددے بعدیددد ہ ای بکدوبارددد ہ آپ کی
خدمت میں پیش کیجا سکے گی۔
ٹائپنگ:اردو ویب ڈاٹ آرگ ٹیم۔۔۔اعجاز اختر )اعجاز عبید( ،سیدہ شگفتہ ،نبیل نقوی ،
شعیب افتخار )فریب( ،محب علوی ،رضوان ،شمشاد
5
اضافدہ و مزید تحقیق از اعجاز عبید27 :اکتوبر 2007۔ )انتخاب از نسخۂ بھوپال کی
حیدر ،ماہنامہ آج کل ،فروری ۲۰۰۷ء دیواِن غالب )کامل( تاریخی ترتیب
ؔ باز یافت۔ سید تصنیف
سے۔ کالی داس گپتا رضا(
الف
1۔
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکِر تصویر کا
ت طاؤس ہے ئ نیرنگ،ہ صیِد وحش ِ شوخ ِ
دام،سبزے میں ہے پرواِز چمنہ تسخیر کا
ق قتل
ض ذو ِ
ن عر ِ لّذت ایجاِد ناز ،افسو ِ
نعل آتش میں ہے ،تیِغ یار سے نخچیر کا
او 1سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ کاؤک ِ
صبحہ کرنا شامکا ،لنا ہے جوئے شیر کا
جذب ۂ بے اختیاِر شوقدیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہےدم شمشیرکا
دامشنیدن جس قدر چاہے بچھائے آگہی ِ
مدعا عنقا ہے اپنے عالِمتقریر کا
ت عج ز و قالب آغوِش وداع ت دس ِ خ شت پش ِ
ُپر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کستعمیر کا
ب عدم شوِر تما شا ہہےاسؔد ت خوا ِ وح ش ِ
جو مزہہ جوہر نہیںآئینۂ تعبیرکا
2
ب ،اسیری میں بھی آتش زِیر پا بس کہہوں غال ؔ
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
2۔
جنوں گرمانتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیر سے 3دوِدسپندآیا
مِہ اختر فشاں کیبہِر استقبال آنکھوں سے
تماشا کشوِرآئینہ میں آئینہ بند آیا
تغافل ،بد گمانی ،بلکہ میری سخت جانی ہے
ب ناز کو بیِمگزند آیا نگاِہ بے ُحجا ِ
فضاۓ خندۂ گلتنگ و ذوِق عیش بے پروا
1اکثر مروجہ نسخوں میں "کاِوکاِو "درج ہے اور لوگ بے خیالی میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ بعض حضرات نے "کاؤکاؤ" بھی لکھا
ہے جس کا یہاں کوئی محل نہیں۔ کاؤ۔ کاوش ۔ علی العموم "کاؤکاؤ" بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں "کاؤکاِو" پڑھنا چاہیے۔
)حامد علی خاں(۔
نسخۂ حمیدیہ میں "مزہ" نسخۂ عرشی میں "مژہ" ۔ ہم نے حمیدیہ کے متن کو ترجیح دی ہے )جویریہ مسعود( 2
عرشی میں "زنجیری" عرشی نے "زنجیر سے" کو سہو مرتب لکھا ہے )جویریہ مسعود( 3
7
5۔
عشق سے طبیعت نے زیست کامزا پایا
درد کیدوا پائی ،درد بے دوا پایا
لگاکدددلندددے،آج د ہمندددے اپنا دل
ھ نچدپدددھر
غ ہ
خوں کیا ہوا دیکھا ،گمکیا ہوا پایا
پند ناصح نے زخم پر نمکچھڑکا شور ِِ
آپ سے کوئیپوچھے تمنے کیا مزا پایا
فکِرنالہ میں گویا ،حلقہ ہوں ِز سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر ،یک دِل صدا پایا
حال دل نہیں معلوم ،لیکن اس قدر یعنی
ہمنے بار ہا ڈھونڈھا ،تمنے بارہا پایا
شب نظارہ پرور تھا خواب میں خرام 6اسکا
صبح موجۂ گل کو نقِش 7بوریا پایا
ن گل 8ہے و ،کوچدہ داد ِ
جس قدر جگرخوددددں ہ ُ
زخِمتیِغ قاتل کو طرفہ دل کشاپایا
ہے نگیں کیپا داری ناِمصاحِب خانہ
ہمسے تیرے کوچے نے نقِش مّدعا پایا
دوست داِر دشمن ہے! اعتمادِ دلمعلوم
آہ بے اثر دیکھی ،نالہ نارسا پایا
َ َ
نے اسؔدجفا سائل ،نے ستم 9جنوں مائل
تجھ کوجس قدر ڈھونڈھا الفت آزما پایا
6۔
ِ دادہددںسدددےبدددے محابا جلگیا
دل میرا سوزِن
آتش خاموش کیمانند ،گویا جل گیا
ذوق وصل و یادِ یار تک باقی نہیں ِ دل میں
آگاس گھر میں لگی ایسی کہجو تھا جل گیا
میں عدمسے بھی پرے ہوں ،ورنہ غافل! بارہا
میری آِہآتشیں سے باِل عنقا جل گیا
عرض کیجئے جوہِر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا ،کہصحرا جل گیا
نسخۂ حمیدیہ میں "خیال" بجاۓ "خرام" )جویریہ مسعود( 6
نسخۂ حمیدیہ میں "سّم جنوں " بجاۓ "ستم جنوں" )جویریہ مسعود( 9
9
7۔
شوق ،ہر رنگہ رقیِب سروساماں نکل
قیس تصویر کےپردے میں بھی عریاں نکل
زخمندددے داد ندہ دی تنگئ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے َپرافشاں نکل
غ محفل بوئدددے گل ،نالۂ دل ،دوِد چرا ِ
جو تری بزم سے نکل ،سو پریشاں نکل
ت درد دِل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذ ِ
کامیاروں کابہ قدٕر لب و دنداں نکل
ت دشوار پسند! اے نو آموِز فنا ہم ِ
12
10نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے" :شعلہ رویاں جب ہوےگرِم تماشا جل گیا" )جویریہ مسعود(
11نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے :دل ز آتش خیزِئ داِغ تمنا جل گیا
12بعض نسخوں میں "اے" کی جگہ "ہے" اور بعض میں اس کی جگہ "تھی" بھی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے
نسخوں ،نیز بعض دوسے نسخوں میں "اے" ہی چھپا ہے۔ )حامد علی خاں(
14شارحیِن کلم کے نزدیک وقفہ "جو" کے بجاے "گیا" کے بعد ہے۔ )حامد علی خان( ۔ حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع یوں
ہے:
دھمکی میں مر گیا جو ،نہ بابِ نبرد تھا )جویریہ مسعود(
10
طلبگار مر د تھا
ِ "عشِق نبرد پیشہ"
تھا زندگیمیں مرگ کاکھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی ،مرا رنگہ زرد تھا
تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
ےدددددددں ہے اب لدریائدددخودل تاجگر ،کدہ ساح ِ
اس رہ گزر میں جلو ۂگل،آگےگرد تھا
کوئیکشمکشاندوہ عشقکی !
ِ جاتی ہے
ُ
دل بھی اگر گیا ،تو وہی دل کادرد تھا
احباب چارہ سازئ وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال ،بیاباں نورد تھا
یہ لشِ بےکفن اسؔد خستہ جاںکی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
9۔
سبحد "،مرغوبِ بتِ مشکل"پسندآیا ہ شمار
تماشائے بہ یک کف ُبردن ِ صد دل ،پسندآیا
بہ فیِض بے دلی ،نومیدئ جاویدآساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂمشکل پسندآیا
ہوائے15سیِرگل،آئینۂ بے مہر ئ قاتل
کہ انداِز بخوں غلطیدِن 16بسمل پسندآیا
ت ہستی سے آگاہی ہوئی جس کوبہاِر فرص ِ
گہ للہ ،جاِمبادہ بر محمل پسند آیا برن ِ
ب نقطہ آرائی سواِد چشِمبسمل انتخا ِ
خراِمناِز بے پرواِئ قاتل پسند آیا
17روانی ہاۓ مو ِج خو ِنہ بسمل سے ٹپکتا ہے
ف بے تحاشا رفتِن قاتل پسند آیا کہلط ِ
تازہ ڈالی ہے غہ با حہ طر نے سخن جا دہراس ؔ
ؔ ِ ِ
گہ بہار ایجادِئ بیدل پسند آیا مجھے رن ِ
10۔
دہر میں نقشِ وفا وجہِِتسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہہ ہ ہواہ
ّ
ت خط ر ِخ یار نہ ہوئی ہمسے رقمحیر ِ
ب سیِر گل" )جویریہ مسعود( نسخۂ حمیدیہ میں "حجا ِ
15
16
اصل نسخۂ نظامی میں ‘غلتیدن’ ہے جو سہِو کتابت ہے )اعجاز عبید(
1
17
11۔
باغہ رضواںکا ستایش گرہے زاہد ،اس قدر جس ِ
وہ اک گلدستہ ہے ہمبیخودوں کےطا ِقہ نسیاں کا
بیاں کیا کیجئے بیداِدکاوش ہائے مژگاں کا
کہہر یک قطرہء خوں دانہ ہے تسبیِح مرجاں کا
ت قاتل بھی مانع ،میرے نالوں کو نہ آئی سطو ِ
لیا دانتوں میں جو تنکا ،ہوا ریشہ نَ َیستاں کا
دکھاؤں گاتماشہ ،دی اگر فرصت زمانے نے
ِمرا ہر داِغ دل ِ ،اک تخم ہے سرِو چراغاں کا
کیا آئینہ خانے کاوہ نقشہ تیرے جلوے نے
ُ
کرے جو پرتِو خورشید عالم شبنمستاں کا
مری ٰتعمیر میں ُمضمر ہے اک صورت خرابی کی
ُ ہیولی بر ِق خرمنہ کا ،ہے خو ِنہ گرمدہقاں کا
اگا ہے گھر میں ہر ُسو سبزہ ،ویرانی تماشہ کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کےہے ،میرے درباں کا
خموشی میں نہاں ،خوں گشتہ 21لکھوں آرزوئیں ہیں
18نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے " :صفحہ آئینہ ہوا ،آئنہ طوطی نہ ہوا " )جویریہ مسعود(
19نسخۂ حمیدیہ میں مزید )اعجاز عبید(
20نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرعہ یوں ہے:
مرگیا صدمۂ آواز سے ‘قم’ کے غالب )اعجاز عبید(
21
نسخۂ حسرت موہانی میں ‘سرگشتہ’ )اعجاز عبید(
12
12۔
نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کممیرا
ب موجۂ رفتار ہے نقِش قدممیراحبا ِ
محبتتدددھی چمنسدددے لیکن اب یدہ بے دماغی ہے
کہمو ِج بوئے گلسے ناک میں آتا ہے دممیرا
13۔
ت ہستیسراپا رہِن عشق و ناگزیِر الف ِ
عبادت برق کیکرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدِر ظرفہ ہے ساقی! خما ِر تشنہ کامی بھی
جوتو دریائے مے ہے ،تو میں خمیازہ ہوں ساحلکا
14۔
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے ،پردہ ہے ساز کا
گہ شکستہصب ِحہ بہاِر نظارہ ہے
رن ِ
یہ وقت ہے شگفتِن گلہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظرہائے تیز تیز
میں اور ُدکھتری ِمژہ ہائے دراز کا
صرفہ ہے ضبِط آہ میں میرا ،وگرنہ میں ُ
َ
طعمہ 22ہوں ایک ہی نفِس جاں گداز کا
ہیں بسکہ جوِش بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂبساط ہے سر شیشہ باز کا
کاوش کادل کرے ہے تقاضا کہہے ہنوز
ناخنہ پہ قرض اس گرِہنیمباز کا
تاراِج کاوِش غِم ہجراں ہوا ،اسؔد!
َ ُ
"طعمہ ،خوراک۔ طعمہ ،لقمہ ۔ )حامد علی خان( 22
13
24مقطع کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ اور اگلی غزل در اصل دو الگ الگ غزلیں تھیں جن کو بعد میں خود غالب نے ایک کر کے
پیش کیا تھا۔ )اعجاز عبید(
14
17۔
نالۂ دل میں شب انداِز اثر نایاب تھا
تھا سپنِدبزِموصِل غیر ،گوبیتاب تھا
دیکھتے تھے ہم بچشِمخود وہ طوفاِن بل
فسیلب تھا آسماِن سفلہ جس میں یک ک ِ
موج سے پیدا ہوۓ پیراہِن دریا میں خار
گریہ وحشت بے قراِر جلوۂ مہتاب تھا
ف تماشا محشرستاِن 26نگاہ جوِش تکلی ِ
ت آب تھافتنۂ خوابیدہ کوآئینہ مش ِ
بے دلی ہاۓ اسؔدافسردگیآہنگ تر
ت احباب تھا یاِد اّیامے کہذوِق صحب ِ
َمقدِمسیلب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانہۂ عاشق مگر ساِز صدائےآب تھا
نازِش ّایاِم خاکستر نشینی ،کیا کہوں
ف بستِر سنجاب تھا وق ِ پہلوئے اندیشہ ،
ُ
کچھ نہ کی اپنے جنوِن نارسا نے ،ورنہ یاں
ُ
ذرہ روکِشخرشیِد عالم تاب تھا ذرہہ ّ
ّ
ق
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کلتلک تیرا بھی دل مہرووفا کاباب تھا
یاد کر وہ دن کہہر یک حلقہ تیرے دامکا
انتظاِر صید میں ِاک دیدۂ بیخواب تھا
ً
کمخواب کا امل کمخاب بھی ہے مگر کمخواب قابِل ترجیح ہے ،خصوصا اس شعر میں )حامد علی خان( 25
نسخۂ حمیدیہ میں " محشر آباِد نگاہ" )جویریہ مسعود( 26
15
18۔
ّ
کس کا جنوِن دید تمنا شکار تھا؟
آئینہ خانہ وادِئ جوہر غبار تھا
کسکاخیال آئینۂ انتظار تھا
گ گلکےپردے میں دل بے قرار تھا ہر بر ِ
مجددددددھے دیناپدددڑا حسابایک ایکقطردددے کا
ت مژگاِن یار تھاخو ِنہ جگر ودیع ِ
اب میں ہوں اور ماتِمیک شہِر آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ ،تمثال دار تھا
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو ،کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سِر رہگزار تھا
ت وفا کا ندہپوچدددھ حالب دش ِج سرا ِمو ِ
ہر ذرہ ،مثِل جوہِر تیغ ،آب دار تھا
تدددددددھے ہمبدددھی غِم عشق کو ،پر اب کمجانتدددے
دیکھا تو کمہوئے پہ غِمروزگار تھا
19۔
بسکہ دشوار ہے ہر کامکاآساں ہونا
آدمی کوبھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
دیوانگئ شوقکہ ہردم مجھکو واۓ ُ
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا
27
27
نسخۂ طاہر میں " پریشاں" )جویریہ مسعود(
16
20۔
شب خما ِر شوِق ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیِط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یک قدموحشت سے درِس دفتر امکاں کھل
جادہ ،اجزائے دو عالم دشت کاشیرازہ تھا
مان ِع وحشت خرامی ہائے لیلٰے کون ہے؟
خانۂ مجنو ِنہ صحرا گردبے دروازہ تھا
پوچھ مت رسوائِی انداِز استغنائے حسن
دست مرہو ِن حنا ،رخسار رہِن غازہ تھا
ت دل بہ بادنالۂ دل نے دیئے اوراِق لخ ِ
یادگاِرنالہ اک دیواِن بے شیرازہ تھا
ہوں چراغا ِنہ ہوس جوں کاغِذآتش زدہ
داغ گرِمکوشِشایجاِد داغ تازہ تھا
بے نوائی تر صداۓ نغمۂ ِشہرت اسدؔ
بوریا یک نیستاں عالم بلند دروازہ 29تھا
21۔
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گےکیا
30
بعض حضرات "قسمت" کی جگہ "قیمت" لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں لیکن یہاں "قسمت" ہی ہے )حامد علی خان( 28
22۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہوصاِل یار ہوتاا
اگر اور جیتے رہتے ،یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہمتو یہ جانہ جھوٹ جاناہ
کہخوشی سے مر نہ جاتے ،اگر اعتبار ہوتا
تری نازکیسے جاناہ کہبندھا تھا عہد بودا
کبھیتو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئیمیرے دل سے پوچھے ترے تیِر نیمکشکو
یہ خلش کہاں سے ہوتی ،جو جگر کےپار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئیچارہ ساز ہوتا ،کوئیغم گسار ہوتا
گ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہپھر نہ تھمتا ر ِ
جسے غم سمجھ رہے ہو ،یہ اگر شرار ہوتا
غم اگر چہ جاں گسلہے پ ہہکہاں بچیںکہ دل ہے
غِمعشق گرنہ ہوتا ،غم روزگار ہوتا
کہوں کسسے میں کہکیا ہے؟شب غم بری بل ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا ،اگرایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ،ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھیجنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا ،کہیگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کیبو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
ب یہ مسائل ت ّ
صوف یہ ترا بیان غال ؔ
تجھے ہمولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا
23۔
ہوس کوہے نشاِط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کامزا کیا
تجاہل پیشگیسے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کاگل کیا
31بعض لوگوں کی زبان پر "رہیں :کے بجاۓ "رہے" بھی ہے۔ اس کا سبب ایک پرانے نسخے کا اندراج ہے مگر اکثر نسخوں میں
"رہیں" درج ہے۔ )حامد علی خاں(
18
24۔
درخوِر قہر و غضب جب کوئیہمسا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہہمسا کوئیپیدا نہ ہوا
بندگیمیں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں ،کہہم
الٹے پھر آئے ،دِر کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کومقبول ہے دعوٰی تری یکتائی کا
ت آئینہ سیما نہ ہوا
روبرو کوئیب ِ
کمنہیں نازِش ہمنام ئ چشِم خوباں
تیرا بیمار ،برا کیا ہے؟ گراچھا نہ ہوا
سینے کاداغ ہے وہ نالہ کہلب تک نہ گیا
خاک کارزق ہے وہ قطرہ کہدریا نہ ہوا
نام کامیرے ہے جو دکھ کہکسیکونہ مل
25۔
اسؔد ہم وہ جنوں جولں گدائے بے سر و پا ہیں
کہہے سر پنجۂ مژگاِن آہو پشت خار اپنا
26۔
پۓ نذِر کرمتحفہ ہے ' شرِمنا رسائی' کا
ہبدخودددں غلط یدۂ صد رنگ،ہ دعوٰی پارسائی کا
34نہ ہو' حسِن تماشا دوست' رسوا بے وفائی کا
بہ مہِر صد نظرہ ثابت ہے دعوٰی پارسائی کا
جہاں مٹ جاۓ سعِی دیدخضر آباِد آسایش
بجیِب ہر نھہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا
بہ عجزہ آباِد وہِممّدعا تسلیِمشوخی ہے
تغافل یوں 35نہکر مغرور تمکیںآزمائیکا
تحسن دے ،اے جلوۂ بینش ،کہمہر آسا زکا ِ
چراِغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائیکا
ندہ مارا جان کربدددے جرم ،غافل! 36تیریگردن پر
33
کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا )نسخۂ حسرت ،نسخۂ مہر( )جویریہ مسعود(
مزید :نسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں یہ شعر یوں ملتا ہے:
نام کا ہے میرے وہ دکھ جو کسی کو نہ مل
کام کا ہے ِمرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا
اس ترتیب الفاظ کے ظاہری حسن کے باوجود دوسرے قدیم و جدید نسخے سے یہ ثبوت نہیں مل کہ غالب نے خود یہ شعر یوں بدل دیا
تھا۔ غالب کو شاید دوسرے مصرع کا وہ مفہوم مطلوب ہی نہ تھا جو "کام کا" سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے قدیم و جدید نسخوں کے
علوہ عرشی ،طباطبائی ،مالک رام اور بیخود دہلوی کے نسخوں میں بھی یہ شعر یوں ہی مل ہے جیسا کہ متن میں درج ہوا ہے اور
نسخۂ نظامی مطبوعۂ 1862میں بھی اسی طرح چھپا ہے۔ )حاشیہ از حامد علی خاں(
34یہ شعر نسخۂ بھوپال بخِظ غالب میں ایک علٰیحدہ غزل کا مطلع ہے جس کا ایک اور شعر یہ ہے:
تمنائے زباں محِو سپاِس بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا
درمیان میں تین مزید اشعار ًاور آخر میں مطلع بھی ہے )اعجاز عبید(
35اصل نسخے میں ‘یوں’ غالباچھوٹ گیا ہے۔ )اعجاز عبید(
مزید :نسخۂ حمیدیہ میں " تغافل کو نہ کر" بجاۓ " تغافل یوں نہ کر" )جویریہ مسعود(
36
نسخۂ حمیدیہ ،نظامی ،حسرت اور مہر کے نسخوں میں لفظ ‘قاتل’ ہے )جویریہ مسعود(
مزید :نسخۂ نظامی ،نسخۂ حمیدیہ ،نیز دیگر تمام پیِش نظر قدین نسخوں میں یہاں لفظ "غافل" ہی چھپا ہے۔ یہی لفظ نسخۂ طباطبائی اور
نسخۂ عرشی میں ہے اور یہ منوی لحاظ سے درست بھی معلوم ہوتا ہے مگر نسخۂ حسرت اور نسخۂ مہر دونوں میں یہاں لفظ "قاتل" ملتا
ہے۔ شاید اس تبدیلی کا ذمہ دار نسخۂ حسرت کا کاتب ہو۔ )حاشیہ از حامد علی خاں(
20
27۔
گرنہ ’اندوِہ شِب فرقت ’بیاں ہو جائے گا
بے تکلف ،داِغ مہ ُمہِر دہاں ہوجائے گا
وتاددددد ہے آب
زدہدرددہ گرایسا د ہیشاِم د ہجرمیددددں ہ
پر تِو مہتاب سیِل خانماں ہوجائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کےپاؤںکا بوسہ ،مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہوجائے گا
فہ وفا سمجھے تھے ،کیا معلومتھا دل کوہمصر ِ
یعنی یہ پہلے ہی نذِر امتحاں ہوجائے گا
سب کےدل میں ہے جگہ تیری ،جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا ،اک زمانہ مہرباں ہوجائے گا
گر نگاِہ گرمفرماتی رہی تعلیِمضبط
شعلہ خس میں ،جیسے خوں رگ میں ،نہاں ہوجائے گا
باغہ میں مجھ کونہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گِلتر ایک " چشِمخوں فشاں" ہوجائے گا
واۓگر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہواں ہوجائے گا
ض حال ت نازدیودددےُ گاصلددددۓ عر ِ 37گروددہ ُمس ِ
خاِر گل ،بہِر دہان گلزباں ہو جائے گا
سوچِ ،آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ فائدہ کیا؟
دوستی ناداں کی ہے ،جی کا زیاں ہوجائے گا
28۔
درد ِمّنت کِشدوا نہ ہوا
ت ناِز تمکیں دے صلۓ عرِض حال" )جویریہ مسعود(
نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے " :گر وہ مس ِ
37
21
29۔
گلہ ہے شوق کودل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
خ مکتوب! یدہ جانتاددوہدددں کدہ تو اور پاس ِ
مگر ستم زدہ ہوں ذوِق خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
تخاطرہ ہے عیش دنیا کا دواِمکلف ِ
39
تجول ِن یک جنوں ہمکو ملی نہ وسع ِ
عدمکولے گئے دل میں غباِر صحرا کا
مرا شمول ہر اک دل کےپیچ و تاب میں ہے
میں مّدعا ہوں تپش نامۂ تمّنا کا
ف سیِر باغہ نہ دو
غِمفراق میں تکلی ِ
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جاکا
40
38
نسخۂ مہر ،نسخۂ علمہ آسی میں 'یوں' کے بجا ئے "یہ" آیا ہے) جویریہ مسعود(
مزید :نسخۂ حسرت موہانی میں یوں کی جگہ "یہ" درج ہے )حاشیہ از حامد علی خان(
ت’ ہے۔ )اعجاز عبید(
نسخۂ مبارک علی میں ‘نہ پائی وسع ِ
39
40
نسخۂ نظامی کی امل ہے ‘خند ہاۓ’ )اعجاز عبید(
22
30۔
َ
قطرۂ مے بس کہحیرت سے نفس پرور ہواہ
ّ
خط جاِممے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
اعتباِر عشق کیخانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کیآہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
ئدولت ہوئی آتشزِن ناِمنکو گرم ِ
ت نگیں اخگر ہوا
42
ّخانۂ ماتم ُمیں یاقو ِ
ت فتنہ خونشے میں گمکردہ رہ آیا وہ مس ِ
گہ رفتہ دوِر گردِشساغر ہوا آج رن ِ
درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کاپوست میں نشتر ہوا
اے بہ ضبِط حال خو نا کردگاں 43جوِش جنوں
ٓ
نشۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا
گرِدخانہ ہاۓ منعماں ُ
زہد گر دیدن ہے ِ
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا
اس چمن میں ریشہ واری جس نے سر کھینچا اسدؔ
ئکوثر ہواف ساق ِ تر زبا ِنہ شکِرلط ِ
31۔
جب بہ تقریِب سفر یار نے محمل باندھا
ذرے پہ اک دل باندھاتپِش شوق نے ہر ّ
اہل بینش نے بہ حیرت کدۂشوخئ ناز
جوہِر آئینہ کوطوطئ بسمل باندھا
یاس و امید نے اک عَربدہ میداں مانگا
عج ِزہ ہمت نے ِط ِلسِمدِل سائل باندھا
ُ
41نسخۂ نظامی نیز دوسرے قدیم و جدید نسخوں یہاں "ِاس" کے بجاۓ "اس" درج ہے ۔ "ِاس" کا اشارہ فلک کی طرف ہے
"کارفرما" محبوب ہے۔ )حامد علی خان(
42نسخۂ حمیدیہ میں "اخگر" ،شیرانی و عرشی میں "اختر" )جویریہ مسعود(
43نسخۂ حمیدیہ میں "نا افسردگاں" ،شیرانی و عرشی میں "خو ناکردگاں" )جویریہ مسعود(
23
32۔
میں اور بزِم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ،ساقی کو کیا ہوا تھا؟
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہاپنا دل سے جگر جدا تھا
ب کچھ بن پڑے تو جانوں درماندگی میں غال ؔ
جب رشتدہ بے گرہ تھا ،ناخن گرہ کشا تھا
33۔
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گربحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
تنگئ دل کاگلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے
کہاگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
بعد یک عم ِر َورع بار تو دیتا بارے
کاش ِرضواں ہی دِر یار کادرباں ہوتا
34۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ُ
ڈبویا مجھ کوہونے نے ،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ُہوا جب غم سے یوں بے ِحس تو غم کیا سر کےکٹنے کا
نہ ہوتا گرجدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ب مرگیا ،پر یاد آتا ہےہوئی مدت کہغال ؔ
وہ ہر اک بات پر کہنا کہیوں ہوتا تو کیا ہوتا
35۔
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغہ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے للے کےداغ کا
بآگہی ت آشو ِ کسے ہے طاق ِ بے مے ِ
کھینچا ہے عج ِزہ حوصلہ نے خط ایاغ کا
ائدددے گل
ُبلبلکدددے کاروبارپددہ یہدددںخندددددہ ہ
44بعض جدید نسخوں میں یہاں "شوق" درج ہے مگر غالب ہی کے کلم سے ثبوت ملتا ہے کہ بعض مقامات پر جہاں آج کل ہم
"شوق" استعمال کرتے ہیں ،وہاں غالب نے "ذوق" لکھا ۔ )حامد علی خان(
24
36۔
وہ میری چی ِن جبیں سے غِمپنہاں سمجھا
راِز مکتوب بہ بے ربطئِ عنواں سمجھا
یک اِلف بیش نہیں صقیِل آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہگریباں سمجھا
ہمنے وحشت کدۂ بزِمجہاں میں جوں شمع
شعلۂ عشق کواپنا سر و ساماں سمجھا
ب گرفتارِئ خاطر مت پوچھ شرِح اسبا ِ
اس قدر تنگ ہوا دل کہمیں زنداں سمجھا
بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرِمخرام
رخ پہ ہر قطرہ عرقہ دیدۂ حیراں سمجھا
عجزسے اپنے یہ جاناہ کہوہ بد خو ہوگا
نب ِض خس سے تپِش شعلۂ سوزاں سمجھا
سفِر عشق میں کیضعف نے راحت طلبی
ہر قدمسائے کومیں اپنے شبستان سمجھا
تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دِم مرگ
دفِع پیکاِن قضا ِاس قدر آساں سمجھا
کے کیوں اس کو وفادار ،اسدؔ دل دیا جان
غلطی کیکہجو کافر کومسلماں سمجھا
37۔
پھر مجھے دیدۂ تر یادآیا
دل ،جگر تشنۂ فریادآیا
دملیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
ت سفر یاد آیاپھر ترا وق ِ
سادگیہائے تمنا ،یعنی
25
38۔
ث تاخیر بھی تھا ہوئی تاخیر تو کچھ باع ِ
آپ آتے تھے ،مگر کوئیعناں گیر بھی تھا
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کاگلہ
اس میں کچھ شائبۂ خوبِی تقدیر بھی تھا
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتل دوں؟
کبھیفتراک میں تیرے کوئینخچیر بھی تھا
قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
ہاں! کچھ اک رن ِجہ گرانبارِی زنجیر بھی تھا
بجلی اک کوند گئیآنکھوں کےآگےتو کیا!
بات کرتے ،کہمیں لب تشنۂ تقریر بھی تھا
یوسف اس کوکہوں اور کچھ نہ کہے ،خیر ہوئی
گر بگڑ بیٹھے تو میں لئِق تعزیر بھی تھا
دیکھ کرغیر کوہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
نالہ کرتا تھا ،ولے طالِب تاثیر بھی تھا
پیشے میں عیب نہیں ،رکھیے نہ فرہاد کونام
ہمہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
ہمتھے مرنے کوکھڑے ،پاس نہ آیا ،نہ سہی ُ
آخر اس شوخ کےترکش میں کوئیتیر بھی تھا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
گ نظر کے گاف پر اضافت نہیں )جویریہ مسعود( ملحظہ ہو ان کا حاشیہ: حامد علی خاں کے نسخے میں نیرن ِ
45
گ نظر چھپا ہے جو صحیح نہیں۔ )حامد علی خان(بہت سے نسخوں میں "نیرنگ نظر " کی جگہ " نیرن ِ
26
39۔
لِب خشک در تشنگی ،مردگاں کا
زیارت کدہہوں دل آزردگاں کا
شگفتن کمیں گاِہ 46تقریب جوئی
تصّور ہوں بے موجب آزردگاں کا
غریِب ستم دیدۂ 47باز کشتن
سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا
سراپا یک آئینہ داِر شکستن
ارداہ ہوں یک عالم افسردگاں کا
ہمہ نا امیدی ،ہمہ بد گمانی
فریِب وفا خوردگاں کا میں دل ہوں ّ
ّ
بصورت تکلف ،بمعنی تاسف
اسؔدمیں تبّسمہوں پژمردگاں کا
40۔
تو دوست کسیکابھی ،ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہمجھ پر نہ ہوا تھا
ت قضا نے چھوڑا م ِہ نخشبکی طرح دس ِ
خورشید ہنوز اس کےبرابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہگوہر نہ ہوا تھا
جب تک کہنہ دیکھا تھا قِد یار کاعالم
میں معتقِد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل ،آزردگِی یار سے خوش ہوں
یعنی سبِق شوِق مکّرر نہ ہوا تھا
دریائے معاص ی ُتنک آبی سے ہوا خشک
میرا سِر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جاری تھی اسؔد! داِغ جگر سے ِمری 48تحصیل
46نسخۂ حمیدیہ میں " کمیں داِر" )جویریہ مسعود(
ب ستم دیدۂ" )جویریہ مسعود(
ب بدر جستۂ" بجاۓ " غری ِنسخۂ حمیدیہ میں "غری ِ
47
مروجہ نسخوں کی اکثریت میں یہاں "ِمرے" چھپا ہے۔ مطلب یہ کہ " میرے داِغ جگر سے تحصیل جاری تھی" مگر سوال یہ ہے کہ 48
سمندر کے مقابلے میں یہاں کون تحصیِل آتش کر رہا تھا؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جب تک یہاں "ِمرے" کی بجاۓ "ِمری" نہ پڑھا
27
41۔
ت ناموس تھا شب کہوہ مجلس فروِز خلو ِ
ت فانوس تھا کسو ِرشتۂٴ ہر شمع خاِر ِ
بت پرستی ہے بہاِر نقش بندی ہاۓ دہر
ناقوس تھا
ہر صریِر خامہ میں اک نالۂ ُ
مشہِد عاشق سے کوسوں تک جو اگتیہے حنا
ت پابوس تھا ک حسر ِ کسقدر یا رب! ہل ِ
تآرزوحاص ِل الفت نہ دیکھا جز شکس ِ
دل بہ دل پیوستہ ،گویا ،یک لِب افسوس تھا
کیا کروں بیمار ئِ غم کی فراغت کا بیاں
ت کیموس تھا جو کہکھایا خو ِنہ دل ،بے من ِ
کل اسؔد کو ہم نے دیکھا گوشۂ 49غم خانہ میں
دست بر سر ،سر بزانوۓ دِل مایوس تھا
42۔
آئینہ دیکھ ،اپنا سا منہ لے کےرہ گئے
صاحب کودل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کواپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کیخطاہ نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
43۔
ت تپش در بھی دور تھا ف جنوں کووق ِ ضع ِ
اک گھر میں مختصرہ سا بیاباں ضرور تھا
44۔
فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
نہیں رفتاِر عم ِر تیز رو پابنِد مطلب ہا
45۔
عر ِضہ نیاِز عشق کےقابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
ت ہستی لیے ہوئے جاتا ہوں داِغ حسر ِ
ہوں شمِع کشتہ درخوِر محفل نہیں رہا
جاۓ یعنی داِغ جگر سے میری تحصیِل تب و تاب اس وقت بھی جاری تھی جب کہ سمندر تک کو آتش کدہ عطا نہ ہوا تھا ۔ نسخۂ
مری" ہی لکھا جاتا تھا۔ لٰہذا صرف معنوی دلیل ہی متن کے
نظامی میں "ِمری ہی چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں تو "ِمرے" کو بھی " ِ ً
اندراج کے حق میں دی جاسکتی ہے۔ حسرت موہانی اور عرشی کا بھی غالبا اسی دلیل پر اتفاق ہوگا۔ ان دونوں کے سوا شاید اور
ب دیوان غالب نے یہاں "ِمری" نہیں لکھا۔ )حامد علی خاں( کسی فاضل مرت ِ
49نسخۂ مبارک علی میں لفظ ‘مے خانہ’ ہے۔ )اعجاز عبید(
28
46۔
خود پرستی سے رہے باہم ِدگرنا آشنا
ک آئینہ تیرا آشنابے کسیمیری شری ِ
آتِشموۓ دماِغ شوق ہے تیرا تپاک
ورنہ ہمکسکےہیں اے داِغ تمّنا ،آشنا
جوہِر آئینہ جز رمِز سِر مژگاں نہیں
آشنائی53ہمِدگر سمجھے ہے ایماآشنا
ربِط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزاۓ بہار
سبزہ بیگانہ ،صبا آوارہ ،گلنا آشنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلص حیف!
عقل کہتیہے کہوہ بے مہر کسکاآشنا
ذّرہ ذّرہ ساغِر مے خانہۂ نیرنگ ہے
کہاے لیلٰی آشنا گردِشمجنوں بہ چشم
ب عجز" شوق ہے "ساماں طراِز نازِش اربا ِ
یہ تین اشعار نسخہ بھوپال میں ہیں ،اس مصرعے میں نسخۂ عرشی میں لفظ ‘فرصت گزار’ ہے )اعجاز عبید( 50
نسخۂ مبارک علی)اور نسخۂ حمیدیہ( میں ہے ‘ہوں قطرہ زن بوادِئ حسرت شبانہ روز’ )اعجاز عبید( 51
نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے :انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد ۔ )جویریہ مسعود( 52
نسخۂ حمیدیہ میں " آشنا کی" بجاۓ "آشنائی" )جویریہ مسعود( 53
29
47۔
ذکراس پری وش کا ،اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر۔ تھا جو رازداں اپنا
مدددےوددہکیودددں ب دہتپیتدددے ُ بز ِم غیرمیدددں یا رب
آج ہی ہوا منظور ان کوامتحاں اپنا
اک بلندی پر اور ہمبنا سکتے منظرہ ُ
عرش سے ادھر ہوتا،کاشکے مکاں اپنا
54
48۔
ّ
طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا
یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟
عّزت گزیِن 55بزم ہیں واماندگاِن دید
میناۓ مے ہے آبلہ پاۓ نگاہ کا
ہر گامآبلے سے ہے دل در تِہ قدم
ئ راہ کا کیا بیماہِل درد کوسخت ِ
َ
جیِب نیاِز عشق نشاں داِر ناز ہے
ُ ُ
54اکثر نسخوں میں "ادھر" کی جگہ "ِادھر" چھپا ہے ۔ نسخۂ حمیدیہ میں "پرے" چھپا ہے۔ شعر کا صحیح مفہوم "ادھر" یا "پرے"
سے ادا ہوتا ہے۔ "ِادھر" لکھنے والوں نے اس شعر کی جو شرحیں لکھی ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔ ( نسخۂ نظامی ِ" :ادھر"(
)حامد علی خاں(
نسخۂ حمیدیہ میں "عزلت گزیِن" بجاۓ " عّزت گزیِن" )جویریہ مسعود( 55
30
49۔
غافل بہ وہِم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانۂ صبا نہیں طُّرہ گیاہ کا
بزِم قدح سے عیِش تمنا نہ رکھ ،کہ رنگ
صید ز دامجستہ ہے اس دامگاہکا
رحمت اگر قبول کرے ،کیا بعید ہے
شرمندگیسے عذر نہ کرنا گناہ کا
مقتل کوکس نشاط سے جا تا ہوہ ں میں ،کہہے
ُپرگلخیال زخم سے دامن نگاہ کا
جاں در" ہوا ِۓ یک نگہ گرم" ہے اسدؔ
ِ
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا
50۔
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہمتجھ کومنہ دکھلئیں کیا
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہوہ رہہ ے گاکچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
لگ ہو تو اس کوہمسمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کوہمپہنچائیں کیا
مو ِج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستاِن یار سے اٹھ جائیں کیا
عمر بھر دیکھا کیےمرنے کیراہ
مر گیےپر دیکھیے دکھلئیں کیا
ب کون ہے پوچھتے ہیں وہ کہغال ؔ
کوئیبتلؤ کہہمبتلئیں کیا
51۔
56
نسخۂ آگرہ ،منشی شیو نارائن1863 ،ء میں‘مری قسمت’ )اعجاز عبید(
نسخۂ حسرت موہانی میں "ہو ظاہر" کی جگہ "عیاں ہو" چھپا ہے۔ )حامد علی خان( 57
31
52۔
ت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جاناہ عشر ِ
درد کاحد سے گزرنا ہے دوا ہو جاناہ
ت قفِل ابجد تجھ سے ،قسمت میں مری ،صور ِ
تھا لکھا بات کےبنتے ہی جدا ہو جاناہ
شچارۂ زحمت میں تمام دل ہوا کشمک
ِ ُ ُ
ِمٹ گیا گِھسنے میں اس عقدے کاوا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
ب وفا ہو جانا اربا ِ اس قدر دشمِن
ّ
ضعف سے گریہ مبدل بہ دِمسرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کاہوا ہو جاناہ
ت حنائی کا خیال ِدلسدددے ِمدٹنا تری انگش ِ
ُ
ہو گیا گوشتسے ناخنہ کا جدا ہو جاناہ
ُ
ہے مجھے ابِر بہاری کابرس کرکھلنا
ُ
روتے روتے غِم فرقت میں فنا ہو جاناہ
ت گلکوترے کوچے کیہوس گرنہیں نکہ ِ
َ
کیوں ہے گرِدرِہ جول ِن صبا ہو جاناہ
صیقل کدددلدددے اعجاِزددواہددددۓ َ
تاکدہتجدددھ پر ُھ
دیکھ برسات میں ُ سبز آئنےکا ہو جانا
ببخشے ہے جلوۂ گل ،ذوق تماشا غال ؔ
ِ
چشمکوچاہۓ ہر رنگہ میں وا ہو جاناہ
53۔
شکوۂ یاراں غباِر دل میں پنہاں کردیا
نسخۂ حمیدیہ میں "خوِن گل" بجاۓ " خوِن دل" )جویریہ مسعود( 58
نسخۂ حمیدیہ میں " آبلوں سے" بجاۓ "سالوں سے" ہوسکتا ہے نسخۂ حمیدیہ میں سہو کتابت ہو )جویریہ مسعود( 59
32
غال ؔ
ب ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا
54۔
چمنہ آتا ہے خدا خیر کرے
پھر وہ سوۓ ُ
رنگہ اڑتا ہے گِلستاں کےہواداروں کا
55۔
َ
ئ فرعون توام ہے اسؔد! یہ عجزہ و بے سامان ِ
جسے تو بندگیکہتا ہے دعوٰی ہے خدائی کا
56۔
ّ
بس کہفعاِل ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوۓ
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کوکہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہِر دہلی کاذّرہ ذّرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئیواں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہمل گۓپھر کیا
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کرکیا کیۓشکوہ
سوزِش داغ ہاۓ پنہاں کا
گاہ رو کرکہا کیۓ باہم
ماجرا دیدہ ہاۓ گریاں کا
اس طرحکدددے وصالسدددے یا رب
کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا
57۔
ف شوخی اہتمام اس کا بہ رہ ِن شرمہے با وص ِ
نگیں میں جوں شراِر سنگ نا پیدا ہے نام اس کا
ِمسی آلود ہے ُمہرنوازش نامہ ظاہر ہے
کہداِغ آرزوۓ بوسہ دیتا ہے پیاماس کا
بامّیِد نگاِہ خاص ہوں محمل کِش حسرت
ف عام اس کا مبادا ہو عناں گیِرتغافل لط ِ
33
58۔
عیب کا دریافت کرنا ،ہے ہنرمندی اسدؔ
نقص پر اپنے ہوا جو مطل ِع ،کامل ہوا
59۔
شب کہذوِق گفتگوسے تیرے ،دل بے تاب تھا
ئ وحشت سے افسانہ فسوِن خواب تھاشوخ ِ
واں ہجوم نغمہ ہاۓ ساز عشرت تھا اسدؔ
ِ ِ
ناخ ِنہ غم یاں سِر تاِر نفس مضراب تھا
60۔
60دود کوآج اس کےماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دِل سوزاں کہکلتک شمع ،ماتم خانہ تھا
شکوۂ یاراں غباِر دل میں پنہاں کردیا
ب ایسے کنج کوشایاں یہی ویرانہ تھاغال ؔ
نسخۂ مبارک علی میں ‘درد’ ہے لیکن نسخۂ عرشی میں پہل لفظ ‘دود’ ہے۔ )اعجاز عبید( 60
34
ب
61۔
ج شراب پدددھر د ہوا وقتکددہ ہو بال ُکشا مو ِ
ج شراب تشنا مو ِ دے بِط مے کودل و دس ِ
ب چمنہ ئ اربا ِ
پوچھ مت وجہ سیہ مست ِ
ج شراب وتیددددد ہے ہدَوا مو ِ سایدۂ تاکمیددددں ہ
ت رسا رکھتا ہے جو ہوا غرقۂ مے بخ ِ
ج شراب ل د ہما مو ِ یدددد ہے با ِسر پدہگزردددے ہپدبدددھ
ہے یہ برسات وہ موسم کہعجب کیا ہے اگر
ج شراب ض د ہوا مو ِ ج د ہستی کوکردددے فی ِ مو ِ
چار موج اٹھتی ہے طوفاِن طرب سے ہر سو 61
گرداب
ِ 61
35
ت
62۔
افسوس کہ دنداں62کاکیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخوِر عق ِّد گہر انگشت
کافی ہے نشانی ِتری 63،چھلےکا نہ دینا
ت سفر انگشت خالی مجھے دکھل کے بوق ِ
لکھتا ہوں اسؔد سوزِش دل سے سخِن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
63۔
رہا گر کوئی تا قیامت سلمت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلمت
قخودددں نابدہ مشربجگر کومردددے عش ِ
لکھے ّ ہے ‘خداونِد نعمت سلمت’
علی اللرغِم دشمن ،شہیِد وفا ہوں
مبارک مبارک سلمت سلمت
گ ادراک معنی نہیں گرسر و بر ِ
تماشاۓ نیرنگ صورت سلمت
64۔
آمِد خط سے ہوا ہے سرد جو بازاِر دوست
دوِد شمِع کشتہ تھا شاید خِط رخساِر دوست
اے دِل ناعاقبت اندیش! ضبِط شوق کر
62
نسخۂ نظامی میں اگرچہ ‘دیداں’ ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ‘دنداں’ مناسب ہے ،دیداں سہِو کتابت ممکن ہے۔ )اعجاز عبید(
دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ
مہر اور نسخہ علمہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخہ حمیدیہ )شایع کردہ مجلِس ترقی ادب لہور ( 1983میں لفظ دندان
آیا ہے )جویریہ مسعود(
مزید :نسخۂ نظامی اور بعض دوسرے نسخوں میں "دندان" کے بجاۓ "دیداں" چھپا ہے۔ " دودہ عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں ،اس
کی جمع "دود" ہے اور جمع الجمع "دیدان" ۔ یہ بات خلف قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غالب نے دیداں لکھا ہو۔ اس میں معنوی سقم یہ ہے
کہ قبر میں پورا جسم ہی کیڑوں کی نذر ہوجاتا ہے ،انگلیوں کی کوئی تخصیص نہیں نہ خاص طور پر انگلی کے گوشت سے
کیڑوں کی زیادہ رغبت کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کسی مرے ہوۓ محبوب کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ زمانے کی
ناقدری کا ماتم ہے کہ جو انگلی عقِد گہر کی قابل تھی وہ حسرت و افسوس کے عالم میں دانتوں میں دبی ہے۔ خوبصورت دانتوں
کو موتیوں کی لڑی سے تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے موتی کے زیور کی رعایت ملحوظ لکھی گئی ہے۔ کیڑوں کو موتیوں سے
تشبیہ دینا مذاِق سلیم کو مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ )حامد علی خاں(
ت وقف بعض نسخوں میں یہاں "ِتری" اور بعض میں "ِترا" چھپا ہے۔ متن میں "تری" کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس صورت میں علم ِ
63
ت وقف "نشانی" کے بعد ہونی چاہیے یعنی :کافی ہے نشانی ،ترا چھلے کا نہ دینا۔۔۔
"تری" کے بعد ہے۔ دوسری صورت میں علم ِ
متن کے اندراج کا مفہوم یہ ہے کہ تیری یہی نشانی میرے لیے کافی ہے کہ رخصت کے وقت جب میں نے تجھ سے نشانی کا چھل
ُ
مانگا تو تو نے مجھے ایک اداۓ خاص سے ٹھینگا دکھادیا۔ نسخۂ نظامی میں بھی اس متن کے مطابق "تری" چھپا ہے۔ )حامد علی خاں(
36
65۔
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لۓ مری بالیں پہ اسے ،پر کس وقت
شاید بعض حضرات اس کو "ُرفتہ" پڑھتے ہیں۔ یقین ہے کہ غالب کا لفظ یہاں "َرفتہ" ہے۔ ۔ )حامد علی خاں( 64
37
ج
66۔
گدگر ہے آج گلشن میں بند وبست بہ رن ِ
قمری کاطوق حلقۂ بیروِن در ہے آج
ئ تپش ہوئی افراِط انتظار معزول ِ
چشِمکشادہ حلقۂ َبیروِن در ہے آج
حیرت فروِش صد نگرانی ہے اضطرار
َ
65
ہر رشتہ تاِر جیب کاتاِر نظرہ ہے آج
ادددے عافیت!کنارددہ کر،ادددے انتظام! چل
ب گریہ در پِے دیوار و در ہے آج سیل ِ
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تاِر نفس کمنِدشکاِر اثر ہے آج
ئ شاِموصاِل یار ہوں داِغ نیم رنگ ِ
نوِر چرا ِغ بزم سے جوِش سحر ہے آج
کرتی ہے عاجزی سفِر سوختن تمام
َ
پیراہِن خَسک میں غبا ِر شرر ہے آج
تا صبحہ ہے بہ منزِل مقصد رسیدنی
دوِدچرا ِغ خانہ غباِر سفر ہے آج
دور اوفتادۂ چمِن فکر ہے اسؔد
مر ِغہ خیاِل بلبِل بے بال و پر ہے آج
67۔
معزولئ تپش ہوئی افراِز انتظار
چشِمکشودہ حلقۂ بیروِن در ہے آج
68۔
لو ّہممری ِض عشق کےبیماردار 66ہیں
اچھا اگرنہ ہو تو مسیحا کاکیا علج !!
چ
69۔
َ
نفس نہ انجم ِنہ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظاِر ساغر کھینچ
"کماِل گرمئ سعِی 67تلِش دید" نہ پوچھ
گ خار مرےآئینہ سے جوہرکھینچ بہ رن ِ
راحتددددد ہے انتظارادددے دل! تجددددددھے بد ہداندۂ
کیا ہے کسنے اشارہ کہناِز بسترکھینچ
تری طرفہ ہے بہ حسرت نظارۂنرگس
بہ کورئ دل و چشِمرقیب ساغرکھینچ
ت ناز
بہ نیمغمزہ ادا کرح ِق ودیع ِ
نیاِمپردۂ زخِمجگر سے خنجرہ کھینچ
مرے قدح میں ہے صہباۓ آتِش پنہاں
ب دِل سمندرکھینچ ُ
بروۓ سفرہ کبا ِ
68
’ 67سعی’ اور ‘نفی’ جیسے الفاظ میں اضافت کے لیے زیر کے بجاۓ ہمزہ کا استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ اضافت سے یہاں "الف"
کی نہیں " ی" کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ )حامد علی خاں(
ّ
68صحیح تلفظ سیِن مضموم )یعنی س پر پیش( سے ہے مگر بعض لوگ اس تلفظ میں ذم کا پہلو دیکھتے ہیں اور َسفرہ بہ سیِن
مفتوح )یعنی س پر زبر( بولتے ہیں۔ ۔ )حامد علی خاں(
39
د
70۔
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہِل جفا میرے بعد
منصِب شیفتگیکےکوئیقابل نہ رہا
ہوئی معزولئ انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
خوں ہے دل خاک میں احواِل بتاں پر ،یعنی
ان کے ناخن ہوۓ محتاِج حنا میرے بعد
درخوِر عرضہ نہیں جوہِر بیداد کوجا
نگِہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
ہے جنوں اہِل جنوں کےلۓ آغوِش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
ف مۓ مرد افگِن عشق کون ّ ہوتا ہے حری ِ
ہے مکرر لِب ساقی میں صل میرے بعد
69
72۔
69
ب ساقی پہ’۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی امل ہے۔ )اعجاز عبید( نسخۂ حمیدیہ میں ہے ‘ل ِ
مزید :نسخۂ مہر ،آسی اور باقی نسخوں میں لفظ 'پہ' ہے۔ )جویریہ مسعود(
نسخۂ نظامی ،نسخۂ عرشی ،نسخۂ حسرت موہانی اور بعض دیگر نسخوں میں یہاں "میں" ہی چھپا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں "پہ" درج مزیدً :
ہے ۔ ظاہرا "میں" سہِو کتابت معلوم ہوتاہے لیکن اگر غالب نے "میں" ہی کہا تھا تو اس کی مراد یہ ہوگی کہ غلبۂ غم کے باعث
صل لبوں پر نہ آسکی لبوں میں ہی رہ گئی۔ )حامد علی خاں(
یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ )جویریہ مسعود( 70
40
ر
73۔
بل سے ہیں جو ی ہہ پیِش نظر در و دیوار
نگاِہ شوق کوہیں بال و پر در و دیوار
وفوِر اشک نے کاشانے71کا کیا یہہہ رنگ
کہہو گۓمرے دیوار و در در و دیوار
نہیں ہے سایہ ،کہسن کرنوید َمقدِمیار
گۓہیں چند قدمپیشتر در و دیوار
ہوئی ہے کسقدر ارزانئ مۓ جلوہ
کہمست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار
جو ہے تجھے سِر سوداۓ انتظار ،تو آ
کہہیں دکاِنمتا ِعہ نظرہ در و دیوار
ہجوِمگریہ کاسامان کبکیا میں نے
کہگرپڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
وہ آرہا مرے ہمسایہ میں ،تو ساۓ سے
ہوۓ فدا در و دیوار پر در و دیوار
نظرہ میں کھٹکےہے ِبن تیرے گھر کیآبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہمدیکھ کردر و دیوار
ش َمقدِم سیلبئ عی ِ ندہپوچدددھبدددے خود ِ
کہناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار
ب نہیں زمانے میں نہ کہہ کسی سے کہ غال ؔ
حریف راِز محبت مگر در و دیوار
74۔
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟
ت سخن کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاق ِ
‘ جانوںکسیکے دلکی میںکیونکر کہے بغیر’
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئینام ستمگر کہے بغیر
72جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جاۓ یا رہے ،نہ رہیں پر کہے بغیر
مولنا عبد الباری آسی لکھنوی کے نسخے میں "کاشانہ" بجاۓ "کاشانے" )جویریہ مسعود( 71
75۔
ب ر ِخہ یار دیکھ کر کیوں جل گیا نہ ،تا ِ
ت دیدار دیکھ کر جلتا ہوں اپنی طاق
ِ َ
آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے
سرگرِمنالہ ہاۓ شرربار دیکھ کر
کیا آبروۓ عشق ،جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تمکوبے سبب آزار دیکھ کر
آتا ہے میرے قتل کو َپر جوِش رشک سے
مرتا ہوں اس کےہاتھ میں تلوار دیکھ کر
ثابت ہوا ہے گردِن مینا پہ خو ِنہ خلق
لرزے ہے مو ِج مے تری رفتار دیکھ کر
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ّ
ت آزار دیکھ کر ہمکوحری ِصہ لذ ِ
ِبک جاتے ہیں ہم آپ ،متاِع سخن کے ساتھ
لیکن عیاِر طبِع خریدار دیکھ کر
تودددددڑ ڈال
ُزّناربانددددھ،سبحدۂ صد داندہ
رہرو چلے ہے راہ کوہموار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو ُپر خار دیکھ کر
کیا بد گماں ہے مجھ سے ،کہآئینے میں مرے
طوطی کاعکس سمجھے ّہے زنگار دیکھ کر
گرنی تھی ہمپہ بر ِق تج لی ،نہ طو ر پر
فہ قدح خوار' دیکھ کر دیتے ہیں بادہ' ظر ِ
ؔ
سر پھوڑنا وہ! 'غالب شوریدہ حال' کا
نسخۂ حمیدیہ :کافر کو پوجنا۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ )حامد علی خاں( 73
43
78۔
صفاۓ حیرت آئینہ ہے ساما ِن زنگ آخر
ببرجا ماندہ" کاپاتا ہے رنگہ آخر
تغیر " آ ِ
نہ کیساما ِن عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ہوا جاِمُزمر ّد بھی مجھے داغ ِپلنگ آخر
79۔
ّ
ت بیداد دشمن پر فسوِن یک دلی ہے لذ ِ
کہوجِد ّبرق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمنہ پر
تکلف خار خاِر التماِس بے قراری ہے
تسوزن پر کہرشتہ باندھتا ہے پیرہن انگش ِ
یہ کیا وحشت ہے! اے دیوانے ،پس از مرگ واویل
رکھیبے جا بناۓ خانۂ زنجیر شیون پر
جنوں کیدست گیری کسسے ہو گرہو نہ عریانی
گریباں چاک کاحق ہو گیا ہے میری گردن پر
گ بے تابی گ کاغِذآتش زدہ نیرن ِبہ رن ِ
ہزار آئینہ دل باندھے ہے باِل یک تپیدن پر
فلک سے ہمکوعیِش َرفتہ کاکیا کیا تقاضا ہے
متا ِعہ ُبردہ کوسمجھے ہوۓ ہیں قرض رہزن پر
ہماور وہ بے سبب "رنجہ آشنا دشمن" کہرکھتا ہے
ُ
شعاِع مہر سے تہمت نگہ کی چشِمروزن پر
فنا کوسونپ گرمشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروِغ طال ِع خاشاک ہے موقوف گلخن پر
اسؔدبسمل ہے کسانداز کا ،قاتل سے کہتا ہے
‘تو مشِق نازکر ،خوِن دو عالم میریگردن پر’
80۔
ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
45
81۔
لزمتھا کہدیکھو مرا رستہ کوئی ِدن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئیدن اور
مٹ جائے گا َسر ،گر ،ترا پتھر نہ گِھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئیدن اور
آئے ہو کلاور آج ہی کہتے ہو کہ ’جا ؤہں؟’
مانا کہھمیشہ نہیں اچھا کوئیدن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کوملیں گے‘
کیا خوب! قیامتکا ہےہگویاکوئی دن اور
ک پیر! جواں تھا ابھی عارف ہاں اے فل ِ
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئیدن اور
تمماِہ شِب چار دہمتھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشاکوئی دن اور
تم کون سے ُ ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا مل کہ الموت تقاضا کوئیدن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی ،نیر سے لڑائی
بچوں کابھی دیکھا نہ تماشا کوئیدن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئیدن اور
ؔ
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کیتمنا کوئیدن اور
46
ز
82۔
ف مطلِب مشکل نہیں فسوِن نیاز حری ِ
دعا قبول ہو یا رب کہعم ِر خضرہ دراز
نہہ ہ ہوہ بہہ ہ ہرزہ ،بیاباں نورِد وہِم وجود
ہنوز تیرے تصّور میں ہےنشیب و فراز
وصاِل جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں!
کہدیجئے آئینۂ انتظار کو پرواز
ہرہ ایک 74ذّرۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئینہ خاک ہوۓ پر ہواۓ جلوۂ ناز
ت ایجاد کا تماشا دیکھ فریِب صنع ِ
نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز
گہ رسوائی ہنوز اے اثِر دید ،نن ِ
75
84۔
کیوں کراس بت سے رکھوں جانہ عزیز!
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز!
دل سے نکل۔ پہ نہ نکل دل سے
ہے ترے تیر کاپیکان عزیز
تاب لتے ہی بنے گی غال ؔ
ب
واقعہ سخت ہے اور جانہ عزیز
85۔
ت سعِیکرمدیکھ کہسر تا سِر خاک وسع ِ
گزرے ہے آبلہ پا ابِر گہربار ہنوز
یک قلم کاغِذ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
پ78گرمئ رفتار ہنوز نقِش پا میں ہے ت ِ
86۔
گلکھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبحہ ہوئی
سرخوِش خواب ہے وہ نرگِسمخمور ہنوز
87۔
نہہ ہ79گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کیآواز
ش خِم کاکل
تو اور آرائ ِ
80
میں اور اندیشہ ہاۓ دور دراز
78بعض نسخوں میں "تپ" بھی چھپا ہے جو "تب" کا ہم معنی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ )حامد علی
خاں(
مزید :ہم نے اس نسخے میں "تپ" کو ترجیح دی ہے کیوں کہ اکثر نسخوں میں "تپ" ہی درج ہے۔ )جویریہ مسعود(
بعض نسخوں میں "نہ" کی جگہ "نے" بھی چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں "نہ" چھپا ہے۔ )حامد علی خاں( 79
80نسخۂ حمیدیہ ،طباطبائی ،حسرت موہانی ،نیز مہر ،بیخود اور نشتر جالندھری کے نسخوں میں "دور و دراز" چھپا ہےلیکن نسخۂ نظامی ،
عرشی اور مالک رام نیز متعدد قدیم نسخوں میں یہاں "دور دراز" ہی ملتا ہے۔ دور دراز )بل عطف( صحیح فارسی ترکیب ہے جس
گ آنند راج اور شٹائن گاس کی فارسی انگریزی لغت سے بھی ملتی ہے۔ )حامد علی خاں( کی شہادت فرہن ِ
48
س
88۔
ت مے خوار کےپاس ُ
کبفقیروں کورسائی ب ِ
81
89۔
اے اسؔد ہم خود اسیِر رنگ و بوۓ باغ ہیں
ظاہرا صّیاِد ناداں ہے گرفتاِر ہوس
ش
90۔
َ
نہ لیوے گرخِس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
لگا دے 82خانۂ آئینہ میں ُروئے نگار آِتش
ّ ُ
فروِغ حسن سے ہوتی 83ہے حل ُمشکِل عاشق
نہ نکلے شمع کے پاسے ،نکالے گرنہ خار آتش
بیشتر نسخوں میں "لگا دے" کی جگہ "لگاوے" چھپا ہے۔ )حامد علی خاں( 82
ممکن ہے غالب نے یہاں "ہوتا ہے" کہا ہو اور "ہوتی ہے" سہِو مرتبین ہو۔ )حامد علی خاں( 83
51
ع
91۔
ُ
ت شامہے تاِر شعاع
جادۂ رہ خور کووق ِ
چرخہ وا کرتا ہے ماِہ نو سے آغوِش وداع
92۔
جاودانی شمع
ِ ُر ِخ نگار سے ہے سوِز
ش ُگل آبِزندگانیِ شمع ہوئی ہے آت ِ
مرگ خاموشی ِ زباِن اہِل زباں میں ہے
زبانی شمع
ِ یہ بات بزم میں روشن ہوئی
صرفہ بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام کرے ہے ِ
خوانی شمع ِ ُبہ طرِز اہِل فنا ہے فسانہ
84
ت پروانہ کاہے اے شعلہ غم اس کوحسر ِ
ناتوانی شمع
ِ ترے لرزنے سے ظاہر ہے
ترے خیال سے ُروح اہتہہزازکرتی ہے
بہہ ہ جلوہہ ریہزئ باد و بہ پرفشانیِ شمع
کی بہار نہ ُپوچھ نشاِط داِغ غِم عشق ُ
لخزانی شمع ِ شگفتگیہے شہیِد گ ِ
جلے ہے ،دیکھ کےبالیِن یار پر مجھ کو
بدگمانی شمع
ِ نہ کیوں ہو دل پہ مرے داِغ
84
نسخۂ مہر میں" شعلہ" ،نسخہ آسی میں شعلے۔ شعلہ زیادہ صحیح ہے )جویریہ مسعود(
52
ف
93۔
بیِم رقیب سے نہیں کرتے وداِع ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار ،حیف !
جلتا ہے دل کہکیوں نہ ہم ِاک بار جل گئے
ََ
اے ناتمامِی نفِس شعلہ بار حیف !
ک
94۔
85
زخم پر چھڑکیں کہاں طفل ِن بے پروا نمکہ
کیا مزا ہوتا ،اگرپتھر میں بھی ہوتا نمکہ
اددیارددددد ہے ساما ِ
ن ناِز زخِم دل گرِد ر ِہ
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کسقدر پیدا نمکہ
کومبارک ہو جیو کوارزانی رہے ،تجھ ُ مجھ
نالۂ ُبلبل کادرد اور خندۂ گل کانمکہ ُ
شوِر جولں تھا کناِر بحر پر کسکا کہآج
گرِدساحل ہے بہ زخِمموجۂ دریا نمکہ ِ
86
داد دیتا ہے مرے زخِمجگر کی ،واہ واہ !
یاد کرتا ہے مجھے ،دیکھے ہے وہ جس جا نمکہ
چھوڑ کرجاناہ ت ِن مجرو ِحہ عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمکہ
غیر کی منت نہ کھینچوں گا َپے توفیِر 87درد
زخم ،مثِل خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمکہ
میں عیش کی لٓذت نہیں ملتی اسدؔ اس عمل
زوِر نسبت مے سے رکھتا ہے نصارا کانمکہ َ
ؔ ُ
ب ! تجھے وہ دن کہ وجِد ذوق میں یاد ہیں غال
ُ
زخم سے گرتا ،تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمکہ
۔95
85نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے :زخم پر باندھے ہیں کب طفلِن بے پروا نمک )جویریہ مسعود(
86ایک نسخے میں "واہ وا" بہ تخفیف بھی دیکھا گیا ہے لیکن اکثر قدیم و جدید نسخوں میں "واہ واہ" درج ہے۔ )حامد علی خاں(
بعض نسخوں میں "توفیر" کی جگہ "توقیر" چھپا ہے ۔ نسخۂ نظامی میں "توفیر" درج ہے۔ )حامد علی خاں( 87
53
ُ
آہ کوچاہیے ِاک عمر اثر ہونے تک
88
96۔
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو ،پر ہیں یہ دونوں یار ایک
وضع میں گوہوئی دو سر ،تیغ ہے ذوالفقار ایک
ت قاسسم و طباں ہم سخن اور ہم زباں ،حضر ِ
ایک تپش90کا جانشین ،دردکییادگار ایک
نقِد سخن کےواسطے ایک عیاِر آگہی
شعر کےفن کےواسطے ،مایۂ اعتبار ایک
ئبساِط دہر
ایک وفا و مہر میں تازگ ِ
ت روزگار ایک لطف و کرمکے باب میں زین ِ
88
اکثر قدیم نسخوں میں ‘ہوتے تک’ ردیف ہے۔ نسخۂ نظامی میں بھی لیکن کیوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں مروج قرأت ‘ہونے تک’ ہی
دی گئی ہے اس لۓ اسی کو قابِل ترجیح قرار دیا گیا ہے۔
مزید :مالک رام صاحب نے لکھا ہے کہ غالب کی زندگی میں دیوان کے جتنے ایڈیشن شائع ہوۓ ،ان میں ردیف "ہوتے تک" ہے۔ راقم
الحروف )حامد علی خاں( کے مشاہدے کی حد تک بھی مالک رام صاحب کی اس قول کی تائید ہوتی ہے مگر مولنا غلم رسول
مہر نے "ہونے تک" کی ردیف کی حق میں ایک نیم مشروط سی دلیل پیش کی ہے حالنکہ سہِو کتابت کہیں بھی خارج از امکان
نہیں۔ البتہ مالک رام صاحب نے قدیم نسخوں میں بھوپال کے نسخۂ حمیدیہ کا ذکر نہیں کیا جس میں ردیف "ہونے تک" درج ہے ۔
تحریف کیوں کہ آج کل بیشتر اہِل ذوق "ہونے تک" کو صوتی راقم الحروف )حامد علی خاں( کی راۓ میں یہ بھی سہِو کتابت ہے یا ً
لحاظ سے پسندیدہ سمجھتے ہیں مگر اپنی پسند غالب کے کلم کو عمدا بدل ڈالنے کا حق نہیں دیتی۔ مہر صاحب نے تحریر فرمایا ہے:
"عرشی صاحب نے اب بھی ردیف "ہونے تک" ہی رکھی ہے " عرشی کا جو نسخہ راقم کی نظر سے گزرا ہے ،اس میں مولنا
کے مشاہدے کے بر عکس اس غزل کی ردیف "ہوتے تک" ہی ملتی ہے۔ بہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ )حامد
علی خاں(
نسخۂ مبارک علی میں الفاظ ہیں ‘ہم پہ یہ بھاری ہیں’ )اعجاز عبید( 89
90
نسخے میں اگرچہ 'طپش' ہے لیکن صحیح تپش ہی درست ہونا چاہۓ )اعجاز عبید(
54
ُ
گلکدۂ تلش کو ،ایک ہے رنگ،ہ اک ہے بو
ریختہ کےقماش کو ،پود ہے ایک ،تار ایک
ت کمال میں ایک امیِر نامور مملک ِ
عرصۂ قیل و قال میں ،خسرِو نامدار ایک
ّ
گلشِن اتفاق میں ایک بہاِر بے خزاں
مے کدۂوفاق میں بادۂ بے خمار ایک
ُزندۂ شوِق شعر کوایک چرا ِغ انجمنہ
کشتۂ ذوِق شعر کوشمِع سِر مزار ایک
دونوں کےدل حق آشنا ،دونوں رسول )ص( پر ِفدا
ب چار یار ،عاشِق ہشت و چار ایک ایک ُمح ّ
جا ِنہ وفا پرست کوایک شمیِمنو بہار
گ بار ایکفرِق ستیزہ مست کو ،ابِر تگر ِ
لیا ہے کہہ کے یہ غزل ،شائبۂ ِریا سے دور
ب خاکسار ایک کرکےدل و زبانہ کو غال ؔ
55
گ
97۔
ُ ُ
گر تجھ کو ہے یقیِن اجابت ،دعا نہ مانگ
یعنی ،بغیر یک دِل بے ُمدعا نہ مانگ
ت دل کا شمار یاد آتا ہے داِغُ حسر ِ
ُمجھ سے مرے گنہ کا حساب ،اے خدا! نہ مانگ
ل
98۔
ب وفائے ُگل ک فری ِ ہے کس قدر ہل ِ
ائدددے ُگل
ُبلُبلکدددےکاروبارپددہ یہدددںخندددددہ ہ
آزادئ نسہیممبارک کہ ہہر طہرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ داِم ہوائے ُگل
جو تھا ،سو موِج رنگہ کےدھوکےمیں مر گیا
بخونیدددںنوائدددے ُگل ! ادددےوائدددے ُ،نالدۂ ل ِ
ف سیہ مست کا ،کہجو خوش حال اس حری ِ
لسایدۂ ُ ُگل ،سر بدہپائدددے ُگل رکدددھتا د ہو مث ِ
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
س عطرسائدددے ُگل رقیبدددد ہے َنَف ِ میرا
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باِد بہار سے
ل بے ہوائے ُگل مینا ۓ بے شراب و د ِ
ُ
سطوت سے تیرے جلوۂ حسِن غیور کی
خودددددددں ہے مرینگاددہمیدددں رنگِادائدددے ُگل
تیرے ہی جلوے کاہے یہ دھوکا کہآج تک
ڑے ہے ُگل درقفائدددے ُگل بدددے اختیار
دودددددددددد ُ
ب ! مجھے ہے اس سے ہمآغوشی آرزو غال ؔ
بقبائدددے ُگل ل جی ِ خیالدددد ہے ُگ ِ جس کا
56
م
99۔
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کوبیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن ،شمِع ماتم خانہ ہم
محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باِز خیال
گ یک بت خانہہم ہیں ورق گردانہہئ نیرن ِ
باوجوِد یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں
ہیں "چراغا ِنہ شبستاِن دِل پروانہ" ہم
ک جستجو ضعف سے ہے ،نے قناعت سے یہ تر ِ
ت مردانہ" ہم ّ
ہیں "وباِل تکیہ گاِہِہم ِ
دائم الحبس اس میں ہیں لکھوں تمّنائیں اسؔد
جانتے ہیں سینۂ ُپر خوں کوزنداں خانہ ہم
100۔
بہہ نالہ دل بستگہیفراہہہمکہر
متا ِعہ خانۂ زنجیر جز صدا ،معلوم
101۔
مجھ کودیاِر غیر میں مارا ،وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسیکیشرم
وہ حلقۂ ہاۓ زلف،کمیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعوۂ وارستگیکیشرم
102۔
ت کِشیار ہیں ہم از آنجا کہحسر ِ
رقیِب تمّناۓ دیدار ہیں ہم
رسیدن گِلباغہ واماندگیہے
عبث محفل آراۓ رفتار ہیں ہم
نفس ہو نہ معزوِل شعلہ درودن
کہضبِط تپش سے شررکار ہیں ہم
تغافل کمیں گاِہوحشت شناسی
نگہباِن دل ہاۓ اغیار ہیں ہم
تماشاۓ گلشن تماشاۓ چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم
57
ن
103۔
ب خوش ولےت خفتہ سے یک خوا ِ
لوں وامبخ ِ
ب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروںغال ؔ
104۔
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
ت کاروباِر شوق کسے فرص ِ
ذوِق نظار ۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
ط و خال 91کہاں شوِرسودائدددے خ ّ
تھی وہ اک شخص کےتص ّور سے
اب وہہ رعنا ئِی خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میںطاقت ،جگر میں حال کہاں
ہمسے چھوٹا "قمار خانہۂ عشق"
واں جو جاویں ،گرہ میں مال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
بمضمحل ہو گئے قوٰی غال ؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
105۔
کیوفا ہمسے تو غیر ِاس کو جفا کہتے ہیں
92
ُ
یہاں "ِاس" کی بجاۓ "اس" نہیں پڑھنا چاہیے۔ نسخۂ نظامی میں "ِاس" ہی چھپا ہے۔ )حامد علی خاں( 92
59
ُ106۔ ُ
آبرو کیا خاک اس گل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
گ پیراہن جو دامن میں نہیں ہے گریبان نن ِ
ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا ،جو خوں کہ دامن میں نہیں
ُ ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ ِآفتاب
ذرے اس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں ّ
ئ زنداِن غم اندھیر ہے
کیا کہوں تاریک ِ
پنبہ نوِر صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں
رونِق ہستی ہے عشِق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
زخم ِسلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کاہے طعن
ّ
دددد ہے کدہ لذہت زخِم سوزن میں نہیں غیرسمج داددھ
ُ
کہہیں ہم اک بہاِر نازکے مارے ہوے بس ُ
94
93فارسی میں گھاس کے لیے "گیاہ" اور "گیا" دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لغت نویسوں کی راۓ ہے کہ لفظ "گیا"
خشک گھاس کے لیے مخصوص ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ مہر گیا کو مردم گیا بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں بھی لغت
نویس کسی ایک خیال پر متفق نہیں ہوتے ۔ اس کے مفاہیم میں محبوب ،رِخ نگار ،سبزۂ خط ،سورج مکھی ،نیز مردم گیا کی دو
شاخہ جڑ جو انسان نما سمجھی جاتی ہے ،شامل ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ جو شخص اس گھاس کی جڑ اپنے پاس رکھتا ہے محبوب
اس پر مہربان اور ہر شخص اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ )حامد علی خاں(
94
نسخۂ مہر اور آسی میں " ہم ہیں" درج ہے۔ )جویریہ مسعود(
60
108۔
مہرباں ہو کے بللو مجھے ،چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعن ۂ اغیارکاشکوہکیا ہے
سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
بات کچھ َ
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کوستمگر ،ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
109۔
ت مے پرستی ایک دن ہمسے کھل جا ؤہ بوق ِ
ُ
ورنہ ہمچھیڑیں گےرکھ کر عذِر مستی ایک دن
ج بِنائے عالِمامکاں نہ ہوہغ ّر ِۂ او ِ
ِاس بلندی کےنصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگہ لئے 95گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کوہی اے دل غنیمت جانیے
جائے گایہ ساِز زندگیایک دن بے صدا َ ہو ّ ُ
َدھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ب پیش دستی ایک دن ہمہی کربیٹھے تھے غال ؔ
110۔
ک وفا کا گماں نہیں ہم پر جفا سے تر ِ
ِاک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کسمنہ سے شکر کیجئے اس لطف خاصہ کا
حامد علی خان کے مرتب کردہ نسخے میں یہاں "لۓ" کی جگہ "لوے" درج ہے۔ )جویریہ مسعود( 95
61
113۔
برشکاِل گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہۓ
98
ُ
کِھل گئیمانِد گلسَو جا سے دیواِر چمنہ ُ
ت گلسے غلط ہے دعوئ وارستگی ِ الف
ف آزادی گرفتاِر چمنہ سرو ہے باوص ِ
ہے نزاکت بس کہفصِل گلمیں معماِر چمنہ
ت دیواِر چمنہ قالِب گلمیں ڈھلی ہے خش ِ
114۔
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجِر بید نہیں
سلطنت دست بَ َدست آئی ہے
جاِم مے خاتِم جمشید نہیں
ہے تجلی تری ساماِن وجود
ذّرہ بے پر تِو خورشید نہیں
راِز معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گہ طرب سے ڈر ہے گردِشرن ِ
جاوید نہیں
غِم محرومئ ُ
ّ
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی اّمید نہیں
115۔
جہاں تیرا نقِش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ِارم دیکھتے ہیں
نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے :ریختے کا وہ ظہوری ہے ،بقوِل ناسخ )جویریہ مسعود( 97
116۔
ُ
ملتی ہے خوئے یار سے نار التہہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عزاب میں
کب سے ُہوں۔ کیا بتاؤں جہاِن خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مجھ تک کبان کیبزم میں آتا تھا دوِر جام
ساقی نے کچھ مل نہ دیا ہو شراب میں
جو منکِر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں
ف رقیب سے میں مضطرب ُہوں وصل میں خو ِ
ڈال ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
ّ
میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ف نقاب میں ہے اک شکن پڑی ہوئی طر ِ
ُ
لکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کا
لکدددوھدددں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں
وہ نالہ دل میں خس کےبرابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں
وہ سحر مدعا طلبی میں کامنہ آئے
جس ِسحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں
بعض نسخوں میں "کہ" کی جگہ "کر" چھپا ہے ۔ نسخۂ نظامی" :کہ" )حامد علی خاں( 99
64
ؔ ُ
ب چھٹی شراب پر اب بھی کبھیکبھی غال
پیتا ہوں روِز ابر و شِب ماہتاب میں
117۔
ّ
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
یہ ُسوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دِمسماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
100
َرو میںہے رخِش عمر ،کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اتنا ہی مجھ کواپنی حقیقت سے ُبعد ہے
جتنا کہ وہِم غیر سے ُہوں پیچ و تاب میں
اصِل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نُمود ُ
ص َور پر وجوِد بحر ِ
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
شرماک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں ُیوں حجاب میں
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
ِ
پیِش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
ہے غیِب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیںخواب میں ہنوز ،جو جاگے ہیں خواب میں
ب ندیِم دوست سے آتی ہے بوئے دوست غال ؔ
مشغوِل حق ہوں ،بندگئ ُبو تراب میں
118۔
َ
حیراں ہوں ،دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو َمیں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے ُپو چھتا ہوں کہ ” جاؤں کدھر کو َمیں”
جاناہ پڑا رقیب کےدر پر ہہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو َمیں
ہے کیا ،جو کس٭ کےباندھیے میری بل ڈرے
کیا جانتا نہیں ُہوں تمھاری کمر کو َمیں
لو ،وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ بے ننگہ و نام ہے‘
نسخۂ نظامی مطبوعہ 1862میں "تھمے" کی جگہ "تھکے" چھپا ہے۔ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ )حامد علی خاں( 100
65
ُ
یہ جانتا اگر ،تو لٹاتا نہ گھر کو َمیں
چلتا ہوں تھوڑی ُدور ہر اک تیز َرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ُہوں ابھی راہبر کو َمیں
خواہش کواحمقوں نے پرستش دیا قرار
ت بیداد گر کو َمیں ُ
کیا ُپوجتا ہوں اس ب ِ
پھر بے خودی میں بھول گیا راِہ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو َمیں
اپنے پہ کر رہا ُہوں قیاس اہِل دہہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاِع ُہنر کو میں
سمندِر ناز ؔ
غالب خدا کرے کہ سواِر ُ
دیکھوں علی بہادِر عالی گہر کو میں
119۔ ُ
ذکر میرا بہ بدی بھی ،اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ ُدور نہیں
وعدِۂ سیِرگلستاں ہے ،خوشا طالِع شوق
مژدۂ قتل مقّدر ہے جو مذکور َنہیں
شاہ ِد ہستئ مطلق کیکمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ’ ہے‘ پر ہمیںمنظور نہیں
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ُ
ہم کو تقلیِد تنک ظرفئ منصور نہیں
حسرت! اے ذوِق خرابی ،کہوہ طاقت نہ رہی
عشِق ُپر عر َبدہ کی گوں تِن رنجور نہیں
ظلم کرظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو
ُ
تو تغافل میںکسی رنگ سے معذور نہیں
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمھیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ” ہم حور نہیں”
کیقبلے کیطرفہ رہتی ہے ّ 101پیٹھ محراب
محِو نسبت ہیں ،تکلف ہمیں منظور نہیں
صافہ ُدردی کِشپیمان ۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
ُہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غال ؔ
ب
ّ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہےہکہ مشہور نہیں
120۔
ُ
نالہ جز حسِن طلب ،اے ستم ایجاد نہیں
103
نسخۂ مہر اور نسخۂ حامد علی خان میں ‘تراِوش’ )جویریہ مسعود(
67
126۔
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شِب فراق سے روِز جزا زیاد نہیں
کوئیکہے کہ ’ شِب مَہ میں کیا ُبرائی ہے‘
اگر دن کو ابر و باد نہیں ُ بل سے آج
جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں ،تو کہتے ہیں
کہ ’ آجبزم میںکچھ فتنۂ و فساد نہیں‘
کےملتی ہے اور دن بھی شراب علوہ عید ُ
گدائے کوچۂ مے خانہ نامراد نہیں
جہاں میں ہو غم و شادی بہم ،ہمیں کیا کام ؟
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
تم ُان کے وعدے کا ذکر ُان سے کیوں کرو غالبؔ
یہ کیا؟ کہ تم کہو ،اور وہ کہیں کہ”یاد نہیں”
127۔
تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
104
نسخۂ نظامی میں ‘آۓ’ )اعجاز عبید(
68
106
کچھ نسخوں میں ‘جو’۔ نسخۂ نظامی ‘ :کہ‘ )اعجاز عبید(
ً
107جنازے کے آگے چلنے والی ماتم وار لڑکیاں ؟ یہاں یہ لفظ غالبا "ِابُن" کی جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ غالب نے صیغۂ
تانیث استعمال کیا ہے۔ حامد علی خاں(
حالی نے یادگار غال ؔ
ب میں یوں درج کیا ہے :جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں )جویریہ مسعود( ِ
108
70
131۔
ّ
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
َ
یعنی ہمارہ ے جیب 109میں اک تار بھی نہیں
ت دیدار کرچکے دل کونیاِز حسر ِ
ت دیدار بھی نہیں دیکھا تو ہم میں طاق ِ
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
ُ
110
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
ّ
ت آزار بھی نہیں طاقت بہ قدِرلذ ِ
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وباِل دوش
صحرا میں اے خدا کوئیدیوار بھی نہیں
ت اغ یار اک طرف گنجائِش عداو ِ
یاں دل میں ضعف سے ہوِس یار بھی نہیں
ُ
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے ،خدا کومانہ
آخر نوائے مرِغ گرفتار بھی نہیں
ف م ژدگاں سے روکشی دل میں ہے یار کیص ِ
ت خلِش خار بھی نہیں حالنکہ طاق ِ
ُ
اس سادگیپہ کوں نہ مر جائے اے خدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
دیکھا اسؔدکوخلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں
132۔
فزوں کی دوستوں نے حرِص قاتل ذوِق کشتن میں
ہوۓ ہیں بخیہ ہاۓ زخم ،جوہر تیِغ دشمن میں
ف زخِم انتظارادددے دل
کردنیددددد ہے لط ِ
تماشا
سواِد زخِممرہم مردمک ہے چشِم سوزن میں
111
110بعض نسخوں میں "اور یاں" چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں "اور یہاں" درج ہے۔ )حامد علی خان(
مزید :ہم نے اس نسخے میں"اوریاں" کو ترجیح دی ہے۔ )جویریہ مسعود(
نسخۂ حمیدیہ میں "سویدا داِغ مرہم" بجاۓ " سواِد زخِم مرہم" )جویریہ مسعود( 111
71
َ
ہوا ہے جوہِر آئینہ خیِل مور خرمن میں
ُ
نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میں
ُہوا ہے تاِر اشک ِ یاس ،رشتہ چشِم سوزن میں
ُہوئی ہے مان ِع ذوِق تماشا ،خانہ ویرانی
گ پنبہ روزن میںف سیلب باقی ہے برن ِ ک ِ
ودیعت خانۂ بے داِد کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگیِن ناِمشاہد ہے ِمرا 112ہر قطرہ خوں تن میں
بیاں کسسے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شِب مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں
نکو ہش مان ِع بے ربطئ شوِر جنوں آئی
ہے خندہ احباب بخیہ ج َیب و دامن میں ُ ُہوا
ہوئے اس ِمہر َوشکے جلوۂ تمثالکےآگے
َپرافشاں جوہر آئینے میں مثِل ذّرہ روزن میں
ُ نہ جانوں نیک ُہوں یا بد ُہوں ،پر صحبت مخالفہ ہے
جو گل ُہوں تو ُہوں گلخن میں جو خس ُہوں تو ُہوں گلشن میں
ہزاروں دل دیئے جوِش جنو ِن عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہ خوں تن میں
اسؔد زندانئ تاثیِر الفت ہائے خوباں ُہوں
ت نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں خِم دس ِ
133۔
مزے ج ہاہن کے اپنی نظر میں خاک نہیں
جگر میں خاک نہیںجگر ،سو َ ُ سوائے خوِن
ُ
مگر غبار ہوے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت ُشمائل کی آمد آمد ہے؟
غیر ِ جلوۂ گل رہ گزر میں خاک نہیں کہ ُ
بھل اسے نہ سہی ،کچھ مجھی کورحم آتا
اثر مرے نف ُِس بے اثر میں خاک نہیں
خیاِل جلو ۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
ُہوا ہوں عشق کیغارت گری سے شرمندہ
ت تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں سوائے حسر ِ
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
112اکثر قدیم نسخوں میں "مرا" کی جگہ "ِمرے" چھپا ہے اور شارحین نے بل چون و چرا اسی طرح اس کی تشریح کردی ہے۔
قدیم نسخوں میں صرف نسخۂ حمیدیہ میں "ِمرا" چھپا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے غالب نے بھی یہی لکھا ہو کیونکہ اس
سے شعر بہت صاف ہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ تعقید بہ درجۂ عیب معلوم ہوتی ہے۔ ۔ )حامد علی خان(
72
ُ
ض ُہنر میں خاک نہیں
کھل ،کہفائدہ عر ِ
134۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت ،درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ۔کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
آستاں نہیں
نہیںُ ، َدیر نہیں ،حرم نہیں ،در
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم ،غیر 113ہمیں اٹھائے کیوں؟
ت مہِر نیمروز جب وہ جماِل دل فروز ،صور ِ
آپ ہی ہو نظارہ سوز ۔پردے میں منہ چھپائے کیوں؟
ک ناز بے پناہ دشنۂ غمزہ جاں ستاں ،ناو ِ
تیرا ہی عکس ُرخ سہی ،سامنے تیرے آئے کیوں؟
قیِد حیات و بنِد غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حسن اور اس پہ حسِن ظن،ہ رہ گئیبوالہوس کیشرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟
ب پاس وضع ّ
واں وہ غروِر ع ز و ناز ،یاں یہ حجا ِ
راہ میں ہم ملیں کہاں ،بزم میں وہ بلئے کیوں؟
ہاں وہ نہیں خدا پرست ،جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
ب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں غال ؔ
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
135۔
ُ
غنچہۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا ،کہ یوں
بوسے کو ُپوچھتا ہوں َمیں ،منہ سےمجھے بتا کہ ُیوں
ُ ُپرسِش طرِز دلبری کیجئے کیا؟ کہبن کہے
اس کےہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ ُیوں
رات کےوقت َمے پیے ساتھ رقیب کولیے
آئے وہ یاں خدا کرے ،پر نہ خدا کرے کہ ُیوں
’غیر سے رات کیا بنی‘ یہ جوکہا تودیکھیے
سامنے آن بیٹھنا ،اور یہ دیکھنا کہ ُیوں
ُ
ُ بزم میں اس کےروبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اس کی تو خاُمشی میں بھی ہے یہی مّدعا کہ ُیوں
میں نے کہا کہ ” بزِمناز چاہیے غیر سے تہی”
113
نسخۂ مہر میں "غیر" کی جگہ "کوئی" درج ہے۔ )جویریہ مسعود(
مزید :قدیم نسخوں میں یہاں "غیر " ہی چھپا ہے۔ قدیم نسخۂ نظامی میں بھی "غیر" ہے۔ عرشی ،حسرت اور مالک رام نے بھی متن میں
"غیر" ہی رکھا ہے۔ مہر صاحب نے "کوئی" کو ترجیح دی ہے مگر اس طرح پہلے دونوں شعروں میں "کوئی ہمیں" کا ٹکڑا بہ
تکرار آجاتا ہے۔ اگر صرف یہی شعر مد نظر ہو تو البتہ "کوئی" پسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ )حامد علی خان(
73
ُ
ُسن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ ُیوں ؟
مجھ سے کہا جو یار نے ’جاتے ہیں ہوش کس طرح‘
دیکھ کے میری بیخودی ،چلنے لگی ہوا کہ ُیوں
کبمجھے کوئے یار میں رہنے کیوضع یاد تھی
ت نقِش پا کہ ُیوںآئینہ دار بن گئی حیر ِ
گرتردددے دلمیددددں ہو خیال ،وصلمیدددں شوق کا زوال
موِج محیِط آب میں مارے ہے دست و پا کہ ُیوں
ک فارسی جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ُ ہو رش ِ
114
136۔
ہمبے خودئ عشق میں کرلیتے ہیں سجدے
صیہ سا ہیں
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں نا ِ
137۔
اپنا احواِل دِل زار کہوں یا نہ کہوں
ہے حیا مانِع اظہار۔ کہوں یا نہ کہوں
نہیں کرنے کامیں تقریر ادب سے باہر
ف اسرار ۔کہوں یا نہ کہوں میں بھی ہوں واق ِ
شکوہ سمجھو اسے یا کوئیشکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار۔ کہوں یا نہ کہوں
ئ دل
ل گرفتار ِاپندددے دل د ہیسدددےمیدددں احوا ِ
جب نہ پاؤں کوئی غم خوار کہوں یا نہ کہوں
دل کےہاتھوں سے ،کہہے دشمِن جانی اپنا
ہوں اک آفت میں گرفتار ۔کہوں یا نہ کہوں
میں تو دیوانہ ہوں اور ایک جہاں ہے غّماز
گوش ہیں در پِس دیوار کہوں یا نہ کہوں
آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے تو اسؔد
ب حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں حس ِ
114
نسخۂ مہر میں 'کہ' )جویریہ مسعود(
74
138۔
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
ت غم میں آہوۓ صّیاد دیدہ ہوں میں دش ِ
ہوں دردمند ،جبر ہو یا اختیار ہو
ک چکیدہ ہوں گہ نالۂ کشیدہ ،گہ اش ِ
115
نے ُسبحہ سے علقہ نہ ساغر سے رابطہ
ت بریدہ ہوں میں معرِض مثال میں دس ِ
ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لگ
نے دانۂ فتادہ ہوں ،نے داِم چیدہ ہوں
جو چاہۓ ،نہیں وہ مری قدر و منزلت
ت اّول خریدہ ہوں ف بہ قیم ِمیں یوس ِ
ہر گزکسیکےدل میں نہیں ہے مری جگہ
ُ
ہوں میں کلِم نغز ،ولے ناشنیدہ ہوں
اہِل َوَرع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے 116میں َمیں برگزیدہ ہوں
ہوں گرمئ نشاِط تصّور سے نغمہ سنج
117
میں عندلیِب گلشِن نا آفریدہ ہوں
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
118
ئ غِم ہجراں چشیدہ ہوں از بسکہ تلخ ِ
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
119
خاِر الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں
انی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ پ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
139۔
جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتاِر بل ہیں
کپڑوں میں جوئیں بخۓ کے ٹانکوں سے سوا ہیں
140۔
مدددے کشی کو ندہسمجدددھبدددےحاصل
115
نسخۂ مہر میں "رابطہ" کی جگہ" واسطہ"۔ )جویریہ مسعود(
مزید :نسخۂ بھوپال میں اس زمین کی دو غزلیں شامل ہیں لیکن ایک یہ شعر اور ایک )دیکھیں فٹ نوٹ نمبر (82شعر ہی اس میں
درج ہیں۔۔ )اعجاز عبید(
مشہور شعر ہے مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں )جویریہ مسعود( 117
یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں )جویریہ مسعود( 118
یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں )جویریہ مسعود( دیکھیں فٹ نوٹ نمبر 78 119
75
بادہ غال ؔ
ب عرِق بید نہیں
141۔
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں
دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاؤں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں
بھاگے تھے ہمبہت۔ سو ،اسی کیسزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں
مرہم کیجستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سوا ِفگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں
اللہ رے ذوِق دشت نوردی کہ بعِد مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے ،اندرکفنکے ،پاؤں
ہے جوِش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرِغ چمن کے پاؤں
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
ت نازک بدن کے پاؤں دکھتے ہیں آج اس ب ِ
ب مرے کلممیں کیوں کرمزہ نہ ہو غال ؔ
پیتا ہوں دھو کے خسرِو شیریں سخن کے پاؤں
76
و
142۔
حسد سے دل اگر افسردہ ہے ،گرِمتماشا ہو
ّ
ت ن ظارہ سے وا ہوکہ چشِمتنگ شاید کثر ِ
ت دل چاہیے ذوِق معاصی بھی بہ قدِر حسر ِ
بہفت دریا ہو بھروں یک گوشۂ دامنگر آ ِ
اگر وہ سرو قد گرِمخراِمناز آجاوے
ک گلشن ،شکِلقمری ،نالہ فرسا ہو فہر خا ِ
ک ِ
143۔
کعبے میں جا رہا ،تو نہ دو طعنہ ،کیا کہیں
ّ
کشت کو ت اہِل ُنِبھول ہوں ح ق صحب ِ
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لگ
دوزخ میں ڈال دو کوئیلے کربہشت کو
ہوں منحرفہ نہ کیوں رہ و رسِمثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلِمسرنوشت کو
نہیں مجھے ب کچھ اپنی سعی سے لہہنا٭ غال ؔ
خرمنہ جلے اگر نہ مَلخ کھائے کشتکو
144۔
ّ
وارستہ اس سے ہیں کہمح بت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ ،عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگہ اختلط کا
ہے دل پہ بار ،نقِش مح ّبت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کوتجھ سے تذکرۂ غیرکاگلہ
ہر چند بر سبیِل شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے ،کہتے ہیں ،ہر درد کیدوا
یوں ہو تو چار ۂ غِمالفت ہیکیوں نہ ہو
ڈال نہ بیکسینے کسیسے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجا ۓ خود اک محشِر خیال
ہمانجمنہ سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
متدددد ہے ،انفعال
ئّ ہ
ہنگامۂ زبون ِ د
حاصل نہ کیجے دہر سے ،عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگیبہان ۂ بیگانگی نہیں
77
145۔
ابر روتا ہے کہ بزِمطرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہفرصت کوئیدمدے ہمکو
146۔
ت جولن یک جنونہ ہمکوملی نہ وسع ِ
عدمکولے گۓدل میں غباِر صحرا کو
147۔
ّ
قفس میں ہوں گراچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجا ِنہ گلشن کو
نہیں گرہمدمی آساں ،نہ ہو ،یہ رشک کیا کمہے
نہ دی ہوتی خدا یا آرزوۓ دوست ،دشمن کو
نہ نکل آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگاِن سوزن کو
خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھیمیرے گریباں کوکبھیجاناں کےدامن کو
ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جوۓ خوں میں تیرے توسن کو
ہواہ چرچاہ جو میرے پا ؤںکی زنجیر بنن ے کا
کیا بیتاب کاں میں جنبِش جوہر نے آہن کو
خوشی کیا ،کھیت پر میرے ،اگر سو بار ابر آوے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمنکو
وفاداری بہ شرِط استواری اصِل ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمنہ کو
شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کودیکھا ،جھکا دیتا تھا گردن کو
نہ لٹتا دن کوتو کبرات کویوں ب ے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کادعا دیتا ہوں رہزن کو
سخن کیا کہہہہ نہیںسکتےکہ جویا ہوں جواہرکے
جگر کیا ہمنہیں رکھتے کہکھودیں جا کےمعدن کو
مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غال ؔ
ب
78
149۔
واں پہنچ کرجو غش آتا پئے ہمہے ہمکو
گ زمیں بوِس قدمہے ہمکو صد رہ آہن ِ
دل کومیں اور مجھے دل محِو وفا رکھتا ہے
کسقدر ذوِق گرفتارِی ہمہے ہمکو
ضعف سے نقِش پئے مور ،ہے طوِق گردن
ت رمہے ہمکو ترے کوچے سے کہاں طاق ِ
ّ
جانہ کرکیجے تغافل کہکچھ امید بھی ہو
ی ہہ نگاِہ غلط انداز تو سَمہےہ ہم کو
گ حزیں ک ہم طرحی و درِد اثِر بان ِ رش ِ
نالۂ مرِغ سحر تیِغ دودم ہےہمکو
سر اڑانے کےجو وعدے کومکّرر چاہا
ہنسہ کےبولے کہ ’ترے سر کیقسمہے ہمکو!‘
دل کےخوں کرنے کیکیا وجہ؟ ولیکن ناچارہ
پاِس بے رونقِی دیدہ اہمہے ہمکو
تموہ نازک کہخموشی کوفغاں کہتے ہو
ہموہ عاجزہ کہتغافل بھی ستمہے ہمکو
ق
لکھنؤ آنے کاباعث نہیں کھلتا یعنی
ہوِس سیر و تماشا ،سو وہ کمہے ہمکو
مقطِع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
ف حرم ہے ہمکو عزِمسیِر نجفہ و طو ِ
جاتی ہے کہیں ایک توّقع غالبؔ لیے
فکرم ہےہمکو جادۂ رہکشِشکا ِ
ابر روتا ہے کہ بزِمطرب آمادی کرو
برق ہنستی ہے کہفرصت کوئیدمہے ہمکو
ت رن ِجہ سفر بھی نہیں پاتے اتنی طاق ِ
ہجِر یاراِن وطن کابھی المہے ہمکو
لئی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
79
120
ف کرمہے ہمکو
جادۂ رہ کشِشکا ِ
150۔
تمجانو ،تمکوغیر سے جو رسمو راہ ہو
مجھ کوبھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذۂ روِز حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تمگواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کشو حق نا شناس ہیں
121
کیوں کرہو
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو ّ
غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو ،توکیوںکر ہو
بتاؤ اس مژہ کودیکھ کر کہمجھ کوقرار
گ جاں میں فِرو تو کیوں کرہویہ نیش ہو ر ِ
123 ؔ
مجھے جنوں نہیں غالب ولے بہ قوِل حضور
’فراِق یار میں تسکین ہو تو کیوں کرہو‘
152۔
کسیکودے کےدل کوئینوا سنِج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
124
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گےہماپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کےکیا پوچھیں کہہمسے سر گراں کیوں ہو
کیا غم خوار نے رسوا ،لگےآگ اس محّبتکو ِ
نہ لوے تاب جو غم کی،وہ میرا راز داں کیوں ہو
وفا کیسیکہاں کاعشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
گ آستاں کیوں ہو تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سن ِ
قفس میں مجھ سے روداِدچمنہ کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کلبجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
ی ہہ کہہہہسکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں" پر یہ بتلؤ
کہجب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
ب دل کاشکوہ دیکھو جرم کسکاہے غلط ہے جذ ِ
نہ کھینچو گرتماپنے کو ،کشاکشدرمیاں کیوں ہو
یہ فتنہ آدمی کیخانہ ویرانی کوکیا کمہے
ہوئے تم دوست جس کے ،دشمن اس کاآسماں کیوں ہو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کےہو لیے جب تمتو میرا امتحاں کیوں ہو
کہا تمنے کہکیوں ہو غیر کےملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو ،سچکہتے ہو ،پھرکہیوکہ ہاںکیوں ہو
نکال چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے ُتو غال ؔ
ب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
153۔
123حضور :بہادر شاہ ظفر ،اگل مصرعہ ظفر کا ہی ہے جس کی طرح میں غال ؔ
ب نے درباری مشاعرے کے لۓ یہ غزل کہی تھی۔
)اعجاز عبید(
124
کچھ نسخوں میں ‘وضع کیوں بدلیں’ ہے۔ )جویریہ مسعود(
مزید :اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل کہ خود غالب نے "وضع کیوں بدلیں" کہا تھا )حامد علی خان(
81
1862اور اس کے قریبی عہد مزید :بعض ما بعد نسخوں میں "بیمار دار" کی جگہ "تیمار دار" چھپا ہے۔ مگر نسخۂ نظامی مبطوعہ ً
کے جو آٹھ نسخے نظر سے گزرے ،ان سب میں "بیمار دار چھپا ہے۔ مالک رام اور عرشی کے نسبتا جدید نسخوں میں بھی "بیماردار
سہِو کتابت ہے۔ نسخۂ مہر میں
"ہی درج ہے۔ بظاہر یہی غالب کا لفظ ثابت ہوتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں "تیماردار" کا اندراج شاید ً
بھی "تیماردار" ممکن ہے ،یہی سے لیا گیا ہو۔ بعض اور اصحاب نے بھی اپنے نسخوں میں "تیماردار" غالبا اس لیے لکھا ہے کہ آج
کل یہ لفظ اردو میں عام طور سے مستعمل ہے مگر "بیماردار" اس مفہوم میں قابل ترجیح ہے کیوں کہ اس کا ایک یہی مقرر ًمفہوم
ہے جو تیمار اور تیماردار کا نہیں۔ چنانچہ فارسی میں ان الفاظ کے دوسرے مفاہیم بھی ہیں۔ علوہ ازین غالب کا کوئی لفظ عمدا بدلنے
سے احتراز واجب ہے۔ )حامد علی خان(
َ 127
کن
ہ
155۔
َ
شِب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
ہوا ہے موجِب آراِمجانہ و تن تکیہ
خراج بادشِہ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟
کہ بن گیا ہے خِم جعِدُ 129پرشکنتکیہ
بنا ہے تختۂ گلہاۓ یاسمیں بستر
ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ
فروِغ حسن سے روشن ہے خوابگاہ تمام
ت خواب ہے پرویں ،تو ہے پرن تکیہ جو رخ ِ
مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا
رکھے جو بیچ میں وہ شوِخ سیمتن تکیہ
اگرچہ تھا یہ ارادہ مگر خدا کاشکر
اٹھا سکا نہ نزاکت سے گلبدن تکیہ
ہوا ہے کاٹ کےچادر کوناگہاں غائب
اگر چہ زانوۓ نل پر رکھے دمن تکیہ
ب تیشہ وہ اس واسطے ہلک ہوا بضر ِ
ب تیشہ پہ رکھتا تھا کوہکن تکیہ کہضر ِ
یہ رات بھر کاہے ہنگامہ صبحہ ہونے تک
رکھو نہ شمع پر اے اہِل انجمنہ تکیہ
اگرچہ پھینک دیا تمنے دور سے لیکن
اٹھاۓ کیوں کہیہ رنجوِر خستہ تن تکیہ
غش آگیا جو پس از قتل میرے قاتل کو
ہوئی ہے اس کومری نعِش بے کفن تکیہ
شِب فراق میں یہ حال ہے اذّیتکا
کہ سانپ فرش ہے اور سانپکا ہے منتکیہ
روارکھونہ رکھو ،تھاجو لفظ تکیہ کلم
اب اس کوکہتے ہیں اہِل سخن "سخن تکیہ"
ک پیر جس کو کہتے ہیں ہم اور تم فل ِ
ب مسکیں کاہے کہن تکیہ فقیر غال ؔ
156۔
از مہر تا بہ ذّرہ دل و دل ہے آئینہہہ
129
نسخۂ مہر میں دال پر جزم ہے۔ )جویریہ مسعود(
83
157۔
ہے سبزہ زار ہر در و دیواِر غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچارہ بیکسیکیبھی حسرت اٹھائیے
ئ رہ و ستِم ہمرہاں نہ پوچھ
دشوار ِ
158۔
نہ پوچھ حال اس انداز ،اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آجاۓ گی جواب کے ساتھ
159۔
ہندوستان سایۂ گلپاۓ تخت تھا
جاہ و جلل عہِد وصاِل بتاں نہ پوچھ
ہر داِغ تازہ یک دِل داغ انتظار ہے
عرِض فضاۓ سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
84
ی
160۔
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہدید کااحساں اٹھائیے
ت معاِش جنوِن عشق ہے سنگ پر برا ِ
ت طفلں اٹھائیے ّ
یعنی ہنوز من ِ
ت مزدور سے ہے خم ّ
دیوار باِر من ِ
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے
یا میرے زخِمرشک کورسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبّسِم پنہاں اٹھائیے
-161
وہ بات چاہتے ہو کہجو بات چاہیے
صاحب کےہمنشیں کوکرامات چاہیے
مسجد کےزیِر سایہ خرابات چاہیے
َ
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستمکیکچھ تو مکافات چاہیے
130
دے داد اے فلک ! دِل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلفِی مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کےلیے ہممصّوری
تقریب کچھ تو بہِر ملقات چاہیے
مے سے غرضہ نشاط ہے کسرو سیاہ کو
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے
گہ للہ و گلو نسریں جدا جدا ہے رن ِ
ہر رنگہ میں بہار کااثبات چاہیے
ق
سر پاۓ خم پہ چاہیےہنگاِم بے خودی
ت مناجات چاہیے رو سوۓ قبلہ وق ِ
یعنی بہ حسِب گردِشپیمان ۂ صفات
ت مئے ذات چاہیے عارفہ ہمیشہ مس ِ
ؔ
نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو
130
نسخۂ مہر میں "کو" )جویریہ مسعود(
مزید :یہاں "کی" کے بجاۓ "کو" معنوی لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ شاعر خود داد طلب ہے ،جسے اس مصرع میں :ناکردہ گناہوں
کی بھی حسرت کی ملے داد۔ ً
بعض اچھے نسخوں میں "کو" سہوا چھپا ہے۔ )حامد علی خان(
85
162۔
بساِط عجزہ میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ انداِز چکیدن سر نگوں ّوہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہمچندے تکلف سے ّ
تکلف بر طرف،ہ تھا ایک انداِز جنوں وہ بھی
خیاِل مرگ کبتسکیں دِل آزردہ کوبخشے
مرے داِمتمّنا میں ہے اک صیِد زبوں وہ بھی
نہ کرتا کاشنالہ مجھ کوکیا معلومتھا ہمدم
ث افزائِش درِد دروں وہ بھی کہہوگاباع ِ
نہ اتنا ب ُّرِش تیِغ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریاۓ بیتابی میں ہے اک موِج خوں وہ بھی
مئے عشرت کیخواہش ساقِیگردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار 131جاِمواژگوں وہ بھی
مجھے معلومہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جاۓ جلد اے گردِشگردوِن دوں ،وہ بھی!
نظرہ راحت پہ میری کرنہ وعدہ شب کوآنے کا
کہمیری خواب بندی کےلیے ہوگا فسوں وہ بھی
ب شوِق وصل و شکوۂ ہجراں مرے دل میں ہے غال ؔ
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں ،وہ بھی
طباطبائی نے لکھا ہے کہ ان اعداد کی مجموعے سے سات آسمان پورے ہو جاتے ہیں )حامد علی خان( 131
86
163۔
ہے بزِمبتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہمایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دوِر قدح وجہ پریشانِی صہبا
یک بار لگا دو خِممے میرے لبوں سے
رنداِن دِر مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرفہ ان بے ادبوں سے
بیداِدوفا دیکھ کہجاتی رہی آخر
ہر چند مری جانہ کوتھا ربط لبوں سے
164۔
تا ہمکوشکایتکی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گوذکرہمارا نہیں کرتے
ب ترا احوال سنا دینگے ہمان کو غال ؔ
وہ سن کےبل لیں یہ اجارا نہیں کرتے
165۔
گھر میں تھا کیا کہترا غم اسے غارت کرتا
ت تعمیر ،سو ہے
وہ جو رکھتے تھے ہماک حسر ِ
166۔
غِمدنیا سے گرپائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کادیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی
کھلےگاکسطرحہ مضموں مرے مکتوب کایا رب
قسمکھائی ہے اس کافر نے کاغذہکے جلنےکی
لپدٹناپرنیادددںمیدددں شعلۂ آتشکاآساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوِز غم چھپانے کی
انہیں منظور اپنے زخمیوں کا132دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیِر گلکو ،دیکھنا شوخی بہانے کی
ت ناز پر مرناہماری سادگیتھی التفا ِ
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
بحوادث کاتح ّمل کرنہیں سکتی لکد کو ِ
مری طاقت کہضامنہ تھی بتوں کےناز اٹھانے کی
کہوں کیا خوبی اوضاع ابنائے زماں غال ؔ
ب ِ ِ
بدی کیاس نے جس سے ہمنے کیتھی بارہا نیکی
167۔
نسخۂ مہر میں یہاں "کا" کے بجاۓ "کو" درج ہے۔ "کو" سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ )جویریہ مسعود( 132
87
168۔
کیا تنگ ہمستمزدگاں کاجہانہ ہے
جسمیدددںکددد ہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حَرَکتتیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کےذّرے میں جانہ ہے
حالنکہ ہے یہ سیلِی خارا سے للہ رنگ
غافل کومیرے شیشے پہ مے کاگمان ہے
کیاس نے گرمسینۂ اہِل ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہٹھنڈا مکان ہے
کیا خوب !تم نے غیرکو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبانہ ہے
بیٹھا ہے جو کہسایۂ دیواِر یار میں
فرماں رواۓکشوِر ہندوستان ہے
ہستی کااعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کسسے کہوں کہداغ جگر کانشان ہے
ہے بارے اعتماِد وفاداری اس قدر
ب ہماس میں خوش ہیں کہنا مہربانہ ہے غال ؔ
ّ
دلی کے رہنے والو اسؔد کو ستاؤ مت
133
بے چارہ چند روز کایاں میہمانہ ہے
169۔
درد سے میرے ہے تجھ کوبے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
بغم کاحوصلہ تیرے دل میں گرنہ تھا آشو ِ
تو نے پھر کیوں کیتھی میری غم گساری ہائے ہائے
کیودددں مری غم خوارگی کاتجدددھ کو آیاتدددھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کاتو نے پیما ِن وفا باندھا تو کیا
عمر کوبھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہواۓزندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گلفشانی ہ اہ ۓ ناِز جلوہکوکیا ہوگیا
نسخۂ شیرانی کا اضافہ )اعجاز عبید( 133
88
170۔
سر گشتگیمیں عالِمہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید135کہ مرنےکیآس ہے
لیتا نہیں مرے دِل آوارہ کیخبر
اب تک وہ جانتا ہے کہمیرے ہی پاس ہے
کیجے بیاں سروِر تِب غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبا ِنہ سپاس ہے
ہے وہ غروِر حسن سے بیگانۂ وفا
ہرچند اس کےپاس دِل حق شناس ہے
پی جس قدر ملے شِب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کوگرمی ہی راس ہے
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
135
نسخۂ عرشی میں یوں ہے‘ :تسکین کو نوید’۔ اصل نسخۂ نظامی اور دوسرے نسخوں میں اسی طرح ہے۔ )اعجاز عبید(
مزید :عرشی صاحب کے نسخے میں یوں درج ہے :تسکین کو نوید کہ مرنے کی آس ہے۔
نسخوں میں دیکھا تو کہیں بھی یہ مصرع اس طرح درج نہ تھا۔ لہذا مندرجہ بال صورت قائم رکھی
ً سترہ اٹھارہ دوسرے قدیم و جدید
گئی۔ ایک قدیم نسخے میں "دے" سہوا حذف تو ہو گیا تھا مگر وہاں بھی ذرا اوپر "دے" چھپا ہوا مل جاتا ہے ۔)حامد علی خان(
89
171۔
گرخامشی سے فائدہ اخفاۓ حال ہے
خوش ہوں کہمیری بات سمجھنی محال ہے
ت اظہار کاگلہ کسکوسناؤں حسر ِ
دل فرِد جمع و خر ِچہ زبا ں ہاہ ۓ لل ہے
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہعذر خواہ لِب بے سوال ہے
ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
ق منفعل! یہ تجھےکیا خیال ہے ادددے شو ِ
مشکیں لباِس کعبہ علی کےقدمسے جانہ
ف غزال ہے فہ زمین 136ہے نہکہ نا ِنا ِ
وحشت پہ میری عرصہۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کوعر قہ انفعال ہے
ہستی کے مت فریب ِمیں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ داِم خیال ہے
172۔
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھودکے پوچھو
137
137
کر ۔ نسخۂ مہر )جویریہ مسعود(
138
وہ۔ نسخۂ مہر )جویریہ مسعود(
90
175۔
ت تکلیف بے جا ہے یہ بزِممے پرستی ،حسر ِ
کہ جاِمبادہ کفبر لب بتقریِب تقاضا ہے
مری ہستی فضا ۓ حیرت آباِد تمّنا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کاعنقا ہے
خزاں کیا فصِل گلکہتے ہیں کسکو؟کوئیموسمہو
وہی ہم ہیں ،قفس ہے ،اور ماتم بال و پرکا ہے
ّ
وفاۓ دلبراں ہےاتفاقی ورنہ اےہمدم
اثر فریاِد دل ہاے حزیں کاکسنے دیکھا ہے
ب رن ِجہ نومیدی نہ لئی شوخئ اندیشہ تا ِ
140
یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوۓ ہیں ) حاشیہ از پروفیسر حمید احمد 139
خان(
140
نہ لئے )نسخۂ مہر( )جویریہ مسعود(
91
176۔
رحم کرظالم کہکیا بوِد چرا ِغ کشتہ ہے
نب ِض بیماِر وفا دوِدچرا ِغ کشتہ ہے
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی سوِدچرا ِغ کشتہ ہے
177۔
چشِمخوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
سرمہ تو کہوے کہ دوِدشعلہ آواز ہے
ّ
پیکِر عشاق ساِز طال ِع نا ساز ہے
نالہ گویا گردِشسّیارہ کیآواز ہے
دست گاِہ دیدۂ خوں باِر مجنوںدیکھنا
یک بیاباں جلو ۂگل فرِش پا انداز ہے
178۔
عشق مجھ کونہیں وحشت ہی سہی
میری 141وحشت تری ّ شہرت ہیسہی
قطع کیجے نہ تعلق ہمسے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہمبھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کوتجھ سے مح ّبت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہیگرنہیں غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہہے برق خرام
دل کےخوں کرنے کیفرصت ہی سہی
ک وفا کرتے ہیں ہم کوئی تر ِ
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
ک نا انصاف کچھ تو دے اے فل ِ
آہ و فریاد کیرخصت ہی سہی
ہمبھی تسلیمکیخو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
141بعض نسخوں میں " میری" کی جگہ "ِمری" اور تیسرے شعر میں "میرے" کی جگہ "ِمرے" چھپا ہے۔ یہ مقامات "میری" اور
"میرے" کے متقاضی ہیں اور یہی غالب کے الفاظ ہیں۔ )حامد علی خان(
92
179۔
ہہے آرمیدگیمیں نکوہش بجا مجھے
صبِح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغّنِی آتش نفس کوجی
جس کیصدا ہو جلو ۂ برِق فنا مجھے
ی خیال مستانہ طے کروں ہوں رہِ واد ِ
تا باز گشتسے نہ رہے مّدعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
ت گلسے حیا مجھے آنے لگی ہے نکہ ِ
کھلتا کسیپہ کیوں مرے دل کامعاملہ
شعروں کےانتخاب نے رسوا کیا مجھے
180۔
142اور تو رکھنے کوہمدہر میں کیا رکھتے تھے
مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے
اس کایہ حال کہکوئینہ ادا سنج مل
آپ لکھتے تھے ہماور آپ اٹھا رکھتے تھے
زندگیاپنی جب اس شکل سے گزری 143غالبؔ
ہمبھی کیا یاد کریں گے کہخدا رکھتے تھے
181۔
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
ت درباں سے ڈر گیا دل ہی تو ہے سیاس ِ
میں اور جاؤں در سے ترے ب ِن صدا کیے
ّ
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہ ِن مے
ت آب و ہوا کیے ّ
مدت ہوئی ہے دعو ِ
بے صرفہ ہی گزرتی ہے ،ہوگرچہ عمِر خضر
حضرت بھی کلکہیں گے کہہمکیا کیا کیے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے144لئیم
ت احید الدین نظامی فرزنِد مولنا نظام الدین حسین نظامی شایع کنندۂ "نسخۂ نظامی" بحوالہ مولنا امتیاز
اضافہ از نسخۂ بدایوں دریاف ِ
142
علی عرشی کا مضمون "دیواِن غالب ۔ ایک اہم مخطوطہ ۔ نسخۂ بدایوں( )جویریہ مسعود(
143قدیم نسخوں میں یاے معروف و مجہول کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں "گزرے" بھی پڑھا جاسکتا ہے مگر غالب نے کیا کہا؟ کچھ
کہہ نہیں سکتے۔ )حامد علی خان(
144
نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں "اے" کی جگہ "او" چھپا ہے ،اور کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ )حامد علی خان(
93
184۔
گرِمفریاد رکھا شکِلنہالی نے مجھے
تب اماں ہجر میں دی برِد لیالی نے مجھے
نسیہ و نقِد دو عالم کیحقیقت معلوم
ت عالی نے مجھے ّ
لے لیا مجھ سے مری ہم ِ
کثرت آرائِیوحدت ہے پرستارئ وہم
کردیا کافر ان اصناِمخیالی نے مجھے
ہوِس گلکےتصّور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرامدیا بے پر و بالی نے مجھے
185۔
کار گاہ ہستی میں للہ داغ ساماں ہے
بر ِق خرم ِنہ راحت ،خو ِنہ گرِمدہقاں ہے
گ عافیت معلوم غنچہ تا شگفتن ہا بر ِ
ب گلپریشاں ہے باوجوِد دل جمعی خوا ِ
ہمسے رن ِجہ بیتابی کسطرحہ اٹھایا جائے
تعجزہ ،شعلہ خس بہ دنداں ہے ت دس ِ
داغ پش ِ
186۔
اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
95
187۔
کی مر جانےکی حسرت دل میں ہے سادگیپر اس ،
فقاتل میں ہے بس نہیں چلتا کہپھر ّخنجرہ ک ِ
دیکھنا تقریر کیلذت کہجو اس نے کہا
میں نے یہ جاناہ کہگویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کسکسبرائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکرمیرا مجھ سے بہتر ہے کہاس محفل میں ہے
بس ہجوِم نا امیدی خاک میں مل جائے گی
ّ
ئ بے حاصل میں ہے یہ جو اک لذت ہماری سع ِ
148
رن ِجہ رہ کیوں کھینچیے؟واماندگیکو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم،منزل میں ہے
جلوہ زاِر آتِشدوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شوِر قیامتکسکی 149آب و گِل میں ہے
ب طلسِمپیچ و تاب ہے دل شوریدۂ غال ؔ
ِ
رحم کراپنی تمّنا پر کہکسمشکل میں ہے
188۔
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کواک ادا میں رضامند کرگئی
ّ
ت فراغشق ہو گیا ہے سینہ ،خوشا لذ ِ
ف پردہ دارِی زخِمجگر گئی تکلی ِ
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
ّ
ب سحر گئی ت خوا ِ اٹھیے بس اب کہلذ ِ
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوۓ یار میں
بارے اب اے ہواہ ! ہوِس بال و پرگئی
دیکدددھو تو دل فریبہئ انداِز نقِش پا
مو ِج خراِمیار بھی کیا گلکتر گئی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروۓ شیوہ اہِل نظرہ گئی
ّ
کیا واں نقاب کا ن ظارے نے بھی کام ِ
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفِرقہ یک بار مٹگیا
148عشق ہے! :مرحبا! آفرین! یہ کلمہ بہ تغیر تلفظ اہل پنجاب کی زبانوں پر بھی ہے ۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے دوسرے مصرع
میں "قدم" کے بعد وقفہ ہونا چاہیے۔ بعض حضرات نے غلط فہمی سے "واماندگی سے عشق ہے" لکھ دیا ہے جو مقصوِد غالب نہیں ۔
)حامد علی خان(
149نسخۂ طباطبائی " :کس کے آب و گل" ۔ "کے" بجاۓ " کی" )حامد علی خان(
96
189۔
تسکیں کوہمنہ روئیں جو ذوِق نظرہ ملے
حوراِن خلد میں تری صورت مگر ملے
اپنی گلیمیدددںمجدددھ کو ندہ کر دفن بعِد قتل
میرے پتے سے خلق کوکیوں تیرا گھر ملے
ساقی گری کیشرمکرو آج ،ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
تجھ سے تو کچھ کلمنہیں لیکن اے ندیم
میرا سلمکہیو اگرنامہ بر ملے
کیا
تمکوبھی ہمدکھائیں کہمجنوں نے کیا ِ
فرصت کشاکِشغِمپنہاں سے گرملے
لزم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جاناہ150کہ اک بزرگ ہمیںہم سفر ملے
اے ساکناِن کوچۂ دل داردیکھنا
ب آشفتہ سر ملے تمکوکہیں جو غال ؔ
190۔
کوئیدن گرزندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہمنے ٹھانی اور ہے
آتِش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوِز غم ہاۓ نہانی اور ہے
بار ہاہ دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے 151سرگرانی اور ہے
دے کےخط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغاِمزبانی اور ہے
قاطِع اعمار ہیں اکثر نجوم
وہہ بلۓآسمانی اور ہے
ب بلئیں سب تمام ہو چکیں غال ؔ
گ ناگہانی اور ہے ایک مر ِ
191۔
ب ) فرہنگ کے ساتھ( میں "مانا" ہے۔ )جویریہ مسعود( 150٭ دیوان غال ؔ
ِ
151قدیم نسخوں میں یاۓ مجہول و معروف کا امتیاز نہ تھا اس لیے بعض قدیم نسخوں میں یہاں "اب کے چھپا ہے جو اس موقع پر
درست معلوم نہیں ہوتا۔ بالخصوص "بارہا" کے بعد۔ یہاں مراد ہے :اب کی بار )حامد علی خان(
97
192۔
دِل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہمہیں ٰمشتاق اور وہ بےزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاشپوچھو کہمّدعا کیا ہے
ق
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
152
ف عنبریں کیوں ہےشکِنزل ِ
گہ چشِم سرمہ سا کیا ہے؟ ن ِ
152
ہیں۔ نسخۂ مہر )جویریہ مسعود(
98
194۔
پھر کچھ اک دل کوبیقراری ہے
سینہ جویاۓ زخِمکاری ہے
پِھر جگر کھودنے لگا ناخنہ
آمِدفصِل للہ کاری ہے
قبلۂ مقصِد نگاِہ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
99
روز بازار :چہل پہل اور رونق کے دن کو بھی کہتے ہیں )حامد علی خان( 154
155
نسخۂ طاہر میں ً" زنجیِر موِج آب" )جویریہ مسعود(
نسخۂ مہر میں غالبا سہِو کاتب سے "پِس مردن" چھپا ہے باقی نسخوں میں "پس از مردن" ہے )حامد علی خان( 156
100
157
نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں " داِم سخت قریب" )اعجاز عبید(
مزید :نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں " داِم سخت قریب" چھپا ہے ۔ دوسرے سب نسخوں میں "سخت قریب" بہ معنئ "نہایت قریب"
درج ہے )حامد(
158
مالک رام اور نسخۂ صد سالہ یادگار غالب کمیٹی دہلی میں "رے" کی جگہ "ری" چھپا ہے "اللہ رے" اور "اللہ ری" میں یہ
امتیاز قابل تعریف ہے مگر اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مخاطب "تندِی خو" نہیں بلکہ "تند خو محبوب" ہے جو محبوبہ بھی نہیں۔
)حامد علی خان(
101
198۔
جو نہ نقِد داِغ دل کیکرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگینہاں ہے بہ کمیِن بے زبانی
ّ
مجھے اس سے کیا توقع بہ زمانۂ جوانی
کبھیکودکیمیں جس نے نہ سنی مری کہانی
یوں ہی دکھکسیکودینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہمرے عدو کویا رب ملے میری زندگانی
199۔
ظلمت کدےمیں میرے شِب غم کاجوش ہے
اک شمع ہے دلیِل سحر سو خموش ہے
ظارددۂ جمال ندددےمژدددۂ وصال ہندن ّ
مّدت ہوئی کہآشتئچشمو گوشہے
کیا ہے حسِن خود آرا کوبے حجاب مے نے ِ
ت تسلیِمہوش ہے اے شوق یاں اجاز ِ
160
200۔
آ ،کہمری جانہ کوقرار نہیں ہے
ت بیداِدانتظار نہیں ہے طاق ِ
ت دہر کےبدلے ّ
دیتے ّہیں جنت حیا ِ
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گریہ نکالے ہے تیری 162بزم سے مجھکو ِ
ہائے کہرونے پہ اختیار نہیں ہے
ہمسے عبث ہے گماِن رنجِش خاطرہ
ّ
خاک میں عشاق کیغبار نہیں ہے
ف جلوہہاۓ معانی دل سے اٹھا لط ِ
غیِر گلآئینۂ بہار نہیں ہے
قتل کامیرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہد استوار نہیں ہے
تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسمکاکچھ اعتبار نہیں ہے
201۔
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بل ہو جو کچھ ہو
کاشکےتممرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گراتنا تھا
دل بھی یا رب کئیدیے ہوتے
آ ہی جاتا وہ راہ پر غال ؔ
ب
کوئیدن اور بھی جیے ہوتے
202۔
161
نسخۂ آگرہ 1863ء اور نسخۂ مہر میں ‘سور’ )اعجاز عبید ،جویریہ مسعود(
مزید :نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں "سوز" ہی چھپا ہے۔ ایک نسخے میں شاید سہِو کتابت سے "ُسور" چھپ گیا۔ اب
بعض حضرات "ُسور" ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ )حامد علی خان(
162نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں "ِتری" چھپا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ صرف نسخۂ حسرت موہانی ،نسخۂ بیخود
دہلوی اور نسخۂ مطبِع مجیدی 1919ء میں صحیح صورت نظر آتی ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ مصرع بحر سے خارج ہوجاتا ہے۔ ۔ )حامد
علی خان(
103
" 163غنچۂ گل " کی جگہ بعض مؤقر نسخوں میں "غنچہ و گل" اور "غنچۂ دل" بھی چھپا ہے۔ اسے سہو کتابت کا نتیجہ سمجھنا
چاہیے۔ غنچۂ گل :گلب کی کلی ۔ غنچے کے ساتھ "گل" کا بھی چٹکنے لگنا محل نظر ہے۔ )حامد علی خان(
164
نسخۂ مہرمیں " ہم آغوشی کے بعد" )جویریہ مسعود(
104
205۔۔
ّ
حسِن مہ گرچہ بہ ہنگاِمکمال اچھا ہے
ّ
اس سے میرا مِہ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
ّ
جی میں کہتے ہیں کہمفت آئے تو مال اچھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ّ
ساغِر جم سے مرا ُجاِمسفال اچھا ہے
بے طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
ّ
وہ گداجس کونہ ہو خوۓ سوال اچھا ہے
ان کےدیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
ّ
وہ سمجھتے ہیں کہبیمار کاحال اچھا ہے
ددسدددد ے کدیاد فیض شاقبتود ں
پاتددددے یدہدد ں ع ّ
یدددد ے
دیدکددد ھ
ّ
اک برہمنہ نے کہا ہے کہیہ سال اچھا ہے
ہمسخن تیشے نے فرہاد کوشیریں سے کیا
ّ
جس طرحہ کا کہ166کسی میں ہوکمال اچھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
ّ ّ
کاماچھا ہے وہ ،جس کا کہمآل اچھا ہے
خضرہ سلطاں کورکھےخال ِقہ اکبر سر سبز
ّ
شاہ کےباغہ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
ب کے انداِز بیان کے مطابق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ )اعجاز 165مالک رام اور عرشی میں ہے ‘دل ناداں’ لیکن ‘نالں’ ہی غال ؔ
ِ
عبید(
مزید :نسخۂ نظامی ،نسخۂ طباطبائی ،نسخۂ حسرت موہانی اور متعدد دیگر نسخوں میں "دِل نالں" چھپا ہے۔ عرشی اور مالک رام کے
نسخوں "دل ناداں" ملتا ہے ۔ مضموِن شعر یہاں "دِل نالں" ہی سے خطاب کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ )حامد علی خاں(
166
نسخۂ مہر میں "جس طرح کا بھی" )جویریہ مسعود(
105
ّ 206۔
نہ ہوئی گرمرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
دیدار تو ہے
ت ّ خار خاِر الِمحسر ِ
شوق گلچیِن گلستاِن تسلی نہ سہی
مے پرستاں خِممے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گرنہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی
نفِس قیس کہہے چشمو چرا ِغ صحرا
گرنہیں شمِع سیہ خانۂ لیلی نہ سہی
ایک ہنگامے پ ہہ 167موقوف ہےگھرکی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
نہ ستائش کیتمّنا نہ صلے کیپروا
گرنہیں ہیں مرے اشعار میں معنی؟ نہ سہی
ت خوباں ہی غنیمت سمجھو ت صحب ِعشر ِ
ؔ
نہ ہوئی غالب اگرعم ِر طبیعی نہ سہی
207۔
ّ
عجب نشاط سے ج لد کےچلے ہیں ہمآگے
کہاپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدمآگے
ب بادۂ الفت قضا نے تھا مجھے چاہا خرا ِ
فقط خراب لکھا ،بس نہ چل سکا قلمآگے
غِمزمانہ نے جھاڑی نشاِط عشق کیمستی
ّ
ت المآگےوگرنہ ہمبھی اٹھاتے تھے لذ ِ
خداکے واسطےداد اس جنوِن شوقکی دینا
کہاس کےدر پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہمآگے
یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہمنے
تمہارے آئیو اے طّر ہ ہاۓ خم بہ خم آگے
دل و جگر میں َپر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہماپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کودمآگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غال ؔ
ب
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جانہ کیقسمآگے
208۔
167
نسخۂ مہر میں "پر" )جویریہ مسعود(
106
209۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہتو کیا ہے
تمہیں کہو کہیہ انداِز گفتگوکیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئیبتاؤ کہوہ شوِخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہوہ ہوتا ہے ہمسخن تمسے
ف بد آموزِی عدو کیا ہے وگرنہ خو ِ
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
107
َ
ت رفوکیا ہے کو اب حاج ِ
168
ہمارےہ جیب
جلہ ہے جسمجہاں ،دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
ددرندددکددددے ہمن دیہدددں قائل
دودددتدددےپد ھ ے
رگودددںمیدددں ڑ
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہوکیا ہے
169
210۔
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہمرہیں یوں تشنہ لب پیغامکے
خستگی کاتم سے کیا شکوہ کہیہ
ہتھکنڈے ہیں چر ِخہ نیلی فامکے
خط لکھیں گےگرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہمتو عاشق ہیں تمہارے نام کے
رات پی زمزم پہ مے اور صبحہ دم
دھوئے دھّبے جامۂ احرامکے
دل کوآنکھوں نے پھنسایا کیا مگر
یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دامکے
ّ
شاہ کیہے غسِل صحتکی خبر
دیکھیے کبدن پھریں ح ّمام کے
ب نکّما کردیا
عشق نے غال ؔ
ورنہ ہمبھی آدمی تھے کامکے
211۔
پھر اس انداز سے بہار آئی
َ
" 168جیب" بہ معنئ "گریبان" مذکر ہے۔ بیشتر مروجہ نسخوں میں جو "ہماری جیب" چھپا ہے وہ اس غلط فہمی کی بنا پر ہے کہ
قدیم نسخوں میں یاۓ معروف و مجہول کا امتیاز نہ تھا۔ )حامد علی خاں(
169اصل نسخے میں ‘جب آنکھ سے ہی’ ہے لیکن بعض جدید نسخوں میں ‘جب آنکھ ہی سے’ رکھا گیا ہے جس سے مطلب زیادہ
واضح ہو جاتا ہے لیکن نظامی میں یوں ہی ہے۔ )اعجاز عبید(
مزید :بعض فاضل مرتبین نے "سے ہی" کو قابل اعتراض سمجھ کر اپنے نسخوں میں اسے " ہی سے" بنادیا ہے غالب کا اصرار بہ ظاہر
"آنکھ" پر نہیں "آنکھ سے ٹپکنے" پر ہے چنانچہ متن میں قدیم نسخوں کا اندراج برقرار رکھا گیا۔ )حامد علی خاں(
170
"بادہ و گلفاِم مشک بو"۔ نسخۂ مہر )جویریہ مسعود(
108
212۔
تغافل دوست ہوں میرا دماِغ عجزہ عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے
رہا آباد عالم اہِل ہّمت کےنہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو ،مے خانہ خالی ہے
213۔
کبوہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلِش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری
کیا بیاں کرکےمرا روئیں گےیار
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں ز خود رفتۂ بیداۓ خیال
بھول جاناہ ہے نشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری
گ سِر رہ رکھتا ہوں قدِر سن ِ
سخت ارزاں ہے گرانی میری
گرد باِد رِہ بیتابی ہوں
صرص ِرہ شوق ہے بانی میری
دہن اس کاجو نہ معلومہوا
ّ
171اصل نسخے میں امل ہے ‘دیندار’ جب کہ تقطیع میں نون غنہ آتا ہے اس لۓ تلفظ کی وضاحت کے لۓ یہاں ‘دیں دار’ لکھا گیا ہے
)اعجاز عبید(
109
215۔
گلشن کوتری صحبت از بسکہ خوشآئی ہے
غنچے کاگلہونا آغوش کشائی ہے ُ ہر
راستغنا ہر دمہے بلندی پر
واں کنگ ِ ُ
یاں نالے کو اور الٹا دعواۓ رسائی ہے
از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کےاندازے
جو داغ نظرہ آیا اک چشمنمائی ہے
آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش
عاشق کوغبا ِر دل اک وجِہ صفائی ہے
ہنگاِمتصّور ہوں دریوزہ گِربوسہ
یہ کاسۂ زانو بھی اک جاِمگدائیہے
وہ دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالبؔ
صد جلوۂ آئینہ یک صب ِحہ جدائی ہے
216۔
جس زخم کیہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
ّ
تحنائی کاتصّوراچھا ہے سر انگش ِ
دل میں نظرہ آتی تو ہے اک بوند لہو کی
ّ
کیوں ڈرتے ہو عشاق کیبے حوصلگی سے
یاں تو کوئیسنتا نہیں فریاد کسوکی
173اے بے خبراں! میرے لِب زخِمجگر پر
172
تپ۔ نسخۂ مہر )جویریہ مسعود(
یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں )جویریہ مسعود( 173
110
217۔
یوں بعِد ضبِط اشک پھروں گردیار کے
پانی پیے کسوپہ کوئیجیسے وار کے
سیماب پشت گرمِیآئینہ دے ہے ہم
حیراں کیےہوئے ہیں دِل بے قرار کے
بعد از وداِع یار بہ خوں در طپیدہ 174ہیں
فپاۓ نگار کے نقِش قدمہیں ہم ک ِ
ت سیاہ روزتبخ ّ ِظاہر ہے ہمسے کلف ِ
گویا کہتختۂ مشق ہے خط غبار کے
گ گلددددےیدہدددں ہم آب و رن ِ
حسرتسدددےدیکدددھ ترددہ
ماننِد شبنماشک ہے مژگاِن خار کے
آغوِش گلکشودہ براۓ وداع ہے
ادددے عندلیب چل!کہ چلے دن بہارکے
ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسدؔ
ِ ِ ِ
لئق نہیں رہے ہیں غِمروزگار کے
218۔
ہے وصل ہجر عالِم تمکین و ضبط میں
معشوِق شوخ و عاشِق دیوانہ چاہۓ ُ
اس لب سے مل ہی جاۓ گا بوسہ کبھی تو ،ہاں!
ت رندانہ چاہۓ
شوِق فضول و جر أ ِ
219۔
ّ
چاہیے اچھوں کو ،جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
َ ُ
ت رنداں سے واجب ہے حذر صحب ِ
جاۓ مے ،اپنےکوکھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل ؟
اس لفظ کی جدید امل تپیدہ ہے۔ )اعجاز عبید( 174
111
220۔
ہر قدمدورِئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری 175رفتار سےبھاگے ہے ،بیاباں مجھ سے
ُ
درِس عنواِن تماشا ،بہ تغافِل خوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
ت آتِش دل سے ُ ،شِب تنہائی میں وحش ِ
ت دود ،رہا سایہ گریزاں مجھ سے ُ صور ِ
ُ
غِم عشاق نہ ہو ،سادگی آموِز بتاں
کسقدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے ِ
ُ
اثِر آبلہ سے ،جادۂ صحراۓ جنوں
ت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے صور ِ ُ
176
بیخودی بستِر تمہیِد فراغت ہو جو!
ُپر ہے سایے کیطرحہ ،میرا شبستاں مجھ سے
ُ
شوِق دیدار میں ُ ،گر تو مجھے گردن مارے
ہو نگہ ،مثِل گِلشمع ،پریشاں مجھ سے
بیکسیہ اہ ۓ شِب ہجرکی وحشت ،ہے ہے !
ُ
سای ہہ خورشیِد قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
175بعض نسخوں میں "میری " کی جگہ یہاں "ِمری" چھپا ہے مگر یہاں "میری" زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور اکثر نسخوں میں
"میری" ہی چھپا ہے
)حامد علی خاں(
176ہوجو۔ ہوجیو۔ یہ "ہو جو" نہیں ہے۔ جیسا بعض اصحاب پڑھتے ہیں۔ "ُہو" بہ واو معروف بول جاتا ہے )حامد علی خاں(
112
221۔
ُ
ُ
نکتہ چیں ہے ،غِمدل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات ،جہاں بات بنائے نہ بنے
می ُدددں ُبلتاتوددوہدددں ُُاس کو ،مگرادددے جذبدۂ دل
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ ِبن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ،کہیں چھوڑ نہ دے ،بھول نہ جائے
کاش ! ُیوں بھی ہو کہ ِبن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ ،اگر
ُ
کوئی ُپوچھے کہیہ کیا ہے ،تو چھپائے نہ بنے
ِاس نزاکت کا ُبرا ُہو ،وہ بھلے ہیں ،تو کیا
ہاتھ آویں ،تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہیہ ُجلوہ گری ُکسکیہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
موت کیراہ نہ دیکھوں ؟ کہ ِبن آئے نہ رہے
تم کوچاہوں ؟ کہنہ آؤ ،تو ُُبلئے نہ ُبنے
بوجھ وہ سر سے گراہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کاموہ آن پڑا ہے کہبنائے نہ بنے
ؔ
عشق پر زور نہیں ،ہے یہ وہ آتش غالب!
کہلگائے نہ لگے ،اور ُبجھائے نہ بنے
222۔
ُ
چاک کیخواہش ،اگر وحشت بہ عریانی کرے
صبحہ کےمانند ،زخِمدل گریبانی کرے
وددعالمددددد ہے کدہ ،گرکیجدددے خیال
جلودددے کاتیردددے ہ
دیدۂ دل کوزیارت گاِہحیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل نومید ،یارب ! کبتلک
گرانجانی کرے آبگینہ کوہ پر عر ِضہ ِ
ت ناز سے پاوے شکست میکدہ گر چشِم مس ِ
ُموۓ شیشہ دیدۂ ساغر کیمژگانی کرے
ّ
خط عارض سے ،لکھا ہے ُزلف کو الفت نے عہد
یک قلممنظور ہے ،جو کچھ پریشانی کرے
ت قہقہہ
ہاتھ پر گرہاتھ مارے یار وق ِ
113
223۔
وہ آکے ،خواب میں ،تسکیِن اضطراب تو دے
ولے مجھے تپِش دل ،مجاِل خواب تو دے
کرے ہے قتل ،لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرحہ کوئیتیِغ نگہ کوآب تو دے
ِدکھا کےجنبِش لب ہی ،تمام کرہمکو
نہ دے جو بوسہ ،تو منہ سے کہیں جواب تو دے
پل دے اوک سے ساقی ،جو ہمسے نفرت ہے
پیالہ گرنہیں دیتا ،نہ دے شراب تو دے
یہ کون کہوے ہے آباد کرہمیں ،لیکن
کبھیزمانہ مراِد دِل خراب تو دے
اسؔد ! ُخوشی سے مرے ہاتھ پاؤں ُپھول گئے
کہا جو اس نے “ ،ذرا میرے پاؤں داب تو دے”
224۔
ف کشمکش ،ہر تاِر بستر ہے تِپش سے میری ،وق ِ
َ
ِمرا سر رن ِجہ بالیں ہے ِ ،مرا تن باِر بستر ہے
عیادت بسکہ تجھ سے گرمِیبازاِر بستر ہے
فروِغ شمِع بالیں طال ِع ّبیداِر بستر ہے
ئ اعضاءہ تکلف باِر بستر ہے بہ ذوِق شوخ ِ
ب کشمکش ہر تاِر بستر ہے ف پیچ تا ّ ِ معا ِ
معماۓ تکلف سر بمہِر چشمپوشیدن ّ
گداِزشمِع محفل پیچِش طوماِر بستر ہے
مژہ فرِش رہ و دل ناتوان و آرزو مضطرہ
بہ پاۓ خفتہ سیِر وادِئ ُپر خاِر بستر ہے
صحرا دادہ ،نورالعیِن دامن ہے ُ ک سر بہ سرش ِ
دِل بے دست و پا افتادہ بر خورداِر بستر ہے
خوشا اقباِل رنجوری ! عیادت کوتمآئے ہو
فروِغ شمع بالیں ،طال ِع بیداِر بستر ہے
ب شاِمتنہائیبہ طوفاں گاِہجوِش اضطرا ِ
محشر تاِر بستر ہےُ بصب ِحہ شعاِع آفتا ِ
ف مشکیں کی ُ
ابھی آتی ہے بو ،بالش سے ،اس کیزل ِ
ب زلیخا ،عاِر بستر ہے ہماری دید کو ،خوا ِ
ؔ
کہوں کیا ،دل کی کیا حالت ہے ہجِر یار میں ،غالب!
114
َ 226۔
فریاد کیکوئی لے نہیں ہے
َ
نالہ پابنِد نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟
گرباغہ گدائے َمے نہیں ہے
ُ
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
ُ
َپر تجھ سی179کوئی شے نہیں ہے
ہاں ،کھائیو مت فریِب ہستی!
کہیں کہ "ہے" ،نہیں ہے ہر چند ُ
180
شادی سے گذر کہ ،غم نہ ہووے ُ
اردی جو نہ ہو ،تو َدے نہیں ہے
کیوں رِد قدح کرے ہے زاہد !
َ
َمے ہے یہ مگس کیقے نہیں ہے
181انجا ،شماِر َغم نہ پوچھو
کے نہیں ہےفہ تا ب َ یہ مصر ِ
جس دل میں کہ ‘تا ب َکے’ سما جاۓ
ت کے نہیں ہے ّ
ت تخ ِ واں ع ز ِ
نسخۂ بھوپال میں اس غزل کی ردیف ‘جاوے’ ہے )اعجاز عبید( 177
یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں )جویریہ مسعود( 181
115
ہستی ہے ،نہ کچھ َعدم ہے ،غال ؔ
ب! َ ُ
آخر تو کیا ہے “ ،اے نہیں ہے؟”
227۔
ت دل کانہ ُپوچھ نسخۂ مرہمجراح ِ
کہ ِاس میں ریزۂ الماس جزِو اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ ِاک نگہ کہ ،بظاہر نگاہ سے کمہے
.228
ہمرشک کواپنے ُبھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ُ ،ولے ،ان کیتمنا نہیں کرتے
در پردہ انھیں غیر سے ہے ربِط نہانی
ظاہر کایہ پردہ ہے کہپردہ نہیں کرتے
ب ہوس ہے ث نومیدِی اربا ِ
یہ باع ِ
ب کو ُبرا کہتے ہو ،اچھا نہیں کرتے غال ؔ
229۔
شفق بدعوِئ عاشق گواِہرنگیں ہے
فنگاریں ہےکہماہ دزِدحناۓ ک ِ
گہ فروغکرے ہے بادہ ،ترے لب سے ،کسِبرن ِ
خِط پیالہ ،سراسر نگاِہ گلچیں ہے
کبھی تو ِاس سِر 182شوریدہکی بھیداد ملے!
ُ
ت بالیں ہےکہایک عمر سے حسرت پرس ِ
بجا ہے ُ ،گرنہ ُسنے ،نالہ ہائے ُبلبِل زار
کہ گوِشگل ،نِمشبنمسے پنبہ آگیںہے
گ پرتِو خورشید عیاں ہے پاۓ حنائی برن ِ
ِرکاب روز ِن دیواِر خانۂ زیں ہے
جبیِن صبح،ہ امیِد فسانہ گویاں پر
ب بتاں خِط چیں ہے گ خوا ِدرازِئ ر ِ
ہوا نشاِن سواِد دیاِر حسن عیاں
ف مشکیں ہے کہخط غباِر زمیں خیِز زل ِ
ُ
اسؔدہے نزعہ میں ،چل بیوفا ! برائے خدا!
ک حجاب و وداِع تمکیں ہے مقاِمتر ِ
182نسخۂ حامد علی ًخان میں "سِر شوریدہ" کی جگہ "دِل شوریدہ" درج ہے۔ ملحظہ ہو ان کا حاشیہ )جویریہ مسعود(
نسخۂ عرشی میں غالبا بالیں کی رعایت سے "سِر شوریدہ" درج کیا گیا ہے مگر دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں جو نظر سے
گزرے" ،دِل شوریدہ" ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں "دل شوریدہ" درج کرکے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے "سِر شوریدہ"
ہی لکھا ہوگا۔ پھر لکھتے ہیں کہ معنئ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔ )حامد علی خاں(
116
183
نہ پوچھ کچھ سر و سامان و کاروباِر اسؔد
جنوں معاملہ ،بے دل ،فقیِر مسکیں ہے
230۔
کیوں نہ ہو چشِم ُبتاں محِو تغافل ،کیوں نہ ہو؟
یعنی اس بیمار کونظارے سے پرہیزہ ہےہ
دیکھنے کیآرُزو رہ جائے گی ُ مرتے مرتے ،
ناکامی ! کہ اس کافر کاخنجرہ تیز ہےوائے ُ
گل دیکھ ُ ،روئے یار یاد آیا ،اسد!ؔ عارِض
جوشِش فصِل بہاری اشتیاق انگیز ہے
ُ 231۔
دیا ہے دل اگر اس کو ،بشر ہے ،کیا کہیے
ہوا رقیب ،تو ہو ،نامہ بر ہے ،کیا کہیے
یہ ضد کہآج نہ آوے ،اور آئے ِبن نہ رہے
کسقدر ہے ،کیا کہیے!
ُ قضا سے شکوہ ہمیں ِ
گ و بے گِہ ،کہ کوئے دوست کو اب رہے ہے یوں ِہ
اگر نہ کہیے کہدشمن کاگھر ہے ،کیا کہیے!
زہے کرشمہ کہیوں دے رکھا ہے ہمکوفریب
کہ بن کہے ہیہ 184انہیں سب خبر ہے،کیاکہیے
ش حالکدددکرتدددددے یہدددں ،بازارمیدددںوددہ ُپرس ِ
سمجدددھ ے
کہ یہ کہے کہ ،سِر رہگزر ہے ،کیا کہیے؟
ددددددں ہے سِررشتدۂ وفا کا خیال تم دیہدددیںدن دہ
ہمارے ُ ہاتھ میں کچھ ہے ،مگر ہے کیا؟ کہیے!
انہیں سوال پہ زعِمجنوں ہے ،کیوں لڑیئے
ہمیں جواب سے قطِع نظر ہے ،کیا کہیے؟
َ
حسد ،سزائے کماِل سخن ہے ،کیا کیجے
ِستم ،بہائے متا ِعہ ُہنر ہے ،کیا کہیے!
ب ُبرا نہیں ،لیکن کہا ہے کسنے کہغال ؔ
ِ
سوائے اس کے کہآشفتہ سر ہے ،کیا کہیے
232۔
دیکھ کردر پردہ گرِمدامن افشانی مجھے
ُ
کرگئیوابستۂ تن میری عریانی مجھے
َ
گ فساںبن گیا تیِغ نگاِہ یار کا سن ِ
183نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں ہے )جویریہ مسعود(
نیز طباطبائی ،حسرت موہانی ،بیخود دہلوی ،مہر وغیرہم کے نسخوں میں "ہی" ہی
نظامی ،حمیدیہ اور متعدد دوسرے قدیم نسخوںً :
184
چھپا ہے۔ مگر نسخۂ عرشی میں "بھی" درج ہے جو غالبا منشی شیو نارائن کے نسخے کی تقلید میں ہے۔ بہر حال اس سے کوئی خاص
معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ )حامد(
117
234۔
حضوِر شاہ میں اہِل سخن کیآزمائش ہے
چمنہ میں خوش نوایاِن چمنہ کیآزمائش ہے
قد و گیسومیں ،قیس و کوہکن کیآزمائش ہے
جہاں ہمہیں ،وہاں دار و رسن کیآزمائش ہے
گےکوہکن کےحوصلے کاامتحاں آخر کریں
ُ 185
اس خستہکے نیروۓ تنکی آزمائش ہے ہنوزہ
ُ نسیِممصر کوکیا پیِر کنعاں کیہوا خواہی!
اسے یوسف کیُبوئے پیرہن کیآزمائش ہے
185نسخۂ ًعرشی میں "ہنوز" کی جگہ "ابھی" چھپا ہے۔ جو قدیم و جدید نسخے نظر سے گزرے ،ان سے اس کی کوئی سند نہیں
ملی۔ یہ غالبا سہِو کتابت ہے۔ )حامد علی خاں(
118
وہ آیا بزم میں ،دیکھو ،نہ کہیو پھر کہ “غافل تھے”
شکیب و صبِر اہِل انجمنہ کیآزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر ،186اچھا ،جگر کےپار ہو ،بہتر
ت ناوک فگن کیآزمائش ہے غرضہ ِشست بُ
ُ ّ ِ ِ
نہیں کچھ ُسبحۂ و زنار کےپھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمنہ کیآزمائش ہے
پڑا رہ ،اے دِل وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟
ف ُپرشکن کیآزمائش ہے مگر پھر تا ُ
ب ُزل ِ ِ
رگ و َپے میں جب اترے زہِر غم ،تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخئکام و دہنکی آزمائش ہے
ؔ
وعدہ کیسا ،دیکھنا ،غالب!
وہ آویں گے ِمرے گھر ُ ،
ہے 187
نئے فتنوں میں اب چر ِخہ کہن کیآزمائش
235۔ ُ
ُ
کبھینیکی بھی اس کےجی میں ،گرآجائے ہے ،مجھ سے
جفائیں کرکےاپنی یاد ،شرما جائے ُ ہے ُ ،مجھ سے
ُ
خدایا ! جذبۂ دل کیمگر تاثیر الٹی ہے !
کھنچتا 188جائے ُہے ُمجھ سے کھینچتا ہوں ،اور ِ کہجتنا
َ ُ
وہ بد خو ،اور میری داستاِن عشق طولنی
عبارت ُُمختصرہ ،قاصد بھی گھبرا جائے ہے ُ ،مجھ سے
بدگمانی ہے ِ ،ادھر یہ ناتوانی ہے
ُ ادھر وہ ُ
نہ پوچھا جائے ہے اس سے ُ ،نہ بول جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی ! کیا قیامت ہے !
ُ
کہداماِن خیاِل یار ،چھوٹا جائے ہے ُمجھ سے
تکلف بر طرفہ ،نظارگیمیں بھی سہی ،لیکن
ُ
وہ دیکھا جائے ،کبیہ ظلم دیکھا جائے ہے ُ ،مجھ سے
ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبرِد عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ،نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
ب ! قیامت ہے کہ ہووے ُمدعی کا ہمسفر غال ؔ
ُ
وہ کافر ،جو خدا کوبھی نہ سونپا جائے ہے ُمجھ سے
186نسخۂ مہر میں "رہے گر دل میں تیر" )جویریہ مسعود( مزید :نظامی ً،عرشی ،حمیدیہ اور متعدد دیگر نسخۂ ہاۓ قدیم و جدید میں
یہ مصرع اسی طرح درج ہے جس طرح متن میں درج کیا مگر نسخۂ مہر غالبا سہِو کتابت سے "رہے گر دل میں تیر اچھا" ملتا ہے۔ بعض
قدیم نسخوں میں " دل میں ہی " چھپا ہے جو سہِو کتابت ہے۔ مگر "رہے گر دل میں تیر " کہیں نہ مل۔ نہ یہ قابل ترجیح معلوم ہوتا
ہے۔ )حامد علی خاں(
187اصل نسخوں میں آزمایش ہے لیکن ہم نے موجودہ امل کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔)اعجاز عبید(
کھچتا" )جویریہ مسعود( ملحظہ ان کا حاشیہ:
188نسخۂ حامد علی خاں میں " ِ
کھچتا" ہی درج ہے جو بجاۓ خود درست ہے مگر اکثر جدید نسخوں میں " کھنچتا" چھپا نظامی اور بعض دیگر قدیم نسخون میں " ِ
ہے۔ )حامد علی خاں(
119
236۔
زبسکہ مشِق تماشا جنوں علمت ہے
ئندامت ہے ت مژہ ،سیل ِ کشادو بس ِ
نہ جانوں ،کیونکہ مٹے داِغ طع ِن بد عہدی
تجھے کہ 189آئینہ بھی ورطۂ ملمت ہے
ک عافیت مت توڑ ب ہوس ِ ،سل ِ بہ پیچ و تا ِ
نگاِہ عجزہ سِر رشتۂ سلمت ہے
وفا مقابل و دعواۓ ُعشق بے ُبنیاد
جنو ِن ساختہ و فصِل گل ،قیامت ہے!
اسد! بہاِر تماشاۓ گلستاِن حیات
وصاِل للہ عذاراِن سرو قامت ہے
237۔
لغر اتنا ہوں کہگرتو بزم میں جا دے مجھے
کرگرکوئیبتل دے مجھے میرا ذمہ ،دیکھ
ُ 190
کیا تعجب ہے کہ اسکودیکھکر آجائے رحم
وا ں تلک کوئیکسیحیلے سے پہنچا دے مجھے
منہہ ہ 191نہدکھلوے ،نہدکھل ،پر بہ انداِز عتاب
کھول کرپردہ ذرا آنکھیں ہی دکھل دے مجھے
یاں تلک میری گرفتاری سے وہ ُخو ش ہے کہ َمیں
زلف گربن جاؤں تو شانے میں الجھا دے مجھے
238۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
گ سلیماں مرے نزدیک اک کھیل ہے اورن ِ
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
ت عالم مجھے منظور جز نام نہیں صور ِ
ئ اشیا مرے آگے
جز وہمنہیں ہست ِ
ہوتا ہے نہاں گردمیں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرےآگے ِ
مت پوچھ کہکیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہکیا رنگہ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں ،نہ کیو ں ہوں
189طباطبائی کی راۓ میں یہاں "کہ" کی بجاۓ "تو" ہونا چاہیے تھا ۔ )حامد علی خاں(
190نسخۂ عرشی میں "کہ" کی جگہ "جو" چھپا ہے۔ نظامی میں "کہ" درج ہے۔ )حامد علی خاں(
191اس شعر کا پہل مصرع یوں ہی ہے۔ دوسرے کے متعلق طباطبائی نے لکھا ہے کہ غالب نے آنکھیں دکھانا بہ صیغۂ جمع باندھا ہے
مگر فصیح وہی ہے کہ " آنکھ دکھانا ُکہیں" ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اردو کے اکثر فصیح اساتذہ نے آنکھیں دکھانا
بھی کہا ہے ۔ ان میں میر ،مصحفی ،امیر ،انس ،ذوق ،مومن ،ظفر ،جرأت ،نسیم دہلوی وغیرہم شامل ہیں۔ )حامد علی خاں(
120
239۔
کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے "
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں "
مجھے تو خو ہے کہجو کچھ کہو "بجا" کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاِہ ناز کوپھر کیوں نہ آشنا کہیے
ت پیکاںنہیں ذریعۂ راحت جراح ِ
وہ زخِمتیغ ہے جس کو کہدلکشا کہیے
جو مدعی بنے اس کےنہ مدعی بنیے
جو نا سزا کہے اس کونہہ ہ نا سزا کہیے
ئ مرض لکھیے ت جانکاہ ِ کہیں حقیق ِ
ت نا سازِئ دوا کہیے کہیں مصیب ِ
ترن ِجہ گراں نشیں کیجے کبھی شکای ِ
ت صبِرگریز پاکہیے کبھی حکای ِ
192
240۔
رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گۓ
دھوۓ گۓہم ایسے کہ بس پاک ہو گۓ
ت میکشی فہ بہاۓ مے ہوۓ آل ِ صر ِ
تھے یہ ہی دو حساب ،سو یوں پاک ہو گۓ
193
رسواۓ دہر گوہوۓ آوارگیسے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالک ہو گۓ
کہتا ُہے کون نالۂ بلبل کوبے اثر
پردے میں گل کے لکھ جگر چاک ہو گۓ
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہِل شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گۓ
ُ
گلہ
کرنے گۓتھے اس سے تغافل کاہم ِ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گۓ
ُ
194
پوچھے ہے کیا معاِش جگر تفتگاِن عشق
جوں شمع آپ اپنی وہ خوراک ہو گئے
195
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسؔد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گۓ
241۔
ّ
ت طرب ب رنگ و ساز ہا مس ِ نشہ ہا شادا ِ
شیشۂ مے سرِو سبِز جوئباِر نغمہ ہے
ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کرنہ بزِم عیِش دوست
واں تو میرے نالے کو بھی اعتباِر نغمہ ہے
242۔
ئ دنداں براۓ خندہ ہے عرِض ناِز شوخ ِ
ت احباب جاۓ خندہ ہے دعوئ جمعّی ِ
خود فروشی ہاۓ ہستی بس کہ جاۓ خندہ ہے
193ایک آدھ نسخے میں " ہم" بھی درج ہے۔ )حامد علی خاں(
194نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں۔ )جویریہ مسعود(
ؔ
195نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں درج ہے :اس رنگ سے کل اٹھائی اس نے اسد کی نعش
ٰ
مقابلے سے معلوم ہوا کہ دوسرے کسی زیِر نظر قدیم و جدید نسخے میں یہ مصرع یوں درج نہیں۔ لہذا اسے سہو کتابت سمجھنا چاہیے۔
ایک آدھ نسخے میں "نعش" کی جگہ "لش" بھی چھپا ہے۔ )حامد علی خاں(
122
196
ت دل میں صداۓ خندہ ہے ت قیم ِہر شکس ِ
نقِش عبرت در نظر ہا نقِد عشرت در بساط
دو جہاں وسعت بقدِر یک فضاۓ خندہ ہے
ہے عدم میں غنچہ محِو عبر ِ
ت انجاِم ُگل
یک جہاں زانو تاّمل در قفاۓ خندہ ہے
ت افسردگی کو عیِش بے تابی حرام کلف ِ
ورنہ دنداں در دل افشردن ِبناۓ خندہ ہے
سوزِش 197باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیِط گریہ و لب آشناۓ خندہ ہے
ئ ہستی اسدؔ جاۓ استہزاء ہے عشرت کوش ِ
ت نشو و نماۓ خندہ ہے صبح و شبنم فرص ِ
243۔
حسِن بے پروا خریداِر متاِع جلوہ ہے
آئنہ زانوۓ فکِر اختراِع جلوہ ہے ُ
گ تماشا باختن؟تا کجا اے آگہی رن ِ
چشِم وا گر دیدہ آغوِش وداِع جلوہ ہے
عجِز دیدن ہا بہ ناز و ناِز رفتن ہا بہ چشم
جادۂصحراۓ آگاہی شعاِع جلوہ ہے
244۔
جب تک دہاِن زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ ُتجھ سے راِہ سخن وا کرے کوئی
ت مجنوں ہے سر بسر عالم غباِر وحش ِ
کب تک خیاِل طّرۂ لیلٰی کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشاۓ التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم ملمت نہ کر مجھے
ُ
آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی
ک جگر سے جب رِہ پرسش نہ وا ہوئی چا ِ
َ
کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے کوئی
گ د ہر خار شا ِ
خ گدل د ددددددد ے ہے ر ِ
جگر
ت سد
لخ ِ
ئ صحرا کرے کوئی تا چند باغبان ِ
ئ نگاہ ہے برِق نظارہ سوز ناکام ِ
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ً ت دل ہا صداۓ خندہ ہے۔ )جویریہ مسعود(
ت قیم ِ
نسخۂ حمیدیہ :تا شکس ِ
196
197نسخۂ عرشی اور دوسرے مؤقر نسخوں میں یہاں "سوزش" کی جگہ "شورش" چھپا ہے۔ شاعر نے یقینا "سوزِش باطن" ہی کہا
ہوگا کیونکہ احباب اس کے لب ہاۓ خنداں کو دیکھ کر اس کے غِم پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خندہ آشنا لب کا تقابل "سوزِش
باطن" سے ہوسکتا ہے۔ شورش باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخہ نظامی میں "سوزِش باطن" ہی درج ہے۔ )حامد علی خاں(
123
246۔
198
نوٹ :یہ مصرعہ مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔ )جویریہ مسعود(
نسخۂ مہر :یہ درد وہ نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی۔ نسخۂ طاہر :یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی
نسخۂ حمیدیہ :یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی نسخۂ آسی :یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
ایک اچھے نسخے میں بل اعلِن نون"کاں کا تیر" چھپا ہے۔ باقی تمام زیِر نظر نسخوں میں "کمان کا تیر" چھپا ہے۔ )حامد علی خاں( 199
124
247۔
باغ تجھ بن گِل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
چاہوں گر سیِر چمن ،آنکھ دکھاتا ہے مجھے
باغ پا کر ُ خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاِخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
200
ماِہ نو ہوں ،کہ فلک عجز سکھاتا ہے مجھے
عمر بھر ایک ہی پہلو پہ سلتا ہے مجھے
دیگر معلومُ جوہِر تیغ بہ سر چشمۂ
ُہوں میں وہ سبزہ کہ زہرآب اگاتا ہے مجھے
ت دل ہے ّ
مدعا محِوتماشائے شکس ِ
آئنہ خانے میں کوئی لۓ جاتا ہے مجھے
فخاک نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم ک ِ
آسمان بیضۂ قمری نظر آتا ُ ہے مجھے
زندگی میں تو وہ محفل سے ُاٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے
ک چمن کا یا رب! شوِر تمثال ہے کس رش ِ
آئینہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے
حیرت آئینہ انجاِم جنوں ہوں جوں شمع
کس قدر داِغ جگر شعلہ دکھاتا ہے مجھے
ت جاوید ،مگر د ٕ
ذوق خیال میددددں وہدددں اور حیر ِ
بہ فسوِن نگِہ ناز ستاتا ہے مجھے
نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں ہے۔ )جویریہ مسعود( 200
125
248۔
روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سِر رہگزار کی
201
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوںنمود نہ ہو للہ زار کی
ُبھوکے نہیں ہیں سیِر گلستان کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی
249۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر ُبھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اس کی گر د ن پر
وہ خوں ،جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر 202لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی ِاس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جاِم جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیِغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
زیادہ نسخوں میں "بادشاہ" اور کم میں "پادشاہ" درج ہے۔ )حامد علی خاں( 201
202نسخۂ حمیدیہ )اور مہر( میں یہاں لفظ "اگر" ہے ،دوسرے تمام نسخوں میں "مگر" ،صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی امل قبول کی
ہے۔ ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔ )اعجاز عبید(
مزید :نسخۂ مہر میں یہاں "مگر" کی جگہ "اگر" چھپا ہے لیکن نسخۂ حمیدیہ ،نسخۂ عرشی ،نسخۂ مالک رام ،نسخۂ نظامی ،نسخۂ
حسرت موہانی نسخۂ بیخود اور دیگر تمام پیِش نظر قدیم و جدید نسخوں میں "مگر" ہی چھپا ہے اور اس میں احتماِل معنوی نے ایک
مزید لطف بھی پیدا کردیا ہے۔ تمام مہیا شہادتوں سے یہاں "مگر" ہی غالب کا لفظ معلوم ہوتا ہے البتہ ً نسخۂ طباطبائی )لکھنو
(1961میں نسخۂ مہر ہی کی طرح "اگر" چھپا ہے۔ اس نسخے میں اغلِط کتابت کی کثرت ہے۔ غالبا ان دونوں نسخوں میں "اگر"
غلِط کاتب ہے۔ علوہ ازیں نسخۂ مہر میں کاتب نے اس غزل کے اشعار کی ترتیب بے محابا بدل ڈالی
ہے۔ )حامد علی خاں(
126
254۔
گ تمنا
ہوں میں بھی تماشائِی نیرن ِ
204
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے
255۔
گر جاوے دِم تحریر کاغذ پر
سیاہی جیسے ِ
مر ی قسمت میں یو ں تصویر ہے شب ہائے ہجرا ں کی
203نسخۂ مہر میں "اسد" کی جگہ "مجھے" چھپا ہے مگر یہ سہِو کتابت معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مصرع میں متکلم نے صیغۂ
جمع استعمال کیا ہے۔)حامد علی خاں(
204
آئے۔ نسخۂ مہر )جویریہ مسعود(
127
256۔
ہجوِم نالہ ،حیرت عاجِز عر ِض یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے
ف بد خویاںتکلف بر طرف ،ہے جانستاں تر لط ِ
ب ناز تیِغ تیِز عریاں ہے
نگاِہ بے حجا ِ
ت شادی ّ
ت غم سے تلف کیفی ِ ہوئی یہ کثر ِ
ک گریباں ہے کہ صبِح عید مجھ کو بدتر از چا ِ
دل و دیں نقد ل ،ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر متاِع دست گرداں ہے
غم آغوِش بل میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراِغ روشن اپنا قلزمِِصرصر کا مرجاں ہے
257۔
خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تریُ 205سرمہ سا نکلتی ہے
فشاِر تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میںجا نکلتی ہے
ب تیِغ نگاہ
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آ ِ
کہ زخِم روزِن در سے ہوا نکلتی ہے
258۔
ف یار ہے جس جا نسیم شانہ کِش زل ِ
ت تتار ہے نافہ دماِغ آہوئے دش ِ
کس کا سرا ِغ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
ت انتظار ہے آیئنہ فرِش شش جہ ِ
ئ جا سے غباِر شوق ہے ذرہ ذرہ تنگ ِ
ت صحرا شکار ہے گردام یہ ہے و سع ِ
دل مّدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ
ّ
نظارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے
گ گل پر آب چھڑکے ہے شبنم آئینۂ بر ِ
ت ود اِع بہار ہے اے عندلیب وق ِ
پچ آپڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے
بے پردہ سوئے وادِئ مجنوں گزر نہ کر
ہر ذّرے کے 206نقاب میں دل بے قرار ہے
205نسخۂ حسرت ًموہانی میں "ترے" چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں "ترے" اور "تری" کی تمیز مشکل تھی۔ شعر کا مفہوم دونوں
صورتوں میں تقریبا ایک ہی رہتا ہے۔ )حامد علی خاں(
نسخۂ طباطبائی میں " کی نقاب" چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں یوں بھی یاۓ حطی ہی چھپی ہے۔ مگر نقاب کی تذکیر و تانیث کے 206
128
259۔
آ ئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
ہے انتظار سے شرر آباِد ُرست خیز
گ خارا کہیں جسے مژگاِن کوہکن ر ِ
حسرت نے ل رکھا تری بزِم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے
ت وصال پہ ہے گل کو عندلیب کس فرص ِ
زخِم فراق خندۂ بے جا کہیں جسے
یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
یہ محشِر خیال کہ دنیا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوِش محبت میں اے خدا
افسوِن انتظار ،تمنا کہیں جسے
سر پر ہجوِم درِد غریبی سے ڈالیے
ت خاک کہ صحرا کہیں جسے وہ ایک مش ِ
ت دیدار سے نہاںہے چشِم تر میں حسر ِ
شوِق عناں گسیختہ ،دریا کہیں جسے
درکار ہے شگفتِن گلہائے عیش کو
صبِح بہار پنبۂ مینا کہیں جسے
ب برا نہ مان جو واعظ برا کہے غال ؔ
ایسا بھی کو ئی 207ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟
260۔
شبنم بہ گِل للہ نہ خالی ز ادا ہے
داِغ دِل بے درد ،نظر گاِہ حیا ہے
ت دیداردل خوں شدۂ کشمکِش حسر ِ
بارے میں تو دہلی و لکھنو کا جدا جدا شیوہ بھی تھا۔ غالب نے لکھا ہے :زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رخ پر کھل۔
)حامد علی خاں(
207نسخۂ مہر میں "کوئی ہے" کی جگہ "ہے کوئی" چھپا ہے۔ کسی دوسرے پیِش نظر قدیم و جدید نسخوں میں یہ شعر اس طرح
درج نہیں۔ )حامد علی خاں(
129
261۔
ّ
منظورتھی یہ شکل تجلی کو نور کی
208
262۔
غم کھانے میں بودا دِل ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مۓ گلفام ،بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے ،حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھےُِدرِد تِہ جام بہت ہے
َ
نے تیر کماں میں ہے ،نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداِش عمل کی طَمِع خام بہت ہے
ہیں اہِل خرد کس روِش خاص پہ نازاں؟
ئ رسم و رِہ عام بہت ہے پابستگ ِ
ف حر م سے؟ زمزم ہی پہ چھوڑو ،مجھے کیا طو ِ
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے
ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو
انکار نہیں اور مجھے ِابرام بہت ہے
خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں ،کہ ابھی کام بہت ہے
ب کو نہ جانے؟ ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غال ؔ
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
263۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوِش قدح سے بزم چراغاں 210کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگِر لخت لخت کو
ت مژگاں کئے ہوئے عرصہ ہوا ہے دعو ِ
پھر وضِع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
َ
پھر گرِم نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
نسخۂ مہر " "آؤ نا" )حامد علی خاں( 209
210بعض حضرات بہ اضافت "بزِم چراغاں" لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ "بزم کرنا" کوئی اردو محاورہ نہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جوِش
قدح سے بزم کو چراغاں کیے ہوۓ مدت گزر چکی ہے۔ )حامد علی خاں(
131
264۔
نویِد امن ہے بیداِد دوست جاں کے لئے
رہی نہ طرِز ستم کوئی آسماں کے لئے
بل سے!گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِِخوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناِس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمِر جاوداں کے لئے
211
نسخۂ مہر میں " ہے" )جویریہ مسعود(
265۔
ُ ُ َ
آپ نے َمّسنی الّضّر کہا ہے تو سہی
گل ہے تو سہیت اّیوب! ِ یہ بھی اے حضر ِ
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
تسلیم و رضا ہے تو سہی ئ ُ
ذہن میں خوب ِ
ُ ّ
ہے غنیمت کہ بہ امید گزر جاۓ گی عمر
نہ ملے داد ،مگر روِز جزا ہے تو سہی
دوست ہی کوئی نہیں ہے ،جو کرے چارہ گری
سہی ّ
نہ سہی ،لیک تمناۓ دوا ہے تو ُ
دیکھیے کیا خوب نباہی اس نے ُ غیر سے
نہ سہی ہم سے ،پر اس ُبت میں وفا ہے تو سہی
213یہ عجیب بات ہے کہ نسخۂ نظامی اور نسخۂ مہر میں نیز متعدد دوسرے قدیم نسخوں میں یہ مصرع ایک ہی طور پر مہمل چھپا ہے،
یعنی:
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا ،مری خوشامد سے۔ )حامد علی خاں(
133
268۔
214عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیۓ
269۔
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لۓ اسؔد
ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے
270۔
ّ
زنداِن تحمل ہیں مہماِن تغافل ہیں
بے فائدہ یاروں کو فرِق غم و شادی ہے
271۔
ّ
مستعِد قتِل یک عالم ہے ج ل ِد فلک
کہکشاں موِج شفق میں تیِغ خوں آشام ہے
272۔
نہ حیرت چشِم ساقی کی ،نہ صحبت دوِر ساغر کی
ب گردِش افلک باقی ہے مری محفل میں غال ؔ
273۔
صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
کہ روۓ غنچہ سوۓ آشیاں پھر جاۓ
نوٹ 273 -268 :غزلیات و اشعار نسخۂ مہر میں نہیں۔ جویریہ مسعود 214
135
قصائد
1۔
ت حیدریمنقب ِ
مطلِع ثانی
2۔
گ آصفیہ۔ اس قسم
اکثر مروجہ نسخوں میں "کی خاشاک" چھپا ہے۔ لفِظ خاشاک بہ صیغۂ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ دیکھیے فرہن ِ
216
کے اغلط کی وجہ پہلے حواشی میں جگہ جگہ بیان ہو چکی ہے۔ )حامد علی خاں(
مزید :نسخۂ حامد علی خاں میں :واں کے خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرِکاہ )جویریہ مسعود(
217
نسخۂ مہر میں "غمخوار" )جویریہ مسعود(
137
نسخۂ مہر میں یہاں "سدا" کی جگہ "اسد" چھپا ہے مگر اس کی تصدیق کسی دوسرے نسخے سے نہیں ہوسکی۔ )حامد علی 219
138
خان(
3۔
مدِح شاہ
نسخۂ نظامی :جاۓ ،آۓ۔۔ نسخۂ ِشو نرائن :جاوے ،آوے۔ ۔)حامد علی خان( 223
بعض نسخوں میں " ہر روزہ" کی جگی "ہر روز" چھپا ہے جو سہِو کتابت ہے۔ ۔)حامد علی خان( 224
140
ق
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بہ تقریِب عیِد ماِہ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماِہ تمام
ماہ بن ،ماہتاب بن ،میں کون؟
مجھ کو کیا بانٹ دےگا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوۓ بخشِش خاص
ت عام گر تجھے ہے امیِد رحم ِ
ّ
جو کہ بخشےگا تجھ کو فر فروغ
کیا نہ دےگا مجھے مۓ گلفام؟
جبکہ چودہ منازِل فلکی
کرچکے 225قطع تیری تیزئ گام
تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوۓ و مشکوۓ و صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا اک بلوریں جام
پھر غزل کی رِوش پہ چل نکل
توسِن طبع چاہتا تھا 226لگام
غزل
زہِر غم کرچکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام؟
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیۓ جاؤں؟
غم سے جب ہو گئی ہے زیست 227حرام
بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے
ّ
ت دشنام کہ نہ سمجھیں وہ لذ ِ
کعبے میں جابجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے َدیر میں احرام
اس قدح کا ہے َدور مجھ کو نقد
بعض نسخوں میں غلط فہمی کی بنا پر " چکے" کی جگہ "چکی" چھپا ہے۔ ۔)حامد علی خان( 225
بعض مروجہ نسخوں میں "چاہتا ہے لگام" چھپا ہے۔ جو غط ہے۔ )حامد علی خان( 226
ً
نسخۂ مہر میں " غم سے زیست ہوگئی ہو حرام" یہ غالبا سہِو کتابت ہے۔ ۔)حامد علی خان( 227
141
ُ ق
فِن صورت گری میں تیرا گرز
گر نہ رکھتا ہو دستگاِہ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے
ت ادغام؟ کیوں نمایاں ہو صور ِ
جب ازل میں رقم پذیر ہوۓ
صفحہ ہاۓ لیالی و اّیام
ک قضا اور ان ّاوراق میں بہ کل ِ
مجمل مندرج ہوۓ احکام ُ
لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبِد تیز گرِد نیلی فام
حکِم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضِع سوز و نم و رم و آرام
مہِر رخشاں کا نام خسرِو روز
ماِہ تاباں کا اسم شحنۂ شام
تیری توقیِع سلطنت کو بھی
ت ارقام دی بدستور صور ِ
کاتِب حکم نے بموجِب حکم
اس 228رقم کو دیا طراِز دوام
ہے ازل سے روانہہئ229آغاز
ہو ابد تک رساِئی انجام
4۔
مدِح شاہ
ُ
228نسخۂ نظامی کی تقلید میں مستند نسخوں میں بھی یہاں" اس" چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں یہ سہِو کتابت معلوم ہوتا ہے کیوں کہ
"ِاس رقم" میں اشارہ قریبی تحریِر ما بعد یعنی آخری شعر کی طرف ہے۔ نظر بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ )حامد علی خان(
229چند نسخوں میں "روائِی" ہے۔ اکثر جگہ ‘روانی’ کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ )اعجاز عبید(
مزید :بعض نسخوں میں "روائی" جگہ "روانئی" چھپا ہے ،غالب نے "رسائی" کے مقابلے میں "روائی" لکھا تھا۔ دیکھیے طباطبائی۔
)حامد علی خان(
مزید :ہم نے متن میں اکثر مستند نسخوں کی تقلید میں "روانئی" کو ترجیح دی ہے۔ )جویریہ مسعود(
143
ق
تُوسِن شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب
ت صرصر کھل تھان سے وہ غیر ِ
نقِش پا کی صورتیں وہ دل فریب
تُو کہے بت خانۂ آزر کھل
مجھ پہ فیِض تربیت سے شاہ کے
144
َ
غزل ُ
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھل
کاشکے ہوتا قفس کا در کھل
ہم پکاریں ،اور کھلے ،یوں کون جاۓ
یار کا دروازہ پاویں گر کھل
ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن پر کھل
واقعی دل پر بھل لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھل
ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی خنجر کھل
َ
ُمفت کا کس کو ُبرا ہے بدرقہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھل
سوِز دل کا کیا کرے باراِن اشک
آگ بھڑکی ،مینہ اگر دم بھر کھل
نامے کے ساتھ آ گیا پیغاِم مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھل
ب سے گر الجھا کوئی دیکھیو غال ؔ
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھل
پدددھرد ہوا مدحت طرازی کداد خیال
پھر مہ و خورشید کا دفتر کھل
خامے نے 231پائی طبیعت سے مدد
بادباں بھی ،اٹھتے ہی لنگر ،کھل
230نسخۂ عرشی اور بعض دیگر مستند نسخوں میں "دکھا دوں گا" ہے مگر نسخۂ نظامی میں ،نیز دیگر قدیم نسخوں" میں دکھاؤں
گا" ہی ہے ۔ )حامد خ(
231
نسخۂ مہر میں " پائیں" )جویریہ مسعود(
ً
مزید :نسخۂ عرشی میں یہ مصرع یوں چھپا ہے :خامے سے پائی طبیعت نے مدد۔ دونوں طرح شعر تقریبا ہم معنی ہی رہتا ہے۔ متن نسخۂ
کے مطابق ہے۔ نسخۂ مہر میں دوسرا مصرع یوں چھپا ہے :بادباں کے اٹھتے ہی لنگر کھل نظامی ً
یہ صریحا سہِو کتابت ہے۔ لنگر اٹھتا ،بادبان کھلتا ہے۔ )حامد علی خان(
145
ُ
مدح سے ،ممدوح کی دیکھی شکوہ
رتبۂ جوہر کھل یاں َعَرض سے ُ
ّ
مہر کانپا ،چرخ چکر کھا گیا
ت لشکر کھل بادشہ کا رائ ِ
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
ُ
اب علّو پایۂ ِمنبر کھل
ِسکۂ شہ کا ہوا ہے رو شناس
اب ِعیاِر آبروۓ زر کھل
دھرا ہے آئنہ شاہ کے آگے َ
اب مآِل سعِی ِاسکندر کھل
َ
ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے
اب فریِب طغرل و سنجر کھل
ہو سکے کیا مدح ،ہاں ،اک نام ہے
دفتِر مدِح جہاں داور کھل
ّ
فکر اچھی پر ستائش نا تمام
عجِز اعجاِز ستائش گر کھل
ح ازلط لو ِ،دددد ہے خ ِ
جانتادوہددں
تم پہ اے خاقاِن نام آور! کھل
تم کرو صاحبِقرانی ،جب تلک
ہے طلسِم روز و شب کا در کھل!
5۔
ایلین براؤن
ملِذ کشور و لشکر ،پناِہ شہر و سپاہ
ب عالی ایلن برون وال جاہ
جنا ِ
بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر
ف کلہ کہ باج تاج سے لیتا ہے جس کا طر ِ
وہ محض رحمت و رافت کہ بہِر اہِل جہاں
ت دِم عیسٰی کرے ہے جس کی نگاہ نیاب ِ
وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی
بنے ہیں شعلۂ آتش انیِس َپّرۂ کاہ
زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے بجاۓ غبار
کے جولں گاہ جہاں ہو توسِن حشمت کا اس ٰ
وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں " الہی شکر"
وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے " خدا کی پناہ"
یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوہ کے اطراف میں بہ ہر سِر راہ
146
6۔
والئ الور کی سالگرہ پر
7۔
میکلوڈ صاحب کی خدمت میں
کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
فرماں رواۓ کشوِر پنجاب کو سلم
حق گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناس
نّواب مستطاب ،امیِر شہ احتشام
ت رزم ُ جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وق ِ
ُ
ک فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حسام تر ِ
جس بزم میں کہ ہو انہیں آئیِن میکشی
واں آسمان شیشہ بنے ،آفتاب جام
چاہا تھا میں نے تم کو مِہ چار دہ کہوں
دل نے کہا کہ یہ بھی ہے تیرا خیاِل خام
دو رات میں تمام ہے ہنگامہ ماہ کا
حضرت کا عّز و جاہ رہے گا علی الّدوام
سچ ہے تم آفتاب ہو ،جس کے فروغ سے
ک آبگینہ فام دریاۓ نور ہے فل ِ
میری سنو ،کہ آج تم اس سرزمیں پر
حق کے تفّضلت سے ہو مرجِع انام
اخباِر لدھیانہ میں ،میری نظر پڑی
تحریر ایک ،جس سے ہوا بندہ تلخ کام
ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کو جگر
کاتب کی آستیں ہے مگر تیِغ بے نیام
وہ فرد جس میں نام ہے میرا غلط لکھا
جب یاد آگئی ہے ،کلیجا لیا ہے تھام
سب صورتیں بدل گئیں ناگاہ یک قلم
لمبر رہا نہ نذر ،نہ خلعت کا انتظام
ّ
ستر برس کی عمر میں یہ داِغ جاں گداز
جس نے جل کے راکھ مجھے کردیا تمام
تھی جنوری مہینےکی تاریخ تیرھویں
استادہ ہو گئے لِب دریا پہ جب خیام
اس بزِم ُپر فروغ میں اس تیرہ بخت کو
لمبر مل نشیب میں از روۓ اہتمام
سمجدددھااسدددد ے گدرداب،دد ہوا پاش پاش دلد
ک عوام دربار میں جو مجھ پہ چلی چشم ِ
عزت پہ اہِل نام کی ہستی کی ہے بناء
عزت جہاں گئی تو نہ ہستی رہے نہ نام
150
8۔
نّواب یوسف علی خاں
9۔
مدح نصرت الملک بہادر
ُ
نصرت الملک بہاُدر مجھے بتل کہ مجھے
تجھ سے جو اتنی ِارادت ہے تو کس بات سے ہے؟
ُ
گرچہ تو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے
رونِق بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے
اور میں وہ ہوں کہ ،گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا ،خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے
خستگی کا ہو بھل ،جس کے سبب سے سِر دست
نسبت ِاک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے
ہاتھ میں تیرے رہے توسِن َدولت کی ِعناں
یہ ُدعا شام و سحر قاضئ حاجات سے ہے
ُ
تو سکندر ہےِ ،مرا فخر ہے ملنا تیرا
خضر کی بھی مجھ کو ملقات سے ہے گو شرف ُ
ِاس پہ گزرے نہ گماں ِریو و ِریا کا ِزنہار
ب خاک نشیں اہِل خرابات سے ہے غال ؔ
10۔
در مدِح شاہ
نسخۂ نظامی میں :ستائش" جی جگہ "شکایت" چھپا ہے ،ستائش ہی بہ ظاہر درست ہے۔ )حامد علی خان( 232
155
11۔
گزارش مصّنف بحضوِر شاہ
َ َ َ
اے شہنشاِہ آسماں اورنگ َ
اے جہانداِر آفتاب آثار
َ
تھا میں ِاک بے نَواۓ گوشہ نشیں
تھا میں ِاک دردمنِد سینہ فگار
ُ
تم نے مجھ کو جو آبُرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمئ بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
ُروشناِس ثوابت و سّیار
گر چہ از ُروۓ ننگ و بے ُہنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آۓ خاک کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں ،کہ ہوں
بادشہ کا غلِم کار گزار
خانہ زاد اور ُمرید اور مداح
نگار
ُ تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ
بارے نوکر بھی ہو گیا صد شکر
ّ
نسبتیں ہو گئیں ُمشخص چار
نہ کُہوں آپ سے تو کس سے کہوں
ُمدعائے ضروری الظہار
ِپیر و ُمرشد ! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوِق آرائِش سر و دستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے باِد َزمہریر آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
َ
جسم رکھتا ہوں ،ہے اگرچہ نزار
ددددددں ہے ابکددددد ے سال
خریدان دہ
ید کچدددد ھ
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
رات کو آگ اور دن َکو ُدھوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار !
آگ تاپے کہاں تلک ِانسان
ُدھوپ کھاوے 233کہاں تلک جاندار
ُدھوپ کی تاِبش ،آگ کی گرمی !
نسخۂ مہر میں "کھاۓ")جویریہ مسعود( 233
156
َ َ َ َ
َوِقَنا َربَّنا عذاَب الّنار !
ُ میری تنخواہ جو مقرر ہے
اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
رسمہے ُمردے کیچھ ماہی ایک
خلق کا ہے ِاسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو توُ ، 234ہوں بہ قیِد حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار !
یندددے قرض بسکددد ہ لیتادودہدددں ہرم دہ
اور رہتی ہے ُسود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہوگیا ہے شریک ساُہو کار
آج مجھ سا نہیں زمانے ُ میں
شاعِر نغزگوۓ خوش گفتار
رزم کی داستان گر ُسنئیے
ہے زباں میری تیِغ جوہر دار
بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری 235ابِر گوہر بار
ُ
ظلم ہے گر نہ دو ُسخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بندہ ،اور ِپھروں ُننگا ؟
آپ کا نوکر ،اور کھاؤں ادھار ؟
میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ
تا ،نہ ہو مجھ کو زندگی ُدشوار
ختم کرتا ُہوں اب ُدعا پہ کلم:
)شاعری سے نہیں مجھے سروکار(
ُ
تم سلمت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
بعض قدیم و جدید نسخوں میں "تو" کی جگہ "کہ" چھپا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ )حامد علی خان( 234
غالب نے قلم مذکر و مونث دونوں طرح لکھا ہے۔ )حامد علی خان( 235
157
مثنوی
1۔
ت انبہ
در صف ِ
نسخۂ آسی میں "نہ شاخ و برگ و بار )جویریہ مسعود( 237
نسخۂ مہر میں "عز جاہ و شاِن جلل" چھپا ہے۔ اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ )حامد علی خان( 240
159
2۔
گ کاغذی ایک دن مثِل پتن ِ
آزادگی لے کے دل سر رشتۂ َ
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا
میں کہا ،اے دل ،ہواۓ دلبراں!
بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں
بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
کسے کے یاِر غار یہ نہیں ہیں گے ِ
گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو ِمل جاۓ گی ان سے تیری گانٹھ
241
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ
سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
قہر ہے ،دل ان میں الجھانا تجھے
بڑھاتے ہیں تجھے یہ جو محفل میں ُ
بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں
دلد نے سن کر۔ کانپ کر ،کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر ،دیا کٹ کر جواب
رشتۂ در گردنم افگندہ دوست
می ُبرد ہر جا کہ خاطر خواِہ اوست
خمسہ
مرثیہ
ُ
سلم اسے کہ اگر بادشہ کہیں اس ُکو
تو پھر کہیں کچھ ِاس سے سوا کہیں اس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
نسخۂ مہر میں " بہ جا")جویریہ مسعود( 242
سہہہرے
1۔ َ
246خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ِترے سر سہرا
باندھ شہزادہ 247جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی ِاس چاند سے ُمکھڑے پہ بھل لگتا ہے!
ُ
سہرا
ُ زیور کا افروز دل ن
ِ حس ہے ِترے
ف کلہ سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طر ِ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ِترا لمبر سہرا
ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لۓ ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کئے ہوں گے موتی
تب بنا ہوگا ِاس انداز کا گز بھر ِسہرا
ُرخ پہ ُدولھا کے ُجو گرمی سے پسینا ٹپکا
گ ابِر گہر بار َسراَسر ِسہرا ہے ر ِ
یہ بھی ِاک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جاۓ
رہ گیا آن کے دامن کے برابر ِسہرا
جی میں ِاترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں ِاک چیز
چاہیے ُپھولوں کا بھی ایک مقّرر 248سہرا
جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے ُپھولوں کا بھل پھر کوئی کیونکر ِسہرا
ُرخ روشن کی َدمک ،گوہِر غلتاں249کی چمک
کیوں نہ دکھلۓ فُروِغ مہ و اختر سہرا
تار ریشم کا نہیں ،ہے یہ َر ِ
گ ابِر بہار
ب گرانبارئ گوہر ِسہرا ! لۓ گا تا ِ
ہم ُسخن فہم ہیں ،غالب کے طرفدار نہیں
ؔ
250
دیکھیں ،اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا!
2۔
غالب نے یہ سہرا اپنے دیوان میں شامل نہیں کیا تھا۔ )حامد علی خان( 246
نسخۂ حسرت میں "مکرر" چھپا ہے لیکن کسی اور نسخے میں اس کی سند نہیں ملی۔ )حامد علی خان( 248
۔ق۔
3۔
4۔
بیاِن مصّنف )گزارِش غالب(
ؔ
ُ ُ
منظور ہے گزارِش احواِل واقعی
ُ
اپنا بیاِن حسِن طبیعت نہیں مجھے
َسو ُپشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
مسلکدددد ہے صل ِ
ح ُکدلد آزاددددد ہ َروددوہدددں اور ِمرا
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلم ہوں
ُمانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
استاِد شہ سے ہو مجھے َپرخاش کا خیال؟
یہ تاب ،یہ مجال ،یہ طاقت نہیں مجھے
ُ
جاِم جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
َسوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے
میں کون ،اور ریختہ ،ہاں ِاس سے مدعا
ُ
جز انبساِط خاطِر حضرت نہیں َمجھے
ِسہرا لکھا گیا ز رِہ امتثاِل امر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت ُنہیں مجھے
مقطع میں آ پڑی ہےُ 251سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطِع محبت نہیں مجھے
ُروئے ُسخن کسی کی طرف ہو تو ُروسیاہ
ُ
سودا نہیں ،جنوں نہیں ،وحشت نہیں مجھے
قسمت ُبری سہی َپہ طبیعت ُبری نہیں ُ
ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
ب ،خدا گواہ صادق ہوں اپنے قول میں 252غال ؔ
ُ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
ب حیات میں "قول کا" چھپا ہے ،نسخۂ نظامی میں "قول میں" )حامد علی خان(
آزاد کے آ ِ
252
168
قطعات
1۔
گزارِش غالبؔ
اے شہنشاِہ فلک منظِر بے مثل و نظیر
ادددد ے جدہانداِر کدردمدددشیوددد ۂبدددے شبد ہ و عدیل
ت اَِورنگ پاؤں سے تیرے َملے فرِق اراد ِ
تد ِاد کدلدیلدب د سعاد ِ فرقسدددد ےتیردددےکدرددددد ے کدسد ِ
ُ ُ َ
ف ِالہام تیرا انداِز سخن شانۂ ز ل ِ
ل جبریل
ُ
ش با ِجنب ِ قلدم د ُتیری رفتاِر ُ
ب کلیم تجھ سے ِعالم پہ کھل رابطۂ قر ِ
ل خلیل ُتجدددھسدددد ے دنیامیدددںِبچدددھامائدددۂ َبذ ِ
َ
بہ ُسخن اَِوِج دِہ مرتبۂ معنی و لفظ
غ ِن ہ ِناصیدۂ ُقلُزدم د و ِنیل بدہ کدردمددد دا ِ
َ
253
تا ،ترے وقت میں ہو عیش و طرب کی توفیر
تا ،تردددے ع دہدمیددددں ہو رنج و َاَلدم د کدیدد تقلیل
َ
ماہ نے چھوڑ دیا ثور سے جانا باہر
حوتسدددد ے کدرناد تحویل ُزدہدرددہندددے ترک کدیاد ُ
َ ؔ َ
تیری دانش ،مری اصلِح مفاسد کی رہین
ح مقاصد کی کفیل مرے ِانجا ِ تیری بخشش ِ ،
َ َ َ ُّ
تیرا اقباِل ترحم ِمرے جینے کی نِوید
تیرا انداِز َتغاُفل ِمرے مرنے کی دلیل
ت ناساز نے چاہا کہ نہ دے ُمجھ کو اماں بخ ِ
ددکدرددددد ےُمجدددھ کدو د ذلیلد خکجد بازندددے چادہاکد ہ چر ِ
پیچھے ڈالی ہے سِر رشتۂ اوقات میں گانٹھ
نتدبیرمیدددں کدیدل د خِ
ن نا ُ ونکیددددد ہے ُب ِ ددددددے ٹھ
لد پ دہ
َ َ
ف عظیم تِپِش دل نہیں بے رابطۂ خو ِ
جّر ثقیلد ش د ددمددن دیہدددںبدددے ضابطدۂ َ کدشد ِ
َُدِر معنی سے ِمرا صفحہ ،لقا کی ڈاڑھی
غِم گیتی سے ُِمرا سینہ ا َمر 254کدیدد زنبیل
ت کثیر فکر میری گہر اندوِز اشارا ِ
ت قلیل ِکدلکد میری رَقدم د آمو ِزد عبارا ِ
میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصُدق توضیح
253نسخۂ نظامی ،سہِو کتابت :توقیر۔ )حامد علی خان(
ّ َ ّ َ 254غال ؔ
ب نے اسے جان بوجھ کر الف سے لکھا ہے حالں کہ زنبیل سے مراد عمر عیار )جسے عمرو عیار بھی کہتے ہیں(کی زنبیل ہی
ٰ
ہے۔ مبادا یہ دانستہ اس لۓ الف سے لکھا ہے کہ کسی کا دھیان حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نہ جاۓ۔ )اعجاز عبید(
مزید :غالب نے یہاں "امر" ہی لکھا ہے ،یعنی متحرک میم کے ساتھ۔ جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ یہاں "عمرو" ہی لکھنا مناسب ہے،
انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ "عمرو" میں میم ساکن ہے۔ )حامد علی خان(
169
2۔
گۓ وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
کیا کرتے تھے تم تقریر ،ہم خاموش رہتے تھے
بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی ،جانے دو ،مل جاؤ
َ
قسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے
3۔
ہاۓ ہاۓ
ُ
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں !
ِا ک ِتیر میرے سینے میں مارا کہ ہاۓ ہاۓ
وہ سبزہ زار ہاۓ ُمطّرا کہ ،ہے غضب !
ُوہ نازنیں ُ ُبتاِن خود آرا کہ ہاۓ ہاۓ!
صبر آزما وہ ُان کی نگاہیں کہ حف نظر !
طاقت ُربا وہ ان کا اشارا کہ ہاۓ ہاۓ !
وہ میوہ ہاۓ تازۂ شیریں کہ ،واہ واہ
ب گوارا کہ ہاۓ ہاۓ ! وہ بادہ ہاۓ نا ِ
255
در مدح ڈلی
ف دست پہ یہ چکنی ڈلیہے جو صاحب کے ک ِ
ّ
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
ب عزیزاِن گرامی لکھیے ُ
مہِر مکتو ِ
حرِز بازوۓ شگرفاِن خود آرا کہیے
ت حسیناں لکھیےِمسی آلود سر انگش ِ
ف جگِر عاشِق شیدا کہیے داِغ طر ِ
ت سلیماں کے مشابہ لکھیے خاتِم دس ِ
سِر پستاِن پریزاد سے مانا کہیے
نسخۂ مہر میں عنوان " چکنی ڈلی" )ج۔م۔( 255
170
6۔
روزددہ
7۔
طائِر دل
259
اٹھا اک دن بگول سا جو کچھ میں جوِش وحشت میں
جیبیاباددسدددد ے
ں پدددھرا آدسدیم د ہ سر،گدددد ھبرادگدیدادتدددھا
260
مجدددددھے اکد طائِر مجروح َپر بستدہ نظر آیاد
ٹ پکتا تھا سِر شوریدہ دیواِر گلستاں سے
کدد ہادمیدددںندددےکددد ہ " او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ
تدجاددسددددے"
دددد ہے کدادمدد کدادتجدددھ کدو د کدسدد ستدم د گدر د آدفد ِ ں پدداددڑ
ہ نسا کچھہ کھ لکھ ل کر پہلے ،پھر مجھ کو جو ہ
پچانا
پلکودددکددددد ےدامادددںسدددد ے
ں ۓخوددںب دہی تو یدہ رویاکد ہ
ددجوددد ُ
کہا " ،میں صید ہوں اس کا کہ جس کے داِم گیسو میں
غرضوادددںسدددد ے کدرتددددد ے یدہددں طائر روز آ د کدرد با ِ پدددھنسا
یاندددد ہے شادم د و سحرمجدددھ کدو د اسید کدیدد زلف و ُرخ کداددددد ھ
اورددددہ ہےکچدددد ھ کدادمددایمادددںسددددے"ددددددد ے ہے ند نہ مطلب ُسد
کدفرد
بدہ چشدِم د غور جودیدکددد ھاِ ،مرا د ہید طائِر دلدتدددھا
کددد ہ جلکدرددد ہو گدیدادیودددں خاک میری آددددِہسوزاددد ںسدددد ے
8۔
خط منظومد بنامد علئی
261
کددددد ے
تودددد ہےآندددد ے کدیدد برسات
خوشید
چند نسخوں میں یہ شعر یوں درج ہے :اٹھا اک دن بگولہ سا جو تھا کچھ جوِش وحشت میں )اعجاز عبید( 259
نسخۂ مہر میں " تشنہ " لفظ آیا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے۔)جویریہ مسعود( 260
نسخۂ مہر میں مصرعہ یوں ہے :خوشی یہ آنے کی برسات کے )ج۔م( 261
172
9۔
قطعہ تاریخ
10۔
قطعہ تاریخ
11۔
قطعہ تاریخ
1270ہجری 263
173
12۔
265
بل عنوان
ددلزدمدددددد ہے میرا نامد نہلدددے
سید ہ گدلدیدمددددوہد ں
طالبدددد ہے جدہاددںمیدددں جو کدوئدید فتح و ظفر کداد
ہ وا نہ غلبہ میسر کبھ ی کسی پہ مجھے
غالبدددد ہے
کددد ہ جوشریکد ہو میرا ،شری ِ ک ؔ
13۔
سددہلتددددھاُمس دہلولدددے یدہ سخت ُمشدکلدآپددد ڑید
بندوئدددے
مجدددھ پدہ کدیاُدگدزردددد ے گدیدد ،اتندددے روز حاضرِ ہ
کددددد ے بعد
دنمس دہل
َ لدددے ،تین
تین دنمس دہلسدددد ے پ دہ
َ
تین ُمسہل ،تین تبریدیں ،یہ سب کے ِدن ہوئے؟
14۔
266گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
درباردار لوگ بہم آشنا نہیں
وئدددے سلدم د
ددکدرتددددد ے ہ
اتدددھددددرتھدددددے یدہ ں
کدانوددد ںپددہ ہ
1277 264ہجری
ؔ
ک غالب )جویریہ مسعود(
نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ شری ِ
265
نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ درباری )جویریہ مسعود( 266
174
267
اس سے ُمراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں
15۔
ایک اہِل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
268
یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صداۓ عندلیب؟
بال و پر دود چارددکدددد ھلد کدرددکدد ہاد صّیادندددے
نشانیرددگدئدیدددددد ہے اببجادددۓ عندلیب
ہ یدہ
16۔
ادددد ے جدہاددںآدفریددد ںخدادددد ۓ کدریدمدد
ضائِعد ہفت چرخ،د ہفت اقلیدمدد
کدادددددد ہے مش دہور
نامدمیکلوددد ڈ جن
یددہ ہمیشد ہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
ب پہ مہربان رہیں اور غال ؔ
17۔
گدانویدددکدیدددددد ہے جتنی رعّیت،ودددہ یک قلدم د
ں گوڑ
کددددد ے نامد کدیدد
عاشقدددد ہےاپندددے حاکدِمدد عادل
نذردددد ہے
سود یدہ نظر فروز قلمدان
ب عالی مقام کی مسدٹر کدودوداند صاح ِ
رباعیات
1۔
عَرق ِفشا ں کا غم تھا خَ
شبد ُزلف و ُر ِ
طرفدہ َتر عاَلمدتدددھا
کدیاد شرحکدرودددد ںکددد ہ ُ
صبح تلک رویامیددددں ہزارآنکدددھسدددے ُ
ہر قطرۂ اشک دیدۂ ُپرَنم تھا
2۔
ودگدیاددددد ہے گدودیاد
دلد سختنژند د ہ
ودگدیاددددد ہے گدودیاد
ُاسدسدددد ے ِگدلدد ہ مند د ہ
َپر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
ودگدیاددددد ہے گدودیاد
غالب منہ بند د ہؔ
ِِِ
3۔
دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے غالبؔ
ؔ 269
دل ُرک ُرک کر بند ہوگیا ہے غالب
واللدکددد ہ شبد کدو د نیند آتدیددد ہید نہیں
ہ
سونا َسوگند ہوگیا ہے غالبؔ
4۔
آتشبازی ہے جیسے شغِل اطفال
ہے سوِزجگر کا بھی اسی طور کا حال
تدددھا ُموجِد عشقبدددھی قیامت کدوئدید
لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال !
5۔
بعد از ِاتماِم بزِم عیِد اطفال
اّیادم د جوانیرددددہے ساغردَکدشد حال
نچہدددددے یدہدد ں تا سوا ِدد اقلیدمدد عددم د
آپدد
مزید ً :اس رباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے۔ یہ بہ ظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا
جو غالبا غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد مختلف حضرات اس مصرع پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انہوں نے "رک رک کر" کے
بجاۓ صرف "رک کر" رکھ کر اس کی اصلح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ س اصلح سے رباعی کی جان
بھی نکالی گئی ہے۔ "دل رک کر بند ہوگیا" تو ایسا ہی مہمل ہے جیسا "دل رک کر رک گیا "یا "دل بند کر بند ہوگیا"۔ غالب
ت قلبطرف ایک بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخِر کار حرک ِ
نے " ًدل رک رک کر" کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی ً
کامل بند ہو جانے کی تمہید بنا تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعا بے کیف رہ جاتا ہے۔ عروض خواہ کچھ کہے "رک کر"
کو "رک رک کر" کی جگہ نہیں دی جاسکتی۔ )حامد علی خان(
176
ُ ُ
اے عمِر گذشتہ یک قدم استقبال
6۔
مشکل ہے زبس کلم میرا اے دل
ُسن ُسن کے اسے سخنوراِن کامل
کدرتددددد ے یدہددں فرمائش
ندددد ے کدیدد
آدسادددد ںکدد ہ
گویم مشکل و گر نگویم مشکل
7۔
ت ذوالجللی باہ م ہیں شہ میں صفا ِ
آثاِر جللی و جمالیبا د ہمد
ہوں شاد نہ کیوںہ سافل و عالی باہ م
ب قدر و ِدوالی باہ م ہے اب کےہ ش ِ
8۔
تددددد ے یدہدد ںکددد ہ ابودددہ َمر ُُددم د آزار نہیں
کدد ہ
ُ ُ ّ
عشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں
جوداتدددھکددد ہ ظلمد ُسدددد ےاددددٹھایاد ہودگاد
ہ
کیونکر مانوں کہ اس میں تلوار نہیں !
9۔
ساماِن خور و خواب کہاں سے لؤں ؟
آرام کے اسباب کہاں سے لؤں ؟
ؔ
دغالب ! لیکن روزددہ ِمرِاایمانددد ہے
َ
خسخانہ و برفاب کہاں سے لؤں ؟
10۔
دلتددددھا ،کددد ہ جو جاِن درِد تمہ ید س ہ ی
ت دید س ہ ی رشک و حسر ِ بیتابئ
ُ ُ
ہم اور فسردن اے تجلی افسوس
تکرار روان دیہدددں تو تجدیدسدد ہید
11۔
َ
ددندددکددددد ےلئدددے
ِِخلِق حسد قماشلد ڑ ے
وحشت کدۂ تلش لڑنے ک ے لئے
270
ت کداغ ِذد باد صور ِیعنیدد ہر بار ُ
نسخۂ طبابطائی میں یہ مصرع یوں درج ہے" :یعنی ہر بار کاغِذ باد کی طرح" متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ ۔ )حامد علی خان( 270
177
ددندددکددددد ےلئدددے
ملتددددے یدہدد ں یدہ بدمعاشلد ڑ ے
12۔
َ
بھیجی ُہے جو مجھ کو شاِہ جِم جاہ نے دال
ہے لطف و عنایات ِ شہنشاِہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و ِجدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
13۔
کدرددددد ے
حقشد ہ کدیدد بقاسدددد ے خلق کدو د شادد
ع دانشد و داددکدرددددد ے
تاشاددد ہ شیو ِ
ددگدانددددد ٹھ
گدئدیدددددد ہے رشت دۂ عمرمید ں
یدہ جو دید
ش اعداد کر ے صفر ک ہ افزائ ِ ِِ ِ
14۔
ددلدکددددد ھ تاردوہدددں ،بلک د ہ ِ
سواد ِاسدرشتدددےمید ں
سواد شمارددوہدددں ،بلک د ہ ِ ِاتندددددے ہید برس ُ
سیدکددددددد ڑے کو ایک گرہ فرض کریں ِر
سواد دددد ں ہزارددوہدددں ،بلک د ہ ِ ایسیدگدردد ہ
ید
15۔
ہ م گر چہ بنے سلم کرنے والے
کدرتددددد ے یدہددں ِدرنگ ،کدادمددکدرندددد ےوالدددے
تددددد ے یدہدد ںکدیددہددد ں خداسدددد ے ،اللدہ اللدہ!
کدد ہ
صبح و شادمدکدرندددد ےوالددددے ! ُودددہ آپدددیدہدد ں ُ
16۔
کددددد ےِبیجودددں کدو د کدوئدید کدیادجاندددے ِان سیدمدد
یجددددے یدہدد ں جوَارُمغادددں شدہ ِوالندددے ب ددھ
سود بار ِگدند کدردددیوی ددگدںدددددد ے ہم دُدعائیدددں َ
کددددد ے ،د یدہددں یدہداندددد ے
فیروزددددے کدیدد تسبیح
17۔
رقعدددد ے کداد جوابکدیدودددد ں ہنبدددھیجا تدمدندددے
ثاقب! حرکتد یدہ کدیدد ہے بے جا تم نے
کددددد ےبدددے وجہ جواب حاجی کدّلدود کدودددددد ے
دیاددددد ہے کدلدیجا تدمدندددے غالب کداد پکاد ؔ
ِِِ
178
18۔
اے روشنئ دیدہ شہاب الدیں خاں
کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے َرَمضاں؟
ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک
ُسنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں
19۔
ادددد ے منشئدخیرددہ سر سخن سازن دہ ہو
ل بازن دہ ہو
عصفوردددد ہے تو مقاب ِ
کددددد ےساتدددھ آدوازد تیری نکلید اور آدوازد
لددددٹھیدودددہ لگدیدکددد ہ جسمیدددں آودازدن دہ ہو
20۔
کدودددددد ہےمجدددھسدددد ے عداوتگددد ہریدجنلودگدودددد ں
مجدددددھےودددہ رافضید ود دہری تددددد ے یدہدد ں
کدد ہ
دہری کیونکر ہو جو کہ ہووے صوفی؟
شیعیدکدیدوندکردد ہوماوراءالن دہری
متفرقات
ضمیمۂہ اول
1
نگددددد ہےکچدددد ھ نالدۂ بلبل ورندہ آدفدتدآدد ہ
کددددد ےگدلدستاددد ںمیدددں فنا د ہوجاتا پدددھول د ہنس د ہنس
کدادشد ناقدرن دہ ہوتا ترا انداِزد خرادمد
نفنا د ہوجاتامیدددں غباِر سِر داما ِ
ستیددددد ہے اکدآئیندد ۂ غمد تد ہ
یکشبد ہ فرص ِ
گ گدل د کدادش !گدلدستاددد ں کدیدد دہَدوادد ہوجاتا رن ِ
مستقلد مردک ِزد غمدپددہ ہیدن دیہدتددںدددددھے ورندہ
ن فدندا ہ دوجداتددا ہ دم کو انددازۂ آئدی ِ
تدقدرتددددد ہے مرا خشت بدہ دیواِرد فنا دس ِ
گدر د فنابدددھی نہمیددددں ہوتا توفنا د ہوجاتا
دوچدددھ ب حقیقتدمتد ہ حیرت اندوزئ اربا ِ
جلوددہ اکد روز تو آئیند ہ نماد ہوجاتا
2
بدتر از ویرانہ ہے فصِل خزاں میں صحِن باغ
خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ
آلودددددددد ہ ہے
پّتا پّتا اب چمن کداد انقلب
نغمۂ مرِغ چمن زا ہے صداۓ بوم و زاغ
ب مرگ آسودگی ممکن نہیں ہاں بغیر از خوا ِ
ت ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیاۓ فراغ رخ ِ
بلدددد ہےخندددۂبدددے اختیار
شوِر طوفا ِ
ن
کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ للے کا داغ
چشِم ُپر نم رہ ،زمانہ منقِلب ہے اے اسؔد
اب یہی ہے بس مے شادی سے ُپر ہونا ایاغ
3
خزینہ داِردمحبتد ہوئددواہدددد ۓ چمن
180
4
کرم ہی کچھ سبِب لطف و التفات نہیں
انہیں ہنساکے رلنا بھی کوئ بات نہیں
ادددد ۓ گدیدد عمِر کدمددد مایدہ
اددد ںسدددد ےلدکددددد ےددکدددد ھ
کدد ہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں
زبان حمد کی خوگر ہوئ تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں
خوشی ،خوشی کو نہ کہہ ،غم کو غم نہ جان اسدؔ
قرار داخِل اجزاۓ کائنات نہیں
5
ُ جوں شمع ہم اک سوختہ ساماِن وفا ہیں
اور اس کے سواکچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں
دددستیدددددد ہے ہماری
اکد سرحِد معدودمدمید ں ہ
ساِز دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں
پدددددہ ہے واجب
پددوددددں ہم،دسجدددد ہ اسید رخ
جس رخ ہ ہ
گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں
مت ہوجیو اے سیِل فنا ان سے مقابل
جانباِز الم نقش بہ داماِن بقا ہیں
پائدددد ہے جگد ہ ناصیدۂ باِد صبا پر
خاکستر پروانۂ جانباِز فنا ہیں
181
6
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
یہ بھی اے چرِخ ستمگار! کروں یا نہ کروں
مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جاۓ کہیں
ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں
ددکدرودددد ں غیر کدو دبدددھیمیدددں بدنادمد
لطفجبد ہوکد ہ
کہیۓ کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں
7
وضِع نیرنگئد آدفاقدندددےمارادد ہمد کدو د
جور گوارا ہ م کو ہ وگۓہ سب ستم و َ
ت وحشت میں نہ پایا کسی صورت سے سراغ دش ِ
نجنوددں تکندددےپکارادد ہمد کدو د گدردِد د جول ِ
گ عروج ل صد رن ِ عجزد ہید اصلمیدددںتدددھا حام ِ
ق پستدئد مصیبتندددےابدددھارادد ہمد کدو د ذو ِ
مشغولددددد ہے بیکار بدہ سعئد بیجا ضعف
شجنوددں اب تواشارددددہ ہمد کدو د کدرچدکاد جو ِ
ن اّمیدد صداددددددں ہے افسو ِصوِر محشر کدیدد مید
ش زیستدد ہوئ آجددوبارادد ہمد کدو د خوا دہ ِ
تختۂ گور سفینے کے مماثل ہے اسدؔ
آتاددددد ہےکدناراددد ہم د کدو د
بحِر غمد کداد نظر
8
نبدددے پروا گدردفتاِر خود آرائدن دہ ہو حس ِ
گدردکدمدیدددد ں گداددددِہ نظرمیدددں دلد تماشائن دہ ہو
ہیچ ہے تاثیِر عالم گیرئ ناز و ادا
ق عاشق گدر د اسیِرددادِمدد گدیدرائدنددہ ہو ذو ِ
شمعددددد ہے
خود گدددادِزد شمع آغاِز فرو ِ
غ
182
9
کددددد ےساتدددھ
ہنپوچدددھ حال اسد اندازد اسد عتاب
کددددد ےساتدددھ
لبودددں پدہ جانبدددھیآجادددد ۓ گدیدد جواب
سددددد ے ہو نہ مایوسید مجدددددھےبدددھیتادکدد ہ تمّنا
کددددد ےساتدددھ
ملو رقیبسدددد ے لیکن ذراد حجاب
دودددد ہ
بدددددد ے ہ
ندددد ہ ہوبدددد ہ ہدرزددد ہ رواداِرد سدعدددئ د
کددددد ےساتدددھ
کددد ہ دوِرعیشددددد ہے مانا خیال و خواب
ثمسدّرتددددد ہے بدددد ہ ہر ندمدطدغددِم د دلد باعد ِ
کددددد ےساتدددھدلددددد ہے تردددے شباب نمودددۓ حیر ِ
ت
لددگاؤد اسدکدادددددہددد ے بداعدثدقددددیادِمدد مسدتید کداد
ہَِوا کو لگ بھ ی ہے کچھہ مگر حباب کےہ ساتھ
بہہزار حہیف کہہ اتنہا نہہیں کہوئ غال ؔ
کددددد ےساتدددھ
دددآدکدددددد ے خواب
ملدددد ےود ے ددجاگندددد ے کدو د د کد ہ
10
سمجددددددھے اردددے عارض و کدادُکدل د کدو د کدیاد بتائیددددں ہمددتمدہ
سمجددددددھے اوراسدددد ے من سانپ کداد سمجددددددھے ُ ِاسددددد ے ہم د سانپ
یہ کیا تشبیِہ بے ہودہ ہے ،کیوں موذی سے نسبت دیں
ل ہما سمجھے ُماعارض کو ،اور کاکل کو ہ م ظ ّ ہِ
طائردددد ہے تشبید ،یدہ تو ایک
ہ غلطد ہیدد ہودگدئ د
سمجددددددھے گ سمن اور ُاسد کدو د سنبل کدو د جدٹا اسدددد ے بر ِ
ددسدددد ے کدیاد ان کدو د نسبت؟د معاذاللدہ تزمید ں نباتا ِ
سمجددددددھے کدیددددددد ھٹاد
اسددددد ے ہمد کدالدید ساون گ اسدددد ے برق ُ
اور
گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹاکر ان کو نسبت دیں
سمجددددددھے بد بقااسددددد ے ہم د چشمدۂ آ ِ
ظلمات،
ُ اسدددد ے
یدددد ے ہید ،فقطد مقصودتدددھا خضر و سدکندردسدددد ے جوکددد ہ
سمجددددددھے موسید کداد عصا یِدد بیضااسدددد ے اور ُاسد کدود د ٰ
جو اسدتشبید ہسدددد ےبدددھی داغ ُان کدوددآتادد ہو
سمجددددددھے تد نماِز صبح اور ُاسد کدو د عشاء اسدددد ے وق ِ
183
11
نسیدِم د صبح جبکدنعاددد ںمیدددںبودددۓ پیَردہن لئ
پئدددے یعقوبدساتدددھاپندددے نویِد جان و تن لئ
وقاِر مات ِمد شبدزنددددہ داِر د ہجرردکددد ھناتدددھا
حغمد کدیدد دوشد پرردکددددد ھ کدرد کدفند لئ سپیدید صب ِ
ددمنصوردددد ہے انداِزد رسوائد شدد ہی ِددشیود ۂ
مصیبت پیشدگدئ د مّدعا دارد و رسن لئ
وفا دامن کش پیرایہ و ہستی ہے اے غالبؔ
ِ
کددد ہپدددھرنزدہت گددد ہِ غربتسدددد ے تا حّد وطن لئ
12
آئددددد ہے
وفا جفا کدیدد طلبگداردد ہوتید
آئددددد ہے
ازلکددددد ے دنسدددد ے یادہدددد ے یارد ہوتید
جاناددددددں ہے ب جن ٓ ِ
ت بز ِمد نشا ِ
ط جوا ِ
آئددددد ہے
مرینگاددد ہ جوخونبارد ہوتید
شجنوددں وحشیو! مبارک باد نمودددۓ جو ِ
آئددددد ہےبدہدارد ہدی د ۂ انظارد ہوتید
دل و دماِغ وفا پیشگاں کی خیر نہیں
آئددددد ہے
جگرسدددد ے آددددِہ شرربارد ہوتید
13
ددگددددد ے
شد وحشتکدددد ےجودساماددددں وہد ں یون دہید افزائ ِ
ددگددددد ے
لدگدریبادددد ں وہد ںکددددد ے سبد زخمدبدددھیدد ہم د شدک ِ دلد
عاشقدددد ہے تغافل ان کداد وج ہ ِمایوسئد
ددگددددد ے
ہنکدبدددد ھید قتلکدریدددد ںگدددد ے،د نہپشیماددددں وہد ں
سلمتددددد ہے توصدمودددں کدیدد کدمدیددکدیاددد ہم د کدو د دلد
ددگددددد ے
کددددد ے خواادہدددں وہد ں
بدددے شک انسدددد ے توب دہت جان
دددیدددگددددد ے یعنید
کددددد ےبدددھی دلد جمعردکد ھ ں منتشر د ہو
ہ م بھ ی اب پیروۓ گیسو ۓ پریشاں ہوں گےہ
ش د بختندددے مایوسکدیاددددد ہے لیکن گدرددد ِ
ددگددددد ے
اببدددھی د ہرگدودشددد ۂ دلدمیدددں کدئددارماددددں وہد ں
ہے ابھی خوں سے فقط گرمئ ہنگامۂ اشک
184
ددگددددد ے
حالتدددد ہے تونالدددے شررافشادددد ں وہد ں پر یدہ
فر،دددددددد ہے ہے بانددددھ کدرددع دہِد وفاتن ّاتنا
ددگددددد ے
گدریزاددددں! وہد ں تجدددھسدددد ےبدددے م دہر کدمدادددددد ے عمِر
لدسوزاددد ں کدو د نہ جانافسردددد ہ اسد قدردبدددھی د ِ
ددگددددد ے
شمعفروزادددد ں وہد ں
! تودددد ے
ابدددھیدکچدددد ھ داغ ا
ع دہدمیدددںتیردددےکداددہددد ں گدرمئددد ہنگام د ۂ عیش
ددگددددد ے
گدل د میری قسمت واژوندہ پدہخنداددددں وہد ں
خودگ ِرد عیشنیدہدددں یدہدد ںتردددے بردگدشت د ہ نصیب
ددگددددد ے
آدساددددد ں وہد ں
ُان کدودددشوارددیدہددںودددہ کدادمدد جو
موت پھر زیست نہ ہوجاۓ یہ ڈر ہے غالبؔ
ددگددددد ے
ودددہ مری نعش پدہ انگدشتد بدہدندادددد ں وہد ں
14
نمائشپردددد ہ داِرد طرز بیدا ِددتغافلددددد ہے
گدلدددددد ہے کددددد ےلئدددے خندید ِ
ن نبلبل
تسّلید جا ِ
ظبدددے معنی نموِد عاَل ِمد اسبابکدیاددددد ہے؟ لف ِ
یّملدددد ہےکدددد ہ ہستید کدیدد طرحمجدددھ کدو د عددمددمیدددںبدددھ تا
نہردکددددد ھ پابنِد استغنا کدو د قیدیدرسدِم د عالمد کداد
تودّکدلددددد ہے تد دعابدددھی رخنہ انداِزد ترا دس ِ
ددودددڑا قیددمیدددںبدددھیوحشیوددد ں کدو د یاِد گدلدشندندددے ہنچد ھ
بخندددگدلدددددد ہے
کپیردہن گدودیاد جوا ِ ۂ یدہ چا ِ
سدددد ےکددددسدکتددددد ے یدہدد ں ناصح
ابدددھید دیواندگدی د کداد راز ہہ
ل گدل د ُوملدددد ہے دغالبابددد ھید فص ِ
ؔ ابددد ھیدکچدددد ھوقتدددد ہے
15
کددددد ے روح کدو د آزادددکدیجئدددد ے خودجادددںدددد ے
لدکدیجئدددد ے
ل خاطِرج ّ تادکدددد ے خیا ِ
ولددددےودہدددۓ جوغمددیدہدد ں ان دیدہدد ں یادکدیجئدددد ے بدددھ
تبجاکدددد ے انسدددد ےشدکوددد ۂبدددے داددکدیجئدددد ے
ت فغاں حالنکہ اب زباں میں نہیں طاق ِ
تادددد ہےکددد ہ فریاددکدیجئدددد ے پر دلد یدہ چادہ
شنگاددد ہ
دلودددکددددد ےواسطدددد ے اکد جنب ِ بسددددد ہے ں
دددروددد ں کدو دپدددھر آباددکدیجئدددد ے اجدددددددڑےودہدددۓگد ھ
کچھ دردمند منتظِر انقلب ہیں
جوشادددوچکدددد ے ان دیدہدد ں ناشاددکدیجئدددد ے
ہ
افشادددد ۓ راز د ہو شایددکددد ہ یاس باع ِ
ث
لبدددے داددکدیجئدددد ے لطف و کدردمددبدددھی شام ِ
185
16
ن جہاں پہلو تہ ی کرتےہ رہے ہ م سے خوبا ِ
ق از خود رفتگی کرتےہ رہے ہ م ہ میشہ مش ِ
ل ما سواد کدیددودد ہم دتدددھید کدثرتد آرائد خیا ِ
ن زنددگدیدکدرتدددد ےرددددہے مرگ پر غافل گدما ِ
دددددھے غخاندۂ تد
تاریک ادددۓ دلد چرا ِ داغ دہ
رددددہے ک قبر پیداد روشنیدکدرتدددد ے تا مغا ِ
ندد ہستی ،ہنپوچدددھ گب دہ اِرگدلدش ِ
شوِر نیرن ِ
ن ناخوشی کرتےہ رہے ہ م خوشی اکثر رہی ِ
رخصت اے تمکیِن آزاِر فراِق ہمرہاں
ہ وسکا جب تک غِم واماندگی کرتےہ رہے
17
درددد ہو دلدمیدددں تو دوادکدیجدددد ے
دلدد ہید جبدرددد ہو تو کدیادکدیجدددد ے
ہ م کو فریاد کرنی آتی ہے
آپدسنتددددے ن دیہدددں تو کدیادکدیجدددد ے
انبتودددں کدو د خداسدددد ے کدیاد مطلب
توبدہ توبدہ خدا خداکدیجدددد ے
اندددےسدددد ےبدددھی خوشیدد ہودگدی د اددددٹھرنج
لدددے دلد دردد آدشنادکدیجدددد ے پ دہ
عالمددددد ہے ضشوخید نشا ِ
ط عر ِ
حسن کدو د اور خود نماکدیجدددد ے
دشمنیدد ہو چکید بدہ قدِرد وفا
ق دوستید ادادکدیجدددد ے اب ح ِ
موت آتی نہیں کہیں غالبؔ
کدب د تک افسوسد زیستد کدادکدیجدددد ے
18
بدددزبدانیددددد ہے
ل ےسدکوتد و خامشیداظ دہ اِر حدا ِ
ند درددمیدددںپوشدیدددد ہ راِزشدادمدانیددددد ہے کدمدیدد ِ
ل شیخسدددد ے انداِزد دلچسپید عیاددددں یدہدد ں حال و قا ِ
مگرد رند ِدد َقدد َدح کدش د کدادابددد ھدید دوِرجواندیددددد ہے
ت چند روزہ کارفرماۓ غم و حسہرت ثبا ِ
186
19
دلدادددددددد ہ ہے
ق شوخئد رفتار کداد کدسدد کدیدد بر ِ
آمادددددددد ہ ہے
ذّرددد ہذّرددد ہ اسدجدہاددں کداد اضطراب
ہے غدروِر سرکشی صورت نماۓعجز بھ ی
افتادددددددد ہ ہے
ش پا
ن نق ِمنقلب د ہو کدر د بسا ِ
ق جفاپیشد ہ ہنپوچدددھ خانویراددد ں سازئ عش ِ ہ
سادددددددد ہ ہے
ط تقدیر تکبدددھی نامرادوددد ں کداد خ ِ
لب دہارخود نشاط وسرخوشیددددد ہے آم ِدد فص ِ
جددددددہ ہے لدرواددد ں عالمدمیدددں مو
باددِ آجدد ہر سی ِ
زندگانی رہرو راہ فنا ہے اے اسدؔ
ِ ِ
ک عدم اک جادہ ہے ہر نفس ہ ستی سے تا مل ِ
20
یددددں ہم دتجدددھسدددد ے
اسد جور و جفا پربدددھی بدظنن دہ
تمّنادددد ہے امی ِدد کدردمددتجدددھسدددد ے کدیاد طرفدہ
تدددددددھے ہم د آخر اّمیدد نوازشمیدددںکدیدودددد ںجیتدددے
دددد ے ہیدن دیہدددں کدودئد جب دردد و الدم دتجدددھسدددد ے سددہ
تد
تدتصّرفدددد ہے دلددددد ہے یا دس ِ وارفتدگدئ د
ہیں اپنے تخّیل میں دن رات بہ م تجھ سے
ک وفا کدرناد یدد ہ جددددورد و جفددادسدد ہدددنادپدددھر تر ِ
ودددددۓ ہمدتجدددھسدددد ےاددددد ے ہرزددہپدژودد ہید بس عاجزد ہ
غالب کدیدد وفا کدیدشدیدد اور تیری ستددمدد رانید ؔ
ِِِ
یددددد ں ہمدتجدددھسدددد ے
مش دہوِرزماندددددہ ہے اب کدیادکددد ہ
187
ضمیمدددددۂ دوم
)انتخاب از نسخۂ حمیدیہ(
1
دعوِئ عشِق بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح
ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح
ق گدلرنگسدددد ے اورآئندد ۂ زانوسدددد ے سا ِ
جامہ زیبوں کے سدا ہیں تہہِہ داماں گل و صبح
سد یک دیدگرد وصلآئینددرخاددددں ہمد نف ِ
ۂ
ہیں دعا ہاۓ سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح
271
نچمنستادددںتجدددھسدددد ے
خانددددہ ہے صح ِ
آئند ہ
بسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیران گل و صبح
زندگانی نہیں بیش از نفِس چند اسؔد
ئ یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح غفلت آرام ِ
2
ندمیخانددہ ہم د تد بشکند بشک ِ بسکددد ہ یدہدد ں بدمس ِ
طپیمانددہ ہمد تددددے یدہددں خ ِ
مودددۓ شیش د ہ کدوددسمج ددھ
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
دددکدرتددددد ے یدہددں روشن شمِع ماتمدخانددہ ہمد برقسد ے
ددددددد ے ہے تاِر شعاع افشاددددں
بسکددد ہ ہر یکمودددۓ زلف س
تدشاندددہ ہم دتددددے یدہدد ں دس ِ پنجدۂ خورشیدد کدوددسمج ددھ
272
غمادہتاب نقشد بنِدخاکدددد ہے موج از فرو ِ
کدتادددکدرتددددد ے یدہددں تاویراندددہ ہمد
شد ں سیلدسدددد ے فر ِ
مشِق از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزاِر خیال
بسبزدددۂبیگانددد ہ ہمد آدشناد تعبیِر خوا ِ
فرِط بے خوابی سے ہیں شب ہاۓ ہجِر یار میں
ئدافساندددہ ہم د غ گدرمد ِن شمع دا ِ جوددں زبا ِ
ف یار میں جانتے ہیں جوشِش سوداۓ زل ِ
لبالیدددد ہ کدودمودددۓ سِردیوانددد ہ ہمد سنب ِ
اغیاردددد ہے غ محف ِ
ل بسکدد ہوددہ چشدم د و چرا ِ
271
یہاں متن میں " تجھ سے" کو کاٹ کر موٹے قلم سے شکستہ خط میں " یکسر" تحریر کیا ہے۔ )حاشیہ از پروفیسر حمید احمد
ب نسخۂ حمیدیہ( )جویریہ مسعود(
خان مرت ِ
272حاشیہ از نسخۂ حمیدیہ :اس مصرع پر " ل ل" لکھا ہے اور حاشیے موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجاۓ مصرِع ذیل تحریر
کیا ہے :ہے فروِغ ماہ سے ہر موج یک تصویِر خاک۔ )جویریہ مسعود(
188
3
سد گدلدسدددد ے گدلزا ِرد چمن صافدددد ہے ازبسدکدد ہ عک ِ
آئیندددددد ہ ہے خاِر چمن
نجودہ ِر جانشی ِ
ل گل میں معماِرچمن ہے نزاکت بس کہہ فص ِ
ت دیواِرد چمن ڈھددددد ہے خش ِ میدددددددں لی
ب گدل دقال ِ
یدددے
لدگدریددد ۂ عشاقدیدکددد ھادچادہ برشدگا ِ
274
کدددد ھلد گدئدی د ماننِد گدل د سود جاسدددد ے دیواِر چمن
تیری آرائشد کداد استقبالکدرتدیددددد ہے ب دہار
شد احضاِر چمن آئیندددددد ہ ہےیادددں نق ِ
جودہ ِر
بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست
ق دیواِر چمن ہے کلہ ِناِز گل بر طا ِ
ئ وارستدگدی د غلطدددد ہے دعو ِ تد گدلدسدددد ے الف ِ
ف آزددید گدردفتاِر چمن سروددددد ہے باوص ِ
لمسکیددد ں زلیخائیکدرددددد ے وقتددددد ہے گدر د بلب ِ
دجلوددفرمادددد ہے بدہ بازاِر چمن
ف گدلد ہ یوس ِ
وحشت افزا گریہ ہا موقوف فصل گل اسدؔ
ِ
ب سردکا ِرد چمن چشدِمددریاریزدددد ہے میزا ِ
4
ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
ب آئنہ سے تر نہیںدامِن تمثال آ ِ
275
ہوتے ہیں بے قدر در کنِج وطن صاحب دلں
ت گوہر نہیں عزلت آباِد صدف میں قیم ِ
نبزدِمد سرور ایذاددددد ہےبر د ہمد خورد ِ
باع ِ
ث
ت شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں لخت لخ ِ
273اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں " سوِز عشِق آتِش رخسار سے" بدل گیا ہے۔ حاشیے میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مقطع
لکھا ہے:
دائم الحبس اس میں ہے لکھوں تمنائیں اسؔد
)حواشی از پروفیسر حمید احمد خان( )جویریہ مسعود( جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
274یہ شعر مرتب کے بقول قلمی مخطوطے کے متن کے بجاۓ حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں درج ہے۔ )جویریہ مسعود(
275
مفتی انوار الحق کے مطابق یہ مصرع متن میں پہلے یوں تھا:
ہوتے ہیں بے قدر در گنِج وطن صاحب دلں
)جویریہ مسعود(
189
5
ہ م زباں آیا نظر فکِر سخن میں تو مجھے
ئآئیندد ۂ زانومجدددددھے مردمکدددد ہے طوط ِ
یاِد مژگاں بہ نشتر زاِر صحراۓ خیال
مجدددددھےیدددے ب دہ ِر تپش یک دستد صدپ دہلو چادہ
فنادددد ے انتظار
ق ا ک فرصت برسِر ذا ِ خا ِ
ہے غباِر شیشۂہ ساعت رِم آہ و مجھے
آخردددددد ہ ہے
ب عمربدددے مطلبن دیہدددں کد اضطرا ِ
مجدددددھے ط سِر زانو ت رب ِجستجودددۓ فرص ِ
ش دلدبدددھی تیِغ یارسدددد ے یدددے درما ِ
ن ری ِ چادہ
مجدددددھے مر د ہِمدزنگارددددد ہےودددہ وسم د ۂ ابرو
ت جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ کثر ِ
ؔ 276
خوبرویوں نے بنایا ہے اسد بد خو مجھے
6
کددددد ے
ددرودددں گدردد د یار
ط اشکپد ھ 277یودددں بعِد ضب ِ
کددددد ےپانیپیدددد ے کدسدو د پدہ کدوئدیدجیسدددد ے وار
ہے د ہمد
ددددددد ے ،
آئیند ہ
ئد ددسیاب پشتد گدرمد ِ
لدبدددے قرارکددددد ےکدیدددددد ےودہددددۓ یدہدد ں د ِ
حیرادددں
ع ہبدخوددں درطپیدددد ہ ہیں
278
بعد از ودا ِ
فددپادددۓ نگارکددددد ے
یدددد ں ہم د کد ِش قددمددد ہ
نق ِ
ت سیاہ روز ت بخ ِ ظاہر ہے ہم سے کلف ِ
کددددد ے مشقدددد ہے خ ّ
ط غبار گدودیادکددد ہ تختدۂ
گ گل حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رن ِ
اس مصرع میں " ہے اسد" کے لفظ کو کاٹ کر " غالب" لکھا گیا ہے۔ )حاشیہ از حمید احمد خان( 276
) اس غزل کے دو شعر اردو ویب کے نسخے میں 218نمبر کے غزل میں درج ہیں ۔ جویریہ مسعود( 277
کددددد ے
ند خاراشکددددد ہے مژدگا ِ ماننِد شبندم د
وداعددددد ہےشد گدلدکدشدودددددد ہبراددددۓ آغو ِ
کددددد ے
ادددد ے عندلیب چلکددد ہچلدددے دنب دہار
ہم مشق فکر وصل و غم ہجر سے اسدؔ
ِ ِ ِ
کددددد ے
لئقن دیہدددردںدددددہے یدہدد ں غ ِمد روزدگارد
7
اردددد ہے
279بسکدد ہ حیرتسدددد ے ز پاافتادددد ۂ زن دہ
بیماردددد ہے لل ِ
ب نانگدشتد تبخا ِ ناخ ِ
زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ
رخساردددد ہے ئد
ن صاف ِ ورندہ صد محشر بدہ ردہ ِ
در خیال آباِد سوداۓ سِر مژگاِن دوست
زارددددد ہے ف نشتر گجاددںجادددہ آدساد وق ِ صد ر ِ
جی جلے ذوِق فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہ م نہیں جلتے ،نفس ہر چند آتش بار ہے
ہے وہ ی بد مستی ہر ذّرہ کا خود عذر خواہ
آدسمادددسرشارددددد ہے
ں کددددد ےجلودددےسدددد ےزمیدددں تا
جس
دمیدددں کدد ہتادتدددھا اپنید زنددگدی د مجدددھسدددد ے متکدددد ہہ تود ہ
280
بدددزارددددد ہے
زنددگدیدسدددد ےبدددھی مرا جی اندنوددد ں ے
بسکددد ہ ویرانیدسدددد ے کدفدرد ودیدددد ںودہدددۓ زیر و زبر
گدردِدددصحرادددۓ حرمد تاکدوچددزۂّناردددد ہے
س آبرود ادددد ے سِرشوریدددد ہ ناِز عشق و پا ِ
دستارددددد ہے یک طرف سوداد و یک سود من ِ
ت
رطرفدردکدددتادھدددد ہے مگرد
وصلمیدددں دلد انتظا ِ ہ
لیددددردکارددددد ہے
کددددد ے ے فتندہ تاراجی تمنا
فوفالکدددھاتدددھا سودبدددھیمددددٹ گدیداد ایک جا حر ِ
بردارددددد ہے ظادہرا کداغذدتردددے خط کداد غلط
ئ دعٰوی اسدؔ خانماں ہا پائماِل شوخ ِ
ب در ودیوارددددد ہے سای د ۂ دیواردسدددد ے سیل ِ
8
نیم رنگی جلوہ ہے بزِم تجلی راِز دوست
دوِد شمع کشتہ تھا شاید خِط رخساِر دوست
چشم بنِد خلق جز تمثال خود بینی نہیں
)اس غزل کے 6شعر اردو ویب کے نسخے میں 174نمبر غزل میں درج ہیں ۔ جویریہ مسعود( 279
280
یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوۓ ہیں ) حاشیہ از پروفیسر حمید احمد
خان(
191
* اختتام *
192
کتابیات
دیواِن غالب۔ مکتبہ الفاظ علی گڑھ 1۔
دیوان غالب۔ نسخہ تاج کمپنی لہور 2۔
دیواِن غالب۔ نولکشور پریس لکھنؤ 3۔
نواۓ سروش از مولنا غلم رسول مہر)نسخۂ مہر( 4۔
ب از علمہ عبدالباری آسی ) نسخۂ آسی( شرح دیوان غال ؔ 5۔
ِؔ ِ
دیواِن غالب )فرہنگ کے ساتھ( 6۔
ب نسخۂ طاہر دیوان غال ؔ 7۔
ِ
دیوان غالب )نسخۂ حمیدیہ( 8۔
دیواِن غالب )بہ تصحیِح متن و ترتیب حامد علی خان( مطبوعہ 1969 9۔
10گِل رعنا ،نسخۂ شیرانی ،نسخۂ بھوپال بخِط غالب ،نسخۂ رضا سے
11۔ انتخاب نسخۂ بھوپال کی باز یافت۔ سید تصنیف حیدر ،ماہنامہ آج کل ،فروری
ؔ ۲۰۰۷ء )نسخۂ مبارک علی کے حوالے اسی سے ماخوذ ہیں(
12۔ دیواِن غالب )کامل( تاریخی ترتیب سے۔ کالی داس گپتا رضا
اوپر